علماء دیوبند کی خدمات ِ سلوک و احسان

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر 1:
…… مولانا عنایت اللہ عینی﷾
علماء دیوبند کی خدمات ِ سلوک و احسان
صاحب جوامع الکلم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو حدیثِ جبرائیل علیہ السلام میں اسلام ،ایمان اور احسان سے مرکب بیان فرمایا ہے اس وجہ سے امام قرطبی (م380ھ)نے اس حدیث مبارک کو ام السنہ کا لقب دیا ہے۔ جسے ہم اپنی تعبیر میں ”دین کا خلاصہ“ ہی کہہ سکتے ہیں۔
اس حدیث مبارک کی تشریح میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی (م 1025ھ) نے حضرت امام مالک رحمہ اللہ (م179ھ) کا ارشاد نقل کیا ہے: من تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق ومن تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق ومن جمع بینہما فقد تحقق یعنی جس نےبغیر علم تصوف کے فقہ کو سیکھا تو وہ فاسق ہے اور جس نے بغیر فقہ کے تصوف حاصل کیا تو وہ زندیق ہے اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ شخص محقق ہے۔
(اللمعات شرح مشکوٰۃ ج1ص48)
آگے شیخ دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:دین کی بنیاد اور اس کی تکمیل کا انحصار فقہ، کلام اور تصوف پر ہےاور اس حدیث شریف میں ان تینوں کا بیان ہوا ہے۔ اسلام سے مراد” فقہ“ ہے کیونکہ اس میں شریعت کے احکام اور اعمال کا بیان ہے اور ایمان سے مراد ”عقائد“ہیں جو علم کلام کے مسائل ہیں اور احسان سے مرا داصل ”تصوف“ ہے جسے سچے دل سے اللہ تعالی کی طرف کامل توجہ کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(اللمعات شرح مشکوٰۃ ج1ص48)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م1176ھ) اس حدیث مبارک کے تحت رقم طراز ہیں:
وقد تکفل بفن الاول اہل الاصول من علماء الامۃ ، وقد تکفل بفن الثانی فقہاء الامۃ فہدی اللہ بہما اکثرین وقد تکفل بفن الثالث الصوفیۃ رضوان اللہ علیہم والذی نفسی بیدہ ھذہ الثالث ادق المقاصد الشریعۃ ماخذ واعمقہا مہتداء ہو بالنسبۃ الی سائر الشرائع بمنزلۃ الروح من الجسد۔
(تفہیمات الالہیہ ص130)
”یعنی تصحیح عقائد فن کے کفیل علماء متکلمین ہوتے ہیں اعمال کی تصحیح کے کفیل فقہائے امت ہوتے ہیں، اور فن تصوف واحسان کے کفیل صوفیائے کرام ہوتے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ تیسرا فن (تصوف) مقاصد شرعیہ کے ماخذ کے لحاظ سے بہت باریک اور گہرا ہے اور تمام شریعت کے لیے اس فن کوو ہی حیثیت حاصل ہے جو جسم کے لیے روح کی ہے۔ “
یہ واضح حقیقت ہے کہ علم کلام بمنزلہ قلب دین، علمِ فقہ بمنزلہ قالب دین اورعلمِ تصوف بمنزلہ روح دین ہے۔ دین اسلام کی بنیاد و تکمیل انہی اجزائے ثلاثہ سے ہوتی ہے اورقاعدہ مسلمہ” انتفائے جزء مستلز م ہے انتفائے کل کو“ کے تحت کسی ایک جزء کا انکار بھی پورے دین اسلام کا انکار ہے۔
علم کلام و علم فقہ کی طرح علم تصوف بھی حاصل کرنا ضروری ہے بلکہ امام غزالی رحمہ اللہ(م505ھ)،قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (م1225ھ)، علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (م1260ھ) اور حکیم الامۃ مجدد الملۃ امام اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (م1362ھ)نے علم تصوف کو حاصل کرنا فرض عین قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ تصوف کہتے ہیں:
ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس وتصفیۃ الاخلاق وتعمیر الظاہر والباطن۔
یعنی وہ علم جس سے تزکیہ نفوس اور تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر کے احوال پہچانے جاتے ہیں۔
