سورۃ صٓ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ صٓ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾ بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ ﴿۲﴾﴾
ابتدائی آیات کا شانِ نزول:
﴿اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚاِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عُجَابٌ ﴿۵﴾﴾
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں مشرکین کو دین کی دعوت دی تو ایک بار وہ تنگ ہو کر ابو طالب کے پاس آئے مرض الوفات میں، انہوں نے مشورہ کیا کہ اگر ابوطالب کے بعد محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر ہاتھ اٹھائیں گے تو لوگ کہیں گے کہ جب ابو طالب زندہ تھے اس وقت تک ہمت نہیں ہوئی اور ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے کے ساتھ یہ سلوک کیا، لہذا ابو طالب کی زندگی میں جا کر فیصلہ کریں۔ انہوں نے ابو طالب سے کہا کہ اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ کہ یہ اپنی عبادت کریں اور ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہا کریں۔
ابو طالب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مجلس میں بلا کر کہا کہ بھتیجے! یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم ان کے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہو، ان کو برا بھلا نہ کہا کرو بلکہ تم اپنی عبادت کرو اور یہ اپنے معبودوں کی عبادت کریں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چچا! میں ان کو ایسا کلمہ سکھا رہا ہوں کہ اگر یہ کلمہ پڑھ لیں تو عرب پر ان کی حکومت ہو اور عجم ان کی غلامی کریں۔ انہوں نے کہا بتاؤ وہ کیا کلمہ ہے؟ : فرمایا:
”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“
تو انہوں نے کہا کہ تعجب ہے کہ ہم سارے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کریں، یہ ہم سے نہیں ہو سکتا۔ اس پر وہ سارے لوگ چلے گئے۔ اس موقع پر سورۃ ص کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔
﴿اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا﴾ ․․․
انہوں نے کہا تعجب ہے یہ کہتا ہے کہ کئی خداؤں کے بجائے ایک خدا کی عبادت کرو۔
تین طلاق کے متعلق حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم):
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ یہاں لکھتے ہیں کہ ”اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود رہنے دیا۔“
بیان القرآن: ج3 ص267
یہ ترجمہ میں اس لیے سمجھا رہا ہوں کہ صحیح مسلم میں ایک حدیث موجود ہے، غیر مقلدین اسے اپنے مسلک پر سب سے مضبوط دلیل سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی شحص اپنی بیوی کو تین طلاق اکٹھی دے تو غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ایک ہوتی ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث ہے:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلٰى عَهْدِ رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِىْ بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً․
صحیح مسلم، رقم: 1472
جو ترجمہ یہ لوگ کرتے ہیں پہلے میں وہ ترجمہ کر رہا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جب دور آیا تو انہوں نے فرمایا: لوگوں کے لیے اللہ نے گنجائش دی تھی لیکن لوگوں نے گنجائش کو ختم کر دیا ہے، لہذا جب انہوں نے خود ختم کر دیا تو ہم بھی ختم کر دیتے ہیں، آئندہ کوئی تین طلاق دے گا تو وہ تین ہوں گی۔
اب وہ کہتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق ایک ہوتی تھیں۔ حضرت عمر نے تین کے تین ہونے کا فیصلہ کیا تو ہم نے کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے، حضرت عمر کا تو نہیں پڑھا، اور اگر خلیفہ کا فیصلہ ماننا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ تو تین کو ایک کہنے کا تھا، حضرت عمر بھی دو سال تک تین کو ایک کہتے رہے، یہ تو بعد میں آپ نے فیصلہ کیا۔
اب بظاہر ان کی دلیل کتنی مضبوط ہے؟ اور ہمارے اپنے لوگ بھی بہت پریشان ہوتے ہیں اس دلیل کو سن کر۔
حدیث ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا پہلا جواب:
اس حدیث مبارک کے کئی ایک جوابات ہیں، میں وہ سارے جوابات پیش نہیں کرتا، مثلاً ایک جواب یہ ہے کہ اس روایت کے راوی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں اور اصولِ حدیث کا قاعدہ ہے کہ جب صحابی روایت پیش کرے اور فتویٰ اپنی روایت کے خلاف دے تو پھر روایت کا اعتبار نہیں ہوتا صحابی کے فتویٰ کا اعتبار ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے تقریباً ستائیس مرتبہ کے فتاویٰ موجود ہیں کہ تین طلاق دیں تو تین ہوتی ہیں اور اور تمہارے بقول وہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ تین طلاق ایک ہے، اور فتویٰ تین طلاق کے تین ہونے کا ہے۔ جب صحابی کا فتویٰ اپنی روایت کے خلاف ہو جائے تو اعتبار فتویٰ کا ہوتاہے کیوں؟ اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ روایتیں دو ہیں، ایک روایت یہی جو صحابی نے نقل کی ہے، ایک روایت اور بھی ہے جو ہمارے علم میں نہیں ہے لیکن صحابی کے علم میں تو ہے، اس لیے اس نے فتویٰ اس پہلی کے خلاف دیا ہے ورنہ وہ اس کے خلاف فتویٰ کیسے دے سکتے تھے؟
کتے کے جوٹھے کو کتنی مرتبہ دھوئیں؟
کچھ دن پہلے مجھے ایک شخص نے فون کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کتا برتن میں منہ ڈال دے توسات مرتبہ دھونا چاہیے، اور فقہ حنفی میں ہے کہ تین مرتبہ دھونا چاہیے تو تمہارا فتویٰ حدیث کے خلاف ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ کتا اگر برتن میں منہ ڈال دے تو برتن سات مرتبہ دھو لو، یہ تو حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا فتویٰ کیا ہے؟ مجھے کہتا ہے کہ جی تین مرتبہ۔ تو میں نے کہا کہ پھر اعتراض فقہ حنفی پر کیوں کرتے ہو، اعتراض حضرت ابوہریرہ پر کرو کہ حدیث بیان کرتے ہیں سات مرتبہ دھو نے کی اور فتویٰ دیتے ہیں تین مرتبہ دھو نے کا! تو اعتراض امام اعظم ابو حنیفہ پر ہو گا یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر؟ اس پر وہ چپ ہو گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سات مرتبہ دھونے والی حدیث نقل کرتے ہیں، فتویٰ تین کا دیتے ہیں کیوں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین مرتبہ دھونا فرض ہے اور سات مرتبہ دھونا مستحب ہے۔ اب دیکھوحدیث اور فتوی میں تعارض ختم ہوگیا تو فقہائے احناف جو کہتے ہیں کہ تین مرتبہ دھونا چاہیے وہ فرض کے درجے میں اور سات مرتبہ دھونا چاہیے مستحب کے درجے میں ہے۔
حدیث ابنِ عباس کا دوسرا جواب:
دوسرا جواب یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آگے ایک شاگرد ہے طاؤس اور یہ شیعہ ہے۔
