کیا اہلِ کتاب کافر نہیں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
کیا اہلِ کتاب کافر نہیں؟
……مولانا محمدمبشربدر﷾
بعض تاریک خیال کج فہم لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اہل کتاب جنہوں نے حضرت محمد علی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا وہ بھی بہشت میں جائیں گے، انہیں کافر نہیں کہا جاسکتا ،اور اس باطل نظریئے کی ہر فورم پر تشہیر کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے ہیں۔ دلیل میں وہ سورہ آل عمران اور سورۂ مائدہ کی آیات پیش کرتے ہیں جن کا ہم الگ الگ تفصیلی جواب دیں گے۔ پہلی دلیل سورۂ آل عمران کی درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں۔
لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ۔
(سورۃ آل عمران آیت114)
اس آیت مبارکہ میں اہل کتاب کے ایک ایسے گروہ کا ذکر کیا گیا ہے جو راتوں کو اٹھ کر اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں ، سجدہ کرتے ہیں ، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں ، نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہیں ، آخر میں ایسے اوصاف کے حامل اہلِ کتاب جو صالحین میں شمار کیا گیا ہے کہ یہی لوگ نیکو کار ہیں۔ اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، دلیل اسی آیت میں ہے کہ وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں ، اب آیات سے کیا مراد ہے؟؟ قرآن کی آیات مراد ہیں کیوں کہ توراۃ کو وہ ویسے ہی تبدیل کرچکے تھے۔ دلیل یہ ہے کہ سورۂ آل عمران کے آخر میں ان اہلِ کتاب کی تعریف بیان کی گئی ہے جو تورات کے ساتھ قرآن پر بھی ایمان لے آئے اور آقا علیہ السلام پر جو احکامات نازل ہوئے انہیں صدقِ دل سے مانا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔
(سورۃ آل عمران آیت199)
یعنی : ’’ اور بے شک اہلِ کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے آگے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور اس کتاب پر بھی جو تم پر نازل کی گئی ہےاور اس پر بھی جو ان پر نازل کی گئی تھی ، اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی سی قیمت لے کر بیچ نہیں ڈالتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں۔ بیشک اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔‘‘
دوسری دلیل مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے جسے علامہ طبری نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے:
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ" مَنْ آمَنَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
یعنی اللہ تعالی کے اس قول سے مراد وہ اہل کتاب ہیں:
مَنْ آمَنَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
. جو حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔
)تفسیر طبری(
اس روایت سے ان کامن پسند استدلال باطل ہوگیا۔اسی طرح اس آیت کے شان نزول میں ایک اور روایت کتب تفسیر میں موجود ہے:
وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَمَّا أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، وَثَعْلَبَةُ بْنُ سَعْيَةَ ، وَأُسَيْدُ بْنُ سُعَيَّةَ، وَأُسَيْدُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَمَنْ أَسْلَمَ مِنْ يَهُودَ، فَآمَنُوا وَصَدَّقُوا وَرَغِبُوا فِي الْإِسْلَامِ وَرَسَخُوا فِيهِ، قَالَتْ أَحْبَارُ يَهُودَ وَأَهْلُ الْكُفْرِ مِنْهُمْ: مَا آمَنَ بِمُحَمَّدٍ وَلَا تَبِعَهُ إِلَّا شِرَارُنَا، وَلَوْ كَانُوا مِنْ خِيَارِنَا مَا تَرَكُوا دِينَ آبَائِهِمْ وَذَهَبُوا إِلَى غَيْرِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِمْ:" لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ. إِلَى قَوْلِهِ:" وَأُولئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ"
مفسر قرآن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ جب یہود کے علماء یعنی عبداللہ بن سلام ، ثعلبہ بن سعیہ، اسید بن عبید اور یہود کے دیگر لوگ ایمان لا کر مسلمان ہو گئے ، انہوں نے حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کی ، اسلام میں رغبت کی اور اس میں راسخ ہوگئے تب یہودیوں کے علماء اور اہل کفر نے کہا :
"محمد ﷺ پر یہود میں سے صرف وہ لوگ ایمان لائے ہیں جو ہم میں شریر ہیں اور اگر وہ ہم میں بہترین اور عمدہ ہوتے تو اپنے آباء کا دین چھوڑ کر غیر کی طرف نہ جاتے۔ پس اسی وقت اللہ نے ان کی اس بات کی وجہ سے یہ آیات نازل فرمائیں جن میں اہل کتاب میں سے اہل ایمان کے محاسن بیان کیے۔
دوسری دلیل سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۶۹پیش کرتے ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَى مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۶۹)
