سورۃ الزمر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الزمر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ فَاعۡبُدِ اللہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾﴾
لفظ دین کے معانی:
﴿الدِّیۡنَ﴾ ․․․
یہاں دین کا معنی عبادت ہے۔ بسااوقات دین کامعنی قیامت بھی ہوتا ہے
﴿مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ﴾
اللہ قیامت کے دن کا مالک ہے، اور کبھی دین کا معنی شریعت ہوتا ہے۔ شریعت سے مراد منصوصات؛ وہ عقائد اور اعمال ہیں جو نص میں صراحت سے آئے ہیں، اسے بھی دین کہتے ہیں لیکن یہ تب ہےجب دین کا تقابل مذہب کے ساتھ ہو۔ جب دین کا تقابل دنیا کے ساتھ ہو تو دین سے مراد قیامت ہے، اور جب دین کا تقابل مذہب کے ساتھ ہو تو پھر دین کہتے ہیں منصوصات کو اور مذہب کہتے ہیں اجتہادیات کو۔یہاں الدین سے مراد عبادت ہے۔
عبادت خالص مطلوب ہے:
﴿اَلَا لِلہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ۘ مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلۡفٰی﴾
اللہ کے لیے خالص عبادت ہے۔ ملاوٹ والی عبادت اللہ قبول نہیں فرماتے۔ وہ مشرکین جو ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور پھر ان کی عبادت کرتے، پھر فرشتے کی اپنے خیال کے مطابق ایک تصویر بنا لیتے تھے، اس کا بت بناتے پھر اس بت کی پوجا کرتے اور وہ کہتے کہ جس فرشتے کی تصویر کی ہم بت بنا کر پوجا کرتے ہیں اس سے وہ خوش ہوتا ہے، جب خوش ہو گا تو اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرےگا۔ تو فرمایا:
﴿وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ﴾
جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنےمعبود بنائے ہوئے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت کرتے ہیں، کیوں؟
﴿لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلۡفٰی﴾
تاکہ یہ ہم کو اللہ کے قریب کریں، اللہ کے ہاں سفارش کریں حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اللہ رب العزت ان کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿لَوۡ اَرَادَ اللہُ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصۡطَفٰی مِمَّا یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ﴾
اللہ اگر اولاد بنانا چاہتے تو جو اللہ کو مخلوقات میں سے پسند ہوتا وہ بناتے، اللہ رب العزت تو اولادسے پاک ہیں۔
یہ جو دعوائے شفاعت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ان بتوں کی شفاعت ہوگی تو یہ بات سمجھ لیں کہ شفاعت کے لیے دو شرطیں ہیں:
1: شفاعت کرنے والا اللہ کے ہاں مقبول ہو۔
2: جس کی شفاعت ہونی ہے وہ قابلِ مغفرت ہو۔
اگر تو یہ عبادت کرتے جنات شیاطین کی تو وہاں شفاعت کی ایک شرط ختم ہے کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہیں اور اگر یہ عبادت کریں ملائکہ کی تو ملائکہ اللہ کے ہاں مقبول تو ہیں لیکن یہ لوگ قابلِ مغفرت نہیں کیونکہ یہ مشرک ہیں۔ تو شفاعت میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے؛ جو سفارش کرے وہ مقبول ہو اور جس کی سفارش کی جا رہی ہو وہ قابلِ مغفرت ہو۔ مشرک قابلِ مغفرت نہیں ہوتا۔
مویشیوں کے آٹھ جوڑے اتارنے کا معنی:
﴿خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ ؕ﴾
اللہ نے تمہیں ایک جان یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا، انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا اور اللہ نے مویشیوں میں سے آٹھ قسم کے جوڑے اتارے ہیں۔
یہاں بظاہر یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اللہ نے تم کو ایک جان حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا، ان سے ان کی اہلیہ حضرت حواء علیہا السلام کو پیدا کیا۔ آگے جو یہ فرمایا کہ ہم نے یہ آٹھ قسم کے جوڑے اتارے ہیں، حالانکہ اتارے تو نہیں ہیں۔ تو یہاں کہنا چاہیے تھا:
”خَلَقَ“
کہ پیدا فرمائے ہیں۔
”اَنْزَلَ․․ یُنْزِلُ․․ اِنْزَالاً “
تب استعمال ہوتا ہے جب چیز اوپر سے نیچے آئے، جانور تو اوپر سے نیچے نہیں آئے تو
”اَنْزَلَ“
کیسے کہہ دیا ہے؟
• اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پیدائش کا تعلق پانی سے ہے اور پانی آسمان سے برستا ہے اس لیے اللہ
”اَنْزَلَ“
فرما رہے ہیں ․․․
• اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ لفظ
”اَنْزَلَ․․ یُنْزِلُ․․ اِنْزَالاً “
لا کر اپنی کوئی خاص حکمت بیان کرتےہیں۔ جیسے ارشاد فرمایا:
﴿لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ﴾
الحدید 57: 25
کہ ہم نے پیغمبروں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتابیں نازل فرمائیں اور میزان عدل نازل کیا․․․ اور جب لوہے کی باری آئی تو فرمایا:
﴿وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾
کہ ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں بہت سخت قوت ہے اور منافع بھی ہیں۔
حالانکہ یہاں کہنا چاہیے تھا
”اَنْشَاْنَا الْحَدِیْدَ“
کہ ہم نے لوہے کو پیدا کیا ہے،
”اَنْشَاْنَا“
کے بجائے
”اَنْزَلْنَا“
لفظ کیوں استعمال کیا، اسلوب بدلا ہے یہ بات سمجھانے کے لیے کہ جس طرح تم کتاب کو آسمانی کتاب کا درجہ دیتے ہو تو لوہےکو جہاد میں آسمانی لوہے کا درجہ دینا! پھر اس کی اہمیت تمہارے ذہنوں میں آئے گی اور تم اس کا صحیح استعمال کروگے۔
اور یہاں
﴿وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ﴾
