سورۃ الحج

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الحج
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱﴾﴾
بعث بعد الموت کی دلیل؛ تخلیق انسانی
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمۡ﴾
اللہ رب العزت نے قیامت کا ذکر فرمایا اور دوبارہ اٹھائے جانے پر بطور دلیل کے انسان کی تخلیق کو بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیسے بنایا ہے کہ تمہاری غذا کا بنیادی عنصر مٹی ہے، مٹی سے پھر غذائیں نکلتی ہیں، انسان وہ غذائیں کھاتا ہے تو ان غذاؤں سے پھر نطفہ بنتا ہے، وہ باپ کی پیٹھ سے ہو کر ماں کے رحم میں جاتا ہے، اس کے بعد پھر خون بنتا ہے اور جم کر ایک لوتھڑے کی شکل اختیار کر جاتا ہے، پھر بوٹی بنتی ہے، پھر ان میں ہڈی آتی ہے، پھر اس سے بعض مرتبہ بچے کے اعضاء پورے بن جاتے ہیں اور بعض اوقات پورے نہیں بن پاتے۔ پھر بعض مرتبہ عورت جو بچہ جنتی ہے وہ صحیح سالم اعضاء کے ساتھ جنتی ہے اور بعض مرتبہ اسے انہی ناقص اعضاء کے ساتھ اسقاط ہو جاتا ہے اور بعض مرتبہ بچہ پیدا ہوتا ہے اور ناقص اعضاء کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔تو اس ترتیب کے ساتھ اور ان مراحل سے گزر کر بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے۔
جب کوئی نمونہ سامنے نہ ہو تو بنانا مشکل ہوتا ہے اور جب نقشے سامنے آجائیں تو پھر بنانا بہت آسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ابتدائی تخلیق کی تو دوبارہ اسے بنانا کیا مشکل ہے؟! انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ آناً فاناً فرماسکتے تھے کہ ارادہ فرمائیں اور انسان بن جائے لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ تدریجاً نو ماہ میں انسان کو پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھائی ہے کہ دنیا میں کام اچانک نہیں ہوتے تدریجاً ہوتے ہیں اس لیے جلد بازی کا مزاج مناسب نہیں ہے، بندے کو اپنی باری اور اپنے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
پہلے بچپن پھر جوانی پھر بڑھاپا بعض بچپن دیکھتے ہیں تو جوانی نہیں دیکھ پاتے اور بعض جوانی دیکھتے ہیں تو بڑھاپا نصیب نہیں ہوتا لیکن عام معمول یہی ہے۔
پھر اس امت محمد یہ کی اوسطاً عمر 60 اور 70سال کے درمیان ہے۔ تو ہر انسان کو اپنا بچپن اور جوانی ذہن میں رکھنی چاہیے۔ ہر آنے والادن انسان کی عمر کو گھٹاتا ہے، گھٹتی ہوئی عمر پر انسان کو خوش نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے مختصر زندگی دی ہے آخرت کی تیاری کےلیے اس لیے ہمیں اس میں آخرت کی فکر اور آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
سن ہجری کو رواج دیں!
آج یکم جنوری 2019ء ہے۔ دنیا بھر میں سارے لگے ہوئے ہیں علماء بھی اور غیر علماء بھی اور ہر کوئی معافیاں مانگتا پھر رہا ہے کہ پچھلے سال کے گناہ معاف کردیں۔ معافی مانگنا تو ٹھیک ہے، اپنے اعمال کا احتساب کرنا بھی ٹھیک ہے، غور بھی کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سارا زور یکم جنوری پر کیوں ہوتا ہے! یکم محرم پر کیوں نہیں ہوتا! یکم محرم کے موقع پر بھی سال ختم ہورہا ہے اور نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ تو دیکھو! اتنی محنت کی ہے اغیارنے سن عیسوی کو عام کرنے کی اور ہمارے مسلمانوں کا جو اصل حساب ہے وہ سن ہجری پر ہی ہے، ہجری شمسی بھی ہوتا ہے اور ہجری قمری بھی ہوتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں جو سن کی ترتیب ہے وہ ہجری شمسی ہے اور شریعت میں اصل ہجری قمری ہے۔ تو ہجری شمسی بھی دنیا میں چل رہے ہیں لیکن اصل ہجری قمری ہے جس پر احکام شریعت کا مدار ہے۔ تو ہمیں اپنے سالِ ہجری کو ہی رواج دینا چاہیے اس کا تذکرہ کرنا چاہیے اور اغیار سے بالکل متاثر نہیں ہوناچاہیے کیونکہ ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے، متاثر وہ ہوتا ہے جس نے اپنی فکر آئندہ نسلوں کونہ دینی ہو اور جب اپنی فکر آئندہ نسلوں میں منتقل کرنی ہو تو پھربندہ کسی سے متاثر نہیں ہوتا۔ ہم نے اپنے اکابر کی میراث محفوظ کرنی ہے اور اسے اگلی نسلوں یعنی اصاغر میں منتقل کرنا ہے، ہم اکابر اور اصا غر کے درمیان میں ہیں، بعد والوں کےلیے اکابر بن جائیں گے اور پہلے والوں کے اصاغر بن جائیں گے، خود کو چھوٹا سمجھتے رہیں گے تو کل والوں کےلیے اللہ بڑا بنا دیں گے اور اگر خود کو بڑا سمجھتے رہیں گے تو کل والے بڑا سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے آپ کو چھوٹا سمجھنے کے لیے بھی تیا ر نہیں ہو ں گے۔
عمر انسانی کے مراحل اور احوال:
یہ جو انسان کی عمر کے مختلف مراحل ہیں ان کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ جب بچہ نابالغ ہوتا ہے اور کوئی نیک کام کرتا ہے تو اس کا ثواب اس کے والد یا والدین کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اور اگر وہ بچہ کوئی گناہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ گناہ نہ اس بچے کے نامہ اعمال میں لکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے والدین کے نامہ اعمال میں لکھتے ہیں۔ جب یہ بچہ بالغ ہوجاتا ہے تو حساب کا قلم اس کے لیے جاری ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ دو فرشتوں کو مقرر کر دیا جاتا ہے اور انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کی حفاظت کرو اور اعمال کرنے میں اس کو قوت اور طاقت پہنچاؤ۔ جب یہ چالیس سال کی عمر کوپہنچ جائے اور ایمان کی حالت میں گزارے تو اللہ تعالیٰ اس کو تین امراض سے محفوظ رکھتے ہیں : جنون، جذام اور برص سے۔
پچاس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ تعالی اس کے حساب کو ذرا ہلکا فرمادیتے ہیں۔ جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالی پھر اس کو اپنی طرف محبت کی توفیق دے دیتے ہیں، سا ٹھ سے اوپر ستر سال تک پہنچ جائے تو سب آسمان والے اس کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں، جب یہ اَسی سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے نیک اعمال لکھے جاتے ہیں اور گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جب یہ نوے سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے سارے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اس کو یہ حق دے دیا جاتا ہے کہ اپنے گھر والوں کی شفاعت کرے۔ اللہ رب العزت اب اس بندے کو ”امین اللہ“ اور ”اسیر اللہ“ کا لقب دیتے ہیں اور جب اگلی عمر کو پہنچ جاتا ہے جسے ”اَرْذَل عمر“ کہتے ہیں تو اس کے وہ اعمال جو وہ جوانی میں کیا کرتا تھا وہ اب برابر اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں البتہ جوانی میں جو گناہ کرتا تھا وہ گناہ نہیں لکھے جاتے۔ یہ حالتِ ایمان میں بڑھاپے کی برکت ہے۔
یہ روایت حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں ذکر فرمائی ہے۔ روایت اگر چہ ضعیف ہے لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اس روایت کو مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے نقل کیا ہے۔
سفید بالوں سے حیا:
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب انسان اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو جاتا ہے، اس کے بال سفید ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کا حیا کرتے ہیں اور اسے عذاب نہیں دیں گے۔
کنز العمال: ج15 ص284 رقم الحدیث 42675
مجھے ایک ساتھی نے کہا کہ بندہ اگر سفید بالوں کے ساتھ فوت ہوجائے تو اللہ رب العزت اس کا حیا کرتے ہیں اور اسے عذاب نہیں دیتے لیکن اگر کوئی شخص سفید بالوں پر کلر لگا لے تو کیا اللہ تعالیٰ پھر بھی اس کا حیا کرتے ہیں؟
میں نے کہا کہ جب بندے کو حدیث سمجھ میں آجائے تو پھر کوئی اشکا ل نہیں ہوتا، سمجھ میں نہ آئے تو پھر اشکال ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ سمجھا کہ یہاں بال کا سفید ہونا رنگ مراد ہے حالانکہ اس سے انسان کے بڑھاپے کی عمر مراد ہے۔ اب اگر کوئی آدمی بوڑھا ہو جائے اور اس کے بال سفید ہی نہ ہوں تو پھر اس کو یہ فضیلت تو ملنی ہی نہیں چاہیے حالانکہ ایسا نہیں۔ تو سفید بالوں سے یہاں بڑھاپے کی حالت مراد ہے۔ اور ایسا ہوتا ہے کہ بعض مرتبہ بندہ بڑی عمر کا ہوتا ہے لیکن بال سفید نہیں ہوتے بلکہ سیاہ ہ رہتے ہیں۔ حضرت مولانا خالد محمود سومرو شہید رحمۃ اللہ علیہ سندھ والے مجھ سے عمر میں بڑے تھے، ان کے پوتے اور نواسے ہیں لیکن آپ دیکھیں تو ان کے سارے بال سیاہ تھے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ انہوں نے فرمایا تھا کہ بس میرے بال ہیں ہی سیاہ!
