ماہ ِصفَر کی بدعات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماہ ِصفَر کی بدعات
اور ایک من گھڑت حدیث کا جائزہ
……مفتی محمد راشد ڈسکوی﷾
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ انسانیت میں زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے،زمانہ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے، حالاں کہ سرکار دوعالم ﷺ نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علی الاعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔ملاحظہ ہو۔
عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال: قال النبی ﷺ :”لا عَدوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَةَ“
(صحیح البخاری،کتاب الطب،باب الھامۃ ، رقم الحدیث: 5770)
مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم ﷺ اپنے پاؤں تلے روند چکے ہیں۔
ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکار دو عالم ﷺ کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناؤنے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا، ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے:” مَن بَشَّرَنِی بِخُرُوجِ صَفَرَ، بَشَّرتُہ بِالجَنَّةِ “”جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا ،میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا۔“
اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے، طریقہ استدلال یہ ہے کہ چوں کہ اس مہینہ میں نحوست تھی ،اس لیے سرکار ِدوعالم ﷺ نے اس مہینے کے صحیح سلامت گذرنے پر جنت کی خوشخبری دی ہے۔
تو اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ یہ حدیث صحیح و معتبر نہیں ہے، بلکہ موضوع اور لوگوں کی گھڑی ہوئی ہے،اس کی نبی اکرم ﷺ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، چناں چہ ائمہ حدیث نے اس من گھڑت حدیث کے موضوع ہونے کو واضح کرتے ہوئے اس عقیدے کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے، ان ائمہ میں ملا علی قاری، علامہ عجلونی،علامہ شوکانی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں، ان حضرات ِ ائمہ کا کلام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے: چناں چہ ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”مَن بَشَّرَنِی بِخُرُوجِ صَفَرَ، بَشَّرتُہ بِالجَنَّةِ“ لا اصل لہ“
(الموضوعات الکبریٰ،حرف المیم،رقم الحدیث: 437،2324،المکتب الاسلامی)
اورعلامہ اسماعیل بن محمد العجلونی رحمہ اللہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں :
”مَن بَشَّرَنِی بِخُرُوجِ صَفَرَ، بَشَّرتُہ بِالجَنَّةِ “ قال القاری فی الموضوعات تبعاً للصغانی: ”لا اصل لہ“
(کشف الخفاءو مزیل الالباس، حرف المیم،رقم الحدیث:2418، 2538،مکتبۃ العلم الحدیث )
فتاویٰ عالمگیری میں ہے : میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے)اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں، مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان ”کہ جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا“ سے دلیل پکڑتے ہیں،کیا نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے )صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہلِ نجوم کے ہاں پائی جاتیں تھی، جنہیں وہ اس لیے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے ،جسے وہ نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کرتے تھے،حالانکہ یہ صاف جھوٹ ہے۔
(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ،باب المتفرقات:5461،دارالکتب العلمیۃ)
نمبر: ۲ اس من گھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں ، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔
نمبر : ۳ محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور منگھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل پکڑنا درست نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چوں کہ سرکار دو عالم ﷺ کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ ﷺ کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا، اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا، چناں چہ اس شخص کے لیے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔
خلاصہ کلام ! یہ کہ اس حدیث کا (بصورتِ صحیح ہونے )ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔
ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعی حیثیت:
ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں ایک ”اس مہینے کے آخری بدھ “ کا نظریہ بھی ہے،کہ اس بدھ کو نبی اکرم ﷺ کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا، لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے، حالاں کہ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے، اس دن تو نبی اکرم ﷺ کے مرضِ وفات کی ابتداءہوئی تھی ،نہ کہ مرض کی انتہاءاور شفائ، یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظرئیے کی تردید میں اکابر علماءکے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتیں ہیں جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم ﷺ کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔
ماہِ صفر کے آخری بدھ روزہ رکھنے کا شرعی حکم:
مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ ”امداد المفتین“ میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں۔
سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو ”کچوری روزہ“ یا ”پیر کا روزہ“ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
جواب: بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس [روزہ] کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے، نبی اکرم ﷺ اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں [بھی] اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی ، کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں ، جو نبی اکرم ﷺ نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔
(امداد المفتین، فصل فی صوم النذر و صوم النفل، ص: 416، دارالاشاعت)
صفر کے آخری بدھ والی مخصوص نماز کا حکم:
اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ بیان کیا جاتا ہے، اس نماز کو بتلانے والے حضرات صوفیانِ کرام ہیں،نماز کا طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز ،چاشت کے وقت ،اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد )قل اللھم مالک الملک (والی دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن والی دو آیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجیں اور ان الفاظ سے دعا کریں
”اللّٰھم اصرِف عنِّی شرَّ ھذا الیومِ واعصِمنِی شُومَہ واجعَلہ علَیَّ رحمةً وبرکةً وجنِّبنِ عَمّا اخافُ فیہ من نُحوساتہ وکرباتہ بفضلک یا دافعَ الشرور، ویا مالکَ النشور، یا ارحمَ الراحمین“۔
اس طریقہ نماز کی تخریج علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ نے اپنی کتاب ”الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ“ میں کی ہے، آپ لکھتے ہیں :
ومنھا: ”صلاة الاربعاءالآخر“ من شھر صفَر وھی رکعتان تصلیان وقت الضحیٰ، فی اولٰھما یقرا بعد الفاتحة قل اللھم مالک الملک الآیتین مرّةً وفی الثانیة قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن الآیتین ویصلی علی النبی بعد ما یسلّم، ثم یقول:”اللّٰھم اصرِف عنِّی شرَّ ھذا الیومِ واعصِمنِی شُومَہ واجعَلہ علَیَّ رحمةً وبرکةً وجنِّبنِی عَمّا اخافُ فیہ من نُحوساتہ وکرباتہ بفضلک یا دافعَ الشرور، ویا مالکَ النشور، یا ارحمَ الراحمین“
(مجموعۃ رسائل اللکنوی،”الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ“، فی ذکر صلوات وادعیۃ مخصوصۃ، القول الفیصل فی ھذا المقام :594،ادارة القرآن کراتشی)
اس کے بعدموصوف رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، وگرنہ جائز نہیں ہے۔
وہ شرائط یہ ہیں:
(1) اِن نمازوں کو ادا کرنے والااِن کے لیے ایسا اہتمام نہ کرے جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض و واجبات وغیرہ )کے لیے کیا جاتا ہے۔
(2) ان نمازوں کو شارع علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے۔
(3) ان منقول نمازوں کے ثبوت کا وہم نہ رکھے۔
(4) ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔
(5) ان نمازوں کا اس طرح التزام نہ کیا جائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہو۔جاننا چاہیے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کر لیا جائے ،تو وہ شرعاً مکروہ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد حضرت رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم (نہ ہونے کے برابر)ہیں جو مذکورہ شرائط کی پاسداری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کیے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گذر چکا ہے کہ یہ عمل ”نیکی برباد ،گناہ لازم“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، تقرب الی اللہ کا نہیں۔
صفر کے آخری چار شنبہ کا حکم:
سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی و سرور وغیرہ میں اطعام ُ الطعام [کھانا کھلانا] کرتے ہیں ،شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟
جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ، سب جہلاءکی باتیں ہیں۔
(فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم، ص:171،عالمی مجلس تحفظ ِ اسلام،کراچی)
صفر کے آخری چہار شنبہ کو مٹھائی تقسیم کرنا:
سوال: یہاں مراد آباد میں ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ”کارخانہ دار“ ان ظروف کی طرف سے کاریگروں کو شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، بلامبالغہ یہ ہزارہا روپیہ کا خرچ ہے، کیونکہ صدہا کاریگر ہیں اور ہر ایک کو اندازاً کم و بیش پاؤ بھر مٹھائی ملتی ہے، ان کے علاوہ دیگر کثیر متعلقین کو کھلانی پڑتی ہے، مشہور یہ روایت کر رکھی ہے کہ اس دن حضرت رسول اللہ ﷺ نے غسل ِ صحت کیا تھا، مگر از روئے تحقیق بات برعکس ثابت ہوئی کہ اس دن حضرت رسولِ مقبول ﷺ کے مرضِ وفات میں غیر معمولی شدت تھی، جس سے خوش ہو کر دشمنانِ اسلام یعنی یہودیوں نے خوشی منائی تھی،احقر نے اس کا ذکر ایک کارخانہ دار سے کیا تو معلوم ہوا کہ جاہل کاریگروں کی ہوا پرستی اور لذت پروری اتنی شدید ہے کہ کتنا ہی ان کو سمجھایا جائے وہ ہرگز نہیں مانتے اور چوں کہ کارخانوں کی کامیابی کا دارومدار کاریگروں ہی پر ہے،تو اگر کوئی کارخانہ دار ہمت کر کے شیرینی تقسیم نہ کرے تو جاہل کاریگر اس کے کارخانہ کو سخت نقصان پہنچائیں گے، کام کرناچھوڑ دیں گے۔
الف: حقیقت کی رو سے مذکورہ تقسیم شیرینی کا شمار افعال ِکفریہ ، اسلام دشمنی سے ہونا تو عقلاً ظاہرہے ،تو بلا عذر ِ شرعی اس کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے یا نہیں ؟ اگرچہ وہ مذکورہ حقیقت سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو؟
ب: جاہل کاریگروں کی ایذاءرسانی سے حفاظت کے لیے کارخانہ داروں کا فعلِ مذکور میں معذور مانا جا سکتا ہے؟
ج: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ سے متعلق جو صحیح روایات اوپر مذکور ہوئیں ،وہ کس کتاب میں ہیں؟
د: حضرت رسولِ مقبول ﷺ کے مرضِ وفات میں شدت کی خبر پا کر یہودیوں نے کس طرح خوشی منائی تھی؟
الجواب حامداً و مصلیاً: ماہِ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشی کی تقریب منانا، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً بے دلیل ہے، اس تاریخ میں غسل ِ صحت ثابت نہیں، البتہ شدتِ مرض کی روایت”مدارجُ النبوة“(2704-707،مدینہ پبلشنگ کمپنی، کراچی) میں ہے۔یہود کو آنحضرت ﷺ کے شدتِ مرض سے خوشی ہونا بالکل ظاہر اور ان کی عداوت و شقاوت کا تقاضاہے۔
