بوڑھا درخت
بوڑھا درخت
عابد جمشید
پتہ نہیں.... کتنے زمانے بیتے.... کتنے؟؟؟.... نہیں.... اتنے زیادہ بھی نہیں.... پھر کتنے؟؟؟.... چلو اس بات کو چھوڑو.... جتنے بھی بیتے.... یہ سنو کہ ہوا کیا؟
کسی جگہ ایک بہت بڑا پھل دار درخت تھااور روزانہ ایک بچہ وہاں آکر اس درخت کے اردگرد کھیلا کرتا تھاوہ بچہ اس درخت کی ٹہنیوں سے چمٹ چمٹ کر اس کی چوٹی پر چڑھتااس کے پھل کھاتااور تھک کر اس کے سائے کے نیچے لیٹ کر مزے سے اونگھتا۔ وہ بچہ اس درخت سے محبت کرتا تھا اوروہ درخت بھی اس سے محبت کرتا تھا اوراس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وقت گذرا اور بچہ بڑا ہو گیااب وہ ہر روز درخت کے اردگرد نہیں کھیلتا تھا، بلکہ کبھی کبھی آتا اور درخت کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا جاتا۔
Read more ...
پیار کی مار
پیار کی مار
محمد کلیم اللہ
بچہ محبت کی زبان جلد سمجھتا ہے۔ آپ کی محبت بچے سے مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے مثلا کبھی آپ اس کو سوتے ہوئے بھی جاگنے کے انتظار کیے بغیر اس کا بوسہ لیتی ہیں کبھی ذرا سابچہ رودیا تو فوراً چوم چاٹ کر سہلایا اورلوریاں دے کر نیند کی آغوش میں سلا دیا۔
ہاں!یہ الگ بات ہے کہ جب آپ کام میں مصروف ہوتی ہیں تو پھر فوراً ”منے کے ابا منے کو ذرا دیکھنا“ کے الفاظ آپ بڑی بے ساختگی میں کہہ جاتی ہیں۔ اب ”منے کا ابا“ بیچارہ اسے چپ کرانے کے لیے کئی پاپڑ بیلتا ہے، کبھی اس کے سامنے اوووے اوووے اوئے.... کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرتا ہے، کبھی چٹکی بجاکر، کبھی تالیاں بجا کر، کبھی سامنے بڑی عجیب وغریب انداز میں بلی ،بکرے اور طوطے کی آوازیں نکال کر ،کبھی بیچارے ”منے کے ابا“ اس کو چپ کرانے کے لئے گھٹنوں کے بل چل کر گائے بھینس کی نقل اتار کراور کبھی بے معنی اوٹ پٹانگ فضول اور مہمل الفاظ بول کر۔
Read more ...
مرید پور کا پیر
مرید پور کا پیر
پطرس بخاری
کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جابجا جلسے نکل آئے جس کسی کو ایک میز ایک کرسی اور ایک گلدان میسر آیا،اسی نے جلسے کااعلان کردیا۔ جلسوں کے اس موسم میں ایک دن ”مرید پور“ کی انجمن نوجوانان ہند کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا ایک خط موصول ہوا: ” آپ کے شہر کے لوگ آپ کے دیدا رکے منتظر ہیں ہر کہ دمہ آپ کے روئے انور کو دیکھنے اور آپ کے پاکیزہ خیالات سے مستفید ہونے کے لیے بے تاب ہیں مانا ملک بھر کو آپ کی ذات بابرکات کی از حد ضرورت ہے لیکن وطن کا حق سب سے زیادہ ہے کیونکہ
خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر
Read more ...
