فرق صرف اتنا تھا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

فرق صرف اتنا تھا

مولانا امان اللہ حنفی
آسیہ اپنی چھوٹی بہن صائمہ سے 5سال بڑی تھی اس وجہ سے وہ صائمہ سے 5 سال پہلے مدرسہ میں داخل ہوئی تھی۔ ان پانچ سالوں میں ابھی تک دو ہی درجے پڑھ سکی تھی اور ہر وقت کتاب ہاتھ میں لیے رکھتی۔ صائمہ کو مدرسہ میں پہلا سال تھا اور طبعیت کی بھی ہنس مکھ تھی اور گپ شپ لگانا بھی اس کے مزاج کا حصہ تھا۔ اسی وجہ سے وہ زیادہ وقت اپنی سہلیوں کے ساتھ باتوں اور کھیل میں گزار تی۔
آسیہ اس کو دیکھ کر غصہ ہوتی اور جب بھی اس کو وقت ملتا تو چھوٹی بہن کے لیے لیکچر شروع ہو جاتا کہ تو ہر وقت کھیل میں لگی رہتی ہے ،اپنے وقت کا خیال نہیں کرتی ، اپنی عمر کی بھی پرواہ نہیں کر رہی جو گزرتی جارہی ہے۔ آپ کے پاس وقت ہے پڑھ لو جب امتحان آئے گا تو تم شرمندہ ہوگی اس شرمندگی سے بہتر ہے کہ اب محنت کر لو۔ صائمہ یہ سب باتیں خاموشی سے سنتی اور اپنی بڑی بہن کا خیال بھی کرتی تھی کہ وہ ہر وقت پڑھتی رہتی ہے اور میں صرف پڑھائی کے وقت میں پڑھتی ہوں، وقت کو فضول کھیل میں گزار دیتی ہوں۔
جیسے ہی رات کو چھٹی ہوتی آسیہ کتاب لے کر بیٹھ جاتی اور صائمہ اپنی سہلیوں کے ساتھ گپ شب میں لگ جاتی۔ پھر جب کھانے پر جمع ہوتی آسیہ کا لیکچر شروع ہوجاتا کہ دیکھو امتحان بہت مشکل ہوتا ہے، دیکھو میں کتنی محنت کرتی ہوں۔ اس کے باوجود ہر درجہ میں دو سال لگ رہےہیں اور پانچ سال میں دو درجے پڑھ سکی ہوں، میں بڑی ہونے کے ناتے تیرا خیال رکھتی ہوں۔ میری مانو خوب محنت کرو اور وقت کو ضائع بالکل نہ کرو۔
امتحان کا وقت آ گیا۔ دونوں بہنیں امتحان دے رہی ہیں اس دوران آسیہ تو ہر وقت کتاب ہاتھ میں لیے پھرتی ، جو کام بھی کرتی کتاب ساتھ رکھتی تھی جب کہ صائمہ صرف پڑھائی کے اوقات میں پڑھتی تھی۔ اور جس وقت نتیجہ آیا تو صائمہ کی جماعت میں پہلی پوزیشن تھی اور آسیہ حسب سابق اس مرتبہ بھی فیل تھی۔ اب دونوں میں صرف ایک درجہ کا فرق باقی تھا۔
نئے درجات کی پڑھائی شروع ہوچکی تھی دونوں بہنوں کے ترتیب یہی تھی کہ آسیہ ہر وقت کتاب ہاتھ میں رکھتی اور صائمہ صرف پڑھائی کے وقت میں پڑھتی۔ جب صائمہ اپنی سہلیوں کے ساتھ کھیل کر کھانے کے لیے بڑی بہن کے ساتھ بیٹھتی تو کچھ دن تو آسیہ خاموش رہی کہ میں فیل ہوئی اور صائمہ کی پوزیشن آئی مگر یہ خاموشی کہاں تک رہتی ؟ کیونکہ صائمہ دوپہر کو چھٹی کے بعد سو جاتی تھی عصر کے بعد اپنی سہلیوں کے ساتھ کھیلتی رات کو بھی مقرر ہ اوقات پڑھائی کرکے جلد ی اٹھ جاتی۔ کچھ دن بعد پھر اس کے لیکچرز شروع ہو گئے کہ پہلے تم چھوٹے درجے میں تھی جو تمہاری پوزیشن آگئی ، میرے درجے میں آؤگی تو پتا چلے گا۔ اف اللہ! اتنی مشکل کتابیں ہیں اور تم پڑھائی کو مختصر وقت دیتی ہو۔ مجھےدیکھو ہر وقت پڑھتی ہوں پھر بھی فیل ہوجاتی ہوں۔ تو آخر کیسے میرے درجے میں پہنچو گی؟ کیوں اپنی فکر نہیں کرتی ؟ کیوں وقت کی قدر نہیں کرتی ؟
صائمہ یہ سب خاموشی سے سنتی کہ میری بڑی بہن ہے اور بے چاری اتنی محنت سے پڑھتی ہے مگر پھر بھی کامیابی نہ ہو تو اس کا کیا قصور؟مجھے جو کہتی ہے میرے بھلے کےلیے کہتی ہے۔ وہ درجہ واقعی مشکل ہوگا جو اتنی محنت کے بعد بھی باجی فیل ہو گئی۔ دن اسی طرح گزرتے گئے آسیہ کو جب بھی موقعہ ملتا وہ ضرور صائمہ کو لیکچر دیتی۔ خیر سے امتحان کا وقت آگیا مگر اب بھی پڑھائی کی ترتیب وہی تھی اور جب نتیجہ آیا تو وہ پہلے کی طرح یعنی چھوٹی بہن کو اب پھر پوزیشن اور بڑی فیل۔
اب دونوں بہنیں ایک درجہ میں ہوچکی تھیں اور جب پڑھائی شروع ہوئی تو دونوں اکھٹی ہی بیٹھی تھیں، مگر اب آسیہ کا لیکچر ختم ہوچکا تھا اور چھوٹی بہن کبھی کبھی آسیہ کو اتنا کہہ دیتی باجی توجہ سے استانی صاحبہ کا درس سنو! کیونکہ آسیہ بے توجہ سے سی بیٹھی ہوتی اور کتاب آگے ہوتی مگر ذہن میں کچھ اور خیالات گھومتے رہتے۔
پھر جب استانی صاحبہ کا سبق نہ آتا تو سارا دن کتاب ساتھ رکھتی جہاں موقعہ ملتا کھول کر بیٹھ جاتی ، مگر جب سبق کو غور سے سنا نہیں تو اب کیا خاک سمجھ آتا اور صائمہ جب استانی صاحبہ پڑھاتی توخوب توجہ سے سنتی اور یاد رکھنے کی کوشش کرتی پھر رات کو ایک بار دوہرا لیتی کہ جس سے یہ اطمینان ہو کہ میں نے جو سمجھا تھا وہ مجھے یاد ہے اور میں یہ بات آگے بھی سمجھا سکتی ہوں۔بس یہی فرق تھا آسیہ کے ناکام اور صائمہ کے کامیاب ہونے میں۔