فرما کر اللہ نے اپنی خاص قدرت بیان فرمائی۔ عام طور پر زمین سے پیدا ہونے والی چیز کی نسبت بسا اوقات انسان اپنی طرف کرتا ہے․․․ یہ باغات میرے ہیں، یہ گندم میری ہے، یہ کام میں نے کیا ہے لیکن جب آسمان سے پانی برستا ہے تو کوئی نہیں کہتاکہ یہ میرا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے برسایا ہے۔ تو اپنی خاص قدرت بتانے کے لیے
﴿وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ﴾
فرمایا، گویا یہ ایسے ہے کہ ہم نے اتاراہے، ان جانوروں کی پیدائش میں تمہیں رتی برابر دخل نہیں ہے۔
تین اندھیروں میں انسانی تخلیق:
﴿یَخۡلُقُکُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ خَلۡقًا مِّنۡۢ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ﴾
اللہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تین قسم کے اندھیروں میں ایک سے دوسرے مرحلے میں سے گزارتا ہے۔
تین قسم کے اندھیروں میں پیدا کرتے ہیں یعنی ایک ماں کا پیٹ ہے، ایک ماں کا رحم ہے اور ایک پھر مخصوص جھلی ہے جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے۔ تخلیق کے مرحلوں سے کیا مراد ہے؟ کہ پہلے پہل پانی کا ایک قطرہ ہوتا ہے، پھر اس سے خون بنتا ہے، اس کے بعد ایک جما ہوا لوتھڑا اور پھر گوشت ہوتا ہے، اس کے بعد پھر ہڈیاں ہوتی ہیں۔ یوں ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت سے بچہ گزرتا ہے۔
اللہ کی شانِ بے نیازی:
﴿اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنۡکُمۡ ۟ وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ﴾
اگر تم کفر اختیار کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے۔ اللہ اپنے بندوں سے کفر کو پسند نہیں کرتے۔
یہاں دو باتیں سمجھ لیں: ایک ہوتا ہے ارادہ، ایک ہوتی ہے رضا۔ ارادہ اور چیز ہوتی ہے اور رضا اور چیز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ شر کی پیدائش کا ارادہ فرماتے ہیں تو شر پیدا ہوتا ہے، خیر کی پیدائش کا ارادہ فرماتے ہیں تو خیر پیدا ہوتی ہے۔اللہ کے ارادے کے بغیر دنیا میں کسی چیز کو وجود نہیں ملتا لیکن اللہ تعالیٰ ہرچیز سے خوش نہیں ہوتے۔ ایمان بھی اللہ کے ارادے سے پیدا ہوا ہے، کفر بھی اللہ کے ارادے سے پیدا ہوا ہے بندے کے امتحان کے لیے کہ بندہ کفر اختیار کرتا ہے یا ایمان اختیار کرتا ہے لیکن اللہ ایمان کو پسند فرماتے ہیں، کفر کو پسند نہیں فرماتے۔
ارادے اور پسندیدگی میں فرق ہے۔بسا اوقات لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ پیدا نہ کرتے تو ہم کافر کیوں ہوتے؟ اللہ پیدا نہ کرتے تو ایسا کیوں ہوتا؟ تو کسی چیز کا ارادہ کرنا اور ہے اور کسی چیز کو پسند کرنا اور ہے۔ دونوں چیزوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی گفتگو ہوتی ہے، میں اس کے دوران درجہ کتب کے طلبہ کو اس لیے تخصص کے اسباق میں بٹھاتا ہوں کہ اگرچہ بعض باتیں آپ کو ابھی سمجھ میں نہیں آئیں گی لیکن ذہن میں بٹھائیں، بعد میں فائدہ ہو گا۔
بندہ کسی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا یا نہیں؟ (حلِ تعارض)
﴿وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی﴾
اگرتم اللہ کا شکر کرو گے تو وہ تمہارے لیے اس کو پسند کرتا ہے، کوئی شخص قیامت کے دن کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
اس پر میں پہلے بات کرچکا ہوں کہ یہ جو حدیث پاک میں آتا ہے:
"مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهٗ."
صحیح مسلم، رقم: 1017
کہ اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کام کا رواج ڈال دیتا ہے تو اس کا گناہ بھی اس شخص کو ملے گا اور اس بعد جو اس پر عمل کرے گا اس کا گناہ بھی اس شخص کو ملے گا۔
اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بوجھ اٹھائیں گے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نہیں اٹھائیں گے۔
اس کا جواب سمجھیں! دو چیزیں ہیں؛ ایک یہ ہے کہ انسان خود کفر کرتا ہے، یہ اس کا اپنا فعل ہے اور ایک بندہ کسی کے کہنے پر کفر کرتا ہے۔ تو گناہ دوقسم کے ہیں ایک ہے کفر کیا اور ایک ہے کسی کے کہنے پر کیا۔ تو جو کفر خود کیا اس کا بوجھ خود اٹھائے گا اور جس کے کہنے پر کیا ہے اس کو اس کہنے کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔ ایک بندہ کسی کو اپنے ساتھ چوری پر تیار کرتا ہے۔ اب اس کی چوری کا بوجھ تو خود اٹھائے گا اور جس نے تیار کیا ہے وہ اس کی چوری کا بوجھ نہیں اٹھائے گالیکن اس نے تیار کر کے گناہ تو کیا ہے تو اب یہ گناہ اس پر ضرور آئے گا۔تو بعض گناہ ایسے جن جس کا بوجھ اٹھائیں گے اور بعض گناہ ایسے ہیں جن کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔
اسلام کے لیے شرح صدر:
﴿اَفَمَنۡ شَرَحَ اللہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ﴾
اللہ جب کسی شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں تو وہ شخص اللہ کی طرف سے خاص نور اور روشنی پر ہوتا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! شرح صدر کا معنی کیا ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس بندے کے قلب کو وسیع فرما دیتے ہیں۔ اس کا معنی ہے کہ احکامِ شریعت کو سمجھنا اور پھر ان پر عمل کرنا اس بندے کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ حضور! شرح صدر کی نشانی کیاہے؟ فرمایا:
اَلْإِنَابَةُ إِلٰى دَارِ الْخُلُوْدِ ․․․
جنت کی طرف انسان کا رجوع ہوتا ہے۔
وَالتَّجَافِيْ عَنْ دَارِ الْغُرُوْرِ ․․․
اور دنیا کے دھوکےسے بندہ بچتا ہے۔
وَالتَّأَهُّبُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِهٖ ․․․
اور موت کے آنے سے پہلے انسان موت کی تیاری کرتا ہے۔
روح المعانی: ج23 ص257
یہ اس کی علامت ہے۔ اللہ ہم سب کو عطا فرمائے۔ آمین
﴿فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللہِ﴾
اور جس کا شرح صدر نہیں ہوتا وہ کون ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہو جاتے ہیں۔
اب میں اور آپ خود غور کریں کہ اللہ کا ذکر کرنے سے ہمارا دل خوش ہوتا ہے یا تنگ ہوتا ہے؟اگر تنگ ہو تو استغفار کرنا چاہیے کہ کہیں ہم
﴿فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللہِ﴾
میں شامل تو نہیں؟ اس پر غور کریں۔
احسن الحدیث؛ کتاب اللہ
﴿اَللہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللہِ﴾
اللہ نے بہترین کلام کو اتارا ہے جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ اس کتاب سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
کتاب اللہ کی صفات:
اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے اس کی صفتیں ہیں:
پہلی صفت:
"مُّتَشَابِہًا" ․․․
اس کا ایک مضمون دوسرے سے ملتا ہے۔
دوسری صفت:
"مَّثَانِیَ" ․․․․
ایک مضمون کو بار بار لاتے ہیں تاکہ بات دل میں اترے۔
تیسری صفت:
"تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ"․․․
جو اللہ سے ڈرتے ہیں تو ان کے بدن کانپتے ہیں، خوف محسوس کرتے ہیں،
﴿ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللہِ﴾ ․․․
اور پھر ان کے جسم نرم ہو جاتے ہیں، ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
بار بار اللہ کے ذکر کا تذکرہ آتا ہے اور ہم علماء اور طلبہ کو اس پر بہت غور کرنا چاہیے۔ قرآن ذکر کی کتنی بات کرتا ہے اور ہم کتنا ذکر کرتے ہیں؟
خشیت اور خوف میں فرق:
ایک لفظ یاد رکھ لیں۔ یہاں ہے :
﴿یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ﴾،
خشیت اور خوف میں کیا فرق ہے؟ موذی کی تکلیف کے ڈر کو خوف کہتے ہیں اور عظمت والے کی عظمت کے ڈر کو خشیت کہتے ہیں۔ آدمی سانپ سے بھی ڈرتا ہے اس ڈر کا نام خوف ہے، آدمی کتے سے بھی ڈرتا ہے اس ڈر کا نا م خوف ہے اور خشیت کا معنی ہے کسی کی عظمت کی وجہ سے اس سے ڈرنا۔
اب دیکھیں! خشیتِ الٰہیہ کہ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں، کیوں؟ اللہ کی عظمت کی وجہ سے۔ درندے سے ڈرتے ہیں، کیوں؟ اس کی ایذا ءکی وجہ سے اور اللہ والوں کا رعب یہ عظمت کا ہوتا ہے۔ خشیت اور خوف کے اصل معنی تو یہی ہیں۔ ہاں کبھی کبھی اس کے خلاف بھی استعمال ہوتا ہے۔
توحید و شرک کی مثال سے وضاحت:
﴿ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلہِ ۚ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۹﴾﴾
یہاں سے اللہ نے مشرک اور موحد کی مثال دی ہے۔ ایک غلام ہے جس میں کئی شریک ہیں اور سارے ضدی ہیں، یہ غلام سوچتا ہے کہ میں کس کی بات کو مانوں، کس کی نہ مانو ں؟ اور جو موحد ہے اس کا مالک ایک ہی ہے، اس کو الجھن نہیں ہے۔ تو مشرک ٹینشن میں ہوتا ہے کہ یہ خدا ناراض نہ ہو جائے، وہ خدا ناراض نہ ہو جائے اور موحد کے سامنے ایک ہی خدا ہے، بس وہ راضی ہو جائے تو سب ٹھیک ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے۔
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ﴾ کی تشریح:
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾﴾
یہاں یہ بات یاد رکھ لیں
”مَيِّتٌ“
اسے نہیں کہتے جس پر موت آ چکی ہو، ”مَيِّتٌ“ اسے کہتے ہیں جس پر موت آنی ہو۔اصل معنی
”مَيِّتٌ“
کا یہی ہے۔
تو یہاں بتایا یہ ہے اے پیغمبر! آپ پر بھی موت آنی ہے اور ان پر بھی موت آنی ہے۔ اب اس آیت کا تعلق پیغمبر کی وفات کے بعد والی حیات سے بالکل نہیں ہے۔ اس لیے بہت سارے مفسرین اس آیت کے تحت اس مسئلے کو چھیڑتے ہی نہیں ہیں لیکن ہمیں کیوں چھیڑنا پڑتا ہے؟ اس لیے کہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو منکر ہے وہ اس آیت سے استدلال کرتا ہے تو پھر ہمیں بھی اس آیت پر بات کرنی پڑتی ہے۔
یہ وضاحت میں کیوں کر رہا ہوں؟ کیونکہ ممکن ہے کہ
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ﴾
کے تحت آپ وفات کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا مسئلہ چھیڑیں اور کوئی آپ پر اعتراض کرے کہ کسی مفسر نے اس آیت کے تحت اس مسئلے کو نہیں چھیڑا تو تم کیوں چھیڑتے ہو؟ تو آپ کے پاس جواب ہونا چاہیے کہ پہلے ہمارے مخالف نے اس سے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار پر استدلال کیا ہے تو ہمیں جواب دینے کےلیے اس کو چھیڑنا پڑتا ہے۔ یہ الجھن کیوں پیش آرہی ہے؟ اس لیے کہ ہمارے بعض حضرات اعتدال کے نام پر ہم سے ناراض ہوتے ہیں کہ آپ نے کس آیت کے تحت اس مسئلے کو چھیڑ دیا؟ بھائی! یہ ہم لے کر نہیں بیٹھے بلکہ فریق مخالف نے پہل کی ہے۔
جب ایک آدمی اھل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے کے خلاف اس آیت کو پیش کرے گا تو پھر ہم جواب نہیں دیں گے؟! ہاں گزشتہ مفسرین کے دور میں کوئی شخص اس آیت کو اسی مسئلے کے بارےمیں پیش کرتا اور وہ جواب نہ دیتے تو پھر آپ کا اعتراض بجا تھا۔ جس دور میں آیت سے غلط استدلال ہو گا تو اسی دور میں جواب دیا جائے گا نا!
