ماں کا احترام شریعت کی نظر میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماں کا احترام شریعت کی نظر میں
مدثر احمد قاسمی
ایک لفظ جس کو’’ماں‘‘کہتے ہیں ، اس میں موجود ممتا کا عنصر دنیا میں آنے والے ہر انسان کیلئے آبِ حیات کی مانند ہے، جسکو پی کر انسان زندگی کی ہر آسان اور مشکل راہوں پر چلنے کا حوصلہ پاتا ہے۔آپ نے ماں کی لوریاںضرور سنی ہوںگی اور آپ نے محسوس بھی کیا ہوگا کہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے یہ نغمے بچوں کو بالکل مسحور کر دیتے ہیں اور بچے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ایک بیمار بچے کی ماں کو بھی آپ نے دیکھا ہوگاکہ کس طریقے سے وہ اپنے لختِ جگر کی تکلیف سے خشکی میں تڑپتی ہوئی مچھلی کا نمونہ بن جاتی ہے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے جو بچوں کی خطاؤں اور لغزشوں پرعفو و درگذر کا پیکر بن جاتی ہے اور خدا کے حضور اپنے بچے کی اصلاح اور نیک زندگی کی دعا کرتی ہے۔
وہ ماں جو اپنا سب کچھ نچھاور کرکے آسودگی محسوس کرتی ہے،اسی ماں کے ساتھ آج کا بیٹا جوسلوک روا رکھتا ہے ،وہ سماجی مصلحین کے لئے ایک پیچیدہ سوال کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔شادی سے پہلے تک کے معاملات کسی حد تک اطمینان بخش ہوتے ہیں،لیکن شادی کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک چمن اجاڑ کر دوسرا چمن بسایا گیا ہے۔بیوی سے قربت کا مطلب ماں سے دوری ہرگز نہیں ہے،ہر ایک کا (ماں کا بیٹے پر اور بیوی کا خاوندپر) جو حق ہے اگر اسے دے دیا جائے توزندگی کی گاڑی پٹری پر چلتی رہے گی۔المیہ یہ ہے کہ جو حضرات عقلِ سلیم رکھتے ہیں اور حق کو بھی سمجھتے ہیں اُن سے بھی کوتاہی ہوجاتی ہے۔اگر کئی بھائی ہیں توہر بھائی دوسرے بھائی سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ماں کا خیال رکھے،نتیجتاًانہیں جو توجہ ملنی چاہئے وہ نہیں مل پاتی۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ماں کی خدمت کے ذریعہ دنیاوی اور اُخروی سعادت کے مستحق بنتے ہیں لیکن افسو س ہے ان لوگوں پر جو اس عظیم نعمت کے زیرِ سایہ زندگی گذارتے ہیں لیکن قدردانی سے محروم رہتے ہیں۔میری آنکھوں نے شہر میں ایک ایسے گھرانہ کو دیکھا ہے جہاں بیٹا ،بہو اور پوتے پوتیاں گھر میں سویا کرتے تھے اور بوڑھی و ضعیف ماں کھر سے باہر کی راہداری میں سویا کرتی تھی۔
ماں کی عظمت کا اعتراف سبھی کو ہوتا ہے ،اس کے باوجود ان کے تئیں کوتاہی ہوتی ہے۔ آخر اس پستی کی وجہ کیا ہے؟اس کا ذمہ دار کون ہے؟حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سماجی نظام کے بگاڑ، نے سب کو بگاڑا ہے۔وہ بیوی جو شوہر کے کان بھرتی ہے وہ یہ نہیں سمجھتی ہے کہ میں بھی کبھی اس حالت کو پہنچوں گی،اور شوہر یہ سمجھ نہیں پاتا کہ جس ماں نے مجھے جنم دیا ہے کیا وہ میری بھلائی کے علاوہ کچھ اور سوچ سکتی ہے۔آج کی دنیا کو اگر اس معاشرتی بحران سے نکلنا ہے توحبیبِ خدا محمد مصطفیٰ (ﷺ) کی تعلیم کو نہ صرف عام کرنا ہوگا ،بلکہ اسے عملی زندگی میں لانے کی کوششیں بھی کرنی ہوگی۔
حبیبِ خدا محمد مصطفیٰ ﷺ کی والدہ محترمہ حضرتِ آمنہ چونکہ آپ ﷺ کے ایامِ طفولیت ہی میں داغ مفارقت دے گئی تھیں، اسلئے آپ کو عملی زندگی میں ماں کے ساتھ برتاؤ کا نمونہ پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔لیکن قربان جایئے اس محسنِ انسانیت پر جنہوں نے اس باب میں بھی رہتی دنیاتک کے انسانوں کے لئے ایک نمونہ چھوڑا۔ذیل کی روداد کو پڑھئے اور آپ ﷺ کے معلمِ انسانیت ہونے کی گواہی دیجئے:’’ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعدحضرت ابوبکر نے عمر ؓسے فرمایاکہ چلوحضرت ام ایمنؓ کے پاس ہوکر آئیں، جیسا حضور پاک ﷺ ان کے پاس آیا کرتے تھے۔‘‘
(مسلم شریف(
خلاصہ یہ کہ حضرت امِّ ایمن ؓ آپﷺ کو بطورِکنیز وراثتاً ملی تھیں،لیکن آپﷺ نے انہیں آزاد کر دیا۔انہوں نے حبیبِ خدا محمد مصطفیٰ ﷺکو گود میں کھلایا تھا ، اس لئے آپﷺ انکی بہت تعظیم کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میری والدہ کے بعدامِّ ایمن میری ماں ہیں،چنانچہ آپ ﷺ انہیں امی کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ اور وقتاً فو قتاً ان کی مالی مدد بھی فرماتے رہتے تھے۔ اگر کبھی وہ اپنی کوئی حاجت لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آپﷺ ان کی وہ حاجت فوراً پوری کر دیتے تھے۔
آج کے تہذیب یافتہ لوگوں سے ایک چبھتا ہوا سوال یہ ہے کہ اگر آ پ اس ماں کی خدمت نہیں کرسکتے جس نے اپنی کوکھ میں آپ کو نو (۹) مہینے تک رکھا ،تو پھر آپ کس کی خدمت کر سکتے ہیں؟ یاد رکھئے اولڈ ایجڈ ہوم میں بھیج دینے سے آپ ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے اور نہ ہی گھر کے کسی ایک کونے تک محدود کردینے سے آپ کا بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے۔حبیبِ خدا محمد مصطفیٰ ﷺکو اپنی ماں کی خدمت کا موقع نہیں ملا تو آپ ﷺ نے ان کی خدمت کی جنہوں نے آپ ﷺ کو گود میں کھیلایااور انتہا تو یہ ہے کہ آپﷺ نے ان کو ماں کہہ کر پکارا۔ ان خوش نصیب لوگوں کے لئے جن کی مائیں زندہ ہیں یہ پیغام ہے کہ خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں اور اس کو اپنے لئے غنیمت و باعث سعادت سمجھیں۔اگر آپ سعادت مند اولاد میں شامل ہوکر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ان ناتواں جسموں کو سہارا دیجئے جنہوں نے کبھی آپ کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا،ان لرزتی اور لڑکھڑاتی ہوئی آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے جنہوں نے کبھی آپ کی توتلی زبان کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ ہمیشہ اس بات کو ذہن میں رکھئے کہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے چاہا تو آپ بھی بڑھاپے کی عمر پائیں گے اور اس وقت آپ نے جو بویا ہے وہی کاٹیں گے۔