(الف) مسلمانوں کا اس دن مٹھائی تقسیم کرنا نہ شدتِ مرض کی خوشی میں [ہوتا] ہے، نہ یہود کی موافقت کی خاطر [ہوتا]ہے،نہ ان کو اس روایت کہ خبر ہے، نہ یہ فی نفسی کفر و شرک ہے، اس لیے ان حالات میں کفر و شرک کا حکم نہ ہو گا۔ ہاں یہ کہا جائے گا کہ یہ طریقہ غلط ہے، اس سے بچنا لازم ہے، حضور اکرم ﷺ کا اس روز غسل ِصحت [کرنا] ثابت نہیں ہے[آپ ﷺ کی طرف] کوئی غلط بات منسوب کرنا سخت معصیت ہے[نیز] بغیر نیتِ موافقت بھی یہود کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
(ب) نہایت نرمی و شفقت سے کارخانہ دار اپنے کاریگروں کو بہت پہلے سے تبلیغ و فہمائش کرتا رہے اور اصل حقیقت اس کے ذہن میں اتار دے ، ان کا مٹھائی کا مطالبہ کسی دوسری تاریخ میں حُسنِ اُسلوب سے پورا کر دے، مثلاً: رمضان، عید [الفطر]، بقر عید وغیرہ کے موقع پر دے دیا کرے، جس سے ان کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ یہ بخل کی وجہ سے انکار کرتا ہے، بہر حال کارخانہ دار بڑی حد تک معذور ہے۔
(ج) مدارج ُ النبوہ میں ہے۔ (2704 -707 ، مدینہ پبلشنگ کمپنی،کراچی)
(د) یہود نے کس طرح خوشی منائی؟ اس کی تفصیل نہیں معلوم۔
(فتاویٰ محمودیہ،باب البدعات و الرسوم: 3 280،ادارہ الفاروق، جامعہ فاروقیہ کراچی)
صفر کے آخری بدھ میں عمدہ کھانا پکانا:
سوال: ماہِ صفر کے آخری بدھ کو بہترین کھانا پکانا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کو نبی کریم ﷺ کو مرض سے شفاءہوئی تھی، اس خوشی میں کھانا پکانا چاہیے، یہ درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب:یہ غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے، اس لیے ناجائز اور گناہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد ،باب فی رد البدعات:1360، ایچ ایم سعید)
چُری کے بارے میں دلائل غلط اور من گھڑت ہیں:
سوال: کیا فرماتے ہیں علماءدین ، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ صفر کے آخری بدھ کو جو چُری کی جاتی ہے، اسکے جواز میں دو دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
(۱) نبی اکرم ﷺ اس صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے۔
(۲) حضور ﷺ جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لیے اس مہینے میں خیرات کیا اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً ان سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لیے کرتے ہیں، لہٰذا علماءدین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟
الجواب: ثواب کی نیت سے چُری کرنا بدعت ِسیئہ ہے،کیوں کہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیرِ دین کو دین قرار دینا ہے ، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لیے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم کتب فقہ متداولہ کا حوالہ ذکر کریں، ولن یاتوا بھا ولو کان بعضھم لبعضٍ ظھیراًمزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر ﷺ آخری چہار شنبہ کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے اس کے مقابل کوئی کاروائی کی۔
(فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنۃ و البدعۃ، 1298)
صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشی منانے کی شرعی حیثیت:
سوال: جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ ﷺ کو مرض سے شفاءہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں، اس لیے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہیے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
الجواب: ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امام الانبیاءجنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کو اس دن مرض سے شفاءیابی ہوئی تھی، بلکہ مورخین نے لکھا ہے کہ 28صفر کو آنحضرت ﷺ بیمار ہوئے تھے، لما قال العلامة مفتی عبد الرحیم: ”مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔
(شمس التواریخ:2108)
اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ۸۲ صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت ﷺ کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں، البتہ! یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں“۔
(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعۃ والرسوم :284،جامعہ دارالعلوم حقانیہ)
مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ”سیرۃالمصطفیٰ “ میں لکھتے ہیں:”ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ ﷺ ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام ”ابو مویہبہ“ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعتاً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا۔ “
(سیرت مصطفیٰ ﷺ ، علالت کی ابتداء: 3156،کتب خانہ مظہری، کراچی)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ” 28 صفر ۱۱ ہجری چہار شنبہ [بدھ] کی رات آپ ﷺ قبرستان بقیع غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعاء مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابرتمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیوں کہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں،وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی۔“
(سیرت خاتم الانبیاء، ص:126)
آخری بات:
اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ”مَن بَشَّرَنِی بِخُرُوجِ صَفَرَ، بَشَّرتُہ بِالجَنَّة“ والی روایت ثابت نہیں ہے ، بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم ﷺ کو بیماری سے شفاءملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے،اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم ﷺ کی بیماری کی ابتداءہوئی تھی نہ کہ شفاء۔لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور حتیٰ الوسع دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