اللہ رب العزت اپنے پیغمبر کے لیے
”مَیِّتٌ“
کا لفظ الگ لائےہیں اور امت کے لیے
”مَیِّتُوْنَ“
کا لفظ الگ لائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی موت الگ ہے اور امتی کی موت الگ ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ اس لیے لفظ الگ الگ لائے ہیں۔
خروجِ روح اور حبسِ روح:
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ یہی بات فرماتے ہیں کہ امت کی موت بصورت خروجِ روح ہے اور نبی کی موت بصورت حبسِ روح ہے۔ ہمارا ایک مخالف مناظر تقریر کے دوران میرا نام لے کر گالیاں بھی دے رہا تھا اور ساتھ کہہ بھی رہا تھا کہ اس کو یہ بھی پتا نہیں کہ
”حبس“
کیا ہوتا ہے! یہ
”حبس“
گرمی والی سمجھتا ہے۔ میں نے کہا کہ یار تم کبھی ہمارا بیان ہی سن لیتے، کبھی مثالیں ہی سن لیتے۔
”خروج ِ روح“
کامعنی ہے کہ روح جسم سے نکل جائے اور
”حبسِ روح“
کا معنی ہے کہ روح جسم میں قلبِ اطہر میں سمٹ جائے اور
” بسط“
کا معنی ہے کہ پھر روح دوبارہ پھیل جائے۔
فرمایا چونکہ نبی کی موت الگ ہے، امتی کی موت الگ ہے اس لیے اللہ نبی کے لیے
”مَیِّتٌ“
کا لفظ الگ لائے ہیں اور امت کے لیے
”مَیِّتُوْنَ“
الگ لائے ہیں، اور اس پر پھر قرائن ہیں کہ ان دونوں کی موت میں فرق ہے۔ موت کو نیند اور نیند کو موت کی بہن کہتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم میں موت پر نیند کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے
﴿یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا﴾ ،
یٰسین 36: 52
اسی طرح نیند پر موت کا لفظ استعمال ہوا ہے
”اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَأَحْيیٰ“
تو موت اور نیند آپس میں بہنیں ہیں۔
نبی و امتی کی نیند اور موت میں فرق:
جب نبی اور امتی کی نیند میں فرق ہے تو نبی اور امتی کی موت میں بھی فرق ہو گا۔ نبی کی نیند یہ ہے کہ ظاہر پر آتی ہے اور قلبِ اطہر بیدار ہوتا ہے۔ نبی کی موت بھی یہ ہے کہ ظاہر پر موت آتی ہے اور قلبِ اطہر میں حیات ہوتی ہے۔ تو دونوں میں فرق ہے۔
نبی اور امتی کی موت میں فرق ہے۔ نبی کی موت کے بعد اس کا مال رشتہ داروں میں بطورِ وراثت تقسیم نہیں ہوتا اور امتی کی موت کے بعد مال وراثت میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ مال وراثت میں تقسیم ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ مال مُورِث کی ملک سے نکلے اور ملک سے تب نکلے گا جب روح اور جسم کا تعلق ختم ہو گا۔ امتی کا تعلق ختم ہو جاتا ہے اس لیے مال ملک سےنکل جاتا ہے اور نبی کا تعلق ختم نہیں ہوتا تو مال ملک سے نہیں نکلتا۔ اس لیے امتی کی موت الگ ہے اور نبی کی موت الگ ہے۔
امتی کی وفات کے بعد بیوی کا تعلق شوہر سے ختم ہو جاتا ہے۔ چونکہ بیوی کا تعلق تب ہوتا ہے جب روح اور جسم کا تعلق ہو اور جب روح اور جسم کا تعلق ختم ہو گا تو زوجیت کا تعلق بھی ختم ہو گا اور پیغمبر کی بیوی کا تعلق وفات کے بعد بھی باقی رہتا ہے کیوں؟ اس لیے کہ ان کی روح اور جسم کا تعلق باقی ہے۔تو نبی کی موت الگ ہے اور امتی کی موت الگ ہے۔
میں اس کو سمجھانے کے لیے مثال دیتا ہوں کہ جس طرح جلسے کا میز بان جلسے کے بعد اعلان کرے کہ تمام حضرات تشریف رکھیں، آپ کے لیے کھانے کا انتظام ہے۔ اب جو جلسے میں آنے والا خطیب ہے وہ بھی وہیں کھانے کے لیے بیٹھ جائے تو جلسے والے کہیں گے: مولانا صاحب! آپ کا کھانا یہاں نہیں، وہاں لگا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کھانوں میں فرق ہے، سامعین کا کھانا الگ ہے اور خطیب کا کھانا الگ ہے، تبھی تو کہا کہ ان کا کھانا ادھر ہے اور آپ کا کھانا ادھر ہے۔
تو
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ﴾
میں نبی کے لیے میت کا لفظ الگ لائے اور امت کے لیے الگ لائے۔ اس کا معنی کہ دونوں میں فرق ہے۔
ایک لفظ دو بار بولیں اور معنی ایک ہو تو اس کو ”تاکید“ کہتے ہیں اور ایک لفظ دو بار بولیں اور معنی الگ ہو تو اس کو ”استیناف“ کہتے ہیں اور بلاغت کا ضابطہ ہے کہ استیناف؛ تاکید سے اَولیٰ ہوتا ہے۔ اگر جو معنی
”مَیِّتٌ“
کا ہے وہی معنی
”مَیِّتُوْنَ“
کا ہو تو یہ تاکید ہے۔اگر دونوں کا معنی الگ ہو تو یہ استیناف ہے۔تو بلاغت کا بھی تقاضا ہے کہ نبی کی موت الگ ہو اور امتی کی موت الگ ہو، الگ الگ ہونی چاہیے۔
یہاں ایک بات اچھی طرح سے سمجھ لیں! بسا اوقات انسان اپنا عقیدہ سمجھ لیتا ہے لیکن دوسرے کو مطمئن نہیں کر پاتا، اپنا عقیدہ دلائل سے شرح صدر کے ساتھ سمجھ آ جاتا ہے لیکن دوسرے کو جواب نہیں دے پاتا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنا عقیدہ سمجھ جائیں، صحیح عقیدہ اختیار کر لیں تو نجات اس پر ہے۔ دوسرے کو جواب نہ دے سکیں تو نجات پھر بھی ہو جائے گی۔ بس نجات کے لیے ضروری ہے کہ اپنا عقیدہ ٹھیک ہو، اس لیے اپنا عقیدہ دلائل سے سمجھ لیں۔ کسی کو آپ جواب دے سکیں تو بہت اچھی بات ہے،اگر نہ دے سکیں تو کم از کم آپ کو یہ تو شرحِ صدر ہو گا کہ ہمارے عقیدے پر دلائل بہت ہیں، الجھن نہیں ہے، قرآن ہمارا ساتھ دیتا ہے، قرآن ہمارا مخالف نہیں ہے۔
منکرینِ حیات سے گفتگو کا طریقہ:
اور یہ بات بڑی اچھی طرح ذہن میں رکھ لیں! بسا اوقات آپ کا مخالف آپ سے کہے گا کہ آپ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی آیت پیش کریں۔ تو آپ ان سے کہیں کہ پہلے موت ہے اور پھر حیات ہے، آپ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موت مانتے ہیں؟ کہے گا: مانتا ہوں۔ آپ کہیں: موت پر آیت پیش کریں۔ وہ کہے گا:
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ﴾
آپ پوچھیں کہ جب یہ آیت اتری تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وفات پا چکے تھے؟ کہے گا: نہیں۔ تو یہ آیت وفات پر دلیل کیسے ہو گی؟ اس سے تو ثابت نہیں ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آ چکی ہے، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ پر موت آنی ہے۔ ایک ہے وقوعِ موت اور ایک ہے خبر ِ موت۔
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ﴾
میں موت کی خبرہے، موت کا وقوع نہیں ہے۔
کبھی وہ آیت پڑھتے ہیں:
﴿کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ﴾
العنکبوت 29: 57
میں نے کہا: میں بھی نفس ہوں میں تو نہیں مرا،
﴿کُلُّ نَفۡسٍ﴾
میں ہر نفس کی موت کا وقوع بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ ہر نفس کی موت کی خبر دی جا رہی ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے، اس پر آیت پڑھو!