سیر اعلام النبلاء ج5 ص26،27، المعارف لابن قتیبہ ص267،268
اور ہمارا اصول یہ ہے کہ بدعتی راوی اگر کوئی روایت نقل کرے اور وہ روایت اہلِ بدعت کے مسئلے کے موافق ہو تو وہ ہمارے ہاں حجت نہیں ہوتی۔
شرح نخبۃ الفکر : ص117، مقدمہ فی اصول الحدیث لعبد الحق الدہلوی: ص67
تین طلاق کو ایک کہنا یہ شیعہ کا مذہب ہے اور راوی کون ہے؟ شیعہ۔ جب شیعہ راوی ہے وہ روایت اپنے مسلک کے مطابق لائے گا تو وہ روایت ہمارے ہاں حجت نہیں ہو گی۔
حدیث ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا تیسرا جواب:
اور بھی جوابات ہیں۔ ایک جواب یہ ہے کہ ایک ہوتی ہے تاکید اور ایک ہے استیناف تاکید کا مطلب کہ لفظ کو بار بار ذکر کریں اور معنی ایک ہو، اور استیناف کا مطلب کہ لفظ کو تو بار بار ذکر کریں اور ہر بار معنی الگ ہو۔ خاوند کہے : تجھے طلاق․․ تجھے طلاق․․ تجھے طلاق․․․ اگر تاکید ہو تو معنی ہو گا کہ طلاق ایک ہے اور اگر استینا ف ہو تو معنی ہو گا کہ طلاق تین ہیں۔ تو جب انت طالق․․ انت طالق․․ انت طالق․․ کہے تو اس سے مراد استیناف ہو گا یا تاکید؟
اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ پہلے کوئی شخص اپنی بیوی کو انت طالق، انت طالق، انت طالق کہہ کر طلاق دیتا تو چونکہ دوسری اور تیسری طلاق سے عام طور پر لوگ نئی طلاق کا ارادہ نہیں کرتے تھے اس لیے لوگوں کی غالب اور عام عادت کو دیکھتے ہوئےان الفاظ سے محض تاکید مراد لی جاتی تھی اور اس بندے کی نیت کا اعتبار کر لیا جاتا تھا کہ اس نے دوسری اور تیسری طلاق سے محض تاکید مراد لی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے تین طلاقیں پے در پے دینا شروع کر دیں اور ان لوگوں کی نیت بھی عموماً طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف یعنی نئی طلاق دینے ہی کی ہوتی تھی اس لیے جب کوئی شخص تین طلاقوں والا جملہ بولتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔
شرح مسلم للنووی: ج1ص478 کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث
یہ بات اس وقت ہے جب
”اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا“
نہ کہے بلکہ انت طالق․․ انت طالق․․ انت طالق․․ کہے تو اب دو احتمال تھے؛تاکید یا استیناف لیکن جب
”اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا“
کہے تو اس سے تین ہی واقع ہوتی تھیں۔
دو احتمالات میں سے ایک کا تعین مجتہد ہی کر سکتا ہے:
اب دوسری بات سمجھو! جب لفظ ایک ہو اور اس میں دو احتمال ہوں تو ان میں سے ایک احتمال کا تعین مجتہد ہی کر سکتا ہے۔ جیسے انت طالق․․ انت طالق․․ انت طالق․․ میں دو احتمال ہیں ایک تاکید کا اور ایک استیناف کا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمانے کے تغیر اور فساد کو دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آئندہ اس سے مراد تاکید نہیں ہو گی بلکہ استیناف ہی ہو گا۔
اور محتملۃ المعانی الفاظ میں اگر فقیہ ایک معنی کا احتمال متعین کریں تو مقلد کے ذمہ اس کی تقلید ہوتی ہے۔ جیسے
﴿وَ الۡمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓءٍ﴾
البقرۃ 2: 228
یہاں قروء؛ قرء کی جمع ہے، قرء کا معنی حیض بھی ہے اور طہر بھی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرء کا معنی حیض ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرء کا معنی طہر ہے۔ تو جس طرح قرء کے دومعنی ہیں امام نے ایک معنی متعین کیا ہے ایسے ہی انت طالق․․ انت طالق․․ انت طالق․․ کے بھی دو معنی تھے اور ایک معنی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے متعین کر دیا۔ لیکن یہ کب ہے؟ جب یہ انت طالق․․ انت طالق․․ انت طالق․․ کہے، انت طالق ثلاثاً نہ کہے، اور غیر مقلدین کے ہاں ”تجھے طلاق․․ تجھے طلاق․․ تجھے طلاق․․ “ کہے تب بھی ایک ہے اور ”تجھے تین طلاق ہیں “ کہے تب بھی ایک ہے، ان کی دلیل تو پھر بھی نہیں بنتی۔
حدیث ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا چوتھا جواب:
میں جو سب سے بہترین جواب ہے وہ دینے لگا ہوں، وہ سمجھیں۔ یہ جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلٰى عَهْدِ رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِىْ بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً․
اس کا معنی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگ تین کے بجائے ایک طلاق دیتے تھے،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تین کے بجائے ایک دیتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں تین کے بجائے ایک دیتے، بعد میں لوگوں نے تین کے بجائے ایک نہیں بلکہ تین ہی دینا شروع کر دیں۔
جب ایک دیں گے تو ایک ہو گی اور جب تین دیں گے تو تین ہوں گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِىْ أَمْرٍ كَانَتْ لَهُمْ فِيْهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ ․
لوگوں نے اس معاملے میں جلد بازی شروع کر دی جس میں ان کے لیے گنجائش موجود تھی- کہ ایک دے دیتے، جب انہوں نے تین دے کر گنجائش ختم کر دی تو میں عمر کیا کر سکتا ہو ں؟! لہذا یہ تین ہی ہوں گی۔
اب دیکھیں
”كَانَ الطَّلَاقُ عَلٰى عَهْدِ رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِىْ بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً“
اس کا ترجمہ اگر یہ کریں کہ ”حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق ایک ہوتی“ ․․․ تو اب اس کے جوابات دینے پڑیں گے لیکن اگر ترجمہ یوں کریں کہ ”حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین کے بجائے ایک طلاق دی جاتی تھی“ تو بتاؤ کتنی ہوئی؟ ایک ہی ہو گی․․․ اب جواب کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
اس معنی پر استشہاد یہ آیت دیکھو:
﴿اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا﴾
مشرکین یہ نہیں کہتے تھے کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- نے کئی خداؤں کو ایک خدا بنا لیا ہے بلکہ وہ کہتے تھے: کئی خداؤ ں کی جگہ پر ایک خدا رکھا ہے۔ میں نے اس لیے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ نقل کیا ہے، حضرت تھانوی فرماتے ہیں: ”اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود رہنے دیا“
﴿اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا﴾
کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کئی خداؤ ں کو ایک خدا بنا لیا، ایسا تو تھا ہی نہیں بلکہ وہ کہتے تھے کہ انہوں نے کئی خداؤ ں کی جگہ پر ایک ہی خدا رکھا ہواہے۔ اسی طرح یہ جو حدیث ہے
”طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً“
اس کا معنی بھی یہی ہے کہ تین کی جگہ پہ ایک ہوتی، تو جب ایک ہوتی تو طلاقیں نافذ کتنی ہونی تھیں؟ ایک!
