قسط نمبر 22
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم ، لیہ
قاسم بیگ تاشقند سے اپنی روانگی سے ایک روز پہلے اچانک اپنے دوست دیرینہ قنبر علی عرف سلاخ سے مڈبھیڑ ہو گئی۔پہلے پہل قاسم بیگ سلاخ کو اپنے سامنے پا کر بھونچکا سا رہ گیا کیونکہ اسے یہاں سلاخ کے اس طرح اچانک مل جانے کی توقع نہیں تھی۔جونہی اس کے حواس بجا ہوئے تو اس نے سلاخ سے پوچھا کہ وہ وہاں کیا کرتا پھر رہا ہے ؟سلاخ نے جوابا ً کہا کہ
تمہیں معلوم ہے کہ میں نے بابر کی رفاقت میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔ میں اس کی آئے دن کی اُکھاڑ پچھاڑ اور محاذ آرائی سے اوبھ گیا تھا۔ اس لیے میں اپنی باقی زندگی پر سکون طور پر گزارناچاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے بابر کی رفاقت کو خیرباد کہا اور خاقان محمود خان کے زیر سایہ تاشقند میں آکر مقیم ہو گیا یہاں مجھے اپنوں کا ساتھ بھی میسر آیا اور سکون بھی۔میں تاشقند میں تیری آمد سے پوری طرح باخبر تھا مگر میں قصداً تجھ سے نہیں ملا کیونکہ میں اپنا آپ تجھ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چونکہ میں بابر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا تھا اور اب اس کے پاس واپس جانے کی کوئی تمنا بھی نہیں رکھتا تھا اس لیے تیرا سامنا کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔اب جبکہ تو واپس جا رہا ہے مجھ سے رہا نہ گیا اور مجھے ہماری پرانی رفاقت تیرے پاس کھینچ لائی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغل تجھے یہاں اپنے درمیان دیکھ کر نہایت ہی برافروختہ ہیں۔جس طرح تو نے بابر کے حکم پر مغلوں کو بے دریغ قتل کیا تھا وہ بھی تجھ کو قتل کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں۔ مگر ابھی تک وہ تجھے خاقان کے خوف سے قتل نہیں کر پائے۔ جس طرح مغلوں کی دوستی گہری ہوتی ہے بالکل اسی طرح ان کی دشمنی بھی گہری ہوتی ہے۔ جونہی انہیں موقع میسر آیا وہ تیرا سر اتارنے میں کوئی دقیقہ بھی فروگزاشت نہیں کریں گے۔ اس لیے تجھے ہر صورت مغلوں کے انتقام سے ہوشیار رہنا ہو گا۔
قاسم بیگ پہلے ہی مغلوں کے انتقامی رویے سے سہما ہوا تھا مگر اب سلاخ کی باتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔اس نے سلاخ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا :کیا میں اپنے دیرینہ دوست سے اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کر سکتا ہوں سلاخ نے جوابا کہا کہ ” میں اپنے دوست کی آرزو ضرور پوری کرتا مگر میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اب بابر کے پاس کبھی واپس نہیں جاؤں گااور بار دگر تجھے مغلوں سے ہر طور پر چوکنا رہنے کی تلقین بھی ضرور کروں گا۔“
قاسم بیگ اگلے دن پانچ سو مغل سپاہیوں کے دستے کے ساتھ باہر کی طرف مارچ کر رہا تھا۔خاقان محمود خان کے حکم کے پیش نظر مغلوں نے غم و غصے کے باوجود قاسم بیگ سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہ کیا۔
یہ فقر فوجی قافلہ بخیرو خوبی بابر کی خدمت میں آحاضر ہوا۔قاسم بیگ نے تنہائی میسر ہوتے ہی بابر سے مغلوں کے غم وغصے ،خاقان اعظم کی اپنے فوجی سرداروں کے سامنے بے بسی سلاخ سے اچانک ملاقات کی روداد اور انتقام پسند مغلوں کی انتقامی کارروائی کے خوف کی مکمل داستان کہہ ڈالی۔ بابر نے سب کچھ سننے کے بعد قاسم بیگ سے کہا کہ تو میرا نہایت ہی قابل اعتماد اور مخلص ساتھی ہے میں تیری خاطر مغلوں کو واپس بھیج سکتا ہوں مگر اس طرح خاقان اعظم کی بے عزتی ہو گی جو ہمارے لیے کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے درآں حالیکہ ہم بے دست وپاہیں خاقان کی ناراضگی مول لیناشیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ خاقان کی طرف سے پانچ سو مغل سپاہیوں کا یہ تحفہ بھی بہر حال غنیمت ہے۔بابر نے خوفزدہ قاسم بیگ کی اپنے تسلی آمیز الفاظ سے خوب دلجوئی کی اس نے خاقان کی طرف سے بھیجے گئے پانچ سو سپاہیوں کے دستے کو غنیمت سمجھا۔ اندریں حالات وہ خاقان اعظم سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ بڑی سوچ و بچار کے بعد بابر نے بذات خود اپنے ماموں خاقان اعظم کی خدمت میں حاضری بھر نے کا فیصلہ کیا۔لہٰذا اسی فیصلے کے پیش نظر ایک روز وہ چپکے سے اپنے چند ایک معتمد سرداروں کے ہمراہ خاقان سے ملاقات کی غرض سے تاشقند کی طرف روانہ ہو گیا شومئی قسمت اس کی خاقان اعظم سے ملاقات نہ ہو سکی، وہ بابر کی آمد سے قبل ہی تاشقند کو چھوڑ کر مغلستان واپس چلا گیا تھا۔اس لیے بابر کو بے نیل و مرام جانب خجند واپس لوٹنا پڑا۔
