عقیدہ 71:
متن:
وَلَا نَرَى السَّيْفَ عَلٰى أَحَدٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ السَّيْفُ.
ترجمہ: ہم امت محمدیہ میں سے کسی مسلمان کو واجب القتل نہیں سمجھتے جب تک کہ وہ واجب القتل قرار نہ دیا جائے۔
شرح:
بے گناہ آدمی کو قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا﴾.
(المائدۃ: 32)
ترجمہ: جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے اور زمین میں فساد پھیلانے کے علاوہ کسی اور وجہ سے قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا۔
البتہ تین قسم کے لوگوں کا قتل شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ شادی شدہ زانی، ناحق کسی کو قتل کرنے والا اور مرتد۔ حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا يَحِلُّ دَمُ امْرَئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ إِلَّا بِإِحْدَىٰ ثَلَاثٍ: اَلثَّيِّبُ الزَّانِيْ وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِكُ لِدِيْنِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ․
(مسند ابی یعلیٰ الموصلی: ص949 رقم5199)
ترجمہ: کلمہ گو مسلمان کا قتل کرنا جائز نہیں سوائے ان تین وجوہات کے؛ شادی شدہ زنا کرےیا ناحق کسی کو قتل کرے یا دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو جائے۔
واضح رہے کہ قتل کے جائز ہونے کا یہ معنی نہیں کہ انسان خود قتل کرنا شروع کر دے بلکہ معنی یہ ہے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر قانون کے ذریعے قتل کروائے۔