اسی طرح حدیث پاک میں ہے:
مَنْ جَعَلَ الْهُمُوْمَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهٖ كَفَاهُ اللّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ․
سنن ابن ماجۃ، رقم: 257
جو شخص اپنے تمام غموں کو ایک غم یعنی آخرت کا غم بنا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیاوی پریشانیوں اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں۔
اب اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جس آدمی نے کئی غموں کو ایک غم بنا لیا، کئی غم تو ایک غم ہو ہی نہیں سکتے، اس کا معنی یہ ہے کہ اس نےکئی غموں کے بجائے ایک غم کو اختیار کر لیا اور وہ غمِ آخرت ہے۔ رزق کا غم ہے، بیماری کا غم ہے، کبھی گناہ کو جی چاہتاہے، بندہ کنڑول کرتاہے تو کئی غم ہیں لیکن اس بندے نے سارے غموں کے بجائے ایک غم کو اختیار کیا تو اللہ اس کے دنیا کے غموں کے معاملے میں اس کو کافی ہو جائے گا یعنی ان غموں میں اس کی مدد کرے گا۔
اب ان دونوں کو دیکھو:
﴿اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا﴾
کہ کیا اس محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- نے کئی معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود رکھ لیا، اور
”مَنْ جَعَلَ الْهُمُوْمَ هَمًّا وَّاحِدًا“
کہ جس شخص نے کئی غموں کے بجائے ایک ہی غم کو اختیار کر لیا۔ ان دونوں معانی کو دیکھو تو بالکل اسی طرح معنی ہے اس حدیث کا
”طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً“
کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کےدور میں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق کے بجائے ایک دی جاتی تھی، جب دیتے ایک تھے تو شمار بھی ایک ہی ہوتی تھی۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ معنی ایسا بیان کرو جس سے شکوک وشبہات ختم ہو جائیں۔
بڑوں کا حوالہ دینے کی وجہ:
سندھ میں ”دَوڑ“ ایک جگہ ہے وہاں مدرسہ ہے رائے ونڈ کی شاخ، وہاں صرف اساتذہ بیٹھے تھے تو جب میں نے وہاں صحیح مسلم کی اس حدیث کا یہ معنی بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں تو صحیح مسلم پڑھاتے ہوئے عرصہ گزر گیا ہے، یہ عجیب توجیہ ہے۔ میں نے کہا: یہ توجیہ ہماری نہیں یہ علامہ انور شاہ کشمیری کی ہے۔ جب میں نے علامہ صاحب کا نام لیا تو اب مطمئن ہو گئے۔
میں اپنی توجیہ بیان کرتا ہوں تو لوگوں کو الجھن ہوتی ہے، اس لیے پہلے میں توجیہ بیان کرتا ہوں حوالہ نہیں دیتا، وہ توجیہ ان کے دل کو لگتی ہے لیکن قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کے ہاں میری حیثیت نہیں ہے، میں پھر کسی بڑے کا حوالہ دیتا ہوں تو فوراً قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے میں آپ کو یہ بات سمجھاتا رہتا ہوں کہ بھائی! ہماری باتیں آج نہیں لیکن آئندہ نسلوں میں حجت ہوں گی، لوگ حوالہ پوچھیں گے کہ کس نے کہا؟ جواب ہو گا مولانا گھمن صاحب نے کہا، اب حوالہ آ جائے گا، اس وقت ان کے لیے جواب دینا بہت آسان ہو جائے گا، الجھن نہیں ہو گی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا اعزاز:
﴿اِنَّا سَخَّرۡنَا الۡجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحۡنَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِشۡرَاقِ ﴿ۙ۱۸﴾ وَ الطَّیۡرَ مَحۡشُوۡرَۃً ؕ کُلٌّ لَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿۱۹﴾﴾
ہم نے پہاڑ ان کے ساتھ مسخر کر دیے تھے، وہ صبح وشام ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے-
”عَشِيِّ“
کہتے ہیں ظہر سے لے کر آئندہ دن کے طلوعِ صبح تک کو اور ”اِشْرَاقِ“ کہتے ہیں جب سورج نکل کر روشنی پھیل جائے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ”وَالْاِشْرَاقِ“ سے صلوٰۃ الضحیٰ؛ چاشت کے نوافل پر استدلال کیا ہے۔ اشراق کے نوافل الگ ہیں، چاشت کے نوافل الگ ہیں۔ سورج نکلنے کے پندرہ منٹ بعد یہ دو نوافل اشراق کے ہوتے ہیں اور تقریباً دو گھنٹے بعد یہ صلوٰۃ الضحیٰ یعنی چاشت کے نوافل ہوتے ہیں، یہ دو سے لے کر بارہ تک ہیں لیکن سب سے مناسب یہ ہے کہ آدمی چار رکعات پڑھے۔
میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ جب کوئی حدیث یا کوئی مسئلہ پڑھ لیں تو زندگی بھر عمل کی نیت کریں اور ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں۔ سبق سے فارغ ہوں تو ایک بار چار رکعات صلوٰۃ الضحیٰ کی نیت سے پڑھ لیں اور اللہ سے دعا مانگیں کہ اے اللہ! مجھے مستقل معمول بنانے کی توفیق عطا فرما۔ یہ احادیث صرف بیان کے لیے نہیں ہوتیں، عمل کے لیے ہوتی ہیں۔
فصل الخطاب کا معنی:
﴿وَ شَدَدۡنَا مُلۡکَہٗ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحِکۡمَۃَ وَ فَصۡلَ الۡخِطَابِ ﴿۲۰﴾﴾
ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت کو مضبوط کر دیا تھا، انہیں حکمت بھی دی تھی اور
”فصل الخطاب“
بھی دیا تھا۔
﴿فَصۡلَ الۡخِطَابِ﴾
یعنی الخطاب الفاصل۔ یہ اضافۃ الصفۃ الی الموصوف کی قبیل سے ہے۔ خطا ب فاصل ایسا خطاب جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے۔ اللہ نے یہ بھی حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا فرمایا تھا۔ یہ جو ہم تقریر میں خطبہ پڑھنے کے بعد کہتے ہیں:
”أَمَّابَعْدُ!“
اس کی ابتدا حضرت داؤد علیہ السلام نے کی تھی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا امتحان:
﴿وَ ہَلۡ اَتٰىکَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَ ﴿ۙ۲۱﴾﴾
حضرت داؤد علیہ السلام عبادت میں مشغول تھے۔ دو آدمی اچانک دیوار پھلانگ کر آئے اور کہا کہ ہمیں ایک مسئلہ بتائیں اور ساتھ ہی یہ کہاکہ زیادتی نہ کرنا، مسئلہ ٹھیک بتانا! اب دیکھو! یہ ان کا کتنی بے ادبی کا طرز ہے۔ مسئلہ کیا ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میرے بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہے، یہ کہتا ہے کہ یہ ایک بھی مجھے دے دو۔ تو جس کی ننانوے ہیں وہ مدعی ہے اور جس کے پاس ایک ہے وہ مد عیٰ علیہ ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا کہ اس نے بہت بڑی زیاتی کی ہے جو تیرے پاس ایک دنبی ہے وہ بھی مانگی ہے، اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا -اور اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے حق کو چھینتے رہتے ہیں- اتنی بات کی تو حضرت داؤد علیہ السلام کو اچانک خیال آیا کہ میرا تو امتحان ہوگیا، اللہ سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گئے۔ یہ ہے پورا واقعہ۔
واقعہ کی پہلی توجیہ:
اب یہ جو دو بندے آئے تھے یہ کون تھے؟ یہ انسان تھے یا فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے تھے؟ اگر تو یہ انسان تھے تو اب اس کا مطلب ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے گھر کا ماحول ایسا بنایا ہوا تھا کہ اوقات تقسیم کیے ہوئے تھے، چوبیس گھنٹے گھر میں کوئی نہ کوئی عبادت میں مشعول رہتا تھا۔ ایک مرتبہ اللہ رب العزت سے عرض کیا: یا اللہ! چوبیس گھنٹے ہمارے گھر میں آپ کی عبادت ہوتی ہے۔ داؤد علیہ السلام کا یہ جملہ ٹھیک تھا لیکن اس کا طرز مناسب نہیں تھا یعنی بظاہر طرز سے یوں لگتا تھا کہ جیسے بندہ جتلا رہا ہو کہ ہم آپ کی بہت عبادت کر رہے ہیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: یہ ہماری توفیق سے ہے، ایک دن ہم آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیں گے تو پھر دیکھیں گے کہ چوبیس گھنٹے عبادت ہوتی کیسے ہے۔
اب ایک دن داؤد علیہ السلام کی عبادت کا وقت تھا کہ اچانک دو بندے آئے۔ آپ سے مسئلہ پوچھا اور مسئلہ پوچھ کر چلے گئے تو حضرت داؤد علیہ السلام سوچنے لگے اوہو! یہ جومیں نے کہا تھا کہ ہر وقت آپ کی عبادت ہوتی ہے، اب اس وقت تو عبادت ختم ہو گئی، یہ میں کس جھگڑے میں پڑ گیا ہو ں۔ پھر فوراً داؤد علیہ السلام سجدے میں گر گئے کہ اللہ! تو مجھے معاف فرمادے، آپ کی توفیق کے بغیر کوئی عبادت نہیں کر سکتا۔
واقعہ کی دوسری توجیہ:
کوئی سائل کسی بڑے آدمی سے مسئلہ پوچھے تو اب اس بندے کا امتحان ہوتا ہے کہ یہ تحمل سے جواب دیتا ہے یا غصہ ہوتا ہے؟ جب ان دو سائلوں نے ایسا بے جا طرز اختیار کیا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے تحمل سے جواب دیا غصہ نہیں ہوئے۔ گویا اس امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن اگلا مسئلہ یہ تھا کہ داؤد علیہ السلام نے فرمایا:
﴿لَقَدۡ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ﴾
کہ اس شخص نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے تجھ پر ظلم کیا ہے! دیکھیں مظلوم کو خطاب کیا اس بندے نے تیرے اوپر ظلم کیاہے جو تیری ایک دنبی تھی وہ بھی لے رہاہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خطاب مظلوم کو نہیں بلکہ ظالم کو کرنا چاہیے تھا کہ تو نے غلط کیا جو اس کی ایک دنبی بھی لے لی۔ اس طرز کو داؤد علیہ السلام سمجھے کہ یہ تو مجھ سے لغزش ہو گئی ہے، فوراً سجدے میں گر گئے کہ یا اللہ! مجھے معاف فرما!