سیاہ خضاب کے علاوہ کا جواز:
اصل چیز ہوتی ہے حدیث پاک کو سمجھنا۔ کل بھی ہندوستان سے ایک عالم نے مجھ سے رابطہ کیا کہ حدیث پاک میں بال کالے کرنے کی ممانعت آئی ہے اور آپ بال کالے کرتے ہیں، اس پر کوئی ایسا جواب دیں کہ ہم مطمئن ہو جائیں۔ میں نے کہا: مطمئن ہونا تو بہت آسان ہے اگر مطمئن ہونا چاہیں تو! سورۃ الرحمٰن میں جنت کے باغات کی صفت بیان کی گئی ہے : ﴿مُدۡہَآ مَّتٰنِ ﴿ۚ۶۴﴾﴾ ․․․ پودے کا کالا ہونا کمال نہیں ہے بلکہ سبز ہونا یہ کمال ہے۔ تو وہ باغات اتنے گہرے سبز ہوں گے کہ سبز ہونے کے باوجود سیاہ نظر آئیں گے، یہ کمال ہے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میں بال کالے نہیں کرتا بلکہ براؤن کلر لگاتا ہوں، یہ براؤن کلر اتنا ڈارک اور گہرا ہوتا ہے کہ دیکھنے میں میرے بال کالے لگتے ہیں۔ تو کالا ہونا اور ہے اور کالا لگنا اور ہے۔ اب میں نے کہا کہ دلیل تو میں نے دے دی ہے، مطمئن ہوں آپ کی مرضی، مطمئن نہ ہوں آپ کی مرضی۔
پیغمبر پاک کے مخالف کا غیظ و غضب میں جلنا:
﴿مَنۡ کَانَ یَظُنُّ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡصُرَہُ اللہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ فَلۡیَمۡدُدۡ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآءِ ثُمَّ لۡیَقۡطَعۡ فَلۡیَنۡظُرۡ ہَلۡ یُذۡہِبَنَّ کَیۡدُہٗ مَا یَغِیۡظُ ﴿۱۵﴾﴾
اللہ تعالیٰ جب کسی کو نبوت عطا فرماتے ہیں تو اس نبی کی مدد بھی فرماتے ہیں۔ اس نبی کی مدد کو دیکھ کر پیغمبر کا مخالف حسد کی آگ میں مزید جلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اپنے نبی کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ وہ ایک رسی لے آسمان پر چڑھ جائے اور وہاں جا کر آنے والی وحی اور رابطے کو کاٹ ڈالے تاکہ نبوت کو ملنے والی اللہ کی مدد آنا ختم ہوجائے اور اگر یہ شخص ایسا نہیں کر سکتا تو پھر اپنے گلے میں رسی ڈال لے اور خود کشی کرکے مر جائے لیکن خدا کی مدد ختم نہیں ہو گی۔ میں نے آیت کی وہ تفسیر کی ہے جس میں ساری روایات جمع ہو جاتی ہیں کیونکہ بعض مفسرین نے یہ رائے قائم فرمائی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حاسد رسی لے کر آسمان پر چڑھے اور اوپر جا کر اللہ کی آنے والی مدد کوختم کرے یا وحی کو ختم کرے تا کہ نہ نبی ہو اور نہ مدد آئے اور بعض نے کہا کہ چھت سے رسی لٹکائے اور گلے میں ڈا ل لے اور غیظ وغضب میں آکر خود کشی کرکے مر جائے۔ تو میں نے خلاصہ عر ض کردیا ہے۔
حق ہمیشہ غالب رہتا ہے:
یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ حق ہمیشہ غالب ہو کر رہے گا اور حق اپنے راستے خود بناتا ہے۔ میں ابھی کراچی میں تھا اور وہاں ہماری خانقاہ کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ اندرون سندھ کے دورے پر میرے ساتھ مفتی محمد حسنین صاحب تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کام کے لیے پیسا نہیں بلکہ کام کےلیے بندے کا کام کا ہونا ضروری ہے۔ جب انسان کام کرتا ہے تو اللہ تعا لیٰ خوداسباب پیدا فرماتے ہیں اور کبھی کبھار آزمائش بھی آتی ہے تو اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ اسباب بھی عطا فرماتے ہیں۔
تمام مخلوق خدا کو سجدہ کرتی ہے:
﴿اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ وَ النُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیۡرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کو وہ ساری مخلوق سجدہ کرتی ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے۔نیز سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سارے انسان بھی۔
کتا صاحب ِکمال ہو گیا پر اعتراض کا جواب:
اس آیت کو بطورِ جواب کے میں نے کئی جگہوں پر پیش کیا ہے۔ ”امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق“ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے۔ مَیں ایک بار ہری پور میں تھا۔ بیان کے بعد دو نوجوان آئے۔ ان کے پاس دو تین کتا بیں تھیں۔ ان میں سے ایک امداد المشتاق بھی تھی۔ تو وہ کہنے لگے کہ امداد المشتاق میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو صریح قرآن کریم کے خلاف ہیں۔ میں نے کہا: کوئی بیان کریں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت تھانوی صاحب نے حاجی امدا د اللہ صاحب مہاجر مکی کا ایک ملفوظ لکھا ہے کہ حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی بیٹھے تھے۔ ایک کتا سامنے سے گزرا۔ جنید بغدادی کی نگاہ اس کتے پر پڑ گئی تو وہ کتا اتنا صاحبِ کمال ہو گیا کہ شہر کے کتے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ وہ کتا ایک جگہ بیٹھا تو باقی کتے اس کے ارد گرد حلقہ بنا کر بیٹھے اور مراقبہ کیا۔
امداد المشتاق: ص107
تو وہ نوجوان مجھے کہنے لگے کہ کتے کا کامل ہونا اور کتوں کا مراقبہ کرنا یہ صریح قرآن کریم کے خلاف ہے۔
میں نے کہا: جہاں تک کتے کے کامل ہو نے کی بات ہے تو اس کا ذکر تو خود قرآن میں ہے۔ اصحاب کہف تھے اور ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ قرآن کریم نے مقامِ مدح میں اصحاب کہف کے کتے کا ذکر کیا:
﴿وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالۡوَصِیۡدِ﴾
الکہف 18:18
کہ اصحاب کہف کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھا تھا۔
تو اچھا ذکر کرنا یہ کمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ باقی آپ کو شبہ اس لیے پڑا کہ آپ نے کتے کا مقابلہ انسان سے کردیا۔ جب کتا بمقابلہ انسان ہو گا تو کتا واقعی ناقص ہوگا اور جب کتا بمقابلہ کتا ہو گا تو کوئی کتا کامل ہوگا اور کوئی کتا ناقص ہوگا۔
باقی حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا تو اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ کتا؛ انسانوں سے کامل ہوگیا بلکہ وہ کتا باقی کتوں سے کامل ہو گیا۔ تو کسی بھی چیز کا مقابلہ کرنا ہو تو اس کا مقابل دیکھا جاتا ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا کس سے ہے؟
جنرل کا مقابلہ جنرل سے کریں!
ہم جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں پڑھتے تھے۔ ان دنوں جنرل ضیاء الحق کا حادثہ ہوا اور وہ شہید ہوگئے۔ ہمیں استاذ جی شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کیا اور فرمایا کہ آج ایک بہت بڑے ولی کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں سمجھتا ہو ں کہ تمہارے ذہن میں آئے گا کہ جنرل ضیاء الحق ولی کیسے تھا؟ وہ تو ڈاڑھی منڈا تھا، صاحبِ حکومت ہونے کے باوجود بھی اسلام نافذ نہیں کیا تو وہ ولی کیسے؟ پھر خود ہی جواب ارشاد فرمایا کہ آپ کو وہ ولی اس لیے نہیں لگتا کہ آپ اس کا مقابلہ اپنے اساتذہ اور شیوخ سے کرتے ہیں ۔ جب اس کا مقابلہ دوسرے صدور سے کریں کہ جو اس سے پہلے پاکستا ن کے صدر تھے، انہیں بھی دیکھ لیں اور پھر جنرل ضیا ء الحق کو بھی دیکھ لیں تو آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ وہ ولی تھا یا نہیں؟
آپ کے علاقہ میں ایک ایس ایچ او آجائے، وہ ڈاڑھی بھی منڈاتا ہو اور شراب بھی پیتا ہو۔ آپ جلسے کی منظوری لینے کےلیے اس کے پاس جائیں اور وہ کہے کہ مولاناصاحب! بیٹھیں اور چائے پییں۔ پھر وہ پوچھے کہ آپ کیسے آئے؟ آپ کہیں جی جلسہ ہے، اجازت لینے آئے ہیں، آپ اجازت دے دیں۔ایس ایچ او کہے کہ مولانا صاحب! آپ جلسہ کریں، اجازت کی بالکل پروا نہ کریں، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہم حفاظت کریں گے۔ آپ بتائیں کہ جب آپ واپس آئیں گے تو آ کر کیا کہیں گے؟ ایس ایچ او بہت گندہ ہے یا اچھا ہے؟ (اچھا ہے۔ سامعین) آپ نے کہنا ہے کہ بہت اچھا ہے۔ حالانکہ وہ تو شراب پیتا ہے تو پھر اچھا کیسے ہو گیا؟ اب آپ نے خود کہنا ہے کہ ہم جو اچھا کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایس ایچ او دین کے راستے میں رکاوٹ نہیں اور اس سے پہلے جو ایس ایچ او تھا وہ بہت خراب کرتا تھا، یہ اس کے مقابلہ میں بہت اچھا ہے۔
اسی طرح کتے کا کامل ہونا یہ انسان کے مقابلہ میں نہیں بلکہ کتے کے مقابلہ میں ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ کتا مراقبہ کرتا ہے۔ تو میں نے کہا کہ ایک ہے مراقبہ اور ایک ہے سجدہ۔ سجدے کا معنی ہوتا ہے پیشانی زمین پر رکھنا اور مراقبہ کا معنی ہوتا ہے کہ پیشانی کو جھکادینا۔ قرآن تو کتے کے سجدے کی بات کرتا ہے اور تم کہتے ہو کہ مراقبہ قرآن کے خلاف ہے؟ اس نوجوان نے کہا: قرآن میں کہاں پر ہے کہ یہ چوپایہ بھی سجدہ کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ سورۃ الحج میں ہے :
﴿اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ وَ النُّجُوۡمُ وَ الۡجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ کَثِیۡرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾
الحج 22: 18
کہ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کو وہ ساری مخلوق سجدہ کرتی ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے۔نیز سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سارے انسان بھی۔
تو قرآن
﴿وَ الدَّوَآبُّ﴾
کہتا ہے کہ چوپائے بھی خدا کو سجدہ کرتے ہیں اور تم کہتے ہو کہ یہ مراقبہ بھی نہیں کرتے۔ اب بتاؤ کہ امداد المشتاق قرآن کے خلاف کیسے ہوئی؟ اس پر وہ نوجوان لاجواب ہو گئے۔ ماننا نہ ماننا الگ بات ہے۔
جنتی مردوں کا کنگن پہننا:
﴿اِنَّ اللہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ لُؤۡلُؤًا ؕ وَ لِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ ﴿۲۳﴾﴾
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اللہ تعالیٰ انہیں ایسے باغات میں داخل فرمائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہاں انہیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتیوں کے۔ ان باغات میں ان کا لباس ریشم ہو گا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ جنت میں سونے کے کنگن پہنائیں گے اور موتیوں کے کنگن پہنائیں گے اور سورۃ الدھر میں ہے:
﴿وَّ حُلُّوۡۤا اَسَاوِرَ مِنۡ فِضَّۃٍ﴾
الدھر76: 21
کہ ان کو چاندی کے کنگن پہنائیں گے۔
تو تین قسم کے کنگن اہلِ جنت مردوں کو پہنائیں جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کنگن تو زیور ہے اور زیورات عورتیں پہنتی ہیں۔ یہاں جنتی مردوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں کنگن پہنائے جائیں گے حالانکہ مردوں کا زیورات پہننا معیوب ہوتا ہے تو ان کو کیوں پہنائے جائے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے عام لوگوں کا لباس اور ایک ہوتا ہے بادشاہوں کا لباس۔ عام لوگ تاج نہیں پہنتے لیکن بادشاہ تاج پہنتے ہیں کیونکہ یہ شاہی اعزاز ہوتا ہے، دنیا میں عام لوگ کنگن نہیں پہنتے لیکن بادشاہ پہنتے ہیں کیونکہ یہ بھی شاہی اعزاز ہوتا ہے، تو جنتی مردوں کو بھی جنت میں جو کنگن پہنائے جائیں گے تو یہ شاہی اعزاز کی وجہ سے ہو گا اور شاہی اعزاز کی وجہ سے کنگن پہننا معیوب نہیں بلکہ عزت کی بات ہے۔
کنگن پہننا شاہی اعزاز ہے:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ ہجرت کر کے جا رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے اعلان کیا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سر کی قیمت سو سو اونٹ ہیں۔ انہیں کوئی زندہ لائے یا ان کا سر لائے تو اسے سو اونٹ ملیں گے۔ تو جو انعام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھا وہی انعام صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر رکھا۔ دشمن بھی جانتا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہمیت کتنی ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر کی قیمت کا لگ جانا یہ عیب نہیں ہے بلکہ یہ پیغمبر کی سنت سے ثابت ہے، ہم اس کو اعزاز نہیں سمجھتے اس لیے اس پر بہت پریشان ہوتے ہیں۔ تو کئی لوگ ان کی تلاش میں نکلے۔ سراقہ بن مالک بھی نکلے۔ اس وقت تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ان کا گھوڑا بحکم خداوندی گھٹنوں سمیت زمین میں دھنس گیا۔ انہوں نے یہ معاملہ دیکھ کر توبہ کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے گھوڑا نکل آیا۔ اس وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بشارت دی کہ سراقہ ایک وقت آئے گا کہ فارس کے بادشاہ کسریٰ کے کنگن مالِ غنیمت میں مسلمانوں کے پاس آئیں گے جو تمہیں ملیں گے۔
