حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

تذکرۃ الفقہاء:

 
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
نام ونسب:کنیت ابوسعید، انصاری قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ نسب نامہ یوں ہے:زید بن ثاب بن ضحاک بن زید بن وذان بن عمرو بن عبد عوف الانصاری الخزرجی
[الاصابہ ج1ص641،اسد الغابہ ج2ص185]
ولادت باسعادت:
حافظ ابن اثیر جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اس وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ کی عمر گیارہ سال تھی۔ اس حساب سے آپ کا سن ولادت تقریبا 2نبوی بنتاہے
[اسد الغابہ ج2ص185]
بچپن سے ہی قرآن سے محبت وتعلق:
حضرت زید رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ جب حضور علیہ السلام مدینہ تشریف لائے تو لوگ مجھے آپ کی خدمت میں لے گئے اور حضور کو بتایا:
هذا من بني النجار وقد قرأ سبع عشرة سورة فقرأت عليه فأعجبه ذلك
[الاصابۃ ج1ص642]
کہ قبیلہ بنی نجار کے اس لڑکے کو قرآن مجید کی 17سورتیں یاد ہیں، میں نے وہ سورتیں حضور علیہ السلام کو سنائیں تو آپ بہت خوش ہوئے۔
آپ کی ذہانت ،قوت حافظہ اور دینی علوم کے شوق کو دیکھتے ہوئے حضور علیہ السلام نے ان کو حکم فرمایا :
تعلم كتاب يهود فإني ما آمنهم على كتابي
[الاصابہ ج1ص642]
تم یہود کی زبان سیکھو، مجھے اپنے خطوط میں ان پر بھروسہ نہیں۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضور کے حکم کو مانتے ہوئے خوب محنت کرکے صرف دو ہفتوں میں یہود کی زبان سیکھ لی اس کے بعد آپ حضور علیہ السلام کی طر ف سے یہود کو خطوط لکھتے اور ان کی طرف سے آنے والے خطوط پڑھ کر حضور کو سناتے۔
فضائل ومناقب:
خیر القرون میں قرآن کریم کے حوالے سے تین اہم مرحلے پیش آئے۔ ان تینوں میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے کردار کی مثال نہیں۔آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں بھی کاتب وحی رہے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد عہد صدیقی میں جمع قرآن کا مرحلہ پیش آیا تو آپ رضی اللہ عنہ قرآن جمع کرنے پر مامور ہوئے۔پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب قرآن کو ایک لغت پر جمع کرکے اطراف عالم میں پھیلایا گیا تو اس کام کے لیے بھی ایک نمایاں نام حضرت زید رضی اللہ عنہ ہی کا تھا۔گویا کتابت قرآن،جمع قرآن اور نشر قرآن تینوں میں حضرت زید کا اہم کردار رہاہے۔
علمی حیثیت:
1:حضور علیہ السلام نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو علم وراثت کا سب سے بڑا عالم قرار دیا ہے۔ فرمان نبوی ہے.
وأفرضهم زيد بن ثابت
[جامع ترمذی: باب مناقب معاذ بن جبل وزید بن ثابت]
2:آپ کے علمی کمال کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ مشہور کبار صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے جن حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوسعید۔ حضرت ابوہریرہ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔
[اسد الغابۃ :ج2ص186]
3:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے علم تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا نام ایک نمایاں مقام رکھتاہے مگر آپ رضی اللہ عنہ بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے علم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔چنانچہ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سواری پر سوار ہوکر جانے لگے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ان کی سواری کی رکاب پکڑ کر چلنے لگے، حضرت زید نے منع کیا کہ اس طرح نہ کریں۔توحضرت ابن عباس نے فرمایا:
قال لا هكذا نفعل بالعلماء والكبراء
[الاصابہ ج1ص642]
ہم تو اپنے علماء اور بڑوں کا یوں ہی احترام کرتے ہیں۔
جس شخصیت کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسی ہستی علماء اور اکابرین میں سے تسلیم کرے تواس کے علم کا کیا مقام ہوگا؟!
