سرزمین حکمت پر تین دن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سرزمین حکمت پر تین دن
قافلہ حق اپریل ،مئی ،جون 2010ء
5جنوری 2010ء کی سردرات علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ نے دھند کی دبیز چادر اوڑھ رکھی تھی۔ ہم لوگ سردی سے سمٹتے اورسکڑتے ہوئے دعاکررہے تھے کہ یااللہ! فلائٹ لیٹ نہ ہوجائے۔ دھند شدید تھی اور اکثر فلائٹس لیٹ ہورہی تھیں۔تھکن سے جسم چُور ہورہا تھا ، دوپہر کواسلام آباد میں اکابر علماء کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت کے بعد گاڑی پر لاہورکاطویل سفرکیاتھا۔ لاہور پہنچ کرحسب معمول ہمارے جنوں نے چین نہ لینے دیااورچنداہم معاملات کے سلسلے میں مصروفیت رہی۔ رات کے تین بجے ہم ائیرپورٹ پہنچے، قطرائیر ویز کی فلائٹ کا وقت 4:40پرتھا اورہمیں کم از کم ایک گھنٹہ لاؤنج میں گذارنا تھا۔ فرصت کو غنیمت جان کر ہمراہیوں سے تعارف کا سلسلہ شروع کیا۔
یمن پہنچ کر صنعا ائیرپورٹ سے نکلے تو سیدھے شیلٹن ہوٹل کا رخ کیا۔ کھانے سے فارغ ہوکر باقی دن کوئی خاص مصروفیت نہ رہی سوائے آرام کے! مغرب کے بعد پاکستان کے سفارت خانے کی بریفنگ میں شرکت کی اور بعد عشاء کے سفارت خانے کی طرف سے وفد کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے کے بعد ہوٹل کی راہ لی۔
6جنوری کو صنعاء چیمبر آف کامرس میں میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ میں شرکت کے بعد دوپہر کی صبح چائے پریمن کے وزیر تجارت سے ملاقات ان کے دفترمیں ہوئی۔ شام کوصنعاء کے تبلیغی مرکز میں حاضری ہوئی اور وہاں کے احباب سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔بحمداللہ تعالی جماعت کا کام بہت منظم اوراحسن انداز میں جاری وساری ہے اللہ تعالی حاسدین کے حسد اورفتنہ پردازوں کے فتنوں سے حفاظت فرمائیں۔
عشاءکےقریب صنعاء میں یمن کی سب سےخوبصورت مسجد، مسجدصالح جانا ہوا۔مسجدقدیم و جدید طرز تعمیر کا حسین امتزاج اورخوبصورتی کا ایک شاہکار ہے۔ اس مسجد کو جمہوریہ یمن کے صدر’’محمد صالح ‘‘کی خصوصی ہدایات ، توجہ اور نگرانی میں تعمیر کیاگیاہے۔ خطیب صاحب سے تعارف ہوااورکچھ دیر تک گفتگوچلتی رہی۔
7جنوری کو ہمارا یمن میں آخری دن تھا اس دن کو ہم نے سیروسیاحت کیلیے وقف کرنے کاسوچا ہواتھالہذا تمام ملاقاتوں اورمصروفیتوں کو ملتوی کرکے سب سے پہلے ’’مسجدعلی‘‘ کارخ کیا۔ بعد ازاں گائیڈ ہمیں اس تاریخی مقام پرلے گیاجوہرلحاظ سے عبرت آموز ہے۔ ’’غرقۃ القلیس‘‘ نامی جس جگہ پر ہم کھڑے تھے یہ وہی جگہ تھی جہاں تقریباًپندرہ صدیاں پیشترایک بدبخت نے کعبۃ اللہ کے مقابلے میں کنیسہ تعمیر کیاتھا۔