سراقہ بن مالک رضی للہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا۔ فارس فتح ہو گیا اور کسریٰ کا مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے پاس آیا تو سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ بادشاہ کے کنگن مجھے دے دیں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ وہ کنگن تمہیں ملیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مال غنیمت جمع کرو، جمع کیا تو اس میں کنگن نہیں تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کنگن لاؤ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا اس لیے اس میں کنگن ضرور ہوں گے۔ جب کچھ بوریوں کو جھاڑا گیا تو ان میں سے کنگن نکل آئے۔ چنانچہ وہ کنگن حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کو دے دیے گئے۔
اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ بادشاہ کنگن پہنتے تھے۔ تو جنت کا ماحول بھی بادشاہوں کی طرح ہوگا۔ ہر آدمی کی اپنی جنت ہو گی اور وہ اس کا بادشاہ ہوگا۔ ایسا بادشاہ کہ
﴿وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾﴾
حٰم السجدۃ 41: 31
یعنی بندہ جس چیز کی خواہش کرے گا اور جو مانگے گا اسے وہی ملے گا۔ تو بادشاہ تاج بھی پہنتے ہیں اور کنگن بھی پہنتے ہیں اس لیے جنت میں کنگن پہننا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
دین کی فہم بہت بڑی نعمت ہے:
یہ بات میں پہلے بھی سمجھا چکا ہو ں کہ دین کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ جو آواز لگتی ہے کہ دل تھوڑا سا بڑا رکھو! کسی اور کو بھی جنت میں جانے دو! اللہ کی جنت بہت بڑی ہے! صرف تم نے ہی جنت میں جانا ہے؟ کیا اتنی بڑی جنت کا خدا نے اچار ڈالنا ہے؟! -العیاذباللہ - یہ نا سمجھی کی بات ہے۔ سب سے آخری شخص جو جنت میں جائے گا اس کی جنت دنیا سے دس گنا بڑی ہوگی لیکن اس دس گنا بڑی جنت میں بندہ ایک ہی ہو گا، دو نہیں ہوں گے۔ کوئی فرشتہ یہ نہیں کہے گا کہ یا اللہ! دنیا سے دس گنا بڑی جنت ہے، اس میں دو چار اور بندے بھی اس میں بھیج دیں! ایسا نہیں ہو گا بلکہ اس میں صرف ایک ہی بندہ ہو گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ شاید جنت کمروں کا نام ہے کہ ایک جنت ہے جس میں ہزاروں کمرے ہیں، تم نے جانا ہے تو چلو دو چار بندے اور بھی ساتھ ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟! ایک کمرے میں اکیلا بندہ نہ ہو بلکہ دو بندے سو جائیں۔ یاد رکھو! جنت رہنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ عیش کی جگہ ہے، رہنے کی جگہوں پر گزارا کرناہوتا ہے اور عیش کی جگہوں پر گزارا نہیں ہوتا بلکہ وہاں من مانی کی زندگی ہو تی ہے۔
یہ بات یاد رکھ لیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دنیا میں سونے اور چاندی کے برتن میں پیے گا اللہ اس کو آخرت میں برتن نہیں دے گا، جو شخص دنیا میں ریشم استعمال کرے گا اللہ اسے آخرت میں ریشم نہیں دے گا، جو شخص دنیا میں شراب پیے گا اللہ اسے آخرت میں شراب نہیں دے گا۔
سنن الترمذی، رقم: 1861، 1878
تو جنت کے احوال الگ ہیں اور دنیاکے احوال الگ ہیں۔ وہاں اگر مرد کنگن پہنیں گے تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ جہان ہی الگ ہے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ دل بڑا رکھو! کسی اور کو بھی جنت میں جانے دو! تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ جنت میں آدمی ایسے رہے گا جیسے سلطنت کا بادشاہ اور سلطنت کا بادشاہ ایک ہوتا ہے یا دس ہوتےہیں؟ (ایک ہوتا ہے۔ سامعین) آپ کسی دنیا کے بادشاہ سے کہیں نا کہ دل بڑا رکھو! بادشاہ اپنی سلطنت میں کسی اور کو برداشت نہیں کرتا، ہاں مہمان بن کر آؤ تو ٹھیک ہے تو جنتی ایک دوسرے سے ملیں گے، آئیں جائیں گے، بتاؤ یہ آنا جانا رہنے کےلیے ہو گا یا مہمان نوازی کےلیے؟ (مہمان نوازی کےلیے۔ سامعین) مہمان بن کر آؤ تو ٹھیک ہے۔ یہ میں نے دفع دخل مقدر کیا ہے تاکہ اشکال سارے ختم ہو جائیں۔
حورانِ جنت کا تذکرہ:
دنیا کے بادشاہوں کی کنیزیں ہو تی ہیں اور جنتی جنت میں بادشاہ ہو ں گے جن کی کئی باندیاں ہوں گی یعنی جنت کی حوریں۔ کتنی راحت، سکون اور آرام کی جگہ ہو گی جنت! بس دنیامیں تھوڑا سا ضبط کر لوتو آگے مزے ہی مزے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ نے حور کی اٹھارہ صفات بیان فرمائی ہیں اور حدیث مبارک میں تو جماع اور جماع کی کیفیات تک کو بیان کیا ہے کہ جنتی حور کے پاس کیسے جائے گا! اللہ نے حوروں کا حسن بیان کیا ہے، دنیا والی بیوی کا حسن بیان نہیں کیا، یہ تو وہاں جنت میں حوروں کی ملکہ ہو گی، اس کے حسن کو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ خیر جنت میں سونے کے کنگن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عطا فرمائے۔ (آمین)
حرم؛ امن و سلامتی کی جگہ
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ الَّذِیۡ جَعَلۡنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآءَۨ الۡعَاکِفُ فِیۡہِ وَ الۡبَادِ﴾
مسجد حرام وہ جگہ ہے جو باہر سے آنے والے اور وہاں کے رہنے والے سب کے لیے برابر ہے۔ مسجد حرام اور حرم کی وہ جگہ جس کا تعلق افعالِ حج کے ساتھ ہے دنیا میں کسی کی ملکیت نہیں ہے جیسے صفا ومروہ کے درمیان کی جگہ، طواف کرنے کی جگہ مطاف، مزدلفہ کا میدان، منی کا میدان، عرفات کا میدان وغیرہ۔
حضرت ابراہیم کا کعبہ تعمیر کرنا:
﴿وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرٰہِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ اَنۡ لَّا تُشۡرِکۡ بِیۡ شَیۡئًا وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ ﴿۲۶﴾﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے وہ جگہ بتا دی جہاں احاطہ کعبہ تھا یعنی خانہ کعبہ کی جگہ بتائی کہ اس کو تعمیر کرو۔ اس کی پہلی تعمیر تو حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں جب طوفان آیا تھا تو کعبہ کی ہ تعمیر اٹھا لی گئی تھی البتہ اس کی بنیادیں اور وہ جگہ متعین تھی۔ یہ حکم
﴿وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ﴾
کہ میرے گھر بیت اللہ کوطواف کرنے والوں، عبادت کے لیے کھڑے ہونے والوں اور رکوع سجدے کرنے والوں کے لیے پاک رکھیے! یہ نام اس وقت دیا گیا تھا جب بیت اللہ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیت اللہ در ودیوار کا نام نہیں بلکہ اس جگہ اور زمینی ٹکڑے کا نام ہے جس پر بیت اللہ کی تعمیر ہوئی ہے۔ ظاہر ہے وہ جگہ اس وقت بھی موجود تھی جب یہ حکم ہوا تھا۔
حضرت ابراہیم کا اعلانِ حج:
﴿وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ ﴿ۙ۲۷﴾﴾
اور پھر فرمایا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں اور دور کے راستوں سے ان سواریوں پر سوار ہو کر آئیں جو لمبے سفر کی وجہ سے دبلی پتلی ہو گئی ہوں۔
روایات میں ہے ابراہیم علیہ السلام مقام ابراہیم پر پتھر پر کھڑے ہو ئے اور اللہ نے پتھر کو بہت اونچا کردیا کہ اب آواز لگاؤ! بعض روایا ت میں ہے جبل ابو قبیس پر کھڑے ہو کر آواز لگاؤ۔ دونوں روایتیں جمع ہو سکتی ہیں کہ آپ پہلے مقام ابراہیم پر پتھر پر کھڑے ہوئے اور وہ پتھر جبل ابوقبیس پر چلا گیا ہو۔ تو اللہ نے فرمایا کہ اعلان کرو! عرض کیا: یا اللہ! یہاں تو ویرانہ ہے، کون سنے گا اور جہاں آبادی ہے وہاں میری آواز کیسے پہنچے گی؟ اللہ نے فرمایا: آواز لگانا آپ کے ذمہ ہے اور آپ کی آواز کوساری دنیا میں پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے مشرق، مغرب، شمال، جنوب چاروں طرف منہ کرکے آواز لگائی کہ خانہ کعبہ بن گیا ہے، حج کرنے کےلیے آؤ! یہ آواز اللہ نے -بعض روایا ت میں ہے کہ- عالم ارواح میں جو روحیں تھیں ان کے کانوں تک بھی پہنچائی۔ جس جس کے مقدر میں حج کرنا لکھا تھا اس اس نے جواب دیا۔
مرکز کی بنیاد اور مشکلات کا سامنا:
جب ہم نے یہاں مرکز اھل السنۃ والحماعۃ کا کام شروع کیا تو چھوٹی سی جگہ تھی۔ میں نے کہا کہ دو بیت الخلاء بناؤ! میرے ساتھ مجھ سے چھوٹے بھائی شعیب اور ان سے چھوٹے بھائی خبیب تھے۔ ہم تازہ تازہ جیلوں سے نکلے ہوئے تھے، ستم رسیدہ تھے، غمزدہ تھے، کوئی پرسان حال بھی نہیں تھا، کوئی ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے کےلیے تیار بھی نہیں تھا۔ تو میں نے کہا کہ یہاں دو بیت الخلا بناؤ۔ مجھ سے چھوٹے بھائی شعیب نے کہا کہ دو بنا کے کیا کرنا ہے؟ تو بھائی خبیب نے بھائی شعیب سے کہا کہ پیسے تو بھائی جان نے لگانے ہیں، تمہیں کیا ضرورت ہے انکار کرنے کی؟ تم بنا دو۔ بھائی جان نے پہلے دنیا کا بہت ظلم سہا ہوا ہے، ہمارا بھائی ہے، جو کہتا ہے وہی کر دو، اس ایک کو تو خوش رکھو، نہ ہمارے پاس باپ ہے نہ ہمارے پاس خاندان ہے نہ جماعت ہے نہ پیسا ہے، کچھ بھی نہیں ہے، ایک بھائی بچتا ہے ہمارے پاس․․․ خیر میں بتا رہا تھا کہ وہ دو بیت الخلاء بنانے کے لیے تیار نہیں تھے کہ یہاں آئے گا کون؟ لیکن آپ آج مرکز کا نظام دیکھو اور لوگوں کا رجوع دیکھو! اب حالت یہ ہے کہ بیت الخلاء بہت ہیں لیکن پھر بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
ہم نے یہاں کام شروع کیا۔ میں دنیا کے نقشے بنا کر بیٹھتا تھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والے میرا مذاق اڑا تے اور کہتے کہ جیل میں رہ رہ کر مار کھا کھا کر اس کا دما غ ہل گیا ہےاور یہ کہتا ہے کہ میں نے پوری دنیا میں کام کرنا ہے۔ میں ان کی باتوں پر پھر یہ آیت پڑھتا تھا ﴿وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ﴾ میں نے ان سے کہا کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ لوگوں میں آواز لگاؤ۔ میں بھی آج کام کی آواز لگاتا ہوں، اگر اللہ کو منظور ہوا تو ہماری یہ آواز دنیا کے کچے پکے گھر تک پہنچے گی اور پھر ہم نے آواز لگائی۔
جب ہم نے کام شروع کیا تھا تو میں بس پر سفر نہیں کرتاتھا، میں ہمیشہ رینٹ کی کار لے کر جاتا، کبھی کسی سے کرایہ کا مطالبہ بھی نہیں کرتا تھا، میں نے کہا: یا اللہ! بس والی خطابت ہم سے نہیں ہوتی، ہماری ٹکر دشمن سے ہے، اللہ تو اپنے کرم سے اسباب عطا فرما۔ ہمارے ساتھ ڈرائیور میاں مشتاق ہے، یہ بدعتی تھا، اب الحمد للہ بہت بدل گیا ہے، اس کی گاڑی تھی میں ہفتہ ہفتہ اس کو ساتھ رکھتا تھا، اب اللہ نے اس کو دو اپنی گاڑیاں دے دیں۔ ہمارے ساتھ جو بھی ملا ہے اللہ نے اس کو بہت نوازاہے۔ میں آپ کو بھی گارنٹی کے ساتھ کہتا ہو ں کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں لیکن چلیں اخلاص سے، تو تھوڑی دیر لگے گی، آپ دیکھنا کہ اللہ نوازتا کیسے ہے!
ہم یہاں سے چلے مظفر آباد کشمیر، ایک ہفتہ کا دورہ تھا، اس کی بیوی کا فون آتا کہ کب واپس آرہے ہیں تو یہ مذاق میں بیوی سے کہتا کہ ہم دین پھیلا رہے ہیں، بس ایک پہاڑ رہ گیا ہے اس کے پار دین پہنچا کر واپس آ جائیں گے اور مجھے مذاق میں کہتا کہ مولوی صاحب! بس پوری دنیا میں آپ ہی نے دین پھیلانا ہے اور کوئی نہیں ہے دین پھیلانے والا؟ میں اسی رینٹ کی گاڑی پر سندھ تک جایا کرتا تھا اور کرایہ کسی سے نہیں مانگتا تھا، بس چلتے رہے۔
اللہ اس سے بھی بڑی گاڑی دے :
میں ایک مرتبہ جنوبی پنجاب دورہ پر تھا۔ مولانا زبیر صاحب شجاع آبادی جنوبی پنجاب وفاق کے مسئول ہیں، میں نے پوچھا کہ کہاں پر ہیں؟ کہا: ملتان وفاق المدارس کے دفتر میں ہوں۔ میں نے کہا: میں بھی ابھی ملتا ن میں ہوں اور آگے سفر پر جا رہا ہوں۔ میں اور مولانا ایک ہی مدرسے میں پڑھتے رہے ہیں، وہ مجھ سے آگے تھے اور میں پیچھے تھا، وہ مجھ سے بڑے ہیں اور میں چھوٹاہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میں ایک جلسے پر لودھراں جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: میں نے بھی اس جلسہ میں جانا ہے۔ میں نے کہا کہ میری گاڑی میں آ جائیں، گپ شپ لگائیں گے، آپ کی گاڑی پیچھے آ جائے گی۔ تو باتوں باتوں میں میں نے تذکرہ کیا کہ میں نے آج تک کسی جلسہ والے سے پیسہ نہیں مانگا، دیں․․․ نہ دیں․․․ تھوڑا دیں ․․․ زیادہ دیں․․․ ان کی مرضی۔ مولانا مجھ سے فرمانے لگے کہ نہ مانگنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس وہ گاڑی ہے جو مانگنے والے خطیبوں کے پاس بھی نہیں ہے، اور ہماری خواہش ہے کہ اللہ اس سے بھی بڑی گاڑی دے۔
قربانی کے صرف تین دن ہیں:
﴿وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ﴾
متعین دنوں میں ان مخصوص چوپائیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ یہ مخصوص دن دس، گیا رہ اور بارہ ذوا لحجہ ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"فَا لْمَعْلُوْمَاتُ یَوْ مُ النَّحْرِ وَیَوْ مَانِ بَعْدَہُ."