اللہ کا ذکر
اللہ کا ذکر
مولانا عاشق الہی بلند شہری
ذکر الٰہی کا اعلی درجہ یہ ہے کہ ہر وقت اللہ کی طرف دھیان رہے اور اس کی یاد دل میں بسی رہے جن بندوں نے ذکر کا نفع سمجھ لیا ہے اور جن کو اس کی فضیلتیں معلوم ہوگئی ہیںوہ عمر کا ذرا ساحصہ بھی خداکی یاد سے خالی نہیں جانے دیتے۔ اللہ کا نام لینا اور اللہ کا ذکر کرنا بہت ہی فضیلت رکھتا ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کوحضرت رسول مقبول ﷺ نے نصیحت فرمائی :”تیری زبان ہر وقت اللہ کی یاد میں تر رہے!“ایک مرتبہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے چند عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:” سبحان اللہاور لاالہ الااللہ اور سبحان الملک القدوس پڑھتی رہا کرو اور انگلیوں پر پڑھاکرو کیونکہ انگلیوں سے پوچھا جائے
Read more ...
ایک کہانی بڑی پرانی
ایک کہانی بڑی پرانی
ام محمد رانا
نمرہ کا اپنے بہن بھائیوں میں آٹھواں اور آخری نمبر تھا نمرہ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب چوتھا اور بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا بھائی بھی آٹھویں جماعت میں تھا۔ 45سالہ آسیہ تو نمرہ کی پیدائش پر ایسے شرمندہ تھیں جیسے ان سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوگیا جس سے وہ تائب ہوچکی تھیں لیکن اس میں نہ تو نمرہ صاحبہ کی غلطی تھی کہ وہ اپنی والدہ کی رضا کے بغیر ہی اس دنیا میں تشریف لائی اور نہ ہی آسیہ کو اتنا شرمسار ہونے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ تو اللہ کی دین ہے۔ 45سال کی کیا بات ہے وہ جو بانجھ ہونے کے باوجود 100سال کی عمر میں اولاد سے نواز سکتاہے اس کی قدرت کسی کی مرضی یا خواہش کے تابع کوئی تھوڑتی ہے
Read more ...
ایک سوال
ایک سوال
مصباح جبار؛چیچہ وطنی
آج ایک سوال کرنا چاہوں گی آپ سب سے، مکمل پڑھ کر جواب دیجیئے گا، ٹھیک ہے؟
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اکثریت بڑے مشہور و معروف مصنفوں کی لکھی ہوئی کتابیں، ناول کہانیاں، تحریریں پڑھنا بڑا پسند کرتی ہے۔ اکثر لوگ میگزین اور مختلف کتابوں میں یہ کہانیاں اور ناولز تلاش کرتے ہیں اور کچھ لوگ یہ سب انٹرنیٹ کی دنیا میں تلاش کرتے ہیں اور بڑے مزے لے لے کر پڑھتے ہیں اور پڑھتے پڑھتے کبھی بور نہیں ہوتے اور بہت غور و فکر کے ساتھ سمجھ سمجھ کر پڑھتے ہیں کوئی ایک لائن سمجھ ناں آئے تو دو تین بار اسی لائن کو پڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ سمجھ آجائے کہ لکھنے والا کہنا کیا چاہ رہا ہے اور یہ سب کہانیاں پڑھ کر بعض دفعہ تو ہماری آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں اور بعض دفعہ پڑھتے پڑھتے
Read more ...
گرمیوں کی چھٹیاں
گرمیوں کی چھٹیاں
عابد جمشید رانا
موسم گرما کی تعطیلات کی آمد آمد ہے نرسری پریپ کے بچوں سے لے کر گریجوایشن تک کے طلباءوطالبات جوش سے بھرے ہیں۔چھٹیوں کو بھر پور انداز میں انجوائے کرنے کے لیے پروگرامز بن رہے ہیں رات سوتے میں اور دن کو جاگتی آنگھوں سے ننھیال اورپھوپھیوں کے ہاں جانے کے خواب نظر آتے ہیں۔ماﺅں کا ووٹ بچوں کے ماموں اور خالہ کے پلڑے میں ہے جب کہ والد گرامی کی رائے میں بچے اپنی پھوپھی کے ہاں زیادہ خوش رہیں گے، طرفین کے گرماگرم دلائل اور بچوں کی رائے سے کوئی درمیانی راہ نکل ہی آئے گی کہ ننھیال اور ددھیال دونوں کے پاس کچھ دن بِتا لیے جائیں۔
دوسری طرف بھاری بھر کم ہوم ورک اور چھٹیوں کے فوراً بعد امتحانات کا خیال ہی سوہان روح بنا ہوا ہے تاہم یہ خیال فی الحال خوشیوں کے بوجھ تلے دبا ہے
Read more ...
