فقیہ ابن فقیہ خارجہ بن زید

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء:
……مولانامحمدعاطف معاویہ﷾
فقیہ ابن فقیہ خارجہ بن زید ﷫
نام ونسب:
آپ کا نام خارجہ والد کا نام زید اور کنیت ابو زید تھی، آپ رحمہ اللہ جلیل القدر صحابی کاتب وحی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لخت جگر ہیں، نسب نامہ یوں ہے :ابو زید خارجہ بن زید بن ثابت الانصاری۔
)تہذیب التہذیب ج2ص255(
پیدائش:
آپ رحمہ اللہ کی ولادت سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تقریباً 30 ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
آپ رحمہ اللہ نے جس خانوادہ میں آنکھ کھولی وہ آپ علیہ السلام کے غلاموں اور تربیت یافتہ لوگوں کا گھرانہ تھا۔ آپ کے والد سیدنا زید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی اور اتنے معتمد تھے کہ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ علیہ السلام نے انہیں سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا آپ نے تعمیل حکم کرتے ہوئے چند دنوں میں ہی اس زبان میں مہارت حاصل کرلی جس کے بعد حضور علیہ السلام اہل کتاب سے خط و کتابت ،دعوت اسلام کے لیے خطوط وغیرہ ان کے ذریعے اور واسطے سے کرتے تھے، آپ کے والد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جن لوگوں کو جمع قرآن کے لیے منتخب کیا گیا ان میں آپ بھی شامل تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب قرآن کریم کو مختلف شہروں میں منتقل کرنے کے لیے چند افراد کی کمیٹی تشکیل دی ان میں بھی آپ رضی اللہ عنہ موجود تھے۔
اور آپ کی والدہ سیدہ ام سعد جمیلہ بنت سعد؛ یہ بھی صحابیہ تھیں، آپ کے نانا سیدنا سعد بن ربیع بھی صحابی رسول تھے۔ آپ کی ولادت کے وقت چونکہ بہت سارے صحابہ وتابعین اہل علم موجود تھے اس لیے آپ نے بڑی دلجمعی اور محنت سے تعلیم حاصل کی آپ کے اساتذہ میں آپ کے والد حضرت زید والدہ سیدہ جمیلہ چچا یزید بن ثابت حضرت اسامہ بن زید حضرت سہل بن سعد وغیرہم کا قابل ذکر ہیں۔
)تہذیب التہذیب ج2ص255(
علمی و فقہی مقام:
ہمارے معاشرے میں یہ بات مشہور ہے کہ اولاد بچپن میں والدین کو جو کام کرتے ہوئے دیکھے جوانی میں اولاد وہی کام کرتی ہے الا ماشاء اللہ آپ کے والد کے متعلق حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کان اصحاب الفتوی من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ستۃ فسماہ فیہم۔
)تہذیب التہذیب ج6ص538(
حضور علیہ السلام کے وہ 6صحابہ جو فتوی دیا کرتے تھے ان میں ایک نام حضرت زید رضی اللہ عنہ کا بھی ہے۔
حضرت خارجہ الولد سر لابیہ کا مصداق بنتے ہوئے علمی دنیا میں اتنے آگے بڑھے کہ آپ کا شمار ان برگزیدہ شخصیات میں ہونے لگا جنہیں آج تک بلکہ رہتی دنیا تک فقہاء سبعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یاد کیا جاتا رہے گا، آپ کو اکثر علوم وفنون خصوصاً علم فقہ میں مہارت تامہ حاصل تھی، اسی وجہ سے بعد میں آنے والے اہل علم آپ کی مدح میں گن گاتے اور آپ کی فقہی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
1: ابن خراش رحمہ اللہ کہتے ہیں:
خارجۃ بن زید اجل من کل اسمہ خارجۃ۔
)تہذیب التہذیب ج2ص255(
خارجہ نام کے جتنے بزرگ گزرے ہیں آپ کا علمی مقام سب سے بلند ہے۔
نوٹ : یاد رہے کہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو صحابہ کے بعد ہوں کیونکہ اہل السنت کا عقیدہ ہے کہ بعد میں آنے والا مقام میں صحابہ سے نہیں بڑھ سکتا۔
2: امام سلیمان بن خلف الباجی المالکی فرماتےہیں:
وھو احد الفقہاء السبعۃ بالمدینۃ واحد الائمۃ الموثوق۔
آپ رحمہ اللہ ثقہ امام اور مدینہ کے سات فقہاء میں سے ایک ہیں۔
)التعدیل والتجریح ج2ص575(
نیز آپ یہ بھی فرماتے ہیں :
کان خارجۃ بن زید وطلحۃ بن عبداللہ بن عوف فی زمانہما یستفتیان وینتہی الناس الی قولہما۔
) التعدیل والتجریح ج2ص641(
حضرت خارجہ اور حضرت طلحہ بن عبداللہ اپنے دور کے مفتی تھے اور ان کا فتویٰ حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔
3: امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خارجۃ بن زید بن ثابت الفقیہ .
