ایمان و یقین کی محنت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ایمان و یقین کی محنت
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
سالانہ تبلیغی اجتماع کی آمد آمد ہے ،تیاریاں زوروں پر ہیں، اس اجتماع کا اہم مقصدمسلمانوں کو ایسی دعوت فکر دینا ہے جسے اپنا لیا جائے تو یقیناً مسلمانوں کی اجتماعی وانفرادی زندگی میں انقلاب آجائے گااور امت مسلمہ کو درپیش مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے۔ علماء کے بیانات،انفرادی و اجتماعی اعمال کی مجالس، نالہ ہائے نیم شب کے ساتھ ساتھ امت مرحومہ کے زوال وانحطاط کے خاتمے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ پر قیمتی نصائح زندگی میں انقلاب لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کی پستی ،دیگر اقوام عالَم کے مقابلے میں اہلِ اسلام کی شکستگی ، مرعوبیت اور احساس کمتری کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں گم گشتگانِ راہ کو کہیں اپنی منزل دکھائی دیتی ہے،تو وہ یہی ”ایمان و یقین کی محنت “کا روشن مینارہ ہی ہے۔آج کے اس دور میں بلا شبہ دین متین کے احیاءاوراسلامی معاشرے کو تشکیل کرنے کایہی ایک پلیٹ فارم ہےجہاں احکام خداوندی پر طرز حبیب خداوندی کے مطابق عمل کرنے کی عالی فکر ہوتی ہے۔
اس اجتماع کے انعقاد کا مقصد عالم بھر کے انسانوں کی دونوں جہانوں میں کامیابی کی فکر کرنا ہے اور یہی فکر شرکاء میں منتقل کی جاتی ہے۔اس میں شرکت نہایت سعادت کی بات ہے۔کیونکہ جہاں عالم بھر کے انسانوں کی زندگیاں سنوارنے کی فکرہوگی وہاں اس کے انوارات وبرکات اور اس کے اثرات بھی اسی حساب سے مرتب ہوں گے۔اس لیے تمام قارئین و متوسلین مع احباب شرکت فرمائیں اور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بھرپور انداز میں کامیاب فرمائے،ہر قسم کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے اور اسے پاکستان بلکہ پورے عالم میں امن اور ہدایت کا سبب بنائے۔آمین
Īم حرم الحرام میں امن و امان کیسے ممکن؟Ĩ
محرم الحرام میں ملکی و علاقائی امن و امان بحال رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف مسالک کے اجتماعات کا انعقاد باہمی اشتعال بڑھا دیتا ہے، نتیجہ افراتفری اور بدامنی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس لیے امن و امان کے فروغ کے لیے سب سے بنیادی کام یہ کیا جائے کہ مذہبی اجتماعات اور جلسوں کو اپنی اپنی مساجد ومدارس اور مذہبی عبادگاہوں تک محدود رکھا جائے، یا اگر عوامی اجتماع منعقد ہو ں تو خاص میدان میں اجازت ہو ،کھلے عام سڑکوں پر آنے اور روڈ بلاک کرنے سے روکا جائے۔ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کھلے عام سڑکوں اور گلی کوچوں میں اپنے مخصوص افکارو نظریات کا اظہار کرے گا خصوصاً دوسرے فریق کی مسجد و مدرسہ کے سامنے تو یقیناً یہ امر باہمی منافرت اور فرقہ واریت کی بنیاد بنے گا۔ لہذا یہ سلسلہ یکسر ختم کیا جائے۔
ایک اقدام اس سلسلے میں اور بھی کیا جائے تو ضرور نتائج رس ثابت ہو گا کہ اونچی سطح کا ایک اجلاس بلایا جائے جس میں تمام مسالک کے جید علماء شریک ہوں۔ فرقہ واریت کو روکنے کے لیے تمام شرکاء کی باہمی مشاورت سے ایسا قانون بنایا جائے جس پر تمام مسالک عمل پیرا ہوں۔ اس سے باہمی نفرت کی سلگتی چنگاریاں مدھم پڑ جائیں گی۔