فقہی مقام:
1: حضرت فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما آپ رضی اللہ عنہ کی فقیہانہ حیثیت کی بڑی قدر کرتے تھے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ما كان عمر وعثمان يقدمان على زيد أحدا في الفتوى والفرائض والقراءة.
[تذكرة الحفاظ: تحت ترجمۃ أبی هريرة الدوسي اليماني]
کہ حضرت عمر وحضرت عثمان رضی اللہ عنہمافتوی[یعنی علم فقہ ]وراثت اور قرآت قرآن میں حضرت زید کو سب سے مقدم سمجھتے تھے۔
2: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ وہ چھ صحابہ رضی اللہ عنہم جو صاحب فتوی شمار ہوتے ہیں، ان میں ایک نام زید بن ثابت کا ہے۔
[ الإصابة في تمييز الصحابة: ج2ص642]
نیز یہ بھی نقل کرتے ہیں:
كان زيد رأسا بالمدينة في القضاء والفتوى والقراءة والفرائض۔
[ الإصابة في تمييز الصحابة: ج2ص642]
حضرت زید کومدینہ منورہ میں قضاء، فتویٰ، قرآت اور فرائض میں بڑا مقام حاصل تھا۔
3: آپ کے فقہی مقام کا یہ حال تھا کہ اہل اسلام کی ایک کثیر جماعت آپ کے قول وفتویٰ کے مقابلے میں کسی اور فقیہ کی بات عمل نہیں کرتی تھی۔حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مدینہ والوں نے حضرت ابن عباس سے ایک مسئلہ پوچھا، اس میں حضرت ابن عباس کا قول او ر تھا حضرت زید کا اور۔مدینہ والوں نے کہا:
لَا نَأْخُذُ بِقَوْلِكَ وَنَدَعُ قَوْلَ زَيْدٍ
[صحیح بخاری:بَاب إِذَا حَاضَتْ الْمَرْأَةُ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ]
کہ ہم آپ کے فرمان کو لیں اور حضرت زید کے فتویٰ کو چھوڑ دیں، ایسا نہیں کرسکتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس دور میں اہل مدینہ ایک متعین فقیہ کی تقلید کرتے تھے۔
وفات حسرت آیات اور تاثرات صحابہ:
45ھ میں علم وفقہ کا یہ عظیم چراغ کئی سالوں تک دنیا کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے بعد قبر کی زینت بن گیا۔آپ کی وفات پر اکابر صاحب نے انتہائی دردناک جملوں میں غم کا اظہار فرمایا۔
حضرت ابوہریرہ نے فرمایا.
اليوم مات حبر هذه الأمة وعسى الله أن يجعل في ابن عباس منه خلفا۔
[أسد الغابة ج1ص187]
آج اس امت کا بہت بڑا عالم دنیا سے چلا گیا۔امید ہے اللہ تعالیٰ ابن عباس کو ان کا جانشین بنا دیں گے۔
شاعر بزم ختم نبوت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فمن للقوافي بعد حسان وابنه ومن للمعاني بعد زيد بن ثابت
[ الإصابة في تمييز الصحابة]
حسان اور اس کے بیٹے کے بعد ایسے اشعار کون پڑھ سکے گا اور قرآن کا مطلب ومفہوم زید کے بعد کون بیان کر سکے گا۔
مفسر قرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
من سره أن يعلم كيف ذهاب العلم فهكذا ذهاب العلم والله لقد دفن اليوم علم كثير
[تہذیب الکمال ج3ص671]
جو شخص جاننا چاہتاہے کہ علم کیسے دنیا سے جاتاہے وہ دیکھ لے کہ زید جیسے شخص کے جانے سے علم جاتاہے، آج زید کے دفن ہونے سے علم کا بہت بڑا حصہ دفن ہوگیا۔
فرضی اللہ عنہم بحقہم عنا ،آمین بجاہ النبی الکریم