تفسیرابن ابی حاتم الرازی: ج6، ص261
کہ ایام معلومات سے مراد یوم نحر یعنی دس ذوا لحجہ اوراس کے بعد دو دن ہیں یعنی گیارہ اور بارہ ذوا لحجہ۔ یوں قربانی کے کل دن تین بنتے ہیں۔
﴿لَنۡ یَّنَالَ اللہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ﴾
اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ کے ہاں تمہارا تقویٰ اور اخلاص پہنچتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ ہم جو قربانی کرتے ہیں اس سے مقصود جانور کو ذبح کرنا ہے۔ جانور کا گوشت مقصود نہیں ہے۔ لہذا قربانی کرنے والا شخص اگر جانور کا سارا گوشت خود کھا لے، جانور کی کھال کا مصلی بنا لے تو قربانی کے اجر میں معمولی سا فرق بھی نہیں آئے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ جو اجر قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے پر ہے وہ نہیں ملے گا اور غریبوں کی ہمدردی کا عنوان ختم ہو جائے گا، مروت کے خلاف ہو گا اور مزاج شریعت کے بھی خلاف ہو گا لیکن اگر کوئی شخص سارا گوشت استعمال کرنا چاہے تو کر سکتا ہے کیونکہ مقصد جانور کو ذبح کرنا ہے، مقصد جانور کا گوشت تقسیم کرنا نہیں ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے تو پھر یہ اشکا ل خود بخود ختم ہو جائے گا جو بعض لو گ کرتے ہیں کہ قربانی کے دن جانور ذبح کرنے کے بجائے اگر ہم جانور کی قیمت کو صدقہ کردیں تو غریبوں کا فائدہ زیا دہ ہو گا! کروڑوں جانور ایک دن میں ذبح ہو تے ہیں۔ اگر ہم ان کروڑوں جانوروں کے پیسوں سے جو اربو ں کی مقدار میں بنتے ہیں یتیم خانہ بنا دیں، اسکو ل بنا دیں، شفا خانہ بنا دیں، فلاحی سینٹر بنا دیں، مدرسہ بنا دیں، غریب بچیوں کے نکاح کرادیں تو کتنا کام ہو سکتا ہے اور ہم جانور ذبح کرکے اس مال کو ختم کردیتے ہیں۔
اس کا جواب ہے:
﴿لَنۡ یَّنَالَ اللہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ﴾
کہ گوشت تو مقصود ہی نہیں ہے، اللہ تو صرف چاہتے ہیں کہ جانور کو ذبح کرو اور بس! یہی مقصود ہے۔ با قی دیگر ضروریات کے لیے شریعت کا ایک مستقل نظام ہے۔ ایک حکم زکوٰۃ کا ہے۔ اب ہر آدمی جو صاحب نصاب ہے اگر مکمل زکوٰۃ ادا کردے تو لوگوں کی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی۔ اس کے بعد پھر عشر ہے، وہ ادا کیا جائے۔ پھر صدقۃ الفطر ہے وہ اد ا کریں۔ پھر صدقات نافلہ ہیں وہ اداکیے جائیں۔ یہ سارے صدقات صحیح طریقے سے ادا ہوجائیں تو لوگوں کی تمام ضرورتیں پوری ہو جائیں گی اور کوئی اشکال پیدا ہی نہ ہوگا ۔
اللہ رب العزت چاہتے ہیں کہ بندہ مالی قربانی بھی دے یعنی اگر سونا چاندی اور مال تجارت ہے تو زکوٰۃ دے، اگر زمین ہے تو پیداوار سے عشر دے اور اگر جانور ہیں جن پر زکوٰۃ آتی ہے تو ان میں سے زکوٰۃ ادا کردے اور اس کے علاوہ بھی اللہ کے نام پر دے۔تو اللہ رب العزت ہر قسم کی قربانی ہم سے مانگتے ہیں۔
صحابہ کرام کو جہاد کی اجازت:
﴿اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلی آیت جو جہاد اور قتال کے بارے میں نازل ہوئی وہ یہی آیت ہے :
﴿اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا﴾
،مکہ مکرمہ میں مشرکینِ مکہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حد سے زیادہ ظلم کیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم تھا کہ
﴿کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ﴾
النساء 4: 77
اپنے ہاتھ روکے رکھو، تم نے ابھی قتال نہیں کرنا، جہاد نہیں کرنا بلکہ تم نے صبر کرنا ہے۔ تو مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سختیاں برداشت کرتے رہے، مصائب جھیلتے رہے اور مقابلہ نہیں کیا۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ہمیں اجازت ملے کہ ہم مشرکین کو جواب دیں۔ تو مدینہ منورہ آنے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ لوگ جن پر ظلم کیا گیا ان کو اجازت ہے کہ وہ قتال کریں اور یہ یقین کریں کہ اللہ رب العزت ان کی مدد کرنے پر قادر ہیں۔ وہ یہ نہ دیکھیں کہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں، ہمارے پاس اسباب کم ہیں بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں نکلیں۔
اس لیے تاریخ اسلام میں سب سے پہلی با ضابطہ جنگ جو کفر اور اسلام کے درمیان ہوئی وہ جنگ بدر ہے۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور کفار کی تعداد ایک ہزار تھی۔ ان کی افرادی طاقت بھی زیادہ تھی اور اسلحہ بھی زیادہ تھا۔ اس کے باوجود اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ اس موقع پر ستر بڑے بڑے کافر قتل ہوگئے اور مشرکین مکہ کی کمر ٹوٹ گئی۔
کیا جہاد کے لیے ایمان مضبوط ہونا شرط ہے:
یہاں ایک مسئلہ بھی اچھی طرح سمجھیں۔ بعض لوگ جہاد کے فرض ہونے کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ جہا د فرض تب ہوگا جب ایمان بہت مضبوط ہو اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک ایمان بنانے کی کوشش ہوئی اور اس کے بعد مدینہ منورہ میں جہاد فر ض ہوا۔
اگر 3مان لیا جائے کہ یہ دلیل ٹھیک ہے تو اس سے شریعت کے تقریباً نوے فیصد سے زیادہ احکام ختم ہوجائیں گے کیونکہ احکام مکہ مکرمہ میں نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں صرف نماز فرض ہوئی ہے باقی نماز کی تفصیلات، پانچ وقت جماعت کا اہتمام وغیرہ یہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئے۔ حج فرض ہورہا ہے سن 8 ہجری میں۔ تو اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ تیرہ سال مکہ میں گزارنے کے بعد مدینہ میں جہاد فرض ہوا اس لیے فرضیت جہاد کے لیے ایمان مضبوط ہونا ضروری ہے تو پھر یہ بھی کہنا پڑے گا کہ حج ہجرت کے آٹھ سال بعد فرض ہوا، تیرہ سال مکے والے اور آٹھ سال مدینہ والےیہ کل ملا کر اکیس سال ہوئے تو پھر جہاد کی فرضیت کے لیے ایمان تھوڑا چاہیے اور حج کی فرضیت کے لیے ایمان زیادہ چاہیے کیونکہ حج تو اس کے بھی بعد فرض ہوا ہے۔ اسی طرح زکوۃ کب فرض ہوئی․․․ پردہ کب فر ض ہوا․․․ شراب کب حرام ہوئی․․․ تو بہت سی چیزیں ہیں جن کا حکم مدینہ میں آیا۔ تو پھر ان سب کو ماننے کے لیے ایمان کی مضبوطی کی شرط لگانا ہو گی۔ اس لیے یہ دلیل انتہائی غلط ہے۔
دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ!
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں کہ قرآن کریم میں ہے :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً﴾
البقرۃ2: 208
اے ایمان والو! دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ!
جب کلمہ پڑھا ہے تو آپ کو پورے اسلام میں داخل ہونا پڑے گا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب یہ فرض ہے یہ فرض نہیں ہے، ہمارا کرنا یا نہ کرنا الگ مسئلہ ہے اور جہاد کا فرض ہونا یا نہ ہو نا الگ مسئلہ ہے۔ اب اگر کسی شحص سے آپ کہیں کہ حج کرو! وہ کہتا ہے کہ میں حج نہیں کرتا۔ آپ اس سے پوچھیں کہ حج کیوں نہیں کرتے؟ وہ کہتا ہے کہ حج کب فرض ہوا؟ آپ کہتے ہیں کہ 8 ہجری میں۔ وہ کہتا ہے کہ پہلے ایمان کی محنت ہے، میرا ایمان ابھی تک اس حالت پر نہیں کہ حج فر ض ہوجائے۔ تو جہاد پہلے فرض ہوا ہے اور حج بعد میں فرض ہوا ہے، ہر سال لاکھوں بندے حج پر چلے جاتے ہیں تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ حج پر جانے کے لیے پہلے تیرہ سال کی محنت چاہیے تو جہاد کا کیا قصور ہے کہ اس کے لیے ایسی باتیں کی جائیں۔ اس لیے یہ دلیل پیش نہ کریں۔ بس سیدھی سی بات کریں کہ جہاد فرض ہے۔ ہم جہاد نہیں کرتے تو اپنا فسق بیان کریں کہ ہم نہیں کرتے، اپنے فسق کو چھپانے کے لیے اور اپنا جھوٹا تقویٰ بیان کرنے کے لیے احکاماتِ شریعت کو تبدیل نہ کریں۔
حضرت بشیر بن خصاصیہ اور بیعت علی الجہاد:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی ہم کمزور ہیں۔ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ”حیات الصحابہ رضی اللہ عنہم“ کتاب لکھی ہے۔ اس میں ایک عنوان قائم کیا ہے : ”اعمالِ اسلام پر بیعت ہونا“
ایک ہوتی ہے ”بیعت اسلام“ کہ کافر بیعت کریں اور مسلمان ہوجائیں اور ایک ہوتی ہے ”بیعت جہاد“ کہ مسلمان بیعت کریں کہ ہم مرجائیں گے لیکن ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور ایک بیعت ہوتی ہے ”بیعت علی ارکان الاسلام“ کہ ہم بیعت کرتے ہیں کہ شریعت کے احکام پر عمل کریں گے۔ یہ بیعت آج بھی ہوتی ہے۔
تو حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی”اعمالِ اسلام پر بیعت ہونا“ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ صحابی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں نے بیعت کرنی ہے،آپ مجھے کن چیزوں پر بیعت کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت میں چھ چیزیں گنوائیں:
اس بات کی گواہی دو اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں،پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرو۔ فرض زکوٰۃ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔ بیت اللہ کا حج کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔
حضرت بشیر بن خصاصیہ نے کہا: یا رسول اللہ! میں باقی کام تو کر لوں گا لیکن جہاد اور زکوٰۃ میرے لیے مشکل ہیں، میں یہ دو کام نہیں کر سکتا۔ ایک تو زکوٰۃ ادا نہیں کر سکتا کیونکہ میرے پاس دس اونٹنیاں ہیں، ان کے دودھ پر ہی ہمارا گزارا ہوتا ہے اور یہی ہماری سواری کے کام بھی آتے ہیں اور دوسرا جہاد نہیں کر سکتا کیونکہ میں بزدل آدمی ہوں، لوگوں سے سنا ہے کہ جو میدان جہاد سے پشت پھیرے گا تو وہ اللہ کے غضب کا مستحق قرار پائے گا، مجھے خوف ہے کہ اگر میں دشمن سے لڑتے لڑتے میدان جنگ سے بھاگ گیا تو کہیں اللہ کے عذاب کا مستحق نہ بن جاؤں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور فرمایا: اے بشیر! جب تم زکوٰۃ بھی نہیں دو گے اور جہاد بھی نہیں کرو گے تو جنت میں کیسے جاؤ گے؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیعت نہیں فرمایا۔ حضرت بشیر بن خصاصیہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں آپ سے بیعت ہوتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو حضرت بشیر بن خصاصیہ نے ان تمام چھ کی چھ باتوں پر بیعت کی۔
حیات الصحابہ: ج1 ص367
مشروعیت جہاد کی وجہ:
مکہ مکرمہ میں جہاد فرض نہیں تھا مدینہ منورہ میں فرض ہوا اور اس کی وجہ اللہ رب العزت نے یہ بیان کی ہے:
1: ﴿اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا﴾
جہاد کی اجازت ہے اس لیے دی ہے کہ تم مظلوم ہو۔
2: ﴿الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللہُ﴾
نیز یہ اجازت اس لیے ہے کیونکہ تم کو کفار نے مکہ سے نکال دیا ہے، تمہارے گھرو ں سے نکال دیا گیا ہے، تمہیں ہجرت پرمجبورکیا گیا ہے، اب تم بھی بدلہ لے لو۔
﴿وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللہِ کَثِیۡرًا﴾
دنیا میں چار قسم کی جگہیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نام لیا ہے:
1:
”صَوَامِعُ“
یہ
صَوْمَعٌ
کی جمع ہے۔ عیسائیوں کے ان راہبوں کی مخصوص عبادت گاہ کا نام ہے جو دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ یہ راہب ان خلوت خانوں میں قیام پذیر ہو کر اپنی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
2:
”وَبِيَعٌ“
یہ
بیعۃ
کی جمع ہے، عیسائیوں کی عام عبادت گاہ کو بیعۃ کہتے ہیں۔ اسے کنیسہ اور گرجا بھی کہتے ہیں۔
3:
”صَلَوٰتٌ“
اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جہاں یہودی عبادت کرتے ہیں۔
4:
”مَسٰجِدُ“
یہ مسجد کی جمع ہے، وہ جگہ جہاں مسلمان عبادت کرتے ہیں۔
تو اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ان عبادات گاہوں کا تحفظ تب ہوگا جب مسلمان جہاد کریں گے، جہاد نہیں کریں گے تو عبادت گاہوں کا تحفظ نہیں ہوگا۔ آج بھی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جو ہم سب کا ماویٰ اور ملجا ہے لوگ اس پر میزائل گرانے کا سوچ رہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ حرمین کو ختم کریں مگر ان شاءاللہ حرمین ختم نہیں ہو گا، مکہ بھی رہے گا اور مدینہ بھی رہے گا، ان شاءاللہ ان کے ماننے والے بھی رہیں گے۔ یہ سب ان لوگوں کی حماقتیں ہیں․․ جہالتیں ہیں․․ غفلتیں ہیں․․ اپنی دنیا وآخرت تباہ کرنے والی باتیں ہیں۔ قرآن کریم نے کعبہ کو
