قرآن کی تلاوت اور ذکراللہ کی کثرت کرنا

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قرآن کی تلاوت اور ذکراللہ کی کثرت کرنا
اللہ تعالیٰ کےپاک کلام کی تلاوت اور اس کا مبارک ذکر ایسی عظیم الشان نعمتیں ہیں جس کا اجر زمین و آسمان میں عطا کیا جاتا ہے ۔حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری نصیحت یہ ارشاد فرمائی: عَلَيْكَ بِتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّهُ ذِكْرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ وَنُورٌ لَكَ فِي الْأَرْضِقرآن کی تلاوت اور اللہ کا ذکر خوب کیا کروکیونکہ ان کی وجہ سے آسمانوں میں تمہارا اچھا تذکرہ ہوگا اور زمین میں تمہیں نورِایمانی عطا کیا جائے گا۔
تلاوتِ قرآنِ کریم کے آداب:

1.

تلاوت کےلئے وضو مستحب جبکہ ہاتھ لگانے کےلئے وضو ضروری ہے۔

2.

قرآن مجید کی تعظیم کے خیا ل سے مسواک کرنا ۔

3.

پاک اور صاف جگہ پر بیٹھ کر تلاوت کرنا۔

4.

قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا ۔

5.

تلاوت کرنے سے پہلے تعوذ
)اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم (
پڑھنا۔

6.

تسمیہ )
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم(
پڑھنا ۔
سورۃ التوبۃ سے پہلے بسم اللہ کا مسئلہ:
سورۃ براءۃ(سورۃ توبہ) کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے پڑھتے آ رہے ہوں تب تو بسم اللہ پڑھے بغیر ہی سورۃ توبہ شروع کر دیں اور اگر اس سورۃ سے تلاوت شروع کرنی ہے تو عام معمول کے مطابق اعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھ کر شروع کریں اور اگر اس سورۃ کے درمیان تلاوت روک دی تھی آگے جب تلاوت شروع کرے تب بھی اعوذ باللہ کے بعد بسم اللہ پڑھ کر شروع کریں ۔

7.

ترتیل )ٹھہر ٹھہر کر (اور تجوید )حروف کی ادائیگی ( کے ساتھ پڑھنا۔

8.

قرآن مجید رو کر پڑھنا ، اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کیفیت بنالینا ۔

9.

تلاوت کرتے ہوئے معانی پر غور کرنا۔

10.

آیات کو بار بار پڑھنا ۔

11.

دوران تلاوت کسی سے بات نہ کرنا۔

12.

یہ تصور کرنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطِب ہیں۔

13.