واقعہ کی تیسری توجیہ:
بعض مفسرین نے اس واقعہ کا ایک مطلب یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں کسی شخص نے ایک جگہ پیغامِ نکاح بھجوایا اور داؤد علیہ السلام نے بھی وہاں پیغامِ نکاح بھجوا دیا تو اس کو بڑی تکلیف ہوئی کہ پیغامِ نکاح پر پیغامِ نکاح کیوں بھیجا؟حالانکہ یہ جائز تھا، نا جائز نہیں تھا لیکن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو بڑوں کی شان کے لائق نہیں ہوتیں۔ تو اس پر پھر دو فرشتے آئے فرضی قضیہ لے کر بندوں کی شکل میں کہ یہ بتاؤ کہ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہے، یہ کہتا ہے کہ یہ بھی مجھے دے دو! حضرت داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ تو مجھے سمجھانا مقصود ہے۔ یا اللہ! تو مجھے معاف فرما دے یعنی میرے پاس تو بیویاں پہلے سے ہیں، اس کے پاس نہیں ہے اور جہاں یہ کرنا چاہتا ہے وہاں میں نے پیغامِ نکاح بھجوایا! تو سجدے میں گر گئے، حالانکہ یہ کوئی نا جائز کام تو نہیں تھا بالکل جائز تھا۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا رجوع الی اللہ:
﴿وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّہٗ وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ ﴿ٛ۲۴﴾﴾
حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ اس واقعے سے ہم نے ان کو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے رب سے مغفرت مانگی اور سجدے میں گر گئے اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔
یہاں یہ بات سمجھیں۔
﴿وَ خَرَّ رَاکِعًا﴾
حضرت داؤد علیہ السلام سجدے میں گر گئے۔ یہاں اللہ لفظ
”رَاكِعًا “
لائے ہیں حالانکہ
”سَاجِدًا“
ہونا چاہیے تھا تویہاں سجدے پر رکوع کا اطلاق ہواہے۔ اس سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلے کا استنباط فرمایا ہے کہ اگر آدمی دورانِ نماز آیت سجدہ پڑھ لے اور اس کے بعد رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں سجدے کی نیت کرے تو سجدہ ادا ہو جائے گا، کیونکہ اللہ نے سجدے پر رکوع کا لفظ استعمال کیا ہے۔
رکوع سے سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی شرائط:
یہ مسئلہ ذہن میں رکھ لیں۔ اگر کوئی شخص دورانِ نماز آیت سجدہ تلاوت کرے تو اس کو سجدے میں جانا چاہیے، نماز کے دوران سجدہ کرے، پھر کھڑا ہوکر اگلی تلاوت کرے، مستحب تویہی ہے لیکن اگر آیتِ سجدہ پڑھنے کے بعد سجدہ میں نہ گیا بلکہ رکوع میں چلا گیا تو سجدہ تلاوت رکوع میں ادا ہو جائے گا لیکن اس کے لیے کچھ شرطیں ہیں:
پہلی شرط․․․ یہ ہے کہ آیتِ سجد ہ کے فوراً بعد یا تین آیات کی تلاوت کرنے سے پہلے رکوع کرے۔ اگر تین آیات کے بعد رکوع کیا اور اس میں سجدے کی نیت کی تو سجدہ ادا نہیں ہو گا۔
دوسری شرط․․․ اگر آیت سجدہ تلاوت کی اور سجدہ میں چلا گیا تو سجدہ ادا ہو جائے گا اگرچہ سجدے کی نیت نہ کی ہو لیکن اگر رکوع میں چلا گیا تو رکوع میں سجدہ تب ادا ہو گا جب رکوع میں اس نے سجدے کی نیت کی ہوکیونکہ سجدے میں نیت کرے نہ کرے سجدہ ہو گیا ہے لیکن رکوع میں تب ہو گا جب نیت کی ہو۔
اب اس پر میں بطورِ استشہاد کے ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ اسے کہتے ہیں
”النظائر“
جیسے
”الاشباہ والنظائر“
مستقل ایک کتاب ہے۔ جس طرح آدمی وضو کرے اور طہارت کی نیت نہ کرے تو وضو تب بھی ہو جاتا ہے لیکن اگر مٹی سے تیمم کرے اور طہارت کی نیت نہ کرے تو طہار ت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ کہ مٹی پاکیزگی کے لیے نہیں ہے اور پانی ہے ہی طہارت کے لیے۔ تو یہاں بھی سجدہ ہے ہی سجدے کے لیے، نیت نہ کرے تب بھی ہو جائے گا لیکن رکوع؛ رکوع ہوتا ہے سجدہ نہیں ہوتا، نیت کرے گا تو ہو گا نیت نہیں کرےگا تو نہیں ہو گا۔
اس کو بطورِ نظیر کے کسی نے پیش کیا یا نہیں کیا لیکن ہم نے پیش کر دیا ہے اور میں آپ کے سامنے اس کی اس لیے وضاحت کرتا ہوں تا کہ آپ اس پر دل چھوٹا نہ کیا کریں کہ اس سے کسی اور نے تو استدلال نہیں کیا تو آپ کیوں کہتے ہیں؟ اگر کسی اور نے نہیں کیا تو بھائی ہم نے تو استدلال کر لیا ہے۔ اب بعد والے اس کو پڑھیں گے تو وہ تو کہیں گے کہ مولانا نے استدلال کیا ہے!
میں اس لیے سمجھاتا ہوں کہ مسئلہ کبھی تبدیل نہ کرنا! مسئلہ وہی بتانا جو ہمارے مشائخ نے لکھا ہو۔ اس مسئلہ پر اگر مشائخ نے دس دلائل دیے ہیں اور ہم نے بارہ دے دیے ہیں تو اس میں الجھن کی کون سی بات ہے؟! مزید دلیل کا پیش کرنا تو کوئی الجھن کی بات نہیں ہے، ہاں البتہ مسئلے کو تبدیل کرنا یہ غلط بات ہے۔
قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا:
﴿وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ﴾ ․․․
اس آیت کو میں بطورِ استشہاد کے ایک اور مسئلہ پر پیش کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں مسئلہ اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ ڈالنا چاہے تو یہ جائز ہے، اس پر ہمارا استدلال یہ ہے کہ ایک روایت ہے عقیقہ کے بارے میں اور ایک روایت ہے قربانی کے بارے میں۔ جو روایت قربانی کے بارے میں ہے اس میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَلّٰى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ.
کہ جس نے نماز پڑھی اور پھر جانور ذبح کیا تو اس نے قربانی کی ہے۔
وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ.