﴿قِیٰمًا لِّلنَّاسِ﴾
المائدۃ 5: 97
کہا ہے کہ لوگوں کی دنیا میں رہنے کی وجہ یہ کعبہ ہے۔ جب کعبہ ختم ہوجائےگا اللہ تعالیٰ کائنات کا نظام ہی ختم کر دیں گے۔ تو جب تک کعبہ ہے ہم بھی موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کعبہ کی حفاظت فرمائیں اور ہم اس حفاظت کے لیے استعمال ہوجائیں تو یہ اللہ کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے۔ اس لیے فر مایا کہ جب تک یہ جہاد ہوگا عبادت گاہوں کا تحفظ ہوگا اور جب جہاد نہیں ہوگا تو عبادت گاہوں کا تحفظ بھی نہیں ہوگا۔
حکومت اسلامی کے بنیادی کام:
﴿اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾﴾
اب اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہم نے جہاد کی اجازت دی ہے کیونکہ ان پہ ظلم ہوا تھا اور ان کو گھر سے نکالا گیا تھا تو جب یہ جہاد کریں گے اور ان کو حکومت ملے گی تو یہ لوگ چند کام کریں گے:
1:
﴿اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ﴾
لوگو ں سے نماز کی پابندی کروائیں گے۔
2:
﴿اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ﴾
زکوٰۃ کا نظام قا ئم کریں گے۔
3:
﴿اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ﴾
نیکی کا حکم دیں گے۔
4:
﴿نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ﴾
گناہوں سے روک دیں گے۔
معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت کے بنیادی طور پر چار کام ہیں؛ لوگوں سے نمازوں کا اہتمام کروائیں، لوگوں سے زکوٰۃ کا اہتمام کروائیں۔ ان سے نیک کام کروائیں اور انہیں گناہوں سے روک دیں۔
خلفائے راشدین کا سنہری دور:
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض لوگوں نے خلیفہ وقت کو زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے زکوٰۃ کا انکار نہیں کیا بلکہ خلیفہ وقت کو زکوٰۃ دینے سے انکارکیا ہے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم زکوٰۃ خود ادا کریں گے،آپ کو نہیں دیں گے کیونکہ ہم لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انہی کو دیتے تھے، حضور دنیا سے چلے گئے تو اب آپ کو کیوں دیں؟ ان کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لَوْ مَنَعُوْنِيْ عِقَالًا كَانُوْا يُؤَدُّوْنَهُ إِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلٰى مَنْعِهٖ․
صحیح البخاری، رقم: 7284
اللہ کے نبی کے دور میں جو لوگ زکوٰۃ میں ایک رسی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے اگر وہ مجھے نہیں دیں گے تو میں ایک رسی پر بھی ان سے جہا د کروں گا۔ زکوٰۃ کا معاملہ اتنا اہم ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عُمَّال اور گورنروں کو خط لکھتے تھے۔ فرماتے کہ نماز کا بہت اہتمام کیاکرو۔ اگر کسی گورنر اور عامل کی نماز ٹھیک ہے تو باقی سب معاملات ٹھیک ہیں، نماز ہی ٹھیک نہیں تو باقی چیزیں ہم نہیں دیکھتے او رقیامت کے دن بھی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے نامہ اعمال میں نماز کو دیکھیں گے تو حاکم وقت کی ذمہ داری ہے کہ نیکی پر لوگوں کو مجبور کر دیں اور گناہوں سے جبراً روک دیں۔
ایک ہے میرا اور آپ کا کام․․․ ہم جبر نہ کریں بلکہ ہم منت سماجت کریں، فضائل سنائیں جیسے ہم تبلیغ کرتے ہیں لیکن حاکم وقت امر بالمعروف کرتا اور نہی عن المنکر کرتا ہے۔ دو باتو ں میں فرق اچھی طرح سمجھ لیں۔
فضائل، دلائل اور ترغیب سے کسی کو دین پر لانا یہ امر بالمعروف نہیں ہے، اسی طرح فضائل، دلائل اور تر غیب سے کسی کو گناہ سے روکنا یہ نہی عن المنکر نہیں ہے بلکہ یہ وعظ و نصیحت ہے، دعوت ہے، تبلیغ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کسے کہتے ہیں؟ امر کہتے ہیں:
”قَوْلُ الْقَائِلِ لِغَیْرِہٖ عَلٰی سَبِیْلِ الْاِسْتِعْلَاءِاِفْعَلْ“
کہ بندہ طاقت کے ساتھ یہ کہے کہ تم نے یہ کام کرنا ہے، اسے ”امر“ کہتے ہیں یعنی سامنے والا بندہ آپ کے سامنے انکار نہ کر سکے اور نہی کہتے ہیں:
”قَوْلُ الْقَائِلِ لِغَیْرِہٖ عَلٰی سَبِیْلِ الْاِسْتِعْلَاءِ؛ لَاتَفْعَلْ“
کہ طاقت کے ساتھ کسی کو یہ کہنا کہ تم نے یہ کام نہیں کرنا اور وہ اس کا انکار بھی نہ کر سکے۔ اسے کہتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ تو امربالمعروف اور نہی عن المنکر یہ طاقت کے بغیر نہیں ہوتا اور طاقت یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اس لیے حدیث پاک میں ہے:
”مَنْ رَأَىٰ مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهٖ“
جو شحص گناہ کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے۔ اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو
”فَبِلِسَانِهٖ“
اپنی زبان سے روک دے۔ زبان سے بھی نہیں روک سکتا تو
”فَبِقَلْبِهٖ“
پھر دل سے برا سمجھے8 فرمایا کہ یہ ایمان کا کمزور اور آخری درجہ ہے۔
صحیح مسلم ، رقم: 49
صحیح بندے کا انتخاب ہماری ذمہ داری:
خیر میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ نماز کی پابندی کروانا، زکوٰۃ ادا کروانا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور ایسے بندے منتخب کرکے اسمبلی میں بھجوانا کہ وہ یہ کام سرانجام دیں یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ایسا بندہ منتخب نہیں کرتے اور سامنے ایسا بندہ موجود بھی ہو جو یہ کام کرسکتا ہو لیکن ہم دوسرے بندے کو وٹ دیں تو عنداللہ ہم مجرم ہوں گے، قیامت کے دن ہم سے مواخذہ ہوگا کہ ہم نے غلط بندے کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ ووٹ ایک شرعی امانت ہے، اس کو معمولی بات نہ سمجھاکریں کہ جس کو دل چاہا دے دیا، جس کو دل نہ چاہا نہ دیا اور ہمیں امانت میں خیانت اور بد دیانتی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
خیر میں عرض یہ کر رہاتھا کہ یہ جو مظلومین ہیں ان کو جب حکومت ملے گی تو یہ نمازوں کا اہتمام بھی کروائیں گے، زکوٰۃ کا اہتمام بھی کروائیں گے، امر بالمعروف بھی کریں گے اور نہی عن المنکر بھی کریں گے۔ یہ جو ہم کرتے ہیں یہ التماس ہے، گزارش ہے، وعظ ہے لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں ہے۔
میں یہ گزارش اس لیے کرتا ہوں کہ التماس اور گزارشات کو امر بالمعروف کا نام نہ دینا، احکام اور شریعت کی اصطلاحات کو کبھی نہ بدلنا، یہ جرم کبھی نہ کرنا وگرنہ لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا معنی بدل دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
خلفائے راشدین چار ہیں:
یہا ں ایک اہم مسئلہ سمجھیں۔ ہمارے ہاں ”خلافت راشدہ“ چار افراد پر بند ہے۔ خلفائے راشدین چارہیں؛ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین سات ہیں؛ چار مذکورہ اور حضرت حسن، حضرت معاویہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم۔
ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح یہ چار حضرات خلفاء بنے ہیں اسی طرح باقی تین بھی خلیفہ بنے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ چھ ماہ تک جانشین بنے ہیں، پھر حضرت حسن نے بھی حضرت امیر معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور خود دستبردار ہوئے ہیں لیکن چھ ماہ تک خلیفہ تو رہے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت حسن کے بعد خلیفہ بنے ہیں۔ پھر جب یزید نے حکومت کی ہے تو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے بغاوت کی او ر مکہ پر حکومت کی ہے۔ تو یہ تین حضرات حضرت حسن، حضرت معاویہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم صحابہ بھی ہیں اور خلفاء بھی ہیں اور صحابہ کے بارے میں اللہ نےقرآن میں فرمایا ہے:
﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾﴾
الحجرات49: 7
کہ یہ صحابہ سارے راشد ہیں۔ تو یہ تین بھی خلفاء راشدین ہو ئے۔
اس کا جواب سمجھیں کہ ہم جب ”خلافت راشدہ“ کہتے ہیں تو اس کا معنی ہوتا ہے ”خلافت راشدہ موعودہ فی القرآن“ یعنی ایسی خلافت جس کا وعدہ قرآن میں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں خلفائے راشدین تو اس سے مراد وہ خلفاء ہیں کہ جن کی خلافت کا اللہ نے قرآن میں وعدہ فر مایاہے اور وہ چار ہیں، سات نہیں۔ دلیل سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان صحابہ کو جہاد کی اجازت دی ہے جن میں دو باتیں ہیں:
• ایک
﴿بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا﴾
کہ جن پر ظلم ہوا ہے،
• اور دوسری
﴿الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ﴾
کہ جن کو مکہ سے نکال کر ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔
یہی وہ لوگ ہیں کہ
﴿اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ﴾
کہ جن کو ہم خلافت دیں گے۔ تو خلافت اور حکومت کا وعدہ ان لوگوں سے ہوا ہے کہ جن پر ظلم ہوا ہے اور جن کو مکہ مکرمہ سے نکالا گیا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر پر ظلم بھی ہوا ہے اور انہوں نے ہجرت بھی کی ہے، حضرت عمر پر ظلم بھی ہوا ہے اور ہجرت بھی کی ہے، حضرت عثمان پر ظلم بھی ہوا ہے ہجرت بھی ہے اورحضرت علی پر ظلم بھی ہوا ہے اور ہجرت بھی ہے -رضی اللہ عنہم- تو ان چار پر ظلم بھی ہوا اور انہوں نے ہجرت بھی کی ہے کہ ان کو گھر سے نکال دیا گیا ہے۔
اب ہم باقی تین کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ہے فتح مکہ کے موقع پر یا فتح مکہ سے ایک سال پہلےسن سات ہجری میں عمرۃ القضا کے موقع پر، تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی ہی نہیں تو اس آیت کا مصداق کیسے بنیں گے؟! اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ تو پیدا ہی مدینہ منورہ میں ہوئے ہیں، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی مکہ مکرمہ میں ہوا ہے تو انہوں نے ہجرت کیسے کی ہے؟ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وہ صحابی ہیں جو مسلمانوں کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد سب سے پہلے پیدا ہوئے۔ تو یہ تین حضرات وہ ہیں جن کو ہجرت کا موقع ہی نہیں ملا۔ لہذا خلافت کا یہ وعدہ ان کے ساتھ ہے جنہوں نے ہجرت کی ہے اور وہ صرف چار ہیں۔
ہم تو نہ نعرہ لگوارہے ہیں، نہ جھگڑا کر رہے ہیں بلکہ دلیل سے اپنا مؤقف عوام کو سمجھارہے ہیں اور اپنی عوام کو دلیل سے اپنا عقیدہ سمجھانا چاہیے۔ اس لیے میں نے کہا کہ خلفائے راشدین چار ہیں۔
ترتیبِ خلافت کی وجہ:
اور میں ایک بات بتایا کرتا ہوں کہ خلفائے راشدین چار ہیں اور ان چار میں تر تیب بھی یہی ہے؛ پہلے حضرت ابوبکر، پھر حضرت عمر، پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہم او ر ان کی خلافت کی یہ ترتیب اس لیے ہے کہ ان میں جو پہلے دو ہیں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں اور باقی دو حضرت عثمان اور حضرت علی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہیں۔ سسر؛ باپ کی جگہ ہے جوکہ پہلے ہوتا ہے اور داماد؛ بیٹے جگہ ہے جو بعد میں ہوتا ہے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سسر ہیں اور بڑے ہیں اور حضرت عمر سسر ہیں اور چھوٹے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام پہلے قبول کیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعد میں قبول کیا ہے، تو حضرت ابوبکر کا نمبر پہلا ہے اور حضرت عمر کا نمبردوسرا ہے۔ پھر حضرت عثمان دامادہیں اور دوہرے ہیں، حضرت علی داماد ہیں اور اکہرے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حضرت رقیہ کا نکاح پہلے ہوا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت فاطمہ کا نکاح بعد میں ہوا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دوہرے داماد ہیں اور یہ اکہرے داماد ہیں، عثمان حضور کے داما د پہلے بنے ہیں، علی بعد میں بنے ہیں تو حضرت عثمان کا نمبر تیسرا ہے اور حضرت علی کا نمبر چوتھا ہے۔ رضی اللہ عنہم (سبحان اللہ۔ سامعین)
ہم تر تیب کے ساتھ قائل ہیں اور دلیل کے ساتھ قائل ہیں اور بغیر دلیل کے محض ہٹ دہرمی سے بات نہیں کرتے۔
کام کرنے والے کا دل بڑا ہونا چاہیے!