قرآن پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی دعا مانگنا۔
قرآن کریم کے حقوق:
عَنْ عُبَيْدَةَ الْمُلَيْكِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ لَا تَوَسَّدُوْا الْقُرْآنَ وَاتْلُوهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَفْشُوهُ وَتَغَنَّوْهُ وَتَدَبَّرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَلَا تَعْجَلُوْا تِلَاوَتَهُ فَإِنَّ لَهُ ثَوَابًا۔
شعب الایمان للبیہقی ، الرقم: 1852
ترجمہ: صحابی رسول حضرت عبیدہ مُلیکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قرآن کو ماننے والو!قرآن پر سہارا کر کے بیٹھ نہ جاؤ )کہ ہمارے پاس قرآن ہے اور ہم قرآن والے ہیں ( بلکہ دن رات اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ۔ اس کو پھیلاؤ ۔ اس کو مزے لے لے کر پڑھو ۔ اس میں غور و فکر کرو کامیابی کے لیے پُرامید رہو ۔اوراس کی تلاوت میں جلدی نہ مچاؤاس کا عظیم ثواب ملنے والا ہے ۔
قرآن دل کا زنگ اتارتا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ إِذَا أَصَابَهُ الْمَاءُ۔ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا جِلَاؤُهَا؟ قَالَ:كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ۔
شعب الایمان للبیہقی،الرقم : 1859
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دلوں پر اس طرح زنگ چڑھ جاتا ہے جس طرح پانی لگنے کی وجہ سے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے ۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! یہ زنگ کیسے اترتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موت کو زیادہ یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے ۔
فرشتوں کی مبارکباد:
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طٰهٰ وَيس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ فَلَمَّا سَمِعْتِ الْمَلاَئِكَةُ الْقُرْآنَ قَالَتْ : طُوبٰى لأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا وَطُوبٰى لأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا وَطُوبٰى لأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا.
سنن الدارمی ، باب فی فضل سورۃ طہ و یس ، الرقم: 3477
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے ایک ہزار سال پہلے سورۃ طہ اور سورۃ یس کی تلاوت فرمائی۔ فرشتوں نے قرآن کو سنا تو کہنے لگے : خوش قسمت ہے وہ امت جن کو یہ قرآن عطا کیا جائے گا ۔ خوش قسمت ہیں وہ سینے جو اس کو محفوظ رکھیں گے )یعنی حفظ کریں گے (اور خوش قسمت ہیں وہ زبانیں جو اس کی تلاوت کریں گی۔
بہترین مسلمان:
عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهٗ.
صحیح البخاری، باب خيركم من تعلم القرآن وعلمہ، الرقم: 5027
ترجمہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم میں زیادہ بہتر شخص وہ ہے جو خودقرآن کریم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
حامل قرآن کی تعریف:
وَقَالَ أَبُو عُمَرَ رَحِمَہُ اللہُ وَحَمَلَةُ الْقُرْآنِ هُمُ الْعَالِمُونَ بِأَحْكَامِهِ وَحَلَالِهِ وَحَرَامِهِ وَالْعَامِلُونَ بِمَا فِيهِ.
تفسیر القرطبی، باب ماجاء فی حامل القرآن ومن ھو
ترجمہ: ابو عمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حامل قرآن وہ ہیں جو قرآن کریم کے احکام ، قرآن کی حلال اور حرام کردہ چیزوں کا علم رکھنے والے اوراس پر عمل کرتے ہیں۔
حامل قرآن پر رشک :
عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ۔
صحیح البخاری ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجل آتاہ القرآن ، الرقم: 7529
ترجمہ: حضرت ا بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دو آدمی ہی قابل رشک ہیں ایک جسےاللہ نے قرآن کی نعمت عطا فرمائی وہ صبح و شام اس )کی تلاوت وغیرہ(میں مشغول رہتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال کی نعمت عطا فرمائی ہے وہ دن رات اسے راہ ِخدا میں خرچ کرتا رہتا ہے ۔
مشغول بالقرآن کی فضیلت :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِيْ وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ۔
جامع الترمذی ، الرقم: 2926
ترجمہ: حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ عز وجل ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص قرآن کریم میں اس قدر مشغول رہا کہ وہ میرا ذکر بھی نہ کرسکا اور مجھ سے دعائیں بھی نہ مانگ سکا تو ایسے شخص کو میں ذکر کرنے والوں اور دعائیں مانگنے والوں سے بھی زیادہ فضیلت عطا کروں گا۔
10=1نیکیاں:
عَنْ عَبْدِ الله ِبْنِ مَسْعُوْدٍرَضِىَ اللَّهُ عَنْه يَقُوْلُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَرَأ حَرْفاً مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ حَسَنَةٌ وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أمْثَالِهَا لاَ أقول: الٓـمّ حَرفٌ وَلكِنْ ألِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ۔
جامع الترمذی،باب ما جاء فيمن قرأ حرفا من القرآن، الرقم: 2910
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے بھی کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے ایک نیکی جو کہ دس نیکیوں کے برابر ہے ملےگی، میں یہ نہیں کہتا کہ ”الم“ ایک ہی حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام الگ حرف ہے اور میم علیٰحدہ حرف۔
حاملین قرآن کے پانچ انعامات:
رَوَى أَنَسٌ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلْقُرْآنُ أَفْضَلُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ فَمَنْ وَقَّرَ الْقُرْآنَ فَقَدْ وَقَّرَ اللَّهَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنِ اِسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللَّهِ تَعَالٰى حَمَلَةُ الْقُرْآنِ هُمُ الْمَحْفُوْفُوْنَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ الْمُعَظِّمُوْنَ كَلَامَ اللهِ اَلْمُلْبِسُوْنَ نُوْرَ اللهِ فَمَنْ وَالَهُمْ فَقَدْ وَالَى اللَّهَ وَمَنْ عَادَاهُمْ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللهِ تَعَالىٰ۔
تفسیر القرطبی، باب ماجاء فی حامل القرآن ومن ھو وفی من عاداہ
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کریم ہر ایک سے زیادہ فضیلت والا ہے جس نے قرآن کریم کی تعظیم کی تو در حقیقت اس نے اللہ کی تعظیم کی )کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے)اور جس نے قرآن کریم کی بے قدری کی درحقیقت اس نے اللہ تعالیٰ کے حق کی بے قدری کی ۔ حاملین قرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت میں ہر طرف سے لپٹے ہوئے ہیں ۔ کلام اللہ کی عظمت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سےملنے والے نورِہدایت میں ملبوس ہیں۔ جنہوں نے ان حاملین قرآن سے دوستی رکھی تو انہوں نے اللہ سےمحبت کا رشتہ جوڑ لیا اور جنہوں نے ان سے دشمنی رکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی۔
تکمیل قرآن قبولیتِ دعا کا وقت:
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ۔
المجم الکبیرللطبرانی، الرقم: 647
ترجمہ: حضرت عرباض رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کریم مکمل کرنے والے کی دعا کو قبول کیا جاتا ہے۔
ختمِ قرآن پر گھر والے اکٹھے ہوں:
عَنْ ثَابِتٍ رَحِمَہُ اللہُ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ كَانَ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ جَمَعَ أَهْلَهُ وَوَلَدَهُ فَدَعَا لَهُمْ۔
المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 674
ترجمہ: حضرت ثابت رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جب قرآن کریم کی تکمیل فرماتے تو اپنے گھروالوں کو جمع کرتےپھر ان کےلیے دعا فرماتے۔
چار ہزار ملائکہ کی آمین:
عَنْ حُمَيْدٍ الأَعْرَجِ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ ثُمَّ دَعَا أَمَّنَ عَلَى دُعَائِهِ أَرْبَعَةُ آلاَفِ مَلَكٍ.
سنن الدارمی، باب فی ختم القرآن، الرقم: 3545
ترجمہ: حضرت حُمید اعرج رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو شخص قرآن کریم )مکمل( پڑھے اس کے بعد دعاکرے تو اس کی دعا پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں۔