اور جس نے قربانی نماز سے پہلے کردی تواس نے گوشت تو کھا لیا لیکن اس کی قربانی نہیں ہوئی۔
صحیح البخاری، رقم: 983
تو یہاں قربانی پر لفظ ”نسک“ استعمال ہوا ہے۔عقیقے کے بارے میں فرمایا:
”مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ“
جس کے ہاں بچہ پیدا ہو،
”فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْهُ“
اور وہ اس کا عقیقہ کرنا چاہے،
”فَلْيَنْسُكْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ“
تو اگر لڑکا ہو تو دو بکریاں کر لےاور اگر لڑکی ہو تو ایک بکری کرلے۔
سنن ابی داؤد، رقم: 2842
اب دیکھو! یہاں عقیقے کے بارے میں لفظ ”نسک“ آیا ہے جس طرح قربانی کے لیے لفظ ”نسک“ ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عقیقہ کا حصہ قربانی کے جانور میں ڈالنا چاہیں تو ڈال سکتے ہیں،کیوں؟ اس لیے کہ جو لفظ قربانی کے لیے ہے وہی لفظ عقیقہ کے لیے ہے۔ یہ تو ہمارے فقہاء نے دلائل دیے ہیں جو ہمارے متخصصین قربانی کے مسائل والی فائل میں پڑھ چکے ہیں۔
میں اس آیت کو بطورِ استشہاد کے اس مسئلہ پر پیش کر رہا ہوں کہ قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ ڈالنا جائز ہے، کیونکہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر نماز میں آدمی آیتِ سجدہ تلاوت کرے اور رکوع میں نیت سجدے کی کرے تو سجدہ ادا ہو جائے گا۔ دلیل ”رَاکِعاً“ ہے کہ سجدہ پر لفظ رکوع کا استعمال ہوا ہے۔ اب اس آیت کو بطورِ استشہاد اس مسئلے پر کسی نے پیش کیا ہے یا نہیں یہ میرے علم میں نہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اس آیت کو بطورِ مثال کے اس مسئلے پر پیش کر سکتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر:
﴿وَ وَہَبۡنَا لِدَاوٗدَ سُلَیۡمٰنَ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿ؕ۳۰﴾﴾
حضرت داؤد علیہ السلام کو ہم نے سلیمان بیٹا دیا، وہ بہت اچھے آدمی تھے، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام جہاد فرماتے تھے۔ آپ نے گھوڑے منگوائے دیکھنے کے لیے، بہت خوش ہوئے، فرمایا :
﴿رُدُّوۡہَا عَلَیَّ﴾
دوبارہ پھر لاؤ! پھر لائے گئے تو ان گھوڑوں کو چیک کرتے کرتے سورج غروب ہو گیا اور عصر کی نماز فوت ہو گئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بہت روئے، اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ اب یہ گناہ نہیں ہے کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا گھوڑوں کو چیک کرنا بھی عبادت تھی، مشغول اتنے ہوئے کہ خیال نہیں رہا کہ میں نے نماز پڑھنی ہے۔
﴿فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا﴾
طٰہٰ 20: 115
حضرت آدم علیہ السلام بھول گئے وہ بھی گناہ نہیں ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام بھول گئے تو بھی گناہ نہیں ہے لیکن پیغمبر کی شان ایسی ہے کہ نبی اس پر بھی استغفارکر لیتا ہے۔
دینی مشغولیت کی وجہ سے نماز قضا ہونا:
اب غزوہ خندق کےموقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصر کی نماز چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں قضا کی اور پھر آپ نے کفار کے لیے بد دعا کی۔ فرمایا:
"مَلَأَ اللّهُ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ وَقُبُوْرَهُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُوْنَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطىٰ."
صحیح البخاری، رقم: 4111
یہاں دیکھیں! نماز قضا ہوئی نہیں قضا کروائی ہے تاکہ امت کو مسئلہ سمجھ آئے کہ بسا اوقات دین کی مشغولیت میں نماز قضا ہو سکتی ہےجیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے قضا ہوئی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوتے ہیں تو آپ کا دل جاگتاہے لیکن اس کے باوجود لیلۃ التعریس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اور سارے صحابہ کی نماز چلی گئی۔ رات کا آخری پہر تھا، سب سونے لگے۔ کچھ وقت کے بعد صبح صادق ہونی تھی اور پھر آگے سورج نکلنا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں نماز کےلیے کون اٹھائے گا؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں! سارے سو گئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جدھر سے سورج نے نکلنا تھا اس طرف منہ کیا اور کجاوے کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھے، ان پر بھی نیند غالب آ گئی اور آپ سو گئے۔ جب سورج نکلا سب بیدار ہوئے تو حضور نے پوچھا: بلال! کیا ہوا؟ کہا کہ جس اللہ نے آپ کو سلایا اس نے مجھے بھی سلا دیا۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی نماز کیوں قضاء ہوئی تو یہ تکویناً ہوا ہے تاکہ آئندہ کبھی دینی مشغولیت کی وجہ سے استاد شاگردوں سمیت ایسا واقعہ ہو جائے تو اس پر طنز نہیں کرنا! ہاں تمہاری سستی کو دخل نہ ہو لیکن اگر پھر بھی ایسا ہو جائے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسے ہو گیا تھا تاکہ کل ایسا معاملہ پیش آئے تو امت کو مسئلہ سمجھ آ جائے۔ ایک ہے کہ زبان سے فرماتے کہ یوں قضا کرو اور ایک ہے کہ عمل سے بتایا کہ یوں اذان دو، یوں تکبیر پڑھو! تو مسئلہ سمجھ آ گیا۔
گھوڑوں کی پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے کی توجیہات:
﴿فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ ﴿۳۳﴾﴾
جب نماز قضا ہو گئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ گھوڑوں کو دوبارہ لاؤ! دوبارہ لائے تو آپ علیہ السلام نے گھوڑے ذبح کر دیے کہ ان کی وجہ سے میری نماز قضا ہو گئی ہے۔ اب اس پر اشکال یہ ہے کہ نماز تو قضا ہو گئی ہے اس میں گھوڑوں کا کیا قصور تھا، ان کو کیوں ذبح کیا؟
ہم کہتے ہیں کہ اس میں اشکال کی بات ہی نہیں ہے کیونکہ گھوڑے ان کی ملکیت تھے، اپنے گھوڑے ذبح کرنا کون سی حرج کی بات ہے؟ پھر اس دور میں جیسے گائے اور بھینس کا کھانا جائز تھا گھوڑے کا کھانا بھی جائز تھا۔اور بعض حضرات نے اس کا معنی بہت اچھا کیا ہے کہ
﴿رُدُّوۡہَا عَلَیَّ﴾
سلیمان بہت خوش ہوئے، فرمایا: ان کو واپس لاؤ، واپس ؛لایا گیا
﴿فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَ الۡاَعۡنَاقِ﴾
آپ نے ان کی گردنیں نہیں کاٹی تھیں بلکہ محبت کی وجہ سے خوش ہو کر ان کی گردن اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرتے رہے اور یہ خوشی اس وجہ سے نہیں تھی کہ میرے پاس مال ہے بلکہ اس وجہ سے تھی کہ میں ان سے جہاد کروں گا، یہ دین کے کام آئیں گے۔ تو دینی امور کی وجہ سے بندے کا خوش ہونا یہ پیغمبر کی شان ہے۔
خود پر سزا مقرر کرنا :
اب یہ مستقل مسئلہ ہے کہ اگر کسی آدمی سے کسی معاملہ میں سستی یا کوتاہی ہو اور وہ اپنے نفس کے لیے سزا متعین کر لے تو جائز ہے یا نہیں؟ صوفیاء کے نزدیک جائز ہے اور ان کی اصطلاح میں اس کو ”غیرت“ کہتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک صحابی حضرت ابو جہم رضی اللہ عنہ نے ایک شامی چادر پیش کی جس پر کچھ پھول بنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ بعد میں کہا کہ عائشہ! چادر ابو جہم کو واپس دے دو، نماز کے دوران پھولوں پر میری نظر پڑی تو مجھے کھٹکا لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے میری نماز میں غفلت آنا شروع ہوجائے۔
