دلچسپ وعجیب
عمر خالد رانا'اسلام آباد
ہم جتنے بھی اعداد لکھتے ہیں اور ان اعداد کے ذریعے بڑی سے بڑی رقوم کا حساب کرتے ہیں یا لمبے چوڑے حسابی مسائل حل کرتے ہیں ان کی بنیا ددس اعداد پر ہے یعنی نواکائیاں 9....1,2,3اورصفر”0“۔ اعداد کی جو شکل آج کل انگلش میں استعمال ہورہی ہے یعنی1,2,3وغیرہ یہ اصل میں عربی اعداد ہیںاور اہل مغرب نے یہ اعداد عربوں سے لیے ہیں۔ جب یہ اعداد زیادہ مقبول اور عام ہوگئے تو عربوں نے اپنی انفرادیت کو برقراردکھنے کے لیے ان اعدادکی جگہ 4 ،3 ،2 ،1 وغیرہ کو استعمال کرنا شروع کردیا۔
آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ عربی دنیاکی سب سے فصیح زبان ہے اور اس مبارک زبان میں کوئی حرف یا لفظ ایسا نہیں جس کوئی مخصوص پس منظر یا معنی نہ ہو۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ایک کو”1“اوردو”2“اورتین کو”3“کی شکل میںہی کیوںلکھا جاتاہے؟ ایک کے لیے” 2“ اور تین کے لیے” 5“ کی علامت بھی تو مقرر کی جاسکتی تھی، پھر ایسا کیوں ہے؟ اس کی کوئی خاص وجہ؟ جی جناب! عربوں کے حسابی عمل Algorithmsمیں اسکی پوری منطق Logic موجودہے۔ کیسے بھلا؟بہت ہی سادہ اور آسان!!! آئیں آپ کو بتاتے ہیں:
آپ اگر ریاضی سے تھوڑی بہت مناسبت رکھتے ہیںتو زاویہ Angleکی تعریف سے واقف ہوں گے۔ جو قارئین یا قاریات نہیں جانتے ان کے لیے ہم بتلائے دیتے ہیں کہ تکونیات یعنی Trigonometryمیں جو شکل دواضلاع یا خطوط کے ایک ہی نقطہ پر باہم ملنے سے بنتی ہے زاویہ کہلاتی ہے۔ اب زاویہ کی درج ذیل اشکا ل کو دیکھیں یہ عربی اعدادکی بالکل ابتدائی اور اصلی اشکال ہیں۔
کہیے! کیسارہا؟ ہے ناں مزے کی بات؟
آئیے اب اس مضمون سے یہ سبق لیتے ہیں کہ ہماری پیاری زبان عربی سب زبانوں کی سردار ہے، اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اس زبان کو سیکھنے کی پوری کوشش کریں گے اور لیجیے آخر میں جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ملاحظہ فرمائیں کہ
احبوا العرب لثلاث: لانی عربی، والقرآن عربی، وکلام اھل الجنة عربی۔
عربوں سے تین وجوہات کی بنا پر محبت کرو: کیونکہ میں عرب ہوں، قرآن عربی ہے اور اہل جنت کی زبان بھی عربی ہو گی۔