مالِ غنیمت کی تقسیم جیسا اجر :
عَنْ أَبِى قِلاَبَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ رَفَعَهُ قَالَ: مَنْ شَهِدَ الْقُرْآنَ حِينَ يُفْتَحُ فَكَأَنَّمَا شَهِدَ فَتْحاً فِى سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنْ شَهِدَ خَتْمَهُ حِينَ يُخْتَمُ فَكَأَنَّمَا شَهِدَ الْغَنَائِمَ تُقْسَمُ۔
سنن الدارمی، باب فی ختم القرآن، الرقم: 3535
ترجمہ: حضرت ابوقلابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآن کریم کی افتتاح کی مجلس میں حاضر ہوا گویا وہ لشکر اسلام کی فتوحات کے وقت آیااور جو شخص تکمیل قرآن کی مجلس میں حاضر ہوا گویا وہ مال غنیمت کی تقسیم کےوقت حاضر ہوا۔
الحال المرتحل:
عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفٰى رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَىُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ. قِيْلَ: وَمَا الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ؟ قَالَ: صَاحِبُ الْقُرْآنِ يَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِ الْقُرْآنِ إِلَى آخِرِهِ وَمِنْ آخِرِهِ إِلَى أَوَّلِهِ كُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ۔
سنن الدارمی، باب فی ختم القرآن، الرقم: 3540
ترجمہ: حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: نیک اعمال میں سے کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حال مرتحل۔ سوال کرنے والے نے پوچھا حال مرتحل کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو قرآن کریم کو اول سے شروع کرے یہاں تک کہ آخر قرآن تک پہنچ جائے تو پھر سے شروع کردے، جب بھی سفر تلاوت ختم کرے پھر سے چل پڑے۔
ملائکہ کی دعائے مغفرت:
عَنْ سَعْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: إِذَا وَافَقَ خَتْمُ الْقُرْآنِ أَوَّلَ اللَّيْلِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ وَإِنْ وَافَقَ خَتْمُهُ آخِرَ اللَّيْلِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيَ فَرُبَّمَا بَقِيَ عَلَى أَحَدِنَا الشَّيْءُ فَيُؤَخِّرُهُ حَتَّى يُمْسِيَ أَوْ يُصْبِحَ۔
سنن الدارمی، الرقم: 3812
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تکمیل قرآن شروع رات میں ہو تو فرشتے صبح تک قرآن کریم مکمل کرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اگر تکمیل قرآن شروع دن میں ہو تو فرشتے شام تک قرآن کریم مکمل کرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔
نزولِ رحمت کا وقت:
عَنْ مُجَاهِدٍ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: الرَّحْمَةُ تَنْزِلُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ.
المصنف لابن ابی شیبۃ، الرقم: 30665
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکمیل قرآن کریم کے وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔
ملائکہ بوسہ لیتے ہیں:
عَبْدِ اللهِ بْنِ يُونُسَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ رَحِمَہُ اللہُ يَقُولُ: إِذَا خَتَمَ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ قَبَّلَ الْمَلَكُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ۔
المجالسۃ وجواہر العلم،الرقم : 395
ترجمہ: حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے مروی ہے جب کوئی شخص قرآن کریم مکمل کرتا ہے تو فرشتہ اس کی پیشانی کا بوسہ لیتا ہے۔
اجر اور حشر:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اَلْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ يَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ فَلَهٗ أَجْرَانِ۔
صحیح مسلم ،باب فضل الماہر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ، الرقم: 1898
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : قرآن کا ماہر)اچھی طرح پڑھنے والا ( ان ملائکہ کے ساتھ ہوگا جو فرشتوں کے سردارہیں اور جو شخص قرآن مجیدکو اٹکتا ہوا پڑھتا ہے اور اس میں مشکل اٹھاتا ہے اس کے لئے دوہر ا اجر ہے۔
اکرام و اعزاز:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَجِيءُ القُرْآنُ يَوْمَ القِيَامَةِ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ حَلِّهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَى عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ: اِقْرَأْ وَارْقَ وَيُزَادُ بِكُلِّ آيَةٍ حَسَنَةً۔
جامع الترمذی، الرقم: 2915
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کےدن قرآن کریم اللہ کی بارگاہ میں اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گا: اے رب اسے پہنائیے!اللہ تعالیٰ اس کو عزت کا تاج پہنائیں گے۔ پھر عرض کرے گا کہ اے رب اس میں مزید اضافہ فرما۔ اللہ تعالیٰ اس کو عزت کا لباس پہنائیں گے ۔عرض کرے گا اے رب !اس سے راضی بھی ہو جا ! اللہ تعالیٰ اس قرآن والے سے راضی ہو جائیں گے۔ اس سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور )جنت کے درجے(چڑھتا جا ۔ ہرآیت کے بدلے اس کی نیکیوں میں اضافہ کیا جائے گا ۔
حافظِ قرآن کی جنت:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اِقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِى الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا۔
سنن ابی داؤد، باب استحباب الترتیل فی القراءۃ، الرقم: 1466
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت والے دن ) حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجات پر چڑھتا جااور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے دنیا میں تو ٹھہرٹھہر کر پڑھا کرتا تھا جہاں تو آخری آیت کی تلاوت مکمل کرے گا وہی تیرا آخری درجہ ہوگا۔
عامل بالقرآن کے والدین :
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُهَنِىِّ عَنْ أَبِيهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ضَوْؤُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِى بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِى عَمِلَ بِهَذَا۔
سنن ابی داؤد، باب فى ثواب قراءة القرآن، الرقم: 1455
ترجمہ: حضرت سہل بن معاذ الجہنی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن کریم پڑھا اور اس پر عمل بھی کیا اس کے ماں باپ کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ اگر وہ (اس دنیا میں) تمہارے پاس ہوتا تو اس کی روشنی اس دنیا میں لوگوں کے گھروں میں چمکنے والے سورج کی روشنی سے زیادہ خوبصورت ہوتی۔ بتاؤ!اُس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس نے خود اس پر عمل کیا ہو؟
حافظِ قرآن کی شفاعت:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَاسْتَظْهَرَهُ وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُمُ النَّارُ۔
شعب الایمان للبیہقی، فصل فی تنویر موضع القرآن ، الرقم: 2436
ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے قرآن کریم کو پڑھا اور اسے حفظ کیا اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ سے اپنے خاندان کے ایسے دس بندوں کے بارے شفاعت )بخشش کی سفارش(کرے گا جن پر )گناہوں کی وجہ سے( جہنم واجب ہو چکی ہوگی ۔
قرآن سے خالی دل:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الَّذِيْ لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ القُرْآنِ كَالبَيْتِ الخَرِبِ۔
جامع الترمذی ، الرقم: 2913
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ بندہ جس کا دل قرآن سے خالی ہے اس گھر کے مانند ہے جو ویران پڑا ہو ۔
اس کے بعد حدیث مبارک میں یہ نصیحت ذکر کی گئی ہے کہ اللہ رب العزت کا ذکر کثرت کے ساتھ کرو۔ اپنی زبانوں کو اللہ کے ذکر کے ساتھ ہر وقت تر رکھنا چاہیے ۔ یہی وہ عبادت ہے جس کو ادا کرنے کے لیے کسی طرح کی کوئی شرط نہیں ۔
عبادات کی شرائط:
جبکہ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ عبادات کو ادا کرنے میں مختلف قسم کی شرائط اور قیودات ہیں ۔ مثلاً نماز کے لیے طہارت ، وقت قبلہ رو ہونا وغیرہ جیسی شرائط ہیں ۔ زکوٰۃ کے لیے نصاب کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ سال کا گزرنا شرط ہے ، فرض روزے کے لیے سال کا ایک مہینہ رمضان المبارک مقرر ہے وغیرہ ۔
ذکر اللہ سے متعلق دس اہم باتیں:

1.

ذکرا للہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں۔ دن ، رات ، صبح ، دوپہر ، شام ، چاشت ، زوال الغرض دن رات کے کسی بھی حصے میں کرنا چاہیں ، کریں ۔

2.

ذکرا للہ کے لیے جگہ متعین نہیں ۔ شہر ، دیہات ،مسجد ، گھر ،دفتر ،بازار ، کھیت ، ہوا، فضاء ، سمندر یا صحراء الغرض جہاں بھی ہوں ، ذکر اللہ کرتے رہیں ۔

3.

ذکرا للہ کے لیے جہت متعین نہیں ۔ مشرق ، مغرب ، شمال ، جنوب ، فوق ، تحت ، قبلہ رو ہوں یا نہ ہوں ۔

4.

ذکرا للہ کے لیے الفاظ متعین نہیں ۔ اللہ اکبر ،سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ ، استغفر اللہ اور تلاوت قرآن کریم وغیرہ ۔ مسنون کلمات کا اہتمام بہت بہتر ہے ۔

5.

ذکر اللہ کی ہیئت متعین نہیں ۔کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ، چلتے ،پھرتے ، دوڑتے ، پیدل ، سوار )خواہ کوئی بھی سواری ہو سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز اور آبدوز تک ) ہر طرح اللہ کا ذکر کرنا چاہیے ۔

6.

ذکراللہ کے لیے کوئی حالت متعین نہیں ۔خوشی ، غمی سکون ، پریشانی ، امن ، خوف یا جنگ یہاں تک کہ باوضو یا بغیر وضو کے ہر حالت میں اللہ کا ذکر کریں ۔

7.

ذکر اللہ کے لیے کوئی کیفیت متعین نہیں ۔ انفرادی ، اجتماعی ، خلوت ، جلوت ۔ جو موقع میسر ہو اس میں اللہ کا ذکر کریں ۔

8.

ذکر اللہ کے لیے جہر )اونچی آواز(اور سرّ (آہستہ آواز(متعین نہیں ۔ زبان سے کریں یا دل سے کریں ، بعض افراد کے لیے جہراً)اونچی آواز سے (افضل ہے اور بعض افراد کےلیے سرّاً (آہستہ آوازسے (افضل ہے جبکہ بعض افراد کے لیے قلب کی کیفیت افضل ہے ۔

9.

ذکراللہ کے لیے جنس اور عمر متعین نہیں ۔ مرد ، عورت ، خواجہ سرا، بڑے ، چھوٹے ، بالغ ، نابالغ سب کریں ۔ بڑوں کو تو کرنا ہی چاہیے ، بچوں کو بھی اس عبادت کی عادت ڈالنی چاہیےاور خواتین کو بھی اہتمام کرنا چاہیے۔

10.

