مغفرت کے لیے ایک عظیم الشان وظیفہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

خزائن السنن:

 
مفتی شبیر احمد حنفی
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مغفرت کے لیے ایک عظیم الشان وظیفہ ارشاد فرمایا ہے جو اللہ تعالی کی رحمت کو جوش دلاتا ہے۔اس مضمون کو عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے عالی ذوق کے مطابق نہایت عمدگی سے سمجھایا ہےجو کہ ہدیہ قارئین ہے۔
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا:
آج میں آپ کو ایک عظیم الشان وظیفہ دے رہا ہوں، اس کو چلتے پھرتے بقدر تحمل کثرت سے پڑھیے۔ صبح وشام ایک ایک تسبیح روزانہ پڑ لیا کریں۔
” رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ“
اور یہ وظیفہ کس نے عطا فرمایا ہے؟ سب سے بڑے پیارے نے مخلوق میں سب سے بڑے پیار ےکو سب سے پیارا وظیفہ دیا ہے۔سب سے بڑے پیارے یعنی اللہ تعالیٰ نے، سب سے بڑے پیارے کو یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب سے بڑ پیار ا وظیفہ دیا۔ جو سب سے بڑا پیارا ہوتا ہے اس کو سب سے بڑی پیاری چیز دی جاتی ہے۔ پیارے کو معمولی چیز نہیں دی جاتی، لہذا یہ امت کی مغفرت کےلیے بہترین وظیفہ ہے ۔
”وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ“
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے پالنے والے سے مغفرت مانگیے ،رب کیوں نازل فرمایا؟ جو پالتا ہے اس کو اپنی پالی ہوئی چیز سے محبت ہوتی ہے۔ تم اک بلی پال لو تو بلی سے محبت ہوجاتی ہے ، کتا پال لو تو کتے سے بھی محبت ہوجاتی ہے، میں تمھارا پالنے والا ہوں، مجھے تم سے محبت نہ ہوگی؟ لہذا اللہ تعالیٰ اپنے دریائے رحمت میں جوش کے لیے خود سکھا رہے ہیں کہ رب کہو، تاکہ تمھارے منہ سے جب سنوں کہ اے میرے پالنے والے!تو میرے دریائے رحمت میں طوفان پیدا ہو۔ جیسے چھوٹا بچہ جب کہتا ہے کہ اے میرے ابا ! تو باپ کے دل میں محبت کا کیسا جوش اٹھتا ہے۔ ”رَبِّ اغْفِر“ اے میرے رب ! مجھے معاف فرما دیجیے۔تو مغفرت کے کیا معنی ہیں ؟ ”بستر القبیح واظہار الجمیل“ میری برائیوں کو چھپا دیجیےاور نیکوں کو ظاہر فرما دیجیے، ”وَارْحَمْ“اور رحمت کے کیا معنی ہیں؟ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے رحمت کی چار تفسیریں کی ہیں۔ یعنی توفیق طاعت ،فراخی معیشت یعنی رزق میں برکت، بے حساب مغفرت اور دخول جنت۔
دوستو یہاں کے ماحول کی آلودگی میں ہم سب کچھ نہ کچھ آلودہ ہو گئے، لہذا یہ وظیفہ پڑھ کر اللہ کی مغفرت کا فالودہ پی لو۔ ابھی ابھی یہ شعر ہوگیا:
جس کی جاں ہو گنہ سے آلودہ
وہ پیے مغفرت کا فالودہ
بندہ جب مغفرت مانگتا ہے تو شیطان کو انتہائی غم ہوتا ہے، بہت چلاتا ہے، اپنے سر پر مٹی ڈالتا ہے کہ یہ بندے تو بہت چالاک ہیں ، میں نے تو ان کو گناہوں کا مزہ چکھایا تھا اللہ سے دور کرنے کے لیے لیکن انہوں نے تو اللہ سے معافی مانگ کر اپنا کام بنا لیا ، میری ساری محنت بے کار گئی،میری بزنس تو لاس (Loss)میں جارہی ہے ، شیطان مایوس ہو جاتا ہے۔
اس لیے سفر میں، حضر میں جہاں بھی رہیے اس وظیفہ کو کثرت سے پڑھتے رہیے ،اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ معافی بھی ہوجائے گی ، اللہ کو رحم آجائے گا کہ یہ بندہ اپنی خطاؤں پر بار بار روتا ہے، تو کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی توفیق دے دے کہ گناہوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے۔ مولانا رومی صاحب قونیہ جہاں ہم لوگ جارہے ہیں فرماتے ہیں کہ
عرش لرزد از انین المذنبین
آں چناں لرزد کہ مادر بر ولد
جب گناہگار بندہ روتا ہے تو عرش الہی ہل جاتا ہےم جیسے کہ ماں کا دل دہل جاتا بچہ کے رونے سے۔
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا:
میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مدرسی نیو ٹاؤن میں مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں یہ سوال کیا گیا کہ پہلے استغفار کریں یا پہلے درود شریف پڑھیں یعنی درود شریف اور استغفار میں کیا چیز ہم پہلے پڑھیں؟
حضرت نے فرمایا کہ مولانا گنگوہی رحمۃاللہ علیہ سے یہی سوال کسی نے کیا تھا تو حضرت قطب العالم مولانا گنگوہی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ تم عود کا عطر پہلے لگاتے ہو یا پہلے نہاتے ہو؟ پہلے انسان نہا کر صاف کپڑا پہنتا ہے تو استغفار کرنا روح کو دھونا ہے، پھر درود شریف کا عطر بعد میں لگاؤ۔ اولئک آبائی فجئنی بمثلہم۔ اسی طرح جب دل گناہوں سے آلودہ ہو گیا تو پہلے اس آلودگی کو دور کرو تب اللہ کا نور پاؤ گے۔ اسی کو مولانا نےا س شعر میں فرمایا ہے۔
راہ دہ آلودگاں را العجل در فرات عفو عین مغتسل