کبھی پڑھتے ہیں:
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا﴾
الزمر 39: 42
میں نے کہا: ہم تو سوتے ہیں ہمارے اوپر تو موت نہیں آتی، تو اس میں بھی خبر ہے اس میں وقو ع نہیں ہے کہ ہر شخص کا وقوع موت بتایا جا رہا ہو۔
کبھی کہتے ہیں کہ اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر موت نہیں آئی تو صحابہ نے دفن کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ یہ آیت پڑھی ہے آپ نے؟ آیت پڑھو آیت! یہ جو تم کہتے پھرتے ہو کہ ہمارے پاس 70 آیتیں اور 1800 حدیثیں ہیں، ہم آپ کو 69آیتیں معاف کرتے ہیں آپ صرف ایک آیت بتائیں اور 1799 حدیثیں معاف ہیں صرف ایک حدیث پڑھ دیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئی ہے۔ کیوں جھوٹ بولتے ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر قرآن کریم سے 70آیات ہیں!
اب دیکھو! منکرین حیات اگر آپ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات فی القبر پر آیت پوچھیں تو آپ نے ان سے موت فی الدنیا پر آیت مانگنی ہے کہ آپ لوگ کیسے ثابت کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آئی ہے؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر صرف ایک دلیل ہے؛ اجماع امت۔ ہم کہتے ہیں کہ جس دلیل سے موت ثابت ہے اسی دلیل سے حیات ثابت ہو گی۔ جب موت؛ اجماع سے ثابت ہے تو حیات بھی اجماع سے ثابت ہو گی۔ آپ لوگ حیات پر اجماع نہیں مانتے بلکہ آپ کہتے ہیں کہ پہلے قرآن پیش کرو تو ہم بھی کہتے ہیں کہ موت پر پہلے قرآن پیش کریں، جب موت پر آپ کے پاس قرآن نہیں ہے تو آپ حیات پر قرآن کیسے مانگتے ہیں؟
یہ میں اس لیے کہتا ہوں کہ تحمل سے بات کرو، جلد بازی نہ کیا کرو، ہمارے پاس تو قرآن ہے پھر کیوں ڈرتے پھرتے ہو؟ تو پیغمبر کی موت کس دلیل سے ثابت ہے؟ (اجماع سے۔ سامعین) تو حیات بھی اجماع سےثابت ہوگی، تو جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر اجماع ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر بھی اجماع ہے۔ بات تو ختم ہو گئی۔ اب اگر ہم قرآنی دلیل دیتے ہیں تو ہمارا احسان ہے، یہ اضافی بات ہے ہمارے ذمہ نہیں ہے۔
میں اس لیے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے عقائد کو اچھی طرح سمجھیں تو پھر آپ کو کبھی الجھنیں اور پریشانیاں نہیں ہوں گی۔ آپ کیوں پریشان ہیں کہ مطالعہ کرنا پڑے گا، بات کیسے کریں گے؟ کیا اتنی سی بات بھی آپ نہیں کر سکتے؟ یہ بات کرنی کیا مشکل ہے؟اس لیے آپ گھبرایا بالکل نہ کریں اور کھل کر بات کیا کریں۔
موت اور نیند میں روح کا قبض ہونا:
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۲﴾﴾
اللہ رب العزت روح کو قبض فرما لیتے ہیں جب موت کا وقت آتاہے اور روح کو قبض فرما لیتے ہیں جب انسان پر نیند آتی ہے،
﴿فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ﴾
پھر جس پر موت کا فیصلہ ہو وہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں،
﴿وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی﴾
اور دوسری کو چھوڑ دیتے ہیں ایک وقت تک- وقت آنے پر اس پر بھی موت آ جاتی ہے-
﴿اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴾
روح کو قبض کرنا پھر روح کو چھوڑنا؛ اس میں کس قدر دلائل ہیں اس قوم کے لیے جو سمجھتی ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب انسان پر نیند آتی ہے تو انسان کی روح نکلتی ہے لیکن روح کی ایک شعاع انسان کے بدن میں رہتی ہے، اس رابطہ شعاعی کی وجہ سے بندہ زندہ رہتا ہے اور جب موت آتی ہے تو رابطہ شعاعی بھی ختم ہو جاتا ہے، اس لیے انسان پر موت آ جاتی ہے -دیکھو! سورج اوپر ہے اور زمین نیچے ہے۔ تو یہاں روشنی کیوں ہے؟ کیونکہ سورج کی شعاعیں یہاں زمین پر ہیں۔ یوں روح کی شعاع ہے اس سے جسم میں حیات رہتی ہے- اب جب انسان کی روح عالمِ مثال کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور خواب آتا ہے تو یہ خواب سچا ہوتا ہے اور جب یہ روح عالمِ دنیا کی طرف متوجہ ہوتی ہے پھر خواب آتا ہے تو یہ خواب جھوٹا ہوتا ہے۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں۔
اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روح اور جسم کا تعلق ظاہراً بھی ہوتا ہے اور باطناً بھی ہوتا ہے۔ جب انسان پر نیند آتی ہے تو اس وقت باطنی تعلق تو رہتا ہے جس سے بندہ سانس لے رہا ہوتا ہے، تدبیر ہو رہی ہوتی ہے اور ظاہری تعلق ختم ہو جاتا ہے جس کو حرکتِ ارادیہ کہتے ہیں وہ ختم ہو جاتی ہے کہ بندہ اپنے ارادے سے چلے دوڑے پھرے، اور جب موت آتی ہے تو پھر یہ ظاہری تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے باطنی تعلق بھی ختم ہوتا ہے تو پھر عام انسان پر موت آ جاتی ہے۔
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا﴾ سے استدلال کا جواب:
اب اس سے مماتی حضرات استدلال کرتے ہیں:
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا﴾