یعنی: ’’حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی ، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی یا نصرانی ، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا ، نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوںگے۔‘‘
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں صرف اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا ذکر ہے جس کی بنا پر انہیں آخرت میں خوف و غم سے آزادی کا پروانہ دیا جارہا ہے۔ معلوم ہوا کہ اہل کتاب محض انکارِ رسول کی بنا پر کافر نہیں۔
اس کا جواب علامہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں دیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
وَالْمَقْصُودُ أَنَّ كُلَّ فِرْقَةٍ آمَنَتْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَهُوَالْمِيْعَادُ وَالْجَزَاءُ يَوْمُ الدِّينِ، وَعَمِلَتْ عَمَلًا صَالِحًا، وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى يَكُونَ مُوَافِقًا لِلشَّرِيعَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ بَعْدَ إِرْسَالِ صَاحِبِهَا الْمَبْعُوثِ إِلَى جَمِيعِ الثَّقَلَيْنِ فَمَنِ اتَّصَفَ بِذَلِكَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَهُ، وَلَا عَلَى مَا تَرَكُوا وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ، وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔
(تفسیر ابن کثیر ج، ۳ / ص،۱۱۴)
’’ اور آیت سے مقصود یہ ہے کہ ہر وہ فرقہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے ، اور اس نے نیک اعمال کیے تو اس کا حکم اس طرح نہیں (جیسے ظاہری آیت سے سمجھا جارہا ہے) یہاں تک کہ وہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے موافق نہ ہوجائے اس کے صاحب کے تمام جن و انس کی طرف رسول بنا کر بھیجے جانے کے بعد۔پس جو اس وصف کے ساتھ متصف ہوگیا اس پر مستقبل میں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی گزشتہ زمانے کے اعمال پر کوئی غم۔‘‘
ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ تب تک خلاصی نہیں جب تک حضرت محمد ﷺ پر ایمان لاکر ان کی اتباع نہ کرلی جائے ، خواہ وہ اسلام کے کتنےہی احکامات کا اقرار کیوں نہ کرتا ہو ، ایمان کا مدار آقا علیہ السلام کی ذات اقدس ہے۔جن پر شریعت اسلامیہ نازل کی گئی۔ جب کہ اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ نے اپنے ادیان میں تحریف کی تورات و انجیل کو بدل دیا، ، توحید کو چھوڑ کر شرک کا کھلا ارتکاب کیا ،حق کی ناحق مخالفت کی ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کاقتلِ ناحق کیا۔
اب اگر کوئی شخص یہ یہود و نصاریٰ کے بارے یہ موقف اختیار کرے کہ ان میں سے جن تک دعوت اسلام نہیں پہنچی اور انہوں نے بالقصد جان بوجھ کر اسلام کا انکار نہیں کیا وہ کافر نہیں کہلائے جاسکتے بلکہ انہیں مسلمانوں میں شمار کیا جانا چاہیے، یہ نظریہ باطل اور غلط ہے ، کیوں کہ یہود تو اسی روز ہی کافر ہوگئے تھے جب انہوں نے تورات میں تحریف کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا اور انہیں قتل کرنے کی کوشش کی جب کہ نصاریٰ عقیدۂ تثلیث ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنانے اور تحریف انجیل کی بنا پر کافر قرار دیئے گئے لہٰذا انکارِ مصطفیٰ ﷺکی بنا پر ان کے کفر میں زیادتی ہوئی ہے ، پھر اس کے مقابلے میں یہ قول کہاں وقعت رکھتا ہے کہ اہلِ کتاب کے نادانست اسلام کا انکار کرنے والے لوگ کافر نہیں جب کہ انہیں ہدایت کی دعوت دینے کے لیے اللہ کا کلام قرآن مقدس اپنے معجزانہ اسلوب و اثر کی وجہ سے بند دلوں کے قفل کھولنے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ کوئی ہدایت کا طالب بنے۔اس رو سے موجودہ اہل کتاب کافر اور جہنمی ٹھہرتے ہیں.باقی بے شمار دلائل طوالت کے ڈر سے ترک کرتا ہوں۔ اپنے من پسند کے مطلب سے کام نہیں چلے گا۔اللہ نے صاف فرمادیا : ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے پس جو اسلام کو چھوڑ کر اور دین لایا اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔۔ اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘
(آل عمران:آیت 85)
اس آیت میں کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں کہ جان بوجھ کر انکار کرے یا بلاجانے اسلام کا انکار کرے ، قیامت کے دن اس کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اسلام کی آفاقی سچائی کے مناظراورحقائق دیکھ کرمسلمان نہ ہوجائے۔اب جویہودونصاریٰ اپنےآباءکی پیروی کریں گےان کا حشر انہی جیسا ہوگا وہ بھی ان کی پیروی میں کافر رہیں گے اگر ایمان نہ لائے تو ہمیشہ کی جہنم میں جلیں گے۔
اللہ اہل کتاب کے بارے فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (151) المائدہ۔
یعنی: " بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کیا اور کہنے لگے ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔یہی لوگ پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور شریعت اسلامیہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