دین اسلام میں زکوٰۃ ہر مالدار صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔زکوٰۃ کی معاشرتی حیثیت ایک مکمل اور جامع نظام کی ہے ۔ اگر ہر صاحبِ نصاب زکوٰۃ دینا شروع کر دے تو مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں اور اس قابل ہو سکتے ہیں کہ کسی غیر سے قرض کی بھیک نہ مانگیں اورزکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی مسلمان سود کی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔
قرآن منبع ہدایت ہے ، جب اس کی تلاوت تمام آداب ، شرائط اور اس کے حقوق ادا کر کے نہایت غور و خوض سے کی جائے تو اللہ تعالی ہدایت عطا فرماتے ہیں اورعلم و حکمت کے دریا بہا دیتے ہیں ۔قرآن کریم کی تلاوت کے احکام میں سے ایک حکم سجدہ تلاوت بھی ہے کہ بعض متعین آیات کریمہ کی تلاوت کرنے اور سننے کے بعد سجدہ کرنا واجب ہوتا ہے۔
غیر مقلدین ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں اور دلیل کے طور پر چند احادیث پیش کرتے ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کے مؤقف کی حقیقت کیا ہے ؟
دلیل نمبر1: حدیث عائشہ بروایت سعد بن ہشام :
حضرت سعد بن ہشام انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا :أنبئيني عن وتر رسول الله {صلى الله عليه وسلم} فقالت كنا نعد له سواكه وطهوره فيبعثه الله متى شاء أن يبعثه من الليل فيتسوك ويتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة۔۔۔۔ الخ )صحیح مسلم ج1ص256(
وتر کی کیفیت یہ ہے کہ دو تشہد اور ایک سلام سے ادا کیا جائے۔اس پر احادیث صحیحہ مرفوعہ، آثار صحابہ و اجماع امت موجود ہیں۔
نوٹ : احادیث میں نماز وتر کو مغرب کی طرح اد اکرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا نماز وتر دو قعدوں اور ایک سلام سے ادا کی جائے گی فرق اتنا ہے کہ وتر کی تینوں رکعتوں میں قراءۃ فاتحہ اورسورۃ ہوگی تیسری رکعت میں قنوت وتر اور رفع الیدین ہوگا۔
وتر تین رکعات ہیں ۔ اس پر احادیث صحیحہ مرفوعہ، آثار صحابہ و تابعین اور اقوال فقہاء موجود ہیں ۔
احادیث مرفوعہ اورتعداد رکعات وتر:
1: عن عائشة رضی اللہ عنہاكيف كانت صلاة رسول الله {صلى الله عليه وسلم} في رمضان قالت ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة يصلي أربعاً فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي أربع ركعات لا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثاً۔ )صحیح بخاری ج1ص154 باب قیام النبی باللیل فی رمضان(
بدقسمتی کہیے! بعض لوگوں نے گویا قسم اٹھا رکھی ہے کہ اہل السنت والجماعت کی مخالفت ہر حال کرنی ہی کرنی ہے۔ چنانچہ عقائد ہوں یا مسائل۔ انہوں نے الگ سے اپنی راہ نکالی ہے، بالخصوص نماز کے اہم مسائل میں امت میں انتشار اور افتراق اس طبقے کی خاص پہچان ہے ۔ رمضان میں تراویح اور تہجد کو ایک کہنا، رکعات تراویح میں آٹھ پر ضد کرنا اور نماز وترمیں چند درج ذیل مقامات پر اختلاف کرنا۔
آج کل بعض غیر مقلدین کی طرف سے یہ سننے میں آرہا ہے کہ بعض حنفی علماء بھی آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے اوران قائلین میں بڑے بڑے حضرات علماء ہیں مثلا: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام ابن ہمام رحمہ اللہ، علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ، امام طحطاوی رحمہ اللہ ، ملا علی قاری رحمہ اللہ،علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ ، علامہ سیوطی رحمہ اللہ ،علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ وغیرہ یہ تمام حضرات آٹھ رکعات تراویح کے قائل تھے اور بطور دلائل کے یہ حوالہ جات پیش کرتے ہیں ۔
مثلا امام ابو حنیفہ کے متعلق یہ حوالہ دیتے ہیں :
1 : عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ عن ابی جعفر ان صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل کانت ثلٰث عشرۃ رکعۃً منھن ثلاث رکعات الوتر ورکعتا الفجر ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ؛ ابو جعفر سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تیرہ رکعتیں ہوا کرتی تھی جس میں تین وتر اور دو فجر کی سنتیں شامل تھیں. )مسند امام اعظم ص187باب التہجد(
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں ایک رات تشریف لائے اورلوگوں کوچار(فرض)بیس رکعت(تراویح) اورتین وترپڑھائے۔
محترم قارئین! سابقہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ نماز تراویح بیس رکعات ہی ہیں، لیکن غیر مقلدین اس متوارث عمل کو چھوڑ کر آٹھ رکعات پر اکتفاء کرتے ہیں۔ ہم بتوفیق اللہ ان کے خود ساختہ موقف اور دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
دلیل نمبر1:
غیر مقلدین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو بڑے زور و شور سے پیش کرتے ہیں کہ اس سے آٹھ رکعت تراویح ثابت ہے۔ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلمہ بن عبد الرحمن نے ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز رمضان میں کیسی ہوتی تھی؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےجواب دیا:’’ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ یصلی اربعا فلاتسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعا فلاتسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی ثلاثا‘‘ (صحیح بخاری )
کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ پہلے چار رکعتیں پڑھے ، پس کچھ نہ پوچھو کتنی حسین و لمبی ہوتی تھیں، اس کے بعد پھر چار رکعت پڑھتے ، کچھ نہ پوچھو کتنی حسین اور لمبی ہوتی تھیں، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے ۔
جواب نمبر1:
اس روایت سے آٹھ رکعت تراویح پر استدلال باطل ہے، اس لیے :
نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک سنتوں اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے مقدس طریقوں کی حفاظت وتدوین جس جامعیت اور تفصیل کے ساتھ حضرات ائمہ اربعہ نے فرمائی ہے یہ مقام امت میں کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ اسی لیے پوری امت ان ہی کی رہنمائی میں پاک سنتوں پر عمل کررہی ہے،یہ تمام ائمہ بیس رکعات کے قائل تھے، تفصیل پیش خدمت ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت:
امام اعظم فی الفقہاء اما م ابوحنیفہ اور آپ کے تمام مقلدین بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں۔
1: علامہ ابن رشد اپنی مشہور کتاب بدایۃ المجتہد میں لکھتے ہیں:
فاختار ۔۔۔ابو حنیفۃ۔۔۔ القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر۔ (ج1ص214)
امام ابوحنیفہ کے ہاں قیام رمضان بیس رکعت ہے، وتر علاوہ ہیں۔