میں نے کہا کہ ذرا ترجمہ کرو جو تم کرتے ہو!اب وہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ”اللہ قبض کرتا ہے انفس کو یعنی روح کو جب اس پر موت آتی ہے“، تو میں نے کہا کہ کیا روح پر موت آتی ہے؟ کہتے ہیں: جی نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر آپ کیسے ترجمہ کرتے ہیں؟! آپ تو انفس کو مفعول بہ بناتے ہیں اور
﴿مَوۡتِہَا﴾
میں "ہَا" ضمیر کا مرجع انفس ہے۔ یہ میں مماتیت کی بات کر رہا ہوں۔ پھر یہ لوگ
﴿وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا﴾
کا معنی کرتے ہیں ”اور اللہ قبض کرتے ہیں اس کو جو نہیں مرتی اپنی نیند میں“․․․ تو میں نے کہا کہ نیند جسم پر آتی ہے یا روح پر آتی ہے؟ روح تو نہیں مرتی تو آپ اس کا ترجمہ کیسے کرتے ہیں کہ اللہ روح کو قبض کرلیتے ہیں؟
وہ لوگ تقریر یوں کرتے ہیں:
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ﴾
انفس جمع ہے
"نَفْسٌ"
کی اور
﴿کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ﴾
العنکبوت 29: 57
ہم نے کہا کہ آپ کہتے ہیں: انفس جمع ہے نفس کی اور ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا روح موت کا مزا چکھتی ہے؟ کیا روح مرتی ہے؟ مرتا تو جسم ہے تو پھر
﴿کُلُّ نَفۡسٍ﴾
سے مراد جسم ہو گا نا! نفس وہی ہو گا جس نے موت کا مزا چکھنا ہے اور موت آتی ہے جسم پر تو نفس سے مراد کیا ہو گا؟ (جسم ہو گا۔ سامعین) اور یہ انفس اُس نفس کی جمع ہے تو پھر اس انفس سے مراد کیا ہوگا؟ (جسم ہو گا۔ سامعین) تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ روح نکل جاتی ہے؟
مماتی مجھے کہنے لگا کہ جی پھر آپ اس آیت کا مطلب سمجھا دیں! میں نے کہا کہ تم نے جو سبق پڑھا ہے پہلے وہ تو سناؤ، اپنی تفسیر ہمیں سمجھاؤ، ہم تو بعد میں بات کریں گے اور ہمارا مطلب سمجھنا تو بڑا آسان ہوتا ہے۔
یہ جو میں نے بات کی ہے یہ ان کے موقف پر اعتراض کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ﴾
اللہ روح کو قبض کر لیتے ہیں
﴿حِیۡنَ مَوۡتِہَا﴾
جب موت آتی ہے،
﴿وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا﴾
اور اس کی روح قبض کر لیتے ہیں جس کی موت نہیں آئی ہوتی بلکہ اس کی نیند ہوتی ہے،
﴿فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ﴾
اور جس پر موت کا فیصلہ ہو چکا ہو تو اس کی روح کو روک لیتے ہیں۔
میں نے کہا کہ جو تقریر تم نے کی ہے تمہاری اس تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی پر نیند آتی ہے اللہ اس کی روح کو قبض کرلیتے ہیں، اگر اس کی زندگی کے دن باقی ہوں تو روح کو واپس بھیج دیتے ہیں اور اگر زندگی کے دن باقی نہ ہوں تو روح کو روک لیتے ہیں۔ یہی مطلب ہے نا تمہارا؟ میں نے کہا کہ مجھے سمجھاؤ! اگر یہی معنی ہے تو جب نیند میں روح نکل جاتی ہے اگر اس کے لیے فیصلہ زندگی کا ہے تو روح واپس آتی ہے اور اگر فیصلہ موت کا ہے تو روح کو روک لیتے ہیں۔ تو جو روح نکالی تھی اسی کو روکا ہے نا! جب رکی ہے تو بندہ تو سانس لے رہا ہے تو پھر روکنے روکنے میں فرق کیا ہوا؟ جب روح نکل گئی تو بندہ سانس بھی لے رہاہے،آوازیں بھی نکال رہا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ موت کے ساتھ روح رک گئی ہے تو یہ روح اتنی رکی ہے جتنی نکالی تھی تو پھر یہ فرق کیوں پڑا؟
روح اور جسم کے تین تعلقات:
فرق کیا ہے اچھی طرح سمجھو! ایک کیفیت انسان کی موت کی ہے اور ایک کیفیت انسان کی نیند کی ہے۔ نیندا ور موت دونوں میں اللہ تعالیٰ بندے کی روح الگ کر لیتے ہیں۔ اس روح کا جسم کے ساتھ کئی قسم کا تعلق ہوتا ہے۔ ایک تعلق نیند میں ختم ہوتاہے یہ
”توفِّی“
الگ ہے اور ایک تعلق موت میں ختم ہوتا ہے یہ ”توفِّی“ الگ ہے۔
• روح کا جسم سے ایک تعلق ہے اس کو کہتے ہیں ”تعلقِ حیات“
• ایک تعلق ہے اسے کہتے ہیں ”تعلقِ تصرف“
• ایک ہوتا ہے ”تعلقِ تدبیر“
یہ تین تعلقات ہو گئے۔ ایک تعلق سے جسم کو صرف حیات ملتی ہے، نہ ہی تدبیر نہ ہی تصرف، یہ تعلقِ حیات ہے، اور ایک تعلق ایسا ہے کہ جس سے آدمی کے جسم میں تدبیر ہوتی ہے، تدبیر کا معنی کہ آدمی کا کھانا خود بخود ہضم ہو رہا ہے، خون چل رہا ہے، سانس لے رہا ہے یہ تعلقِ تدبیر ہے، اور ایک تعلقِ تصرف ہے کہ آدمی کھا رہا ہے، پی رہا ہے، دوڑ رہا ہے۔ تو تعلق کی یہ تین قسمیں ہو گئیں۔
ان تین تعلقات کے دائرہ ہائے کار:
جب آدمی جاگ رہا ہوتا ہے اور زندہ ہوتا ہے تو روح اور جسم کا تعلقِ حیات بھی ہوتا ہے، تعلقِ تصرف بھی ہوتا ہے اور تعلقِ تدبیر بھی ہوتا ہے۔تعلقِ تصر ف بھی ہے کہ کھاتا پیتا ہے، دوڑتا ہے۔ تعلقِ تدبیر بھی ہے کہ سانس آ رہا ہے، جا رہا ہے، ہمیں سانس کے لیے کوئی زور نہیں لگانا پڑتا؟ خود بخود آ رہا ہے اور دل خود بخود دھڑک رہا ہے، خون خود بخود گردش کر رہا ہے، جگر کام کر رہا ہے، معدہ کام کر رہا ہے یہ تعلقِ تدبیر ہے اور ہم زندہ بھی ہیں یہ تعلقِ حیات ہے۔