﴿وَ اِنۡ یُّکَذِّبُوۡکَ فَقَدۡ کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۴۲﴾ وَ قَوۡمُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ قَوۡمُ لُوۡطٍ ﴿ۙ۴۳﴾﴾
اے پیغمبر! یہ آپ کی با ت نہیں مانتے اور آپ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ اس پر دل چھوٹا نہ کریں۔ اگر یہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں، آپ کو جھٹلاتے ہیں تو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی حضرت نوح کو جھٹلایا تھا، قوم عاد نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا تھا، قوم ثمود نے اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا،حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کی اقوام نے بھی اپنے اپنے نبی کو جھٹلایا تھا، تو یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے، لہذا آپ اپنے کام کو جاری رکھیں۔
اس سے یہ بات بڑی اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ علماء کرام؛ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں تو جس طرح انبیاء علیہم السلام کو جھٹلایا گیا اور ہمارے نبی سے فرمایا گیا کہ آپ نے دل چھوٹا نہیں کرنا بلکہ اپنا کام جاری رکھنا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے وارث علماء کو جھٹلایا جائے اور عالم کو اپنے موقف کی حقانیت پر پورا یقین ہو تو اس عالم کو بھی دل چھوٹا نہیں کر نا چاہیے بلکہ اپنے کام کو جاری رکھنا چاہیے، اس سے اللہ تعالیٰ کام کے نتائج بہت جلد عطافرماتے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے عثمانیہ مسجد والوں کو ایک بات کئی بار کہی ہے جو ہمارے تبلیغ والے دوست کہتے ہیں کہ برف کوئٹہ برستی ہے اور ٹھنڈی ہوائیں کراچی چلتی ہیں۔ میں کہتا ہو ں کہ درس قرآن عثمانیہ مسجد میں ہوتا ہے اور پڑھنے والے باہر کی دنیا سے ہوتے ہیں۔ درس یہاں پر ہوتا ہے، چھپتا کراچی سے ہے اور تقسیم پوری دنیا میں ہوتا ہے اور تمہیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ تمہارا درس قرآن کہا ں کہا ں پر جارہا ہے۔ ہم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب! درسِ قرآن کی تیسری جلد کب آرہی ہے؟ آپ ایسےبڑے لوگ ہیں کہ آپ کے پاس پہلی دو جلدیں بھی نہیں ہیں، کبھی آپ کو احساس بھی نہیں ہوا کہ ہمارے ہاں درس ہوتا ہے تو درس قرآن کی کتاب ہمارے پاس بھی تو ہونی چاہیے، کبھی ہم بھی پوچھیں کہ مولاناصاحب! دو جلدیں کہاں سے ملتی ہیں، ہم ان کا مطالعہ تو کر لیں۔
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک مرتبہ پڑھے ہوئے درس کو آپ گھر میں دیکھ لیں تو پھر آپ کو اس کی اہمیت کا احساس ہوگا، سنتے ہوئے بندے کو محسوس نہیں ہوتا کہ کیا ہورہاہے؟! جب چیز لکھی ہوئی سامنے آتی ہے پھر احساس ہوتا ہے کہ درس قرآن میں کتنے عقائد بیان ہوئے ہیں!
تو کام کرنے والے بندے کو دل بہت بڑا رکھنا چاہیے تب جا کے کام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بات سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
محبت سب سے لیکن اتباع اپنے شیخ کی:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ البقر ۃ کے پہلے رکوع میں
﴿وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ﴾
کی تفسیر میں فر ماتے ہیں کہ ہم تمام انبیاء علیہم السلام کا اعتقاد رکھتے ہیں لیکن اتباع اپنے نبی کی کرتے ہیں، فرمایا کہ اس سے ثابت ہوا کہ مشائخ اور علماء جتنے ہیں اعتقاد سب کے ساتھ رکھنا چاہیے لیکن اتباع اپنے شیخ اور عالم کی کر نی چاہیے۔ اس سے بات سمجھنی او ر سمجھانی بہت آسان ہوجاتی ہے۔
قیامت کے دن کی مقدار:
آگے مشرکین اور کفار کو یہ بات سمجھائی ہے کہ ذرا یہ بھی سو چا کرو کہ ایک دن آنے والا ہے
﴿وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ﴿۴۷﴾﴾
وہ ایک دن دنیا کے ہزار سالوں کے برابر ہوگا۔یہاں جو تم نے پیغمبر کی مخالفتیں کی ہیں تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔ یہاں کے دن چھوٹے ہیں اور قیامت کا دن بہت بڑا دن ہے، وہاں کا ایک دن دنیا کے ہزار سالوں جتنا۔
یہاں ایک بات سمجھ لیں۔ قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ہے:
﴿تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾﴾
المعارج 70: 4
کہ وہا ں کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابرہے۔ قرآن کریم کا خاصہ یہ ہے کہ قرآن میں اختلاف نہیں ہوتا، قرآن کی آیتوں میں ٹکراؤ اور تعارض نہیں ہوتا۔ اب اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ قیامت کا ایک دن دنیا کے ایک ہزار سالوں کے برابر ہے اور دوسری آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ تو بظاہر ٹکراؤ معلوم ہو رہا ہے حالانکہ ٹکراؤ نہیں ہے۔
اس کا ایک جواب تو ایسا ہے کہ ہر بندہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور ایک جواب ایسا ہے کہ اسے سمجھنا ہر بندے کے بس کی بات نہیں ہے۔ جو جواب ہر بندہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ دن ایک ہی ہے، اپنے حالات کے مطابق کسی کے لیے وہ ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے اور کسی کے لیے پچاس ہزار سال کے برابر۔ جس طرح بندہ اگر راحت میں ہو تو پتا ہی نہیں چلتا گھنٹوں گذر جاتے ہیں اور آدمی جب تکلیف میں ہو تو ایک گھنٹا ایک سال کے برابر ہوجا تا ہے۔ تو جن کے اعمال بہت اچھے ہیں تو ان کے لیے تو ایک ہزار سال بھی نہیں ہو گا اور جن کے اعمال گندے ہیں تو ان کے لیے ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوجائے گا اور جن کے بہت ہی گندے ہوں گے تو ان کے لیے وہ مرحلہ اتنا مشقت کا ہوگا کہ ان کو ایسے لگے گا جیسے پچاس ہزار سال گزرے ہوں۔ تو یہ آدمی کے احوال کے مطابق ہے۔ اس کو حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ لفظ اشتداد سے تعبیر فر ماتے ہیں یعنی کسی کے لیے شدت کم ہوگی اور کسی کے لیے زیادہ ہو گی۔
اور دوسرا جواب نظام فلکیات کی روشنی میں سمجھیں اور اس کا سمجھنا ہر بندہ کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس کو آسان لفظوں میں سماعت فرمائیں۔ ہمارے ہاں سورج ہمارے سر سے گزرتا ہے. جہاں سے سورج گزرتا ہے اسے ”خطِ استواء“ کہتے ہیں۔ تو زمین کے وہ حصے جو خطِ استواء پر ہیں یعنی جب سورج نکلتا ہے تو اس کے نیچے آنے والی جو زمین ہے وہاں پر دن اور رات چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے اور جو لوگ سورج سےقطب شمالی پر ہیں وہاں ایک دن اور ایک رات ایک سال کا ہوتا ہے۔ تو ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات چوبیس گھنٹے کا اور قطب شمالی والوں کے لیے ایک دن اور ایک رات ایک سال کا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بالکل اسی طرح قیامت کے دن ہوگا کہ جہا ں سورج آہستہ آہستہ گزرے گا وہاں پچاس ہزار سال کا ایک دن ہوگا اور جہاں سے تیزی سے گزرے گا وہاں کا دن ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔
نزولِ وحی کے وقت شیطان کا لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالنا:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۚ فَیَنۡسَخُ اللہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿ۙ۵۲﴾﴾
میں جو جو آیات پڑھتا جاتا ہوں اور ان کی تفسیر کرتا جاتا ہوں بطور خاص طلبہ اور علماء سے عرض کرتا ہوں کہ آپ جب تفاسیر دیکھیں گے اور ان آیات کو پڑھیں گے تو پھر اندازہ ہوگا کہ میں کتنے آسان انداز میں سمجھا رہا ہوں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب کسی نبی یا کسی رسول پر وحی آتی ہے تو ایک طرف نبی پر وحی اتر رہی ہوتی ہے اور وہ لوگو ں کے سامنے بیان کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف شیطان کفار کے دل میں اس وحی کے بارے میں اشکالات پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان اشکالات کا جواب دیتے ہیں، چنانچہ ان جوابات کو قبول نہ کرنے والوں کا مرض بڑھ جاتا ہے اور قبول کرنے والوں کا ایمان او ر پختہ ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ (آمین)
دو موتیں اور دو حیاتیں:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَحۡیَاکُمۡ ۫ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ ﴿۶۶﴾﴾
اللہ رب العزت نے تمہیں حیات دی، پھر اللہ تمہیں موت دیں گے، پھر اللہ تمہیں زندہ کریں گے۔ اس آیت میں ایک حیات، پھر موت اور پھر حیات دینے کا ذکر ہے۔ تو اس میں دو حیاتوں اور ایک موت کا ذکر ہے اور قرآن کریم میں دوسری جگہ پر ہے :
﴿کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۸﴾﴾
البقرۃ2: 28
تم اللہ تعالیٰ کو کیسے جھٹلاتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی، پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے۔
اس آیت میں دو موتیں اور دو حیاتیں مذکور ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ موتیں اور حیاتیں کتنی ہیں؟ ہمارا اھل السنۃ والجماعۃ کا موقف یہ ہے کہ ظاہری اور کھلی دو موتیں اور دو حیاتیں ہیں اور ایک موت اور حیات ایسی ہے جو کھلی ہوئی نہیں ہے بلکہ مخفی ہے، وہ آنکھو ں سے نظر نہیں آتی بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے سے سمجھ میں آتی ہے۔ پہلے بچہ عدم میں ہوتا ہے اور ماں کے پیٹ میں آجاتا ہے، جب تک روح نہیں آتی تو مردہ ہوتا ہے، یہ مردہ ہونا ایساہے جو ماں کو بھی محسوس ہورہا ہوتا ہے، اس کے بعد جب اس میں روح آتی ہے تو بیٹاماں کے پیٹ میں زندہ ہوتا ہے اور ماں اس کو محسوس بھی کرتی ہے، اس کے بعد یہی بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو اس میں حیات ہوتی ہے اور یہ حیا ت ہر کسی کو نظر آرہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد بندے پر موت آتی ہے، ہر کسی کو پتا چل جاتا ہے کہ موت آگئی ہے، اس کے بعد قیامت کے دن جو حیات ہوگی وہ حیات ہر کسی کو نظرآ جائے گی۔
اس کے درمیان کا جو وقت ہے یعنی موت کے بعد اور قیامت کے دن اٹھنے سے پہلے تک اب اس میں جو حیات ملتی ہے اعادۂ روح کے ساتھ تو یہ ایسی حیات ہے کہ جو بندے کو نظر نہیں آتی اور اس کے نظر نہ آنے کی وجہ قرآن کریم نے بیان کی ہے:
﴿وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾﴾
المؤمنون23: 100
یہ اس لیے نظر نہیں آتی کہ اس حیا ت پر پردہ ہے اور جو چیز پردے میں ہو وہ موجود تو ہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ تو بعض لوگ پردہ کے نیچے والی چیز کا انکار کردیتے ہیں، وجہ کہ وہ نظر نہیں آرہی ہے اس لیے نہیں مانتے،حالانکہ وہ ہوتی ہے اگرچہ نظر نہیں آتی۔ تو قبر والی حیات کھلی حیات نہیں ہوتی، قبر والی حیات مخفی حیات ہوتی ہے، اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماننا پڑتا ہے اور وہ حیات کیسی ہے؟ میں صرف اس پر ایک حدیث سناتاہوں۔
حدیث پاک میں ہے کہ جب انسان کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔وہ اس میت سے سوال کرتے ہیں۔ ایک سوال یہ کرتے ہیں
: ”مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هٰذَا الرَّجُلِ؟“
تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟ بندہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے۔ یہ ٹھیک جواب دے دیتا ہے تو قبر اس کے لیے وسیع کر دی جاتی ہے اور نور سے بھر دی جاتی ہے۔ فرشتے اسے کہتے ہیں
: ”نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ“
سو جا جس طرح پہلی رات کی دلہن سوتی ہے۔
سنن الترمذی، رقم: 1071
اب اس کو جو موت ملی ہے یہ موت ایسی ہے جو بصورت نیند ہے لیکن وہ نیند عالمِ دنیا کی نہیں ہے بلکہ عالمِ برزخ کی ہے، عالمِ دنیا کی نیند نظر آتی ہے اور عالمِ برزخ کی نیند نظر نہیں آتی، صرف پیغمبر کے فرمانے پر مانی جاتی ہے۔ اس لیےقرآن کریم میں فرمایا گیا:
﴿وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾﴾
البقرۃ2: 154
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ کہو! بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔
یہ حیات کسی خاص شہید کے لیے ہے یا ہر شہید کے لیے؟ اگر خاص شہید کے لیے ہوتی تو ہم کہتے کہ یہ خرقِ عادت ہے، یہ اس شہید کی کرامت ہے بلکہ یہ حیات ہر شہید کے لیے ہے کہ اللہ اسے موت کے بعد حیات دیتے ہیں۔ اب یہ حیات قیامت کے بعد والی نہیں ہے بلکہ قیامت سے پہلے قبر والی حیات ہے لیکن یہ حیات کیسی ہے؟ فرمایا:
﴿لَّا تَشۡعُرُوۡنَ﴾
تم اس حیات کو اپنے آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے، تم اس کو محسوس نہیں کر سکتے۔ معلوم ہوا کہ قبر والی جو حیات ہے یہ مخفی حیا ت ہے یہ کھلی حیات نہیں ہے، کھلی حیات کو مشاہدے والی حیات کہتے ہیں اور مخفی حیات کو غیب والی حیات کہتے ہیں۔ اس لیے دنیاوالی حیات کا کوئی انکار کر بھی دے تو اسے کہیں گے کہ تو اندھا ہے تجھے نظر نہیں آرہا لیکن قبر والی حیات کا کوئی انکار کر دے تو اسے یہ نہیں کہتے کہ تو اندھا ہے تجھے نظر نہیں آرہاہے بلکہ اسے یہ کہتے ہیں کہ تو بے ایمان ہے، پیغمبر کی بات پر یقین نہیں کر رہا۔ اس لیے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر یقین کرتے ہیں اور قبر والی حیات جو مخفی ہے اسے مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سارے عقائد سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
معبودانِ باطلہ کے باطل ہونے کی مثال:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳﴾﴾
اے لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے اسے غور سے سنو! تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کو پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ سارے اس کام کے لیے اکٹھے بھی ہو جائیں تب بھی نہیں کر سکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو یہ اسے واپس بھی نہیں لا سکتے۔ تو جو لوگ پکار رہے ہیں اور جن کو پکارا جا رہا ہے یہ دونوں کتنے کمزور ہیں!