جی ہاں!یادش بخیر! اس بدبخت کودنیا ’’ابرہہ‘‘کے نام سے جانتی ہے۔اس نے یہ کنیسہ اس مقصد کے لیے تعمیر کروایا تھا کہ لوگ کعبہ کے بجائے یہاں آئیں اوراس کا طواف کریں۔ کعبۃ اللہ کوچھوڑ کرلوگ اس کاطواف تو کیاکرتے ! ایک غیرت مند عرب نے رات کوجاکراس میں جگہ جگہ اپنے پیٹ کی ’’بھڑاس‘‘ نکالی۔ اپنے فاضل مادے سے اس کو لیپ دیا اورصبح ہونے سے پہلے ابرہہ کی پہنچ سے دورنکل گیا۔ابرہہ نے طیش میں بیت اللہ کو(نعوذباللہ) منہدم کرنے کے ارادے سے ہاتھیوں کے ایک لشکرکے ہمراہ مکہ مکرمہ کارخ کیااس کے بعد جو ہوا وہ آپ جانتے ہیں۔
’’غرقۃالقلیس‘‘نامی اس جگہ پر اب عمارت مکمل ختم ہوچکی ہے اورایک کنواں ساہے جو قد آدم دیواروں میں گھری ہوئی اس عمارت کے تقریبا درمیان میں ہے۔ جگہ جگہ پر جنگلی گھاس اورخود رو پودے کثرت سے اُگے ہوئے تھے۔ ہر اعتبار سے مرقع عبرت اس جگہ کافی دیر کھڑے چشم تصورسے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے رہے۔
یمن کے لوگوں کی بودوباش خالص عربی معاشرے کی صحیح معنوں میں عکاس ہے۔ مذہبی وابستگی، علماء اوردینی شعائر کاحددرجہ احترام اوربے تکلفانہ صحرائی رویے ! مہمان نوازی اورخوش اخلاقی میں اپنی مثال آپ۔ جفا کشی اورسخت کوشی سے جی نہ چرانے والے غیرت مند اہل ایمان میں کوئی بات توہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:
اَلإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَّةٌ
مصنف ابن ابی شیبۃ، رقم الحدیث 33099
ایمان بھی یمن والوں کااچھاہے اورحکمت ودانائی بھی یمن کی بہتر ہے۔
تقریباً ہر یمنی کے پاس خنجر موجودہوتاہے جو انہوں نے پیٹ پر باندھے ہوئے پٹے میں اڑساہواہوتاہے اوریہ پٹہ کپڑوں کے اندر چھپاہوانہیں ہوتا بلکہ باہر کی طرف ہوتاہے۔ ہمیں تویمنی اورافغانی لوگوں میں بے حدمماثلت نظرآئی۔ مذہبی غیرت،رسوم ورواج، ثقافت، خورونوش غرض یہ کہ ہر شے کافی حد تک ایک جیسی ہے۔
یمن کے لوگ نسوار کی طرح کی ایک چیز استعمال کرتے ہیں اسے ’’قات‘‘ کہتے ہیں۔ نسوار تو کوٹی ہوئی ہوتی ہے اور اس میں تمباکو،راکھ،الائچی وغیرہ ڈالتے ہیں لیکن اہل یمن کی نسوار (اگرا سے نسوار کہنا درست ہو) ’’قات‘‘ میں ایسی کوئی ملاوٹ نہیں کی جاتی۔ ’’قات‘‘ ایک جھاڑی کانام ہے جس کی ٹہنیوں کی لمبائی 2سے 5 میٹرہوتی ہے۔ اس کے پتوں کوسکھاکر یمنی اپنے منہ میں رکھ کرچباتے رہتے ہیں۔’’قات‘‘کانباتاتی نام Catha Edulisہے۔اس کا اصلی وطن یمن اورحبشہ(ایتھوپیا)ہے۔ اگرچہ کچھ مؤرخین ترکستان اورکچھ افغانستان بھی قرار دیتے ہیں، تاہم زیادہ مشہور قول پہلا ہی ہے۔
یمن دیکھا یمن والے دیکھے، ایمان دیکھا ایمان والے دیکھے، سرزمین حکمت دیکھی، حاملان حکمت دیکھے، مگر یہاں سب لکھنے کایارا نہیں کہ صفحات محدود اوراور ہماری مصروفیات اس سے سوا!
والسلام
محمد الیاس گھمن