اور جب انسان پر نیند آتی ہے تو تعلقِ حیات بھی رہتا ہے، تعلقِ تدبیر بھی رہتا ہے البتہ تصرف ختم ہو جاتا ہے۔ جب آدمی سوتا ہے تو آدمی کے سونے سے کھانا ہضم ہوتا رہتا ہے، سانس آتی جاتی ہے اور دل خون کو لیتا ہے باہر نکالتا ہے، نبض چل رہی ہوتی ہے۔ یہ تعلقِ تدبیر ہے۔ اور جب انسان پر موت آتی ہے تو تینوں تعلقات ختم ہوجاتے ہیں۔
تو ”توفِّی“ دونوں کی الگ الگ ہے۔ بوقتِ نیند اللہ جو روح کو قبض کر لیتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ روح اور جسم کا ایسا تعلق نہیں رہتا کہ جس سے تعلقِ تصرف ہو۔ اس کو بعض مفسرین یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ روح کو معطل فرما دیتے ہیں۔ معطل کامعنی ہے کہ یہ جو تعلقِ تصرف تھا یہ اللہ ختم فرما دیتے ہیں۔ یہ نیند ہو گئی اور جب تعلقِ تدبیر بھی ختم ہو جائے تو پھر یہ موت ہو گئی۔ موت کے بعد پھر جب اللہ نے اعادۂ روح فرمانا ہے حساب کتاب کے لیے اب وہ نیند ہوتی ہے، تصرف ختم ہو جاتا ہے لیکن وہ نیند دنیا کی نہیں ہے وہ نیند موت کے بعد کی نیند ہے، وہاں تعلقِ تدبیر بھی ختم ہو جاتا ہے، ایک ایسا تعلق رہتا ہے کہ جس سے بندے میں حیات ہوتی ہے لیکن وہ حیات شعور سے محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ حیات نبی کے فرمانے سے محسوس ہوتی ہے، اسے کہتے ہیں:
﴿وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾﴾
البقرۃ 2: 154
بات سمجھ میں آ گئی؟
جب آدمی جاگ رہا ہے تو تعلقِ حیات بھی ہے، تعلقِ تصرف بھی ہے اور تعلقِ تدبیر بھی ہے اور جب سو جائے تو اب تعلقِ حیات بھی ہے، تعلقِ تدبیر بھی ہے البتہ تعلقِ تصرف ختم ہو جاتا ہے اور جب موت آتی ہے تو تعلقِ حیات بھی ختم، تعلقِ تدبیر بھی ختم اور تعلقِ تصر ف بھی ختم اور جب اعادۂ روح ہوتا ہے سوال وجواب کے لیے تو اب تعلقِ تصرف بھی نہیں ہے، تعلقِ تدبیر بھی نہیں ہے بلکہ صرف تعلقِ حیات ہے۔ نہ مردہ دوڑتا ہے․․ نہ مردہ کھیلتا ہے․․ نہ مردہ کھاتا ہے․․ نہ اس کا خون چل رہا ہوتا ہے․․ نہ اس کی رگیں حرکت کر رہی ہوتی ہیں لیکن اس تعلق سے اس کو جو حیات ملتی ہے اب وہ حیات ایسی ہے کہ آنکھوں سےمحسوس نہیں ہوتی، اس لیے فرمایا:
﴿وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ﴾، ”وَلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ“
نہیں فرمایا۔ ادراک بالحواس کا نام شعور ہے اور ادراک بالوحی کا نام علم ہے۔ تو یہاں
”وَلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ“
نہیں فرمایا کہ اس کی حیات ایسی ہے کہ جو وحی سے بھی پتا نہیں چلے گی، حیات ہے لیکن شعور سے پتا نہیں چلے گا اس لیے
﴿وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ﴾
فرمایا۔ یہ بات سمجھ آرہی ہے؟ (جی ہاں۔ سامعین) قرآن مجید میں ہے:
﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ﴿۱۱﴾ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۲﴾﴾
البقرۃ2: 11، 12
یہاں
﴿وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ﴾
فرمایا کیونکہ فساد تو آنکھ سے نظر آتا ہے، لیکن یہ کفار اتنے بے شعور اور ضدی ہیں کہ انہیں اپنا فتنہ و فساد بھی نظر نہیں آرہا تو یہاں ان کفار کے شعور کی نفی کی ہے، اور آگے فرمایا:
﴿ وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۳﴾﴾
البقرۃ2: 13
یہاں علم کی نفی ہو رہی ہے کیونکہ ایمان نظر نہیں آتا، ایمان کے آثار تو نظر آتے ہیں ایمان نظر نہیں آتا کیونکہ وہ تو قلبی چیز ہے نظر کیسے آئے گی؟ تو ادراک بالحواس کو شعور کہتے ہیں اور ادراک بالوحی کو علم کہتے ہے۔
یہ جو قبر کی حیات ہوتی ہے یہ تعلق اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اس میں تدبیر بھی نہیں، تصرف بھی نہیں، ہاں اتنا تعلق ہے کہ جس سے حیات ہو اور اتنا تعلق ہے کہ جس سے آدمی تلذذ اور تکلیف کو محسوس کرے۔ آپ عقائد کی کتب میں پڑھیں گے :
اِتَّفَقَ أَهْلُ الْحَقِّ عَلٰى أَنَّ اللهَ يُعِيْدُ إِلَى الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ نَوعَ حَيَاةٍ قَدْرَ مَا يَتَأَلَّمُ وَيَتَلَذَّذُ․
شرح المقاصد فی علم الکلام: ج 2ص 222
یعنی روح کا اتنا تعلق ہو گا کہ جس سے جسم تکلیف اور راحت محسوس کرے۔ وہ تدبیر اور تصرف والا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔
بات سمجھ میں آگئی؟
شرک کی قباحت:
﴿وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۶۵﴾﴾
آپ کی طرف وحی آئی ہے اور پہلے انبیاء کی طرف بھی وحی آئی ہے کہ اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں شمار ہو گے!
یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ شرک کرو گے تو اعمال ضائع ہو جائیں گے، یہ پیغمبر کو خطاب کر کے امت کو سمجھانا مقصود ہے۔ جس طرح فاطمہ مخزومیہ نے مدینہ میں چوری کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو! سفارش آئی کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس کو کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا.
