َبَّاضِ ملّت حکیم العصر ﷫

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نَبَّاضِ ملّت حکیم العصر ﷫
سید محمد معاویہ امجد شاہ ﷾
اس ایک شخص میں تھیں
 
دلربائیاں کیا کیا
 
ہزار لوگ ملیں گے

مگر کہاں وہ شخص

1928ءکی بات ہے دار العلوم دیوبند میں صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے عالی منصب کے لیے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی زیر سرپرستی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کیا گیا، اس عظیم مسند کے لیے حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی کی مجوزہ دستوری شرائط پڑھ کر سنائی گئی، جس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس عہدہ پر فائز شخصیت کے لیے دیگر اوصاف حمیدہ و کمالات ضروریہ کے ساتھ ساتھ مجاہدانہ مزاج کا حامل ہونا بھی ضروری ہے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ جملہ حسنات و صفات بدرجہ اتم شیخ الہند کے روحانی و علمی جانشین سید حسین احمد مدنی میں موجود ہیں۔
جس کے بعد باتفاق رائے اس عہدہ کے لیے حضرت مدنی رحمہ اللہ کی تقرری ہوئی وفات تک شیخ مدنی اس مسند جلیلہ پر جلوہ افروز رہے۔
دیوبندی مشرب سے تعلق رکھنے والا ہر عالم دین باطل کے لیے سیف بے نیام ہوتا ہے کیونکہ علماء حق کا یہی طرہ امتیاز ہے۔ حق گوئی و بے باکی علماء دیوبند کو ورثہ میں ملی ہے اور جو حق چھپاتے ہیں دنیا کماتے ہیں کتمان علم کرتے ہیں وہی علماء سوء کہلاتے ہیں۔ جس کے بد نما داغ سے کاروان حق کی مقدس جبین محفوظ ہے، اس سلسلۃ الذہب کے ایک عظیم انسان نباض ملت، حکیم العصر ،مخدوم العلماء، رئیس المفسرین ، سراج المحدثین،ترجمان مسلک حقہ علماء دیوبند بزم تھانوی رحمہ اللہ کے چمکتے چراغ، مشن مدنی کے علمبردار شیخ المشائخ مولانا عبدالمجید لدھیانوی قدس سرہ تھے، جنہوں نے 60 سال مسند تدریس کو رونق بخشی 43سال باب العلوم کہروڑپکا میں بحیثیت شیخ الحدیث صدر معلم رہے، تدریس میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے، اساتذہ و طلباء کو قناعت و خود داری کا درس استغناء دیتے، منقولات و معقولات میں جس فن کی کتاب آپ کے زیر تدریس ہوتی اس کی تفہیم و حسن تعبیر دلکش دلنشین کرانے پر وہبی طور پر مکمل دسترس حاصل تھی، حضرت الشیخ مدنی رحمہ اللہ نے در رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر دعاء کی تھی کہ خواندہ نا خواندہ جملہ علوم وکتب مقدر بن جائیں، بتوسل رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم در حق تعالیٰ اسے شرف پذیرائی نصیب ہوا، بعینہ حضرت الشیخ حکیم العصر کو ببرکت نسبت مدنی یہ نعمت غیر مترقبہ میسر ہوئی آپ نے فرمایا جب بھی مدینہ طیبہ جاتا تو مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہاتھ اٹھائے دامن پھیلائے عرض کرتا کہ یا اللہ اس منبر سے جس علم اور دین کی اشاعت ہوئی ہے۔ وہ دین صحیح صحیح مجھے عطاء فرمائیں۔
ان قبولیت کے اوقات و مقامات مقدسہ کی بدولت آپ نے فرمایا تھا کہ 2006ء میں سفر حج پاک کے موقع پر مقام مزدلفہ شریف میں بعد نماز فجر اچانک نیند آ گئی جس میں خواب دیکھا کہ میں نے جو قمیص زیب تن کی ہے وہ پاؤں تک لمبی ہے اور فرقاء سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے لمبی قمیص پہننے کی پہلے سے عادت ہے۔
جب بیدار ہوا تو تعبیر میں فوراً وہ حدیث یاد آگئی جس میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ کچھ صحابہ کرام کی قمیص گھٹنوں سے اوپر تک ہے اور کچھ کی گھٹنوں تک اور عمر کی قمیص پاؤں تک لمبی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ عمر کو سب سے زیادہ علم نصیب ہوگا، آپ نے فرمایا مجھے اس خواب اور اس کی تعبیر میں حدیث مذکور کا یاد آنے سے بہت خوشی ہوئی کہ میری مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مانگی ہوئی دعا قبول ہوگئی ہے۔
اس وقت میرا یقین بالکل پختہ ہوگیا کہ میرے اکابر سے جو علم مجھے ملا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر کی تحقیقات کےخلاف کسی نام نہاد محقق کی بات برداشت نہیں کرتا اور خاموش تماشائی نہیں بنتا، بلکہ احقاق حق اور ابطال باطل کا منصبی فریضہ ادا کرتا ہوں۔
)خطبات حکیم العصر ج2ص31 (
آپ کی ان مناجات بدرگاہ مجیب الدعوات سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی نمایاں ہے آپ اپنے ایک خطاب بعنوان” ہم مدینے کیوں جاتے ہیں؟“ میں فرماتے ہیں:مکہ والا تو ہر جگہ مل جاتا ہے مدینہ والا کہیں اور نہیں ملتا اس لیے ہم بار بار مدینہ آتے ہیں۔
اے کاروان شوق یہاں سر
 