ظہیرالدین محمد بابر
ظہیرالدین محمد بابر
امان اللہ کاظم'لیہ
اس بات سے قطع نظرکہ خدا جانے کل کیا رونما ہونے والا تھا اور کون کس کا ساتھی اور کون کس کے مد مقابل آنے والا تھا ہر شخص ایک ہی رومیں بہتا چلا جارہا تھا اندرجان کی فضا نفیریوں دفوں ڈھولوں اورنقاروں کی بے ہنگم آوزوں گونج رہی تھی دعوتوں اور ضیافتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا تھا جو تھمنے کانام ہی نہیں لیتا تھا۔
چالیس روز تک یہ محافل ناﺅ نو ش اور ہاﺅنہ اپنے عروج پر رہیں ہر شخص اپنی بساط بھر پوری طرح لطف اندوز ہوا۔نومولود کی پیدائش سے متعلق مروجہ رسوم نبھائی گئیں محمدبابر کی نانی دولت بیگم نواسے کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی تھی وہ ہر آن اسے اپنی باہوں کے حصار میں لیے رکھتی تھی اور اس کے گال پر کاجل کاکالا ٹکہ لگانا نہیں بھولتی تھی
Read more ...
ہماری مائیں
ہماری مائیں
بنت بشیر احمد
سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنھا
نام: زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
لقب: ام المساکین
نسب: زینب بنت خزیمہ بنت الحارث بن عبداللہ بن عمر بن عبدمناف
گلشن نبوی ﷺ میں خوب رنگ چڑھا ہے۔ صداقت و عدالت کے پھول ان سب سے نمایاں نظر آرہے ہیں ضیائے سخاوت بھی اپنے جوبن پر ہے ہر طرف چمن کو زینت بخشنے والے پھول قطاراندرقطارروح تک کومعطرکررہے ہیں۔ اس گلستان کا ”مالی“ صبح وشام تعلیم کتاب کا پانی چھڑک رہاہے اور تزکیہ نفس کی گوڈی کررہا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ اسلام، مکہ سے نکل کر مدینہ اور مدینہ سے نکل کر سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ گلشن محمدی ﷺکی آبیاری مختلف
Read more ...
میری ماں ہمیشہ سچ نہیں بولتی
میری ماں ہمیشہ سچ نہیں بولتی
عبدالباری لاہور
٭آٹھ بار میری ماں نے مجھ سے جھوٹ بولایہ کہانی میری پیدائش سے شروع ہوتی ہے میں ایک بہت غریب فیملی کا اکلوتا بیٹا تھا ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ تھا اور اگر کبھی ہمیں کھانے کو کچھ مل جاتا تو ماں اپنے حصے کا کھانا بھی مجھے دے دیتی اور کہتی تم کھا لو مجھے بھوک نہیں ہے، یہ میری ماں کا پہلا جھوٹ تھا۔
٭جب میں تھوڑا بڑا ہوا تو ماں گھر کا کام ختم کر کے قریبی جھیل پر مچھلیاں پکڑنے جاتی اور ایک دن اللہ کے کرم سے دو مچھلیاں پکڑ لیں تو انھیں جلدی جلدی پکایا اور میرے سامنے رکھ دیا۔میں کھاتا جاتا اور جو کانٹوں کے ساتھ تھوڑا لگا رہ جاتا اسے وہ کھاتی۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا میں نے دوسری مچھلی ماں کے سامنے رکھ دی اس نے واپس کر دی اور کہا بیٹا تم کھالو
Read more ...