یہاں ایک مثال دی ہے کہ یہ مشرک جن جھوٹے اور پتھر کے بنائے ہوئے بتو ں کی پوجاکرتے ہیں ان کو یہ ذہن بنا لینا چاہیے کہ یہ سارے معبود مل کر بھی ایک مکھی کو پیدا نہیں کرسکتے۔ مکھی کو پیدا کرنا تو دور کی بات ہے اگر مکھی ان سے کوئی چیز اچک کر لے جائے تو سارے مل کر مکھی سے وہ چیز واپس بھی نہیں لے سکتے۔ ان میں سے کسی بت کی آنکھ پر مکھی بیٹھ جائے تو یہ اڑابھی نہیں سکتے۔ ان کے منہ سے کوئی چیز لے جائے تو یہ واپس لے بھی نہیں سکتے۔ ان کی حالت یہ ہے
﴿ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ﴾
کہ مانگنے والا بھی کمزور ہے یعنی مشرک اورجن سے مانگ رہے ہیں یعنی بت وہ بھی کمزور ہیں۔ تو کمزوروں سے نہیں مانگا جاتا بلکہ قوی اور طاقت ور سے مانگا جاتا ہے، اسی لیے فرمایا:
﴿اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ﴾
کہ اللہ طاقت والا بھی ہے اور غالب بھی ہے، تو کمزورں کو چھوڑو اور طاقت والے کی طرف رجوع کرو۔
مناقبِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:
یہاں پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذہن میں رکھ لیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے والد حضرت ابوقحافہ ان کوبت خانے میں لے گئے اور وہاں جاکر حضرت ابوبکر سے کہا کہ ان بتوں کی عبادت کرو! یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت سے پہلے کی بات ہے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ شحص ہیں جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی شرک نہیں کیا۔ آپ ایسے سلیم الفطرت انسان تھے۔ باپ نے کہا کہ بتوں کی عبادت کرو۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس بت سے فرمانے لگے: مجھے بھوک لگی ہے، کھانا دو! مجھے پیاس لگی ہے، پانی دو! حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد نے یہ معاملہ دیکھ کر انہیں تھپڑ مارا اور کہنے لگے: یہ سن سکتے ہیں؟ یہ تمہیں کھانا دے سکتے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابا جان! اگر یہ کھا نا نہیں دے سکتے تو میں ان کو سجدہ کیسے کروں؟ جب یہ بات صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی والدہ کو پتا چلی تو انہوں نے اپنے خاوند حضرت ابو قحافہ سے کہا: اس بیٹے کو مارا نہ کرو کیونکہ جب یہ پیدا ہوا تھا تو بوقتِ پیدائش میرے کان میں غیب سے ایک آواز آئی تھی:
يَا أَمَةَ اللّهِ عَلَى التَّحْقِيقِ! أَبْشِرِيْ بِالْوَلَدِ الْعَتِيقِ! اسْمُهٗ فِي السَّمَاءِ الصِّدِّيقُ ، لِمُحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَرَفِيقٌ.
مرقاۃ المفاتیح :ج11ص 179، باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ
اے اللہ کی بندی! تجھے ایسے بچے کی بشارت ہو جو جہنم کی آگ سے آزاد ہے، اس کا نام آسمان میں صدیق لکھ دیا گیا، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کادوست ہوگا اور ان کا صحابی ہوگا۔
تمہارا خواب میری نبوت کی دلیل ہے:
ابھی اعلانِ نبوت بھی نہیں ہوا کہ صدیق اکبر کے لیے بشارت آرہی ہے۔ بات چل پڑی ہے تو میں اس پر ایک واقعہ اور سنا دیتا ہوں۔ ”الخصائص الکبریٰ“ میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی جوانی میں اعلانِ نبوت سے قبل تجارت کے لیے شام میں گئے۔ وہاں ایک خواب دیکھا اور عیسائی راہب سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ اس عیسائی راہب نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس کی تعبیر یہ ہے:
يَبْعَثُ نَبِيٌّ مِنْ قَوْمِكَ تَكُوْنُ وَزِيْرَهٗ فِيْ حَيَاتِهٖ وَخَلِيْفَتَهٗ بَعْدَ مَوْتِهٖ.
کہ تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث ہوگا، تم زندگی میں اس کے نائب اور اس کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہو گے۔
یہ تعبیر تھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس خواب کی۔ آپ نے تعبیر کو سنا۔ آگے لکھا ہے:
فَأَسَرَّهَا أَبُوْ بَكْرٍ حَتّٰى بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
اس تعبیر کو چھپا لیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، تو ابوبکر نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
یَا مُحَمَّدُ! مَا الدَّلِیْلُ عَلٰی مَاتَدَّعِیْ؟
آپ کے اس دعوی نبوت پر کیا دلیل ہے؟ کیونکہ ابھی تک کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلرُّؤْیَا الَّتِیْ رَأَیْتُ بِالشَّامِ.
میری نبوت پر دلیل تیرا و ہ خواب ہے جوتو نے شام میں دیکھاہے۔ صدیق اکبر نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے۔ اس روایت میں ہے:
فَعَانَقَہٗ وَ قَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ.
کہ سینے سے لگ گئے اورپیشانی کا بوسہ لیا۔
الخصائص الکبریٰ: ج1 ص51
محدثین نے لکھا ہے صدیق اکبر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ پہلے صحابی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حالت ایمان میں پہلی بار ملے ہیں تب بھی پیشانی چومی ہے اور جب آخری بار ملے ہیں تب بھی پیشانی چومی ہے، چوم کے آیا ہے اور چوم کے رخصت کیا ہے۔
آپ بتائیں! صدیق نے نبی کی پیشانی چومی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین) آج کسی عالم کی پیشانی کو بوسہ دینا بدعت کیسے ہوا؟ تو لوگ ان چیزوں پر پتا نہیں بدعات کے فتوے کس طرح لگا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فر مائے۔ (آمین)
سورۃ حج کے آخر میں سجدہ تلاوت نہ ہونے کی دلیل:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾﴾
اس آیت پر امام شافعی رحمہ اللہ کے ہا ں سجدۂ تلاوت ہے۔ ہمارے ہاں سجدہ تلاوت نہیں ہے۔ آپ حاشیہ میں دیکھیں گے یہا ں لکھا ہوگا
”السجدۃ عندالشافعی“
امام شافعی اس پر سجدہ کرتے ہیں، امام ابوحنیفہ کے ہاں اس پر سجدہ نہیں ہے۔ ہماری امام شافعی سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں اپنی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ہمارے اما م ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت پر سجدہ اس لیے نہیں کہ اس میں ہے:
﴿ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا﴾
تو رکوع اور سجدہ دونوں کا حکم ہے اور جہاں رکوع اور سجدہ دونوں کا حکم ہو تو وہ سجدہ تلاوت نہیں ہوتا بلکہ سجدہ نماز ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا تعلق سجدہ تلاوت سے نہیں بلکہ اس کا تعلق سجدہ نماز سے ہے۔
دین میں حرج نہ ہونے کا مطلب:
﴿وَ جَاہِدُوۡا فِی اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ﴾
اللہ رب العزت نے فر مایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے، اس کے لیے اللہ نے تمہارا انتخاب کیا ہے اور اللہ نے دین میں حرج نہیں رکھا۔ دین میں بہت آسانی ہے لیکن آسانی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جہاں تھوڑی سی سختی آئے تو شریعت کا حکم بدل ڈالو! دین میں حرج نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا حکم اپنے بندے کو نہیں دیتے جس پر عمل کرنا بندے کے بس میں نہ ہو۔ ایک ہوتا ہے مشکل نہ ہو اور ایک ہوتا ہے بندے کے بس میں نہ ہو․․․ تو مشکل ہونا اور ہوتا ہے اور بس میں نہ ہونا اور ہوتا ہے، اور جہاں بس میں نہیں ہوتا وہاں اللہ تعالیٰ تخفیف کا فیصلہ فر ماکر سہولت اور رعایت بھی عطافرماتے ہیں۔
تو حرج کا معنی یہ نہیں ہے کہ کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور کہتا ہے کہ دین میں تو حرج نہیں لہذا اس کو ایک شمار کرو! کسی نے بندے کو قتل کر دیا اور اب کہتا ہے کہ مجھے قصاص میں نہ مارو کیونکہ شریعت میں حرج نہیں ہے۔ یاد رکھو! اس طرح سے ”حرج نہ ہونے“ کی تشریح کر کے احکامِ شریعت کو تبدیل کر دینا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم کیسے احکام کو بدلیں؟! حرج نہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ شریعت کے کہنے پر صرف ایک طلاق دو اس میں آسانی ہے اور اس میں حرج اور تنگی نہیں ہے۔ اب تم نے تین اکٹھی دی ہیں تو شریعت نے جو آسانی رکھی تھی اس کو تم نے خود ہی ختم کر دیا ہے تو اس میں شریعت کا کیا قصور! حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہی بات فرماتے تھے:
إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِى أَمْرٍ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ․
صحیح مسلم، رقم: 1472
لوگوں کو جس کام میں آسانی تھی انہوں نے اس میں جلد بازی سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔
ملت اور امت کا معنی:
﴿مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ﴾
دوسری بات یہ فرمائی کہ تم ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہو۔ اس پر میں پہلے بات کر چکا ہوں کہ ہم امت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں اور ملت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہیں۔ ”ملت“ اسے کہتے ہیں کہ ان کے اصولوں میں اشتراک ہو اور ”امت“ اسے کہتے ہیں کہ ان کے اصول اور فروع دونوں میں اتفاق ہو۔ اصولوں میں ہمارا اشتراک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہے لیکن اصول اور فروع دونوں میں اشتراک اللہ کے نبی کے ساتھ ہے۔ تو ہم ملت ابراہیمی ہیں اور امت محمدی ہیں۔
امت دعوت اور امت اجابت:
مزید ایک بات سمجھیں کہ ایک امت دعوت ہوتی ہے اور ایک امت اجابت۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کریں انہیں امتِ اجابت کہتے ہیں اور جو حضور کا کلمہ نہ پڑھے اسے امت دعوت کہتے ہیں۔ یہ جو ہمارے ہاں آواز لگ رہی ہے کہ ”بھائیو! سارے امتی بن کر جیو!“ تو میں بھی کہتا ہوں کہ بن کر جیو لیکن امتِ اجابت بن کر جیو، امتِ دعوت بن کر نہ جیو! امتِ اجابت اور ہوتی ہے اور امتِ دعوت اور ہوتی ہے۔ دونوں امت ایک کیسے ہوسکتی ہیں؟! بتاؤ کہ کافر اور مسلمان ایک ہوجائیں یہ کیسے ممکن ہے؟ کافر امت دعوت ہیں اور ہم امتِ اجابت ہیں۔ قیامت کے دن جنت میں صرف اسی نے جانا ہے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےدین کو قبول کیا ہو گا۔