کے بل چلو
 
مدینہ کے راستہ

کا کانٹا بھی پھول ہے

اکابر دیوبند منبع الفیوض و البرکات تھے، جامع الکمالات و الحسنات تھے، ہر پھول کی اپنی رنگت اور خوشبو ہوا کرتی ہے جملہ اکابراپنی مثال آپ تھے حضرت حکیم العصر سب بزرگوں کے مداح و نغمہ خواں تھے لیکن خاص طور پر حضرت الشیخ مدنی کے طور و طرز اور ان کے نظریہ و مشن اور جذبہ جہاد کے حقیقی ترجمان و عکس جمیل تھے۔
نطق کو سوناز ہے تیرے لب

اعجاز پر

محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز

پر

میرے والد گرامی سید محمد امین شاہ تلمیذ حضرت مدنی فاضل دیوبند فرماتے تھے کہ امام الاولیاء حضرت لاہوری رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ جو مفسر و محدث حالات حاضرہ کی روشنی میں تفسیر قرآن و تشریح حدیث نہیں کرتا اور عصری فتنوں کا تعاقب نہیں کرتا وہ خائن ہے اور بد دیانت ہے۔
حضرت حکیم العصر نباض ملت تھے اپنی تقریر و تحریر و دروس میں باطل فرقوں باطل پالیسیوں کی خوب خوب قلعی کھولتے تھے آپ کا بعض مدارس میں سال میں ایک ہی مرتبہ اختتام بخاری کے موقع پر جانا ہوتا تھا۔
بخاری کی آخری حدیث کی تلاوت کے بعد اکثر و بیشتر فرماتے کہ بھائی تلاوت کے ساتھ بخاری مکمل ہوگئی ہے،اس وقت عوام و خواص جمع ہیں عصری ضرورت کے مطابق جس کی ضرورت محسوس کرتے ملکی عالمی یا مسلکی یا سیاسی نظریہ ضرورت پر بلا خوف لومۃ لائم مفصل خطاب کرتے تھے۔
ہوا تھی گو تند و تیز لیکن چراغ
 
اپنا جلا رہا تھا
 
وہ مرد درویش جسے
 
قدرت نے دیے

تھے انداز خسروانہ

آپ ہر فن میں انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے، امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ،شیخ الحدیث، خطیب و ادیب، عابد و زاہد اور تمام عظیم نسبتوں کے ساتھ ساتھ فرق باطلہ مرزائیت، ناصبیت، خارجیت وغیرہ کی کما حقہ خبر لینے اور تعلیم و تربیت کے انوکھے انداز کی وجہ سے آپ کو حکیم العصر کہا جاتا تھا۔
عصری فتنوں کی تردید میں اپنے ذاتی مطالعتی ذوق کی بجائے اپنے اکابرین و عمائدین مشائخ دیوبند کی تحقیقات کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس میں نجات و فلاح کا مدار سمجھتے تھے جیسا کہ آپ کے مواعظ سے واضح ہے آج بھی اگر فی الحقیقت کوئی شخص آپ کی عظمت کا معترف ہے اور اکتساب فیض کا خواہاں ہے تو آپ کی تفسیر تبیان الفرقان کا مطالعہ کرے جس کی 6جلدیں شائع ہوچکی ہیں اور بقیہ جلدیں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ افادات دروس بخاری کی ایک جلد بنام دلیل القاری طبع ہوچکی ہے، خطبات حکیم العصر 12 جلدوں کا 6جلدوں میں یکجا کردیا گیا ہے مجالس حکیم العصر ایک جلد شائع ہوچکی ہے۔
یہ علوم و معارف کا خزینہ آپ کے جریدہ عالم پر نقش دوام اور ابدی حیات کا ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے آپ سےاستفاضہ و استفادہ کا سلسلہ جاری وساری رہے گا۔
جامعہ اسلامیہ باب العلوم کہروڑ پکا آپ کا ادارہ آپ کی تصانیف،تلامذہ آپ کے ہزاروں روحانی بیٹے آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
دعاء نبوی اللھم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت کے مطابق موت بھی مبارک تھی، زندگی بھی حدیث پڑھاتے رہے۔
آخری دن 2015/02/01کو بھی اپنے جامعہ میں درس بخاری پڑھا کر ملتان سینکڑوں علماء کے سامنے بھرے اجلاس میں بھی درس حدیث دے کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
آپ کا تاریخی جنازہ تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ علماء، اتقیاء ،اصفیاء، طلباء کی شرکت برکت بعد الموت کی پہلی بشارت تھی اور پھر جامعہ میں تدفین جو مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہجوم عاشقان سے معمور بقعہ نور علی نور نصیب ہوگئی یہ بھی آپ کی آخری حسرت تھی جو پوری ہوگئی۔ فرماتے تھے: مرنے کے بعد بھی طلبہ کے زیر نظر زیر قدم رہنا چاہتا ہوں۔
سر جھکایا نہ کبھی تو نے جفا کے

آگے

سرخرو ہوتا رہا اپنے خدا کے

آگے