کھلی آنکھیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کھلی آنکھیں
پروفیسر زاہد محمود
ان عظیم ماؤں کے نام جو بچوں کی راہیں تکتی ہیں۔
احسن نے جیسے ہی گھر کا دروازہ کھولا ماں بولی میں صدقے واری میرے بیٹے آج پیپر کیسا ہوا ؟بولا ماں بہت ہی اچھا ہوا۔ مجھے بڑی امید ہے کہ میں ٹاپ کروں گا۔ ماں نے ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے کہا بیٹا تم نے تو صبح کا ناشتا بھی نہ کیا تھا میں تمہارے لیے ابھی کھانا لاتی ہوں ماں بیٹے کا رشتہ تو ویسے ہی محبت بھرا ہوا ہوتا ہے مگر یہاں تو بات ہی کچھ نرالی تھی۔

****

 

احسن کے والد بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے ان کا کاروبار اچھا تھا۔ جائیداد کافی تھی لہذا ماں بیٹے گزارا اچھا ہوتا تھا۔ اس لیے ماں ہی احسن کے لیے سب کچھ کا درجہ رکھتی تھی۔ احسن ماں کے بغیر چند دن نہیں گذار پاتا تھا۔

****

اب وہ اپنا بزنس بڑھانے کے لیے بھی سوچنے لگا۔ اسی لیے تو اس نے کامرس کے مضامین رکھے تھے۔ بی کام کے رزلٹ والے دن وہ بھا گا بھاگا گھر آیا۔ ماں !ماں !دیکھو میں پوری یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن پر آیا ہوں۔ وہ خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔آج اس کی دن رات کی محنت رنگ لائی تھی۔ ماں نے فوراً احسن کی خالہ کو بھی فون پر یہ خوشخبری سنائی۔ اس کے بعد فورا ً وضو کیا اور مصلی بچھا لیا اور خدا کے حضور شکرانے کے نفل ادا کیے۔

****

اب احسن اعلیٰ تعلیم کے لیے سوچ رہا تھا۔ دو تین جامعات کی طرف سے اسے تعلیمی و ظائف کی پیشکش ہوئی بھی مگر وہ ابھی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ یہاں داخلہ لے۔اس اثنا میں اس کو امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے خط ملا یونیورسٹی نے اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپ )وظیفے ( کی پیشکش کی۔ یہ اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرےاور وہ ا سی دن کے ہی تو خواب دیکھ رہا تھا۔مگر وہ دل مسوس کر رہ گیاکیونکہ اسے ماں کا خیال آ گیا تھا کہ وہ ماں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
ماں بھی اس کے دل کی بات بات جانتی تھی۔ رات کے کھانے پہ ماں کہنے لگی احسن تم میری فکر مت کرو۔ تمہیں معلوم ہی ہے کہ تمہاری خالہ اس شہر میں ہی رہتی ہے وہ بڑی بہن ہونے کے ناتے مجھ پر جان چھڑکتی ہیں۔ وہ مجھے ساتھ رکھنے پہ بخوشی تیار ہو جائیں گی۔ تم ضرور امریکہ جاؤ اور پھر تین سال ہی کی تو بات ہے تمہارے واپس آنے پہ میں تمہارے لیے ایک نیک اور تعلیم یافتہ دلہن بھی لاؤں گی۔ احسن نے پس وپیش کی مگر ماں کے سامنے اس کی ایک نہ چلی آخر کار وہ دن آ ہی پہنچا کہ جب ماں نے اسے ڈبڈبائی آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں سے روانہ کیا۔

****

ماں رات دن بیٹے کی یاد میں تڑپتی تھی اور احسن کا بھی یہی حال تھا۔ وقت کی برف پگھلتی رہی۔ احسن نے گرین کارڈ حاصل کرنے کے لیے وہیں شادی کر لی ماں کو بعد میں پتا چلا مگر بیٹے کی خواہش پر چپ سی ہو گئی۔ احسن امریکہ کی رنگینیوں میں ایسا ڈوبا ایسا ڈوبا کہ تین سال کے بعد واپس نہ آیا ماں کو فون کرتا رہا۔ ماں روز رات کو بیٹے کی حسین یادوں میں آنسو بہاتی اور سوچتی کہ کاش کہ میں بیٹے کو جانے ہی نہ دیتی۔
جی ہاں
وہی ماں جس نے خون جگر دے کر اس نونہال کو پروان چڑھایا تھا بوڑھی ہو گئی پھر ایک دن آخری ہچکی لی اور عدم کے سفر پہ روانہ ہو گئی۔ مگر ماں کی آنکھیں کفن میں بھی بیٹے کی راہ تک رہی ہیں کہ شاید وہ اسے آخری سہارا ہی دے دے۔
رب ارحمھما کما ربیٰنی صغیرا