”مسلمان یا حنفی؟“ کا آسان جواب:
﴿ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴾
ابراہیم علیہ السلام نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ ہم بھی اپنا نام مسلمان رکھتے ہیں لیکن ہمارا نام مسلمان ہونے کے باوجود ہم اپنے آپ کو ”حنفی“ بھی کہتے ہیں۔ اس پر لوگ کہتے ہیں کہ حنفی نہ رکھو، یہ قرآن کے خلاف ہے۔
اب اگر کوئی بندہ آپ سے پوچھے کہ آپ کی قومیت کیا ہے؟ سرگودھا یا پاکستا ن؟ تو آپ اپنے آپ کو سرگودھا کا کہتے ہو؟ (نہیں بلکہ پاکستانی کہتے ہیں۔ سامعین) آپ کی کوئی جماعت رائے ونڈ جائے اور وہاں حضرات پوچھیں کہ تم کہاں سے آئے ہو تو آپ کہتے ہو کہ سرگودھا سے لیکن جب آپ پاکستا ن سے باہر حج پر گئے ہوں اور اب کوئی شحص آ پ سے پوچھے کہ کہاں سے آئے ہو؟ تو آپ کیا جواب دیں گے؟ (پاکستان سے۔ سامعین) اوراگر دو پاکستا نی اکٹھے ہوجائیں اور وہ پوچھیں تو اب کیا جواب دیں گے؟ (سرگودھا۔ سامعین)
اسی طرح جب آپ سے کوئی پوچھے کہ آپ مسلمان ہو یا کافر؟ تو جواب ہوگامسلمان! تو یہ جو فرمایا :
﴿ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴾
یہ کافروں کے مقابلے میں فرمایا ہے اور کفار کے مقابلے میں ہم مسلمان ہیں۔
اب مسلمانوں میں چار امام ہیں؛ امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ۔ تو آپ سے کوئی پوچھے کہ کس امام کے مقلد ہو؟ اور آپ جواب دیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ کےتو آپ کا اپنے آپ کو حنفی کہنا یہ
﴿ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴾
کے خلاف نہیں ہو گا۔
دین ایک اور مذہب کئی:
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کر دوں۔ یاد رکھیں کہ دین اور مذہب میں فرق ہے۔ دین کہتے ہیں ان مسائل کو جو منصوصات ہیں، منصوصات کا معنی کہ جو صاف صاف قرآن اور حدیث میں ہیں، اور مذہب کہتےہیں اجتہادات کو۔ تو دین ایک ہے اور مذہب چار ہیں۔ اب میں آپ کو یہ بات سمجھاؤں تو بات لمبی ہوجائے گی کہ دین ایک ہو تو مذہب چار کیسے ہوسکتے ہیں؟ اس کے لیے مختصراً آپ ایک حدیث ذہن میں رکھ لیں۔ سنن نسائی میں روایت موجود ہے۔ دو صحابی سفر پہ تھے۔ نماز کا وقت ہو گیا تو ان دونوں نے تیمم کیااور نماز پڑھ لی کیونکہ پانی نہیں تھا۔ ابھی نماز کا وقت باقی تھا کہ پانی مل گیا۔ اب کیا کریں؟ پہلی نماز کافی ہے یا اب دوبارہ پڑھیں۔ ان میں سے ایک صحابی نے وضو کیا اور نماز کا اعادہ کیا اور دوسرے صحابی نے وضو نہیں کیا بلکہ پہلی نماز کو کافی سمجھا۔ اب ان کی دلیل کیا تھی؟ میں سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ جن صحابی نے وضو نہیں کیا اور پہلی نماز کو کافی سمجھا ان کی دلیل یہ تھی کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا﴾
النساء 4: 43
کہ جب پانی نہ ملے تو تیمم کر لو، میں نے تیمم کر لیا اور نماز بھی پڑھ لی تو حکم پورا ہو گیا، اب پانی مل بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسرے صحابی نے دوبارہ وضو کر کے نما ز پڑھی تو ان کی دلیل یہ تھی کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا﴾
کہ پانی نہیں ملا تب تیمم کرو، میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی لیکن اب وقت میں اندر چونکہ پانی مل گیا ہے تو اب وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھنی پڑے گی۔
اجتہادی اختلاف کی مثالیں:
اب دیکھو! دین ایک ہی ہے، آیت ایک ہی ہے لیکن مذہب دو ہو گئے۔ ایک نے ایک مسئلہ نکالا اور دوسرے نے دوسرا مسئلہ نکالا، اجتہاد دونوں نے کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم لڑنے والے نہیں تھے۔ انہیں الجھن پیش آئی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حل پوچھ لیا۔ خیر جب یہ دونوں مدینہ منورہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے ساتھ یہ مسئلہ پیش آیا تھا، میں نے تو نماز دوبارہ لوٹائی تھی وضو کرکے اور اس نے نہیں لوٹائی۔ حدیث پاک میں ہے کہ جس آدمی نے نماز دوبارہ نہیں پڑھی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
"أَصَبْتَ السُّنَّةَ."
سنن النسائی، رقم: 433
کہ اصل مسئلہ تیرا ہے۔ یہ اصل مسئلہ ہے کہ دوبارہ نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں تھی اور فرمایا کہ جس نے دوبارہ نماز پڑھ لی مسئلہ نکالنے میں تو اس سے خطا ہوگئی لیکن چونکہ اس نے اجتہاد کیا ہے اس لیے اللہ اسے دو نمازوں کا ثواب دے گا۔
اب مذہب ایک ہو گیا یا دو ہوگئے؟ (دو ہو گئے۔سامعین) اگر امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کے دو مذہب ہوجائیں تو لوگ کہتے ہیں کہ دین تو ایک ہے اور مذہب دو کیسے ہو گئے؟
صحیح بخاری میں روایت موجود ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خندق سے فارغ ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنوقریظہ پر حملہ کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فر مایا:
"لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِيْ بَنِيْ قُرَيْظَةَ․"
عصر کی نماز تم نے بنی قریظہ میں پڑھنی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم راستے میں تھے کہ سورج غروب ہونے کا وقت قریب ہوگیا۔ بعض صحابہ نے کہا کہ ہم تو ابھی نماز پڑھیں گے، نماز قضا نہیں کریں گے۔ دوسروں نے کہا کہ نماز قضا ہوتی ہے تو ہونے دو ہم تو بنی قریظہ کے محلے میں جا کے ہی پڑھیں گے۔ اب یہ اختلاف کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا تھا کہ تم نے عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں پڑھنی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو بدلنے والے! نما ز قضابھی ہو جائے تب بھی ہم نے تو وہیں جاکر پڑھنی ہے۔ تو انہوں نے حدیث کا مطلب یہ سمجھا اور دوسرے صحابہ کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ جلدی جلدی جاؤ تاکہ عصر تک وہاں پہنچ جاؤ ، اب چونکہ ہمیں دیر ہوگئی ہے تو نماز کو تو قضا نہیں کرنا، اس لیے ہم نے تو نماز پڑھنی ہے۔ جب واپسی ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے کسی کی بھی سرزنش نہیں کی بلکہ دونوں کو ٹھیک قرار دیا۔
صحیح البخاری ، رقم: 4119
یہاں بھی حدیث ایک ہے لیکن مذہب کتنے ہو گئے؟ (دو۔ سامعین)
اس پر قرآن کریم سے بھی مثال سن لیں تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ ان کے پاس قرآن نہیں ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں ایک آدمی کی بکریوں نے کسی کا کھیت چر لیا تھا۔ اب یہ لوگ اپنا قضیہ لے کر حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس گئے تو داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ کھیت کی قیمت لگاؤ اور بکریوں کی قیمت لگاؤ۔ قیمت لگی تو بکریوں کی قیمت کھیت کے برابر تھی۔ فرمایا کہ کھیت والے کو بکریاں دے دو۔ پھر یہ فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کےپاس لے جایا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چھوٹے ہیں اور بیٹے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ یہ کیا کہ جس آدمی کی یہ بکریاں ہیں اس کو کھیت دے دو اور جس کا کھیت ہے اس کو یہ بکریا ں دے دو۔ کھیت والا بکریاں چراتا رہے اور دودھ پیتا رہے اور بکریوں والا کھیت پر محنت کرے۔ جب کھیت اپنی اصلی حالت پر آجائے تو کھیت کو مالک کے حوالے کرکے اپنی بکریاں لے لے۔
اب دیکھو! ایک اجتہاد حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے اور ایک اجتہاد حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ اس وقت یہ مخلوق نہیں تھیں ورنہ انہوں نے تو یہ کہنا تھا کہ ایک ہی سچا ہے، دونوں سچے نہیں ہوسکتے -معاذ اللہ-
آج لوگ کہتے ہیں کہ یا تو امام ابوحنیفہ ٹھیک ہیں یا امام شافعی ٹھیک ہیں، دونوں ٹھیک کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ جب دونوں نبی ٹھیک ہو سکتے ہیں اور دونوں صحابی ٹھیک ہو سکتے ہیں تو چاروں امام بھی ٹھیک ہو سکتے ہیں!
چاروں برحق اور مسئلہ ایک کا ٹھیک:
آج کے دور کی ایک مثال سمجھو۔ بارہ آدمی تبلیغی جماعت میں نکلے ہیں یا دین پڑھنے کے لیے نکلے ہیں یا کسی خانقاہ میں اپنے شیخ سے ملنے کے لیے نکلے ہیں۔ راستے میں ایسی جگہ سے گزرے ہیں جہاں آبادی نہیں ہے۔ نماز کا وقت ہوگیا اور مطلع ابر آلود ہے۔ کچھ پتا نہیں چل رہا کہ قبلہ کس طرف ہے؟! اب ان میں اختلاف ہوگیا کہ قبلہ کدھر ہے۔ نہ تو ان کے پاس کمپاس ہے، نہ شمال کا پتا ہے اور نہ کوئی بتانے والا ہے۔ ان میں سے تین بندے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بہت غور کیا ہے کہ قبلہ اِس طرف ہے تو انہوں نے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لی۔ دوسرے تین کہنے لگے کہ ہمارا دل مانتا ہے کہ قبلہ اس طرف ہے تو انہوں نے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ تیسرے تین کہتے ہیں کہ ہمارا دل کہتا ہے کہ اس طرف ہے تو انہوں نے اسی طرف رخ کیا۔ باقی جو تین بچ گئے تھے وہ کہنے لگے کہ ہمارا دل مانتاہے کہ قبلہ اس جانب ہے تو انہوں نے اسی رخ کو لیا۔ اب آپ بتائیں کہ نماز کس کی ہوئی؟ (چاروں کی۔ سامعین) قبلہ کس کاٹھیک ہے؟ (ایک کا۔ سامعین) اور یہ کون جانتا ہے؟ (اللہ جانتا ہے۔ سامعین)
تو ہم ان چاروں کو ٹھیک کہیں گے کہ ان چاروں کی نماز صحیح ہے، ہم کسی کے خلاف فتویٰ نہیں دیں گے لیکن حقیقت میں مسئلہ کس کا ٹھیک ہے یہ ہم نہیں جانتے بلکہ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ اسے علماء کی زبان میں کہتے ہیں کہ چاروں میں سے عند اللہ ایک امام ٹھیک ہے اور عند الناس چاروں برحق ہیں یعنی ہم سب کو برحق کہیں گے لیکن جس سے خطا ہو گئی اجر اسے بھی ملے گا جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا تھا کہ مسئلہ تو اس کا ٹھیک ہے جس نے تیمم کرکے نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ ادا نہیں کی لیکن جس نے وضو کر کے دوبارہ ادا کی ہے اسے دو نمازوں کا ثواب ملے گا۔
اللہ ہم سب کو شریعت سمجھنے کی تو فیق عطا فر مائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․