ذکر اللہ کی تعداد متعین نہیں ۔ ایک بار ،دس بار ، سو بار ، ہزار بار ، لاکھ بار ،بار بار بلکہ جتنی بار بھی کیا جائے پھر بھی کم ہے ۔ ہاں جہاں جو خاص فضائل خاص مقدار اور تعداد پر مذکور ہیں وہاں مقدار اور عدد کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
ذکر اللہ کی برکات:
اللہ تعالیٰ کے مبارک نام میں جو لذتیں ، حلاوتیں ، محبتیں اور برکتیں ہیں وہ اور کسی میں نہیں ۔ اسی مبارک نام کے دم قدم سے دنیا آباد ہے اور اس وقت تک آباد رہے گی جب تک یہ مبارک نام لیا جاتا رہے گا اور جب یہ نام مبارک لینے والا کوئی بھی نہیں رہےگا تو اس وقت قیامت آجائے گی ۔
ذکر اللہ آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں :
1: فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ
سورۃ البقرۃ ،رقم الآیۃ : 152
ترجمہ: اللہ تعالیٰ بندوں سے فرماتے ہیں کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہیں یاد کروں گا ۔
2: اَلَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ۔
ترجمہ: وہ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہوئے) گویا ہر حالت میں( اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔
سورۃ آل عمران ، رقم الآیۃ : 191
3: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ۔
سورۃ الانفال ، رقم الآیۃ : 2
ترجمہ: مومنوں کے سامنے جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل )اللہ کے خوف یا اس کے غلبہ محبت سے ( نرم ہوجاتے ہیں ۔
4: اَلَّذِينَ آمَنُواوَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِاللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
سورۃ الرعد، رقم الآیۃ : 28
ترجمہ: وہ لوگ جو ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر دلوں کے اطمینان کا سبب ہے۔
5: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيْرًا۔
سورۃ الاحزاب ، رقم الآیۃ : 21
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس شخص کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرے ۔
6: وَالذَّاكِرِيْنَ اللَّهَ كَثِيْرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيْمًا۔
سورۃ الاحزاب ، رقم الآیۃ : 35
ترجمہ: ذکر کرنے والے مردو خواتین کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ہے ۔
7: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا۔
سورۃ الاحزاب ، رقم الآیۃ : 41
ترجمہ: اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرو ۔
8: وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
سورۃ الجمعۃ، رقم الآیۃ : 10
ترجمہ: کثرت کے ساتھ ذکر کرنا کامیابی کا باعث ہے۔
9: یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۔
سورۃ المنافقون ، رقم الآیۃ : 9
ترجمہ: اے ایمان والو!تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرنے پائیں اور جو لوگ ایسا کریں گے وہی نقصان اٹھانے والے ہوں گے ۔
10: وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيْلًا۔
سورۃ الدھر، رقم الآیۃ : 25
ترجمہ: اور صبح و شام اپنے رب کاذکر کیا کرو۔
ذکر اللہ اور نماز :
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ ۔
سورۃ النساء ، رقم الآیۃ : 103
ترجمہ: جب نماز ادا کر لو تواس کے بعد اللہ کا ذکر کرو کھڑے ، بیٹھے اور پہلو کے بل لیٹے ہر حالت میں۔
نماز کے بعد ذکر کا مسئلہ:
نماز کے بعد زور زور سے کلمہ طیبہ پڑھنا جس سے باقی نمازیوں کی نماز میں خلل آتا ہو ،اسے ضروری سمجھنا اور نہ پڑھنے والوں کو ملامت کرنا، درست نظریہ نہیں ہاں جو اذکار مسنون ہیں وہ کیے جا سکتے ہیں ، مثلاً:سبحان اللہ 33 مرتبہ، الحمدللہ 33 مرتبہ اللہ اکبر 34 مرتبہ ۔ حدیث مبارک میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ ذکر فرماتے تھے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَد ۔
صحیح البخاری، باب الذکر بعد الصلاۃ، الرقم: 844
ترجمہ: اللہ وحدہ لا شریک لہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں اسی کی بادشاہت ہے، اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں ۔ وہی ہر چیز پر کامل قدرت رکھنے والا ہے اے اللہ جو چیز آپ عطا فرمائیں اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جو چیز آپ روک دیں وہ کوئی دے نہیں سکتا اور کسی کوشش کرنے والے کی کوشش آپ کے مقابلے میں کچھ بھی فائدہ مند نہیں۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى الغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَاَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ۔
جامع الترمذی ، باب ذکر ما یستحب من الجلوس فی المسجد، الرقم: 586
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی پھر سورج کے طلوع ہونے تک )مسجد میں (بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا اور سورج کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعت )نماز اشراق (ادا کی تو اس کو ایک حج اور عمرے کے اجر کے برابر ثواب دیا جائے گا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پورے حج اور عمرے کا، پورے حج اور عمرے کا، پورے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا ۔
ذکر اللہ اور نماز جمعہ:
فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَ اذْكُرُوا اللَّهَ كَثيراً لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔
سورۃ الجمعۃ ، رقم الآیۃ : 10
ترجمہ: جب نماز جمعہ پڑھ لی جائے تو تمہیں اجازت ہے کہ تم اپنے کام کاج کے لیے مسجد سے باہر نکل کر زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس حالت میں بھی اللہ کا خوب ذکر کرو تاکہ کامیابی تمہارا مقدر بن جائے۔
ذکرا للہ اور نماز کسوف:
عَنْ أَبِي مُوسٰى رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَيْتُهُ قَطُّ يَفْعَلُهُ وَقَالَ هَذِهِ الْآيَاتُ الَّتِي يُرْسِلُ اللهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلٰكِنْ [يُخَوِّفُ اللهُ بِهِ عِبَادَهُ] فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ۔
صحیح البخاری ،باب الذکر فی الکسوف ، الرقم: 1059
ترجمہ: حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرا کر اٹھے اس خوف سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام ، لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی)حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ( میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ) نماز کے بعد( فرمایا یہ )سورج اور چاند گرہن اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم الشان ( نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کا ذکر کرو ، اس سے دعا اور اس سے اپنے گناہوں سے معافی مانگو ۔
ذکر اللہ اور حج :
إِذَا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً
سورۃ البقرۃ ، رقم الآیۃ : 200
ترجمہ: جب تم حج کے متعلقہ عبادات ادا کر کے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو جیسا کہ تم تفاخراً )ایک دوسرے پر فخر جتلانے کے لیے (پنے آباء و اجداد کا تذکرہ کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کا ذکر کرو۔
ذکراللہ… طواف ، سعی اور رمی:
عَنْ عَائِشَةَرَضِیَ اللہُ عَنْہَاقَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللّهِ.
سنن ابی داؤد ، باب فی الرمل ، الرقم: 1890
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ کا طواف، صفاومروہ کی سعی ) ان دو پہاڑوں پر سات چکر لگانا(اور جمرات کی رمی )شیطانوں کو کنکر مارنا(یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا ہے ۔
فائدہ: ادائیگی حج کے دوران ماہ ذوالحج کی گیارہ ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو میدان منیٰ میں پانچ (یااس سے زائد) ہاتھ کی دوری سے درج ذیل جمرات پر سات سات کنکریاں پھینکنے کو ”رمی جمار“ کہتے ہیں۔
1: جمرہٴصغریٰ منیٰ میں مسجد خیف کے بعد یہ پہلا اور قریب ترین جمرہ ہے۔
2: جمرہٴ وسطیٰ اس لئے کہ یہ جمرہٴ صغریٰ اور جمرہٴ کبریٰ کے درمیان واقع ہے۔
3: جمرہٴکبریٰ یہ مکہ کی طرف منیٰ کا آخری جمرہ ہے۔
ذکر اللہ اور جہاد:
يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا لَقيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَ اذْكُرُوا اللَّهَ كَثيراً لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
سورۃ الانفال، رقم الآیۃ : 45
ترجمہ: اے میری ذات اور بات ماننے والو!جب تمہارا کسی دشمن کی فوج سے ٹاکرا ہوجائے تو ثابت قدم رہ کر لڑو اور اللہ کا ذکر کرو تاکہ کامیابی تمہارے قدم چومے۔
ذکراللہ کا فلسفہ:
الغرض قرآن کریم کی متعدد آیات اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے فضائل و مناقب موجود ہیں۔ ذکر اللہ کا اصل فلسفہ احساسِ عبدیت ،اظہار ِ بندگی اور عظمتِ الہٰی کا قلبی اقرار و اعتراف کرنا ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے خالق و مالک ہیں اس لیے ہماری جسمانی و روحانی خوشیاں ، رزق کی فراوانیاں ، آل اولاد ، مال و دولت ، عزت و شہرت اور صحت و سلامتی الغرض سب کچھ اسی کی عنایت ہے ایسے محسن کا نام لینے میں لطف آتا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ جسمانی تکالیف ،مصیبت و پریشانی ، بیماری ، آزمائش و امتحان اورتمام دنیوی معاملات میں اسی کی مدد کے محتاج ہیں اس لیے بھی اس ذات کا ذکر ہمارے لیے ضروری ہے۔
ذکر اللہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ کا مبارک نام اخلاص و للہیت ،ذوق و شوق اور محبت کے ساتھ لینے پرفوائد و انعامات تو ہیں ہی لیکن اس ذات کا نام مبارک اس قدر پر تاثیر ہے کہ اگر اس کو محبت و اخلاص کے بغیر بھی لیا جائے تب بھی نفع سے ہرگز خالی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )اور ان کے واسطے سے پوری امت (کوذکر اللہ کی تعلیم اور ترغیب دی ہے ۔
زندہ و مردہ:
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ۔
صحیح البخاری،باب فضل ذکر اللہ عزوجل،الرقم: 6407
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے، اور وہ جو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ (یعنی ذکر کرنے والا زندہ اور نہ کرنے والا مردہ ہے)
زیادہ اجر والے عبادت گزار:
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَهُ فَقَالَ : أَيُّ الْجِهَادِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ : أَكْثَرُهُمْ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى ذِكْرًا قَالَ: فَأَيُّ الصَّائِمِينَ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ: أَكْثَرُهُمْ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى ذِكْرًا ثُمَّ ذَكَرَ لَنَا الصَّلاَةَ وَالزَّكَاةَ وَالْحَجَّ وَالصَّدَقَةَ كُلُّ ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَكْثَرُهُمْ لِلّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى ذِكْرًا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ : يَا أَبَا حَفْصٍ ذَهَبَ الذَّاكِرُونَ بِكُلِّ خَيْرٍ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَجَلْ.
مسند احمد ، الرقم: 15614