صحابی رسول ہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ، اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے ہیں اور باغ میں پرندے کو دیکھا تو اسی کی طرف دیکھنے لگ گئے۔ نماز کے بعد کہا کہ میرا باغ صدقہ ہے، اس کی وجہ سے نماز کی طرف میرا دھیان نہ رہا! تو اپنے نفس کو ایسی سزائیں دینا جائز ہے گناہ نہیں ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی آزمائش:
﴿وَ لَقَدۡ فَتَنَّا سُلَیۡمٰنَ وَ اَلۡقَیۡنَا عَلٰی کُرۡسِیِّہٖ جَسَدًا ثُمَّ اَنَابَ ﴿۳۴﴾﴾
اس آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک اور آزمائش کا ذکر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ سوچا کہ میں آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس جاؤں گا، ان سے بیٹے پیدا ہوں گے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ اس وقت آپ ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔ اللہ رب العزت کو اپنے نبی کی یہ بات پسند نہ آئی۔ تمام ازواج میں سے صرف ایک بیوی سے بچہ پیدا ہوا اور وہ بھی مردہ اور آدھا دھڑ نہیں تھا۔ تو کسی خادمہ نے لا کر حضرت کے سامنے کرسی پر ڈال دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس پر تنبہ ہوا کہ میں نے ان شاء اللہ نہیں کہا یہ اس کا نتیجہ ہے۔ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کی طرف رجوع فرمایا اور استغفار کیا۔
امارت طلب کرنا کب جائز کب ناجائز؟
سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعامانگی:
﴿قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ ہَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۳۵﴾﴾
اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت دے کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے-اور واقعتاً سلیمان علیہ السلام کے بعد کسی کو ایسی حکومت نہیں ملی کہ جس کی حکومت جنات پر بھی ہو، پرندو ں پر بھی ہو، چرندوں پر بھی ہو، ہوائیں بھی اس کے تابع ہوں، ایسی حکومت اللہ نے ان کو دی۔
اس پر بظاہر شبہ ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے حکومت مانگی ہے جبکہ حدیث مبارک میں ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
”لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيْتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا“
کہ کوئی امارت طلب نہ کرنا، کیونکہ اگر مانگنے سے تمہیں کوئی عہدہ کوئی امارت ملی تو تم جانو اور امارت جانے، اللہ کی طرف سے کوئی مدد نہیں آئے گی،
”وَإِنْ أُعْطِيْتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا“
اور اگر مانگے بغیر کوئی امارت ملی تو اللہ کی طرف سے تمہیں مدد ضرور ملے گی۔
صحیح مسلم، رقم: 1652
اس سے پتا چلا عہدہ اور امارت طلب نہیں کرنی چاہیے۔
اس کا جواب سمجھ لیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ آدمی کو صرف عہدہ کا طالب نہیں ہونا چاہیے، باقی سلیمان علیہ السلام کا مانگنا اس لیے تھا تاکہ اس کے ذریعے دین کا نفاذ ہو، تو اگر مقصد دین کا نفاذ ہو تو پھر اللہ سے حکومت مانگنا جائز ہے اور جب مقصد دین کا نفاذ نہ ہو پھر حکومت مانگنا جائز نہیں ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام:
﴿وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَیُّوۡبَ ۘ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الشَّیۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّ عَذَابٍ ﴿ؕ۴۱﴾﴾
حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ستر سال صحت کی زندگی دی۔ پھر امتحاناً اللہ تعالی نے سات سال بیماری دی۔ بیماری اتنی سخت تھی کہ سارے خاندان والے چھوڑ گئے۔ سات بیٹے تھے اور سات بیٹیاں تھیں وہ بھی انتقال کر گئے، تنہا بیوی رہ گئی، وہ مزدوری کر کے حضرت ایوب علیہ السلام کو کھلایا کرتی تھیں، ان کی بیوی کا نام لیّاہ تھا جو حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی یا بیٹی تھیں۔ ایوب علیہ السلام کی بیوی نے ان کی بہت خدمت کی، اور عجیب بات یہ ہے کہ سات سال کی بیماری میں حضرت ایوب علیہ السلام نے کبھی صحت کی دعانہیں مانگی، صبر کی انتہا ہے، کبھی بیوی کہتیں کہ آپ اللہ سے دعا مانگیں اللہ آپ کو صحت دے دیں۔ فرماتے: ستر سال اس نے صحت دی ہے، سات سال بیماری دی تو کیا فرق پڑتا ہے؟ مجھے اللہ سے دعا مانگتے بھی حیا آتی ہے حالانکہ دعا مانگنی چاہیے غلط نہیں ہے۔
ایک دن شیطان انسانی شکل میں طبیب کے روپ میں ان کی بیوی سے ملا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی نے کہا کہ میرے شوہر کے لیے کوئی دوائی دو، ان کو صحت مل جائے۔ اس نے کہا کہ میں علاج کرتا ہوں، یہ ٹھیک ہو جائیں گے لیکن میری ایک شرط ہے، اگر یہ ٹھیک ہوجائیں تو تُونے کہنا ہے کہ تو نے ان کو شفا دی ہے، میں اس کے علاوہ کوئی اجرت نہیں لوں گا۔ انہوں نے جا کر ایوب علیہ السلام کو بتایا کہ مجھے ایک بندہ ملا اور اس نے یوں کہا۔ ایوب علیہ السلام نے کہا: بھلی مانس! وہ تو شیطان تھا تو اس کی باتوں میں آگئی ہے۔ اس پر آپ کو بہت دکھ ہوا کہ دیکھو میری بیماری کی وجہ سے شیطان اتنا جری ہو گیا ہے کہ اب وہ میری بیوی سے یہ کفریہ کلمات کہلوانا چاہتا ہے۔ تو حضرت ایوب علیہ السلام نے قسم کھا کر فرمایا کہ اگر اللہ نے مجھے شفا عطا فرمائی تو میں تجھے سو چھڑیاں ماروں گا۔
آپ بہت پریشان ہوئے اور پریشانی میں اللہ سے دعا کی کہ اللہ مجھے صحت دے دیں، اب خدشہ ہے کہ ہمارے گھر میں کہیں ایسی چیزیں نہ آ جائیں جن سے دین کا نقصان ہو۔
اللہ پاک کی طرف سے وحی آگئی کہ زمین پر ایڑی ماریں، پانی کا ایک چشمہ نکلے گا، اس پانی سے غسل بھی کریں اور اس کو پئیں بھی! آپ نے غسل بھی کیا اور پانی کو پیا بھی تو ٹھیک ہو گئے۔ اللہ نے جنت سے ایک لباس عطا فرمایا۔ آپ وہ پہن کر اسی جگہ کے قریب بیٹھ گئے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی اہلیہ آئیں تو حضرت ایوب علیہ السلام جنتی لباس پہن کر حالت صحت میں بیٹھے تھے، انہوں نے آ کر پوچھا: یہاں میرے بیمار شوہر بیٹھے تھے، اب وہ کدھر گئے؟ وہ بہت پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو میں ہی ہوں۔ کہا کہ کیوں مذاق کرتےہو؟ کہا کہ ذرا پہچانو مجھے! انہوں نے پھر کچھ باتیں کیں تو پہچان گئیں۔
اب اللہ رب العزت نے قسم پوری کرنے کا طریقہ بتا دیا کہ ان کو سو چھڑیوں کا ایک گٹھا بنا کر ماریں۔ بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ قمچیاں کیا ہے اور بعض نے سینکیاں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ تو فرمایا کہ گٹھا بنا کر اس کو مار دو تو تمہاری قسم بھی پوری ہو جائے گی اور اس کو زیادہ تکلیف بھی نہیں ہو گی۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّ اٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ ﴾