)الکاشف ج1ص211(
آپ کا شمار مدینہ منورہ کے سات فقہاء میں ہوتا ہے۔
5: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احد الفقہاء السبعۃ کان اماما بارعا فی العلم واتفقوا علی توثیقہ وجلالتہ۔
)تہذیب الاسماء واللغات ج1ص186(
آپ مدینہ منورہ کے سات فقہاء میں سے ہیں، آپ وقت کے امام ،علم میں ماہر تھے۔ آپ کی ثقاہت اور جلالت شان پر ائمہ کا اتفاق ہے۔
6: امام ابن العماد حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خارجۃ بن زید بن ثابت الانصاری المدنی المفتی احد الفقہاء السبعۃ تفقہ علی والدہ۔
)شذرات الذہب ج1ص213(
آپ اپنے وقت کے مفتی ،مدینہ کے سات فقہاء میں سے ایک تھے، آپ نے علم فقہ اپنے والد سے حاصل کیا۔
7: امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہو من فقہاء المدینۃ المعدودین احد الفقہاء السبعۃ الزمن مدار الفتویٰ علی قولہم۔
)البدایہ والنہایہ (
آپ مدینہ منورہ کے چند جید فقہاء میں سے ہیں یعنی آپ کا شمار ان سات فقہاء میں ہوتا ہے جن پر فتویٰ کا دارو مدار ہوتا تھا۔
8: امام بیہقی رحمہ اللہ نے آپ کے فتویٰ کو بطور استدلال پیش کیا ہے، جس سے آپ کی علمی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔
)السنن الصغریٰ رقم 4449(
اتباع سنت :
حضور علیہ السلام اور صحابہ کا معمول یہ تھا کہ وہ سر پر عمامہ مبارک )پگڑی ( باندھ کر رکھتے تھے۔
)شمائل ترمذی ص4،تاریخ بغداد ج5ص372،شعب الایمان ج5ص226(
اور صحابہ کرام کے متعلق امام حسن بصری رحمہ اللہ کاقول یہی ہے کہ وہ نماز کے وقت سر پر عمامہ باندھتے تھے۔
)صحیح بخاری ج1ص56،مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص497(
ان حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت خارجہ رحمہ اللہ سر پر )سفید( پگڑی باندھ کر رکھتے تھے۔
)الطبقات الکبریٰ ج5ص202(
وفات اور منامی اشارات:
بسا اوقات اولیاء اللہ کو موت سے قبل من جانب اللہ ایسے اشارات مل جاتے ہیں جن سے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم دنیا سے جانے والے ہیں۔
)صحیح بخاری کتاب الجنائز ،فضائل صدقات (
تقریباً 100ھ کی بات ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے بھی وفات سےکچھ عرصہ قبل میں ایک خواب دیکھا کہ آپ نے ایک سیڑھی بنائی جس کے 70 درجے ہیں، جب وہ سیڑھی بنا کے فارغ ہوئے تو وہ سیڑھی گر پڑی، بیداری کے بعد فرمانے لگے کہ میری عمر کے بھی ستر برس پورے ہو چکے ہیں شاید میرا بھی انتقال ہونے والا ہے ، چنانچہ چند دن ہی گزرے تھے کہ آپ رحمہ اللہ کا انتقال پر ملال ہوگیا۔
)الطبقات الکبریٰ ج5ص202(