بابر جب خجند کی طرف لوٹ رہا تھا تو اُسے اپنے مخبروں کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کی غیر حاضری میں خجند کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔خجند شہر میں سلطان احمد تنبل کے آدمی گلی گلی اس کا سراغ لگانے کے لیے کتوں کی طرح اس کی بو سونگھتے پھررہے تھے۔ اور بابر کے باقی ماندہ ساتھی اپنی پہاڑی پناہ گاہوں میں جا چھپے تھے۔بنا بریں بابر نے خجند جانے کی بجائے سیدھا اپنے خفیہ پہاڑی ٹھکانوں کی طرف قدم بڑھا دیے۔وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ساتھیوں سے ملاقات کی جن کی تعداد اب صرف دو اڑھائی سو رہ گئی تھی۔ابھی تک ان لوگوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے۔بابر نے اپنے خفیہ ٹھکانے پر پہنچ کر خجند سے مغل سپاہیوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔
جواں ہمت بابر چاہتا تھا کہ وہ اپنے اڑھائی سو جوانوں اور پانچ سو مغل سپاہیوں کے بل بوتے پر اندجان پر فوج کشی کر کے اسے اپنے دشمنوں سے آزاد کروا لے مگر قاسم بیگ کو اس فیصلے پر اعتراض تھا۔کیونکہ اس مختصر سی فوجی قوت کے ساتھ طاقتور غنیم سے نبردآزما ہونا ممکن نہیں تھا۔قاسم بیگ کا خیال تھا کہ انہیں مضبوط فوجی قوت کے ساتھ ہی اند جان پر حملہ آور ہونا چاہیئے۔
بابر نے قاسم بیگ کی تجویز پر صاد کیااور اندجان پر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ قاسم بیگ نے بابر کی اجازت سے خجند میں اپنے جاسوس داخل کردیے جو شہر میں گھوم پھر کر لوگوں کے احساسات و جذبات سے آگاہی حاصل کر کے اس کی رپورٹ قاسم بیگ کو دیتے تھے۔ایک روز قاسم بیگ کی ملاقات اند جان میں رہنے والے ایک ایسے آدمی سے ہو گئی جو کہ اند جان کے قلعے دار علی دوست طغائی کا نائب رہ چکا تھا۔یہ وہی علی دوست طغائی تھا جو کہ کبھی بابر کا مصاحب خاص ،وفادار اور دست راست سمجھا جاتا تھا مگر اس نے بابر سے غداری کی اور سلطان احمد تنبل کی پناہ میں آگیا اس نے اند جان کا قلعہ )جس کی قلعہ داری اس کے سپرد تھی (اپنی وفاداری کے ثبوت کے طور پر سلطان احمد تنبل کے حوالے کر دیا تھا۔اس وفاداری کے عوض اس نے سلطان احمد تنبل سے ”مرغینان “ کی حکومت حاصل کر لی۔مرغینا ن ریاست فرغانہ کا ایک نہایت ہی سرسبزوشاداب علاقہ تھا۔علی دوست طغائی کے نائب نے جس کا نام ”گوہر“ تھا قاسم بیگ سے اپنے خجند آنے کا مقصد کچھ یوں بیان کیا۔
”سردار محترم !میں علی دوست طغائی کا نائب ہوں جس نے اپنے ولی نعمت بابر سے غداری کی اور اند جان کا قلعہ سلطان احمد تنبل کے حوالے کر دیا۔اس غداری کے عوض اسے مرغینان کی حکومت تفویض ہوئی۔علی دوست طغائی کی اپنے آقا سے غداری مجھے خوب کھلی اور میں دل مسوس کر رہ گیا۔یہی وجہ تھی کہ میں نے اس کی نائبی پر لات مار دی۔ایک مرتبہ فرغانہ کے حالات نے پھر پلٹا کھایا ہے۔سلطان احمد تنبل؛علی دوست طغائی کو غدار سمجھنے لگا ہے اور وہ اس سے مرغینا ن کی علمداری چھیننے کے در پے ہے۔اب وہ اس موقع کی تلاش میں ہے کہ جب وہ علی دوست طغائی کو مکھن سے بال کی طرح مرغینان سے باہر نکال پھینکے۔ مجھے علی دوست طغائی نے بار دگر اعتماد میں لیتے ہوئے سلطان بابر کی طرف بھیجا ہے تاکہ میں اسے اس بات پر آمادہ کروں کہ وہ آئے اور ایک قطرہ خون بہائے بغیر مرغینان پر قابض ہو جائے۔ اس کام میں وہ اس کی بھرپور رعایت کرے گایعنی مرغینان اس کے حوالے کر دے گا۔ میں کئی روز سے بابر کی تلاش میں ہوں مگر اس کا کہیں پتہ نہیں مل رہا آپ سے ملاقات کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا ہے آپ میری سلطان بابر سے ضرور ملاقات کروادیں گے۔ “
قاسم بیگ نے گوہر کی گفتگو پوری دلجوئی کے ساتھ سنی۔ قاسم بیگ کو یہ شبہ لاحق تھا کہ کہیں گوہر؛ سلطان احمد تنبل کا فرستادہ نہ ہو اور وہ بابر کا سراغ لگانا نہ چاہتا ہو اس خدشے کے پیش نظر وہ اس مخمصے کا شکار تھا کہ اسے گوہر کو سلطان کے پاس لے جانا چاہیئے یا نہیں؟ لے جانا چاہیئے کہیں ایسا نہ ہو کہ سلطان کی سلطنت تو پہلے ہی چھینی جا چکی ہے اب کے نصیب دشمناں اس کی جان بھی چھین نہ لی جائے۔
)جاری ہے (