ترجمہ: حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : مجاہدین میں سے اجر کے اعتبار سے سب سے زیادہ عظمت والاکون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جو اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرے ،اس نے پھر سوال کیا : روزے داروں یں اجر کے اعتبار سے زیادہ عظمت والا کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کا کثرت سے ذکر کرے۔ پھر اس نے نماز ، زکوٰۃ ، حج اور صدقہ کے بارے میں بھی یہ سوال دہرایا کہ ان کاموں کو کرنے والوں میں سے اجر کے اعتبار سے زیادہ عظمت والا کون ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی جواب ارشاد فرمایا کہ جو اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنے والا ہو ۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابو حفص!ذکراللہ کرنے والے تو تمام بھلائیاں سمیٹ کر لے گئے ۔) یہ سن کر( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: جی ہاں ایسے ہی ہے۔
روحانی بیماریوں کا علاج:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم: مَنْ عَجَزَ مِنْكُمْ عَنِ اللَّيْلِ أَنْ يُكَابِدَهُ وَبَخِلَ بِالْمَالِ أَنْ يُنْفِقَهُ وَجَبُنَ عَنِ الْعَدُوِّ أَنْ يُجَاهِدَهُ فَلْيُكْثِرْ ذِكْرَ اللَّهِ.
مسند بزار ، الرقم: 4904
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رات کی عبادت کرنے سے عاجز ہو جائے ، مال کو )اللہ کی راہ میں (خرچ کرنے سے بخیل ہو جائے ، اور دشمن سے لڑنے میں بزدل ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرے ۔)اس سے ساری کوتاہیاں دور ہو جائیں گی (
ذکراللہ کی مجالس:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلهِ مَلَائِكَةً يَطُوْفُوْنَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُوْنَ أَهْلَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوْا قَوْمًا يَذْكُرُوْنَ اللهَ تَنَادَوْا هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ قَالَ فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا قَالَ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا يَقُوْلُ عِبَادِي قَالُوا يَقُوْلُوْنَ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ قَالَ فَيَقُوْلُ هَلْ رَأَوْنِي قَالَ فَيَقُوْلُوْنَ لَا وَاللهِ مَا رَأَوْكَ قَالَ فَيَقُولُ وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي قَالَ يَقُوْلُوْنَ لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَتَحْمِيدًا وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا قَالَ يَقُولُ فَمَا يَسْأَلُونِي قَالَ يَسْأَلُوْنَكَ الْجَنَّةَ قَالَ يَقُوْلُ وَهَلْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُوْلُوْنَ لَا وَاللهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا قَالَ يَقُولُ فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُوْلُوْنَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً قَالَ فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ قَالَ يَقُوْلُوْنَ مِنَ النَّارِ قَالَ يَقُوْلُ وَهَلْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُوْلُوْنَ لَا وَاللهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا قَالَ يَقُوْلُ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا قَالَ يَقُوْلُوْنَ لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً قَالَ فَيَقُوْلُ فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ قَالَ يَقُوْلُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ قَالَ هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ۔
صحیح البخاری، باب فضل ذکر اللہ عز وجل ، الرقم: 6408
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے کچھ )مقرر کردہ (فرشتے ذکر اللہ کرنے والوں کو تلاش کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر چکر لگاتے ہیں اور اس دوران جب وہ ایسی لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوں تو ایک دوسروں کو کہتے ہیں کہ آؤ ہمیں منزل مقصود مل گئی ۔ چنانچہ وہ فرشتے ان ذکر کرنے والوں کو آسمان دنیا تک اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود )ذکر اللہ کرنے والوں کی فضیلت اور مرتبے کو ظاہر کرنے کے لیے(فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ میرے بندے کیا کر رہے تھے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ!آپ کی پاکی، بڑائی، تعریف اور بزرگی بیان کر رہے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بخدا انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ آپ کی پہلے سے بڑھ کر عبادت ، بزرگی ، بڑائی اور پاکی بیان کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کیا مانگ رہے تھے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنت مانگ رہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا بھی ہے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بخدا انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھرتو وہ جنت کے اور ہی زیادہ حریص ، اس کی بہت ہی دعا مانگنے والے اور زیادہ اس کی طرف رغبت کرنے والے بن جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جہنم سے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیاانہوں نے جہنم کو دیکھا بھی ہے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بخدا انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جہنم کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ اس جہنم سے دور رہنے کی اور زیادہ کوشش کریں گے اور اس سے پہلے سے زیادہ ڈریں گے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان سب کی بخشش کر دی ہے ۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ) اے اللہ (! ان جماعت میں فلاں شخص ذکر اللہ کے بجائے اپنی کسی ضرورت کے تحت آیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ایسی خوش قسمت جماعت ہے کہ ان سے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والاشخص )خواہ وہ ذکر نہ بھی کر رہا ہو تب بھی وہ (محروم نہیں ہوتا۔
ذکر اللہ کے حلقے:
عَنْ أَبِي سَعِيدِنِ الْخُدْرِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ مَا أَجْلَسَكُمْ قَالُوا جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ قَالَ آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ قَالُوا وَاللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ قَالَ أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيثًا مِنِّي وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ مَا أَجْلَسَكُمْ قَالُوا جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ وَنَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ بِهِ عَلَيْنَا قَالَ آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ قَالُوا وَاللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ قَالَ أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ وَلَكِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِي بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ۔
صحیح مسلم ، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، الرقم: 4869
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسجد میں چند لوگ اکٹھے ہو کر بیٹھے تھے ان کے پاس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا کہ تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم سب اللہ کا ذکر کر رہے ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اللہ کی قسم !کیا تم واقعی ذکراللہ کے لیے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا : بخدا!ذکراللہ کے سوا ہمارے اکٹھے بیٹھنے کا اور کوئی مقصد نہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: ایک بات ذہن میں رکھنا کہ میں نے کسی بدگمانی کی وجہ سے آپ لوگوں سے قسم نہیں لی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے کا تعلق اور قرب مجھے حاصل ہے اس درجے کے تعلق والا کوئی اور شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں بیان کرنے والا اب نہیں ہے ۔ ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے حلقہ کے پاس پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : تم لوگ یہاں کس لیے جمع ہوئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے عرض کی: ہم اللہ کا ذکر کر رہےہیں ۔ اس نے ہمیں ہدایت سے نوازا ، اسلام کی دولت عطا فرما کر ہم پر عظیم احسان فرمایا اس پر اس کی حمد و ثناء کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم !کیا تم واقعی ذکراللہ کے لیے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا : بخدا!ذکراللہ کے سوا ہمارے اکٹھے بیٹھنے کا اور کوئی مقصد نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کسی بدگمانی کی بناء پر تم سے قسم نہیں لی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابھی ابھی میرے پاس جبرائیل امین تشریف لائے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کی مجلس میں فخر و مباہات کے ساتھ تمہارا ذکر فرما رہے ہیں۔
رحمتِ خداوندی کا نزول:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدِ نِ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَايَشْهَدَانِ بِهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فِيهِ إِلَّا حَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَتَغَشَّتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَتَنَزَّلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَذَكَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ .
سنن ابن ماجہ، باب فضل الذکر ، الرقم: 3791
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہما دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مجلس میں جب لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں ہر طرف سے ڈھانپ لیتے ہیں، ان پر رحمت خداوندی چھا جاتی ہے، سکون کی بارش ان پر نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ایسے لوگوں کا ذکر خیر کرتے ہیں ۔
موت کی حالت میں:
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ تَعَالَى؟ قَالَ: أَنْ تَمُوتَ وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِنْ ذِكْرِ اللهِ۔
المعجم الکبیر للطبرانی ، الرقم: 181
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الوداعی ملاقات کی تو( میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : نیکی کے کاموں میں سے اللہ تعالیٰ کوزیادہ محبوب کون سا عمل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے اس حالت میں موت آئے کہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو ۔
عذاب سے نجات:
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا عَمِلَ آدَمِيُّ عَمَلًا أَنْجَى لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ۔
المعجم الاوسط للطبرانی ، الرقم: 2296
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کا کوئی بھی عمل ذکر اللہ سے زیادہ عذاب سے نجات دینے والا نہیں ۔
عرشِ الہٰی کا سایہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ.
صحیح البخاری، باب من جلس فی المسجد ینتظرالصلاۃ، الرقم: 660
ترجمہ: حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :سات خوش نصیب افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اُس (قیامت کے ) دن )اپنی طرف سے ( سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کی طرف سے ملنے والے سائے کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہو گا:

1.

انصاف کرنے والا حکمران۔

2.

ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ہو ۔

3.

جس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہو۔

4.

وہ دو آدمی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں محبت کریں، اسی کی خاطر ملیں اور اسی کی خاطر جدا ہوں۔

5.

جسے کوئی بڑے خاندان والی خوبصورت عورت گناہ کی طرف بلائے مگر وہ اس سے کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔

6.

جو اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی اس کے صدقے کا علم نہیں ہوتا )یعنی چھپا کر دے (۔

7.

جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوں۔
اہل جنت کی حسرت:
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَيْسَ يَتَحَسَّرُ أَهْلُ الْجَنَّةِ إِلَّا عَلَى سَاعَةٍ مَرَّتْ بِهِمْ لَمْ يَذْكُرُوا اللهَ فِيهَا۔
المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 182
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت والوں کو کسی چیز کی حسرت باقی نہیں رہے گی سوائے ان اوقات کی جن میں وہ اللہ کا ذکر نہیں کر سکے ہوں گے۔
ذکراللہ کے متعلق پانچ اہم باتیں:
اللہ تعالیٰ کا مبارک نام جس قدر محبت ، ذوق ، شوق اور ادب کے ساتھ لیا جائے اسی قدر دل میں اللہ کی محبت ، معرفت اور رضا سرایت کرتی ہے ۔ پہلے ہم یہ بات بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر جگہ ، ہر وقت ، ہر حال اور ہر کیفیت میں کرنا چاہیے ، کوئی بھی فائدہ سے خالی نہیں البتہ اگر چند باتوں کو ملحوظ رکھا جائے تو فائدہ زیادہ ہو گا ۔

1.

ذکر اللہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی عظمت ، شان ، کبریائی ، قوت ، طاقت ، حشمت ، بادشاہت اور قدرت کا تصور پختہ طور پر دل میں جما لیا جائے اس کے بعد جب زبان سے اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لیا جائے تو اس سے دل کو جو سکون ، طمانینت ، راحت اور لطف محسوس ہوگا اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے الفاظ میں اس کیفیت کو بتلانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔

2.

ذکر اللہ کرتے وقت یکسوئی ، تنہائی اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر سمجھا جائے ، اپنے گناہوں کو یاد کر کے خود کو ایک نافرمان مجرم کی حیثیت سے اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری کیا جائے ، پھر اپنے نفس کو مخاطب کر کے اس تصور کو دل میں جا گزیں کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے میری سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں یہ تو محض اللہ کا فضل و کرم اور لطف و احسان ہے کہ اس نے مجھے اپنا مبارک نام لینے کی توفیق نصیب فرمائی، اس نعمت پر شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ ناقدری اور ناشکری سے نعمتیں سلب ہو جاتی ہیں ۔یہ تصور انسان کو ریا، تکبر، خود سرائی اور خود نمائی جیسے روحانی امراض سے نجات دیتا ہے ۔

3.