سنن ابی داؤد، رقم: 4373
اگر یہ چوری کرنے والی فاطمہ بنت محمد ہوتی تو میں تب بھی اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ تو یہ امت کو سمجھانا مقصود ہے۔ اسی طرح
﴿لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ
﴾ یہ امت کو سمجھانا مقصود ہے۔
باری تعالیٰ کی قدرت و طاقت کا بیان:
﴿وَ مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ۖ وَ الۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۶۷﴾﴾
یہ جوکہا کہ قیامت کے دن زمین بھی اللہ کے قبضے میں ہو گی اور سارے آسمان اللہ کے یمین میں لپٹے ہوں گے، یہ میں پہلے سمجھا چکا ہوں کہ
﴿بِیَمِیۡنِہٖ﴾
متَشابہات میں سے ہے، اس کا معنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بعض متأخرین اس کا معنی کرتے ہیں کہ قیامت کے دن سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہو گا اور اختیار کو
﴿بِیَمِیۡنِہٖ﴾
سے تعبیر کرتے ہیں۔
سورۃ البقرۃ میں ہے:
﴿وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ﴾
البقرۃ2: 237
اگر تم عورت کو طلاق دے دو اس سے ملاقات سے پہلے لیکن مہر تم نے مقرر کیا ہو تو اس صورت میں تمہیں نصف مہر دینا ہو گا، ہاں اگر عورت اپنا حق معاف کر دے تو اس کی مرضی ہے،
﴿اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ﴾
یا وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کا اختیار ہے وہ درگزر سے کام لے لے یعنی شوہر آدھا مہر دینے کے بجائے پورا حق مہر دے دے۔
یہاں
”بِیَدِہٖ“
کا لفظ استعمال کیا ہے، نکاح حقیقتاً تو ہاتھ میں نہیں ہوتا،پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے اختیار میں نکاح ہے کہ وہ چاہے تو بیوی کو نکاح میں رکھے اور چاہے تو اس کو طلاق دے دے۔ تو یہاں
”ید“
سے مراد اختیار ہے۔ تو
﴿بِیَمِیۡنِہٖ﴾
سے مراد اختیار ہوتا ہے، متأخرین نے یہ معنی لیا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو متَشابہات میں مانا جائے کہ اس کا معنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
نفخِ صور کا ہولناک منظر:
﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ﴾
جب صور پھونکا جائے گا تو تمام آسمان والے اور زمین والے بے ہوش ہو جائیں گے، غش کھا کر گر جائیں گے سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے۔
یعنی صور پھونکے جانے کی وجہ سے سب بے ہوش ہو جائیں گے پھر سب مر جائیں گے اور جو پہلے مر چکے ہیں ان کی روحیں بے ہوش ہو جائیں گی۔
﴿اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ﴾․․․
سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صور پھونکنے کے اثر سے جو موت واقع ہو گی اس سے جبرائیل، اسرافیل، میکائیل اور ملک الموت محفوظ رہیں گے۔ یعنی اس نفخہ سے تو ان کو موت نہیں آئے گی لیکن بعد میں ان کو بھی موت آجائے گی اور سوائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے کوئی زندہ نہیں رہے گا۔
جنت مہمان خانہ اور جہنم قید خانہ:
﴿وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا﴾
یہاں ایک بنیادی بات سمجھیں۔ اللہ رب العزت نے یہاں جہنم کا تذکرہ فرمایا کہ کفار کو جہنم کی طرف کھینچا جائے گا، جب جہنم کے پاس آئیں گے تو دروازے کھل جائیں گے۔ آگے جنت کی باری ہے، تو وہاں فرمایا:
﴿وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ اِلَی الۡجَنَّۃِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا﴾
﴿وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا﴾
میں یہ واؤ حالیہ ہے۔ جب اہلِ جنت آئیں گے تو ان کے آنے سے پہلے جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے۔ قید خانے اور مہمان خانے میں فرق ہوتا ہے، جب قیدی کو جیل میں لے کے جاتے ہیں تو دروازہ بند ہوتا ہے، قیدی جاتاہے تو دروازہ کھلتا ہے اور پھر دروازہ بند کر دیتے ہیں، اور مہمان خانے کا طرز یہ نہیں ہوتا، مہمان خانہ مہمان کی آمد سے پہلے کھلا رکھتے ہیں۔
ا س لیے آپ نے کئی بار دیکھا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں، مہمان قریب آ جائیں تو میں کہتا ہوں کہ بھائی گیٹ کھول دو! جب مہمان آئیں گے تو دروازہ کھلا ہو گا اور گاڑی سیدھی اندر آ جائے، یہ مہمان خانے کا طرز ہے۔
البتہ آپ کی سیکورٹی ہے، آپ نے گیٹ بند کیا ہوا ہے، مہمان اچانک آ گیا وہ گھنٹی بجائے گا تو دروازہ کھل جائے گا لیکن جب آپ کو مہمان اطلاع دے کر آئے تو اب استقبال کا طریقہ یہ ہے کہ گیٹ پہلے سے کھلا ہوا ہو، دستر خوان لگا ہوا ہو، اس سے مہمان کو راحت پہنچے گی۔ ان آداب کا بہت زیادہ خیال رکھا کریں۔
مہمان کا اکرام کیجیے!
آنے والا مہمان مسلمان ہے، کافر ہے، فاسق ہے، نیک ہے، اھل السنۃ ہے، اہلِ بدعت ہے، غریب ہے، امیر ہے جیسا بھی ہے مہمان مہمان ہی ہوتاہے۔ حدیث میں ہے:
"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ."
صحیح البخاری، رقم: 6138
بس مہمان کا خیال رکھو۔ یہ نہ دیکھو کہ آنے والا کون ہے؟ حیثیت کا مسئلہ بعد کا ہے، اپنی حیثیت کے مطابق مہمان کا ہمیں اکرام ضرور کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مدنی رحمہ اللہ کی مہمان نوازی:
حضرت مولانا عبد الماجد دریا آبادی رحمہ اللہ حضرت مدنی رحمہ اللہ سے بیعت تھے اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے صرف اصلاحی تعلق تھا۔ جو بات میں سنانا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مولانا عبد الماجد دریا آبادی دیوبند جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر اترتے، حضرت مدنی کو اطلا ع ہوتی تو حضرت مدنی آتے اور ان کا سامان اٹھا لیتے۔ حضرت مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے حضرت تھانوی کو خط لکھا کہ حضرت مدنی آتے ہیں اور میرا سامان اٹھاتے ہیں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، آپ حضرت مدنی سے فرمائیں کہ میرا سامان نہ اٹھایا کریں۔ اب حضرت تھانوی کا جواب سنیں، فرمایا مشائخ کی طبیعت میں فرق ہوتا ہے، حضرت مدنی کا شوق ایسا ہے کہ مہمان کی خدمت سے ان کو خوشی ہوتی ہے اور خدمت نہ ہو تو ان کو تکلیف ہوتی ہے، اس لیے حضرت کو میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ ان کا سامان نہ اٹھایا کریں کیونکہ اس سے ان کو تکلیف ہو گی۔
یہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا مزاج تھا، مہمان کے آنے پر یو ں خدمت کرتے تھے۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ کے ہاں بسا اوقات مہمان آتے تو آپ ان کے ہاتھ خود دھلواتے پھر فرماتے کہ آپ میرے مہمان ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
”فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ“
تو میز بان کو میزبانی کے فرائض ادا کرنے چاہییں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مدنی رحمہ اللہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․