الانبیاء21: 84
ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا، ان کی بیماری کو بھی دور کر دیا، ان کو ان کے گھر والے بھی دے دیے اور اتنے لوگ اور بھی دیے۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ سات بیٹے اور سات بیٹیاں اللہ نے اور بھی دیں اور جوفوت شدہ تھے خدا نے ان کو بھی زندہ کر دیا۔ اللہ نے کچھ عرصہ امتحان لیا پھر اللہ نے کامیابیاں عطا کیں۔ اس لیے مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ بہتر تفسیر یہی ہے کہ جو بچے ان کے فوت ہو چکے تھے وہ بھی زندہ ہوگئے اور اللہ نے مزید بھی دیے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کو حیلہ کی تعلیم:
﴿وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ﴾
آج بھی مسئلہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص سو چھڑیاں مارنے کی قسم کھائے تو سو باریک شاخیں اکٹھی کرے اور گٹھا بنا کر مار دے، لیکن دو شرطیں ہیں:

پہلی کہ وہ سو کی سو طولاً یا عرضاً اس شخص کے بدن کو لگیں۔

دوسری کہ اس سے بندے کو کچھ نہ کچھ تکلیف بھی ہو۔
تو جو حکم اس وقت تھا وہ حکم آج بھی ہے، یوں اس کی قسم پوری ہو جائے گی۔
یہاں ایک اور بات بھی سمجھیں۔ وہ یہ کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ میں سو چھڑیاں ماروں گا اللہ رب العزت نے ایک حیلہ بتا دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں حیلہ کا جواز ہے، لہذا حیلے کا انکار نہ کرو لیکن ایک بات یاد رکھو کہ اگر حیلہ سے مقصود نرمی ہو․․․ آسانی ہو․․․ شریعت پر عمل ہو․․․ تو پھر جائز ہے اور اگر حیلہ سے مقصود حکمِ شرعی کا ابطال ہو پھر جائز نہیں ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں قسم کا اصلی تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنی زوجہ مطہرہ کو پوری سو قمچیاں ماریں لیکن چو نکہ ان کی زوجہ مطہرہ بے گناہ تھیں اور انہوں نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بے مثال خدمت کی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک حیلہ کی تلقین فرمائی اور یہ تصریح کر دی کہ اس طرح ان کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اس لیے یہ واقعہ حیلہ کے جواز کی دلیل ہے۔
جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کا قصہ مشہور ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ السلام کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ کو صدقہ میں دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ اب ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں ہے۔
سنن ابی داؤد، رقم: 1655
جائز اور ناجائز حیلوں کی تفصیل:
اور ایسا حیلہ جس سے حکمِ شرعی کو باطل کرنا مقصود ہو تو وہ جائز نہیں ہے۔ مثلاً ایک آدمی کے پاس پانچ لاکھ روپے ہیں، اس پر زکوٰۃ فرض ہے، یہ پیسے اس کو یکم شوال کو ملے تھے۔ وہ آئندہ بیس رمضان کو وہ پانچ لاکھ روپے بیوی کو ہدیہ دے دے اور دس شوال کو بیوی اس کو ہدیہ دےدے تو زکوٰۃ تو فرض نہیں ہوگی کیونکہ مال پر ایک سال گزرنا فرض ہے، ایک سال تو گزرا نہیں ہے تو زکوٰۃ کیسے فرض ہو گی؟ لیکن یہ جو حیلہ کیا گیا ہے حکمِ شرعی کوباطل یعنی زکوٰۃ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے اس لیے یہ حیلہ جائز نہیں ہے۔
قیامت بہت بڑی خبر ہے:
﴿قُلۡ ہُوَ نَبَؤٌا عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۶۷﴾ اَنۡتُمۡ عَنۡہُ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿۶۸﴾ مَا کَانَ لِیَ مِنۡ عِلۡمٍۭ بِالۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰۤی اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿۶۹﴾ اِنۡ یُّوۡحٰۤی اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۰﴾﴾
آپ فرما دیجیے کہ یہ قیامت تو بہت بڑی خبر ہے جس سے تم منہ پھیر رہے ہو- اس کو ماننے سے انکار کر رہے ہو- مجھے تو عالمِ بالا کی کچھ خبر نہیں جس وقت وہاں گفتگو کر رہے تھے- اللہ رب العزت نے سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
﴿اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً﴾
کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا:
﴿اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ﴾
کیا آپ ایسے بندے کو خلیفہ بنائیں گے کہ جو خون ریزی کرے گا اور فساد مچائے گا۔ یہ ہے
﴿اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ﴾
کہ ملائکہ کا اختصام اور گفتگو ہو رہی تھی اس کے متعلق حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ آپ فرمائیں کہ میں تو وہاں موجود ہی نہیں تھا اس کے باوجود میں تمہیں بتا رہا ہوں، اس سے ثابت ہوا کہ یہ وحی ہے۔
تخلیقِ آدم اور فرشتوں کو سجدہ کا حکم:
﴿اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱﴾ فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۷۲﴾﴾
جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ نبی بشر ہوتا ہے اور یہ سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کی بات ہو رہی ہے۔ جب آدم علیہ السلام کا بدن ٹھیک کر لوں اور اس میں اپنی روح ڈال دوں تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر جانا! اس سے معلوم ہوا کہ نبی وہ جسم ہے جس میں روح ہو، وحی آنا تو شرط ہے وہ تو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
چونکہ آج نئی بحث چل پڑی ہے کہ نبی جسم کو کہتے ہیں یا روح کو؟ہم کہتے ہیں کہ نبی اس جسم کو کہتے ہیں جس میں روح ہو۔
وفات کے بعد نبی؛ نبی ہوتا ہے کیونکہ نبی اس جسم کو کہتے ہیں جس میں روح ہو! اب دیکھیں کتنا مسئلہ حل ہو گیا۔ نبی وفات کے بعد بھی نبی ہوتاہے اس کا معنی کہ وفات کے بعد بھی نبی کی روح کا جسم کے ساتھ تعلق ہوتاہے تبھی تو نبی ہو گا! اگر روح اور جسم کا تعلق بالکل ختم ہو جائے تو نبی آپ کسے کہیں گے؟ کیونکہ تنہا جسم بھی نبی نہیں تنہا روح بھی نبی نہیں ان دونوں کا مجموعہ نبی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر تک روح اور جسم کا تعلق برقرار رہے گا، یہ ختم نہیں ہوسکتا۔
کائنات کا سب سے پہلا اجماع:
﴿فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۷۳﴾ اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اِسۡتَکۡبَرَ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۷۴﴾﴾
تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا، اس نے تکبر کیا وہ کافروں میں سے ہوگیا۔
ا س کائنات میں سب سے پہلا اجماع ملائکہ کا ہے اور اجماع کا سب سے پہلا منکر ابلیس ہے۔ اب جو اجماع کے قائل ہیں وہ ملائکہ کے راستے پر ہیں اور جو اجماع کے منکر ہیں وہ ابلیس کے راستے پر ہیں۔
اور یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھنا! اجماعِ امت معصوم ہوتاہے، اجماعِ امت میں خطا نہیں ہوتی۔ تو جس طرح فرشتہ معصوم ہوتا ہے اور جس طرح نبی معصوم ہوتا ہے اسی طرح امت کا اجماع بھی معصوم ہے اور معصوم کی جگہ جنت ہوتی ہے جہنم نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ بھی جنتی اور اس کے راستے پر چلنے والے بھی جنتی اور اجماع کا جو مخالف ہے اس کے مخالف ہونے کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا :
﴿اِسۡتَکۡبَرَ﴾
اس کی وجہ تکبر ہے۔
﴿وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴾․․․
تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔
کَانَ؛ صَارَ
کے معنی میں ہے یا مطلب یہ ہے کہ
”كَانَ فِیْ عِلْمِ اللہِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ“
اللہ کو پہلے سے علم تھا کہ یہ کافر ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتےہیں: ابلیس اتنا بڑا عابد تھا کہ فرشتہ نہ ہوکر بھی فرشتوں میں شمار ہوتا تھا، اور اتنابڑا عالم تھا کہ اللہ سے بھی دلیل سے بات کرتا، اللہ نے پوچھا:
﴿مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ﴾
تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ ابلیس نے جواب دیا :
﴿اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ؕ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ﴾
کہ میں آدم -علیہ السلام - سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا۔ یہ اللہ سے مناظرہ کر رہا ہے اگرچہ دلیل اس کی غلط تھی، آگے یہ بات آئے گی، اور عارف اتنا تھا کہ اللہ نے فرمایا:
﴿فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ﴾
کہ دفع ہو جا تو مردود ہے۔ ابلیس نے کہا:
﴿فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴾
مجھے مہلت دے دیں اٹھنے کے دن تک۔ اللہ نے فرمایا:
﴿فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ﴾
جا تجھے مہلت ہے۔ خدا کے مزاج کو اتنا سمجھتا تھا کہ اللہ حالت غضب میں ہیں اور یہ اس حالت میں اللہ سے مہلت مانگ رہا ہے لیکن اس میں ایک کمی یہ تھی کہ یہ عاشق نہیں تھا، یہ یہاں پھنس گیا تھا۔ جو عاشق ہوتا ہے وہ دلائل نہیں مانگتا، وہ بغیر دلائل کے بات مانتا ہے۔
اس لیے آدمی کو عالم بھی ہونا چاہیے، عارف بھی ہونا چاہیے، عابد بھی ہونا چاہیے اور عاشق بھی ہونا چاہیے۔ عاشق وہ نہیں جسے آپ لو گ عاشق کہتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ﴾
البقرۃ 2: 165
جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ پورے قرآن میں اللہ نے لفظ عشق کو استعمال نہیں کیا کیونکہ عرف میں عشق کا استعمال غلط ہوتا ہے بلکہ اللہ نے اس کو ”اشد حب“سے تعبیر کیا ہے، بس یہی عشق ہے۔
اللہ نے جب اس سے پوچھا:
﴿اَسۡتَکۡبَرۡتَ﴾
کیا تو نے تکبر کیا ہے؟
﴿اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ﴾
یا تو ہے ہی بڑا؟ یعنی تو چھوٹا ہو کر خود کو بڑا سمجھتا ہے یا واقعتاً تو بڑا ہے؟ اس نے کہا:
﴿اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ﴾
کہ میں ہوں ہی بڑا،
﴿خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ﴾
کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔
اب ایک بات سمجھیں! اس نے کہا کہ میں بڑا ہوں اور دلیل پیش کی کہ میں آگ سے بنا ہوں۔ حافظ ابن قیم نے بدائع الفوائد میں پندرہ دلائل اس پر پیش کیے ہیں کہ مٹی آگ سے بہتر ہے۔ اللہ کو پتا ہے کہ مٹی افضل ہے لیکن خدا نے دلیل کا جواب نہیں دیا، فرمایا :
﴿فَاخۡرُجۡ﴾
دفع ہو جا! اس سے معلوم ہوا کہ ہرجگہ پر دلیل نہیں ہوتی کبھی بغیر دلیل کے بھی نکال دیتے ہیں۔ لو گ کہتے ہیں: اس کی ذہن سازی کرو، اس کی تشفی کراؤ، اس کو بات سمجھاؤ۔ میں نے کہا: بعض کوڑھ مغز ہوتے ہیں، ان کو دلیل نہیں دیتے بس ا ن کو فارغ کر دیتے ہیں۔
دینی امور پر اجرت کا جواز:
﴿قُلۡ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ﴾
اللہ فرماتے ہیں: اے پیغمبر! ان سے کہو کہ میں تم سے کوئی پیسہ نہیں مانگتا۔
جولوگ تعلیمِ دین پر اجرت کے مخالف ہیں وہ اس آیت کو بطور دلیل پیش کرتےہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دین بیان کرتے ہیں لیکن پیسے نہیں لیتے اور کہتے ہیں:
﴿مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ﴾
اس آیت کو بطور دلیل پیش کرنا غلط ہے، کیونکہ ہم علماء تنخواہ اپنے مخالف سے نہیں بلکہ اپنے موافق سے لیتے ہیں اور پیغمبر؛ یہ خطاب اپنے موافق کو نہیں بلکہ اپنے مخالف کو کرتا ہے۔ یہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں:
﴿مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ﴾
کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ کفار سے کہتے تھے یا صحابہ سے کہتے تھے؟ کفار سے کہتے تھے اور ہم تنخواہ کن سے لیتے ہیں؟ مسلمانوں سے۔ یہ تو دلیل بنتی ہی نہیں، اس کا جواب تو بعد کا مسئلہ ہے۔
میں اس لیے آپ سے کہتا ہو ں کہ پہلے مسئلہ کی تنقیح کرو، اس کے بعد دیکھو کہ جواب کی حاجت بھی ہے یا نہیں؟ اللہ کے نبی یہ بات صحابہ سے فرماتے تو اب جواب کی ضرورت پڑتی، یہ بات تو آپ نے اپنے مخالفین سے فرمائی ہے۔ لہذا یہ ان لوگوں کی دلیل ہے ہی نہیں، جب دلیل نہیں تو اس کا جواب دینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔
تکلفات کے بجائے سادگی کو رواج دیجیے:
﴿وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُتَکَلِّفِیۡنَ ﴿۸۶﴾﴾
فرمایا آپ یہ بھی فرما دیں کہ میں تکلف نہیں کرتا، یہ میرا مزاج نہیں ہے، میں سیدھی سیدھی بات کہتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابہ کے اوصاف کے بارے میں بہت پیارا جملہ فرماتے ہیں، میں کئی بار سنایا کرتا ہوں۔
كَانُوْا أَفْضَلَ هٰذِهِ الْأُمَّةِ أَبَرَّهَا قُلُوْبًا، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا.
جامع الاصول فی احادیث الرسول:ج1 ص200 رقم الحدیث
تین صفتیں عجیب بیان کی ہیں
:”أَبَرَّهَا قُلُوْبًا“
صحابہ دل کے صاف ہوتےتھے، دل میں میل نہیں تھا۔
”وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا“
علم بہت گہرا ہوتا تھا۔
”وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا“
مزاج میں بے تکلفی ہوتی تھی۔
آج ہمارے دل میں بغض ہے، علم سے کورے ہیں اور مزاج میں تکلفات ہیں، بس اچھے کپڑے پہن کر ہم پیر بننے کی کوشش کرتےہیں، تقریریں کر کے خطیب بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اصلاح کے نام پر غیبت کرتے ہیں۔ اللہ ہم سب کی اصلاح فرما دیں۔ کل ہماری شوریٰ کا اجلاس تھا عشا کے بعد، میں اپنے اراکین شوریٰ سے کہہ رہا تھا کہ ایک بات یاد رکھو! کسی بندے کے بارے میں دل سے بغض ختم کرنا ہو تو اس کے لیے دعاکر دو بغض ختم ہو جائے گا۔
ہمارے مخالف سے مخالف لوگ دنیا میں ہیں اور میں قسم کھاؤں تو حانث نہیں ہوں گا کہ میرے دل میں کسی کا بغض نہیں ہے، ا س کی وجہ کہ جو میری مخالفت کرتا ہے خدا شاہد ہے میں اس کا نام لے کر دعائیں شروع کر دیتا ہوں اس طرح بغض ختم ہو جاتا ہے، دل میں نفرت نہیں رہتی۔ یہ کام تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے لیکن جب آپ شروع کردیں گے تو ان شاء اللہ طبیعت بن جائے گی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․