ذکر اللہ کرتے وقت غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکالنے اور اللہ کی محبت کو دل میں لانے کا تصور کریں ، اس کے لیے باقی اذکار بھی اپنے اپنے طور پر فائدہ دیتے ہیں لیکن کلمہ توحید
لا الہ الا اللہ
کا ذکر کرتے وقت یہ بات کامل طور پر فائدہ دیتی ہے
لا الہ
کہتے وقت خیال کریں کہ غیر اللہ کی محبت دل سے نکل رہی ہے اور
الا اللہ
کہتے وقت اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث پاک میں اس ذکر کو
افضل الذکر
قرار دیا گیا ہے ۔

4.

ذکر اللہ کرتے وقت کوشش کریں کہ طبیعت میں نشاط ، تازگی اور چستی ہو ۔ غافل دل کے ساتھ ، نیند کے غلبہ کے وقت خود کو مشقت میں ڈال کر لسانی ذکر)زبان سے ذکر ( کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ آرام کر لیا جائے ۔ آرام کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر اللہ کا ذکر کیا جائے کیونکہ شریعت میں غلبہ نیند کے وقت عبادت سے اس لیے روکا گیا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ سے مغفرت طلب کرنا چاہتا ہو اور انسان کی زبان پھسل جائے بجائے مغفرت طلب کرنے کے اپنے لیے بددعائیہ جملے نکل جائیں۔ مثلاً وہ
اللھم اغفرلی
)اے اللہ!میری مغفرت فرما( کہنے کے بجائے
اللھم اعفرلی
)اے اللہ مجھے ہلاک فرما( کہنے لگے ۔ اس لیے ایسی حالت میں آرام کر لیا جائے۔

5.

ذکر اللہ جیسی عظیم عبادت کو اپنی زندگی بھر کی عادت بنانے کے لیےکسی شیخ طریقت سے بیعت ضرور ہو جائیں ورنہ نیک اعمال اور ذکر اللہ کی پابندی اور اس پر ہمیشگی اختیار کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
ذکراللہ کےثمرات :
اس مبارک نام سےدلوں کو سکون ملتا ہے ،پریشانیاں دور ہوتی ہیں،آفات سے انسان محفوظ ہوتا ہے ،ایمان مضبوط ہوتا ہے،عبادت کی توفیق ملتی ہے،روحانی ترقیات نصیب ہوتی ہیں ،صحت ملتی ہے،رزق میں برکت آتی ہے،عمر میں برکت آتی ہے ،اللہ کی طرف سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں،بزدلی ختم ہوتی ہے،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان جہنم سے بچ کر جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔
سلسلہ چشتیہ کی دوازدہ )بارہ (تسبیحات:
ہمارے ہاں اگرچہ بیعت؛ طریقت کے سلاسل اربعہ )قادریہ ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ ( میں ہوتی ہے تاہم اذکار ؛مشائخ چشت کی ترتیب کے مطابق کرائے جاتے ہیں ۔ مشائخ چشت کے تجویز کردہ اذکار میں دوازدہ )12(تسبیحات ہیں :

1)

دو تسبیحات ذکر نفی و اثبات یعنی 200 مرتبہ :
لا الہ الا اللہ
فائدہ : ابتداءً ایک بار مکمل کلمہ طیبہ
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
پڑھ لیں۔ پھر ہر 15یا 20 مرتبہ
لا الہ الا اللہ
کے بعد ایک مرتبہ
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
پڑھ لیں ۔

2)

چار تسبیحات ذکر اثبات یعنی 400 مرتبہ :
الا اللہ

3)

چھ تسبیحات ذکر اسم ذات دو ضربی یعنی 600 مرتبہ :
اللہُ اللہ
فائدہ1 : ضرب کا مطلب ہے جھٹکا لگانا یعنی دل پر ہلکی ضرب لگائیں یعنی جھٹکا لگائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ پہلے لفظ اللہ کے آخر والی پیش کو خوب ظاہر کر کے پڑھیں ۔ گنتی میں اللہُ اللہ کو ایک شمار کرنا ہے ۔
4)
ایک تسبیح ذکر اسم ذات یک ضربی یعنی 100 مرتبہ :اللہ
فائدہ2 : آخری تسبیح ذکر اسم ذات یک ضربی کو 100 سے زیادہ جتنا بھی بڑھانا چاہیں، بڑھا لیں۔
نوٹ: ذکر اللہ کرنے والے عام طور پر غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ لفظ اللہ کوصحیح طور پر ادا نہیں کرتے ۔ خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ لفظ اللہ کے لام پر کھڑی زبر ) ٰ ( ہے، جسے ایک الف کے برابر کھینچ کر پڑھا جاتا ہے ۔اسی طرح دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ لفظ اللہ کے آخر میں )ہ (کو ظاہر نہیں کرتے ۔ لفظ اللہ کو ادا کرتے وقت لام کی کھڑی زبر اور آخر والی )ہ (کو اچھی طرح ادا کریں ۔
فائدہ3: اصل تسبیحات پہلے والی 3 ہیں جن کی کل تعداد 12 بنتی ہیں انہی کو دوازدہ کہتے ہیں ۔ آخری تسبیح یعنی ذکر اسم ذات یک ضربی اس وجہ سے ہے کہ اب ان 12 تسبیحات پر رکنا نہیں بلکہ ذکر بڑھانا ہے اور بڑھانا ذکر اسم ذات یک ضربی کا ہے ۔
تنہائی والا ذکر زیادہ مفید ہے :
ذکراللہ کو جلوت و خلوت ہر حالت میں کرنا فائدہ ہی فائدہ ہے لیکن تنہائی میں کرنا زیادہ مفید ہے کیونکہ اس میں ریا کا عنصر ختم ہوجاتا ہے اور اخلاص پیدا ہوتا ہے اور ہر نیک عمل کی قبولیت میں اخلاص کا بہت زیادہ دخل ہے۔
چند فوائد:
تلاوت قرآن کریم اور ذکراللہ کے فوائد بتلاتے ہوئے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت ایسے شخص کا ذکرِ خیر عرش اور ملائکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں ۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ذکر فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو پرنور بنا دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے انسان کا دل اللہ سے راضی ہوتا ہے اور اللہ بھی اس شخص سے راضی ہو جاتے ہیں ۔
اللہ کریم ہمیں اپنے کلام کی تلاوت کرنے اور کثرت سے اپنا مبارک نام لینے کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
بنکاک ، تھائی لینڈ
جمعرات ،29 اگست ، 2019ء