(سلوک کامل ص7)
اس وجہ سے علماء امت نے علم کلام اورعلم فقہ کی طرح علم تصوف کو بھی حاصل کر کے اس کی تجدید وترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ خصوصا ًعلماء دیوبند کثراللہ سوادھم کی خدماتِ سلوک و احسان اظہر من الشمس ہیں اور تاریخ کے ان مٹ نقوش ہیں خود علماء دیوبند کثر اللہ سوادھم کی کتب اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ تصوف وعلماء دیوبند کا ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔
انہی علماء دیوبند نے جہاں دیگر علوم و فنون کی ترویج و اشاعت اور اس کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا ہے وہاں پر حقیقی علم تصوف کو بھی بالکل نظر انداز نہیں کیا اسی وجہ سے علم تصوف؛ رسوم ورواج اور بدعات اختراعات سے ممتاز ہوکر چمکنے لگا۔ ہاں تعصب اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں، انہی علماء و دیوبند کی انتھک علمی وعملی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے علم تصوف کی ضیاء پاشیوں نے مشرق و مغرب بلکہ چہار دانگ عالم کو اپنے حصار میں لے لیا۔ خصوصا ًوطن عزیز مملکت خدا داد پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما ، مالدیپ، ملائشیا، انڈونیشیا، جاپان، چائنہ، ہانگ کانگ ، رشیا، سویت یونین کی آزا د ریاستیں، افغانستان ، ایران، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ،ترکی ،برطانیہ، جرمنی ،یونان، مصر، سوڈان،جنوبی افریقہ، زمبیا، امریکہ، کینیڈا وغیرہ۔
انہی علماء اہلسنت دیوبند نے اصلاح و ارشاد ، سلوک و احسان ، پند و نصائح ، حکمت موعظمت ، شریعت و طریقت ، تزکیہ نفوس اور تصفیہ قلوب اہل اسلام کے قلوب کو مجلی و مزکیٰ فرمایا اور تصوف کے روشن چہرے سے جعل سازی کی گرد کو ہٹاتے رہے کیونکہ یہی علم تصوف کے سَچےاور سُچے وارث ہیں۔
یہاں پر ان مقدس ہستیوں میں سے چند کا ذکرخیر تحریر کیا جارہا ہے جو اس علم تصوف کے غلبے کی وجہ سے مشہور و معروف ہوئے۔
1: سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ (م1317ھ)
ان پاک ہستیوں میں آسمان تصوف کا آفتاب سید الطائفہ شیخ المشائخ مرشد علماء دیوبند حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ(م1317ھ) ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت 1233ھ میں تھانہ بھون میں ہوئی، ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد حجاز چلے گئے آپ نے سلسلہ چشتیہ صابریہ کو عروج کی انتہاء منزل پر پہنچادیا اور ان کے فیوض ہندوستان تک ہی محدود نہیں رہے دیگر ممالک اسلامیہ میں بھی ان کے اثرات پہنچے۔ آپ حضرت شیخ نور محمد جھنجھانوی رحمہ اللہ م1259ھ کے خلیفہ مجاز تھے۔
(تاریخ مشائخ چشت ص233 از خلیق احمد نظامی)
آپ کے کمال کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ کے مریدین و خلفاء میں وقت کے سلاطین ملت وائمہ امت شامل ہیں۔
تصانیف: آپ نے تقریبا ًایک درجن کتابیں تصنیف کی ہیں جو ساری تصوف پر ہیں، گلزار معرفت، وحدۃ الوجود ، نالہ امداد، مکتوبات امدادیہ، غذائے روح، شرح مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ، تحفۃ العشاق، ارشاد مرشد، دردنامہ غمناک، ضیاء القلوب، جہاد اکبر، فیصلہ ہفت مسئلہ۔
(بیس بڑے مسلمان ص85 از عبدالرشید ارشد)
آخر الذکر کتاب سے بقول حکیم الامۃ امام تھانوی نور اللہ مرقدہ، آپ نے رجوع فرمالیا تھا
(ارواح ثلاثہ المعروف حکایات اولیاء) واللہ اعلم۔
آپ کی وفات مکہ مکرمہ میں 1317ھ میں ہوئی۔ (امداد المشاق حیات امداد)