حسام الحرمین کاتفصیلی جائزہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
باب دوم
حسام الحرمین کاتفصیلی جائزہ
ہم نے بقدر کفایت گفتگو پیچھے مقدمہ اور اجمالی جائزہ میں کر دی ہے اسی کو ہی مدنظررکھ لیا جائے تو حسام الحرمین کا کافی و شافی جواب ہو سکتا ہے۔ مگر قدرے تفصیل اس لیے لکھ رہے ہیں تاکہ احمد رضا خان فاضل بریلوی کا کذاب ہونا آفتاب کی طرح روشن ہو جائے۔ حسام الحرمین میں ہمارے اکابر اربعہ کی چار عبارتیں قطع و برید کر کے پیش کی گئی ہیں سب سے پہلے حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی کی عبارت ہے۔ پھر قطب الارشاد حضرت گنگوہی کی پھر فخر المحدثین حضرت سہارنپوری پھر حکیم الامت حضرت تھانوی کی عبارت ہے رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔ہم ترتیب سے ہر ایک پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔
الزام برحجۃ الاسلام حضرت نانوتوی:
مولوی احمد رضا نے یہ الزام لگایا کہ یہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔ اب ہم تفصیلاً مولوی احمد رضا کے دجل سے پردہ اٹھائیں گے۔
ہوا یہ کہ ہندوستان میں بعض حضرات کی طرف سے حدیث ابن عباس ؓ کی تردید اور انکار ہونے لگا اور وہ حدیث و اثر یہ ہےکہ زمینیں سات ہیں اور ہرزمین میں تمہارے نبی کی طرح نبی، تمہارے آدم کی طرح آدم اور نوح تمہارے نوح کی طرح اور ابراہیم تمہارے ابراہیم کی طرح اور عیسیٰ تمہارے عیسیٰ کی طرح موجود ہیں۔ اس اثر و حدیث کو چونکہ علماء امت نے صحیح قرار دیا اس لیے حضرت حجۃ الاسلام نے لوگوں کو اس حدیث کے انکار سے بچانے کے لیے ایک کتاب لکھی جس کا نام تحذیر الناس من انکار اثر ابن عباسؓ رکھا۔
اس کتاب کو پڑھ کر اپنے تو اپنے مخالفین بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میں مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے ختم نبوت کی ایسی تشریح کی جس سے منکرین ختم نبوت کا منہ بھی بند ہو گیا اور اس اثر کے انکار کا راستہ بھی بند ہو گیا۔ مگر خدا برا کرے تعصب کا اس نے یہاں بھی اپنا رنگ دکھایا۔ جس شخصیت نے پنڈتوں اور دھریوں اور آریہ سماج سے مناظرے کر کے سرکار کی نبوت و ختم نبوت پر پہرا دیا اسی کو متعصبین نے منکر ختم نبوت ٹھہرا دیا۔
آئیے ہم جائزہ لیتے ہیں کہ جو الزام اس ولی اللہ پر اہل بدعت نے لگایا اس الزام میں اہل بدعت پھنسے خود نظر آتے ہیں۔ اور بریلوی فتاوی سے اُمت کے مقتدا و اکابر بھی نہیں بچ سکے۔ اب ہم نمبروار ان اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں جو حجۃ الاسلام پر کیے جاتے ہیں۔
اعتراض نمبر 1:
1۔ سید تبسم شاہ بخاری لکھتے ہیں:
اس اثر کو صحیح ماننے سے جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل اور نظیر ہونے کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے۔ وہیں ختم نبوت کے اجماعی عقیدے پر بھی زد پڑنی ہے۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 41
مولوی حسن علی رضوی لکھتے ہیں:
ان (مولوی نقی علی خان) کی رائے میں اثر ابن عباس کی صحت قبول کرنے کے بعد مولانا محمد احسن منکر خاتم النبیین ٹھہرتے تھے۔
محاسبہ دیوبندیت ج 2، ص 451
ایک اور بریلوی مولوی لکھتے ہیں:اثرابن عباس کی صحت قبول کرنے کے بعد مولانا احسن نانوتوی منکر خاتم النبیین ٹھہرتے ہیں۔
جسٹس محمد کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ ص 12
مولوی غلام نصیر الدین سیالوی صاحب لکھتے ہیں:
اگر نانوتوی صاحب ختم زمانی کے قائل تھے تووہ اثر ابن عباس کی تصحیح و تقویت کیوں کر رہے ہیں۔
عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ص 192، ج1
ان عبارات کاخلاصہ یہ ہوا کہ جو اس اثر ابن عباس کی تصحیح کرے وہ ختم نبوت کا منکر ہے۔ اب دیکھیے اس فتوے کی زد میں اکابرین اُمت بھی آتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا حافظ ذہبی نے بھی کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے اس حدیث کودو سندوں سے روایت کیا ہے۔
امام بیہقی لکھتے ہیں اس حدیث کی سند حضرت ابن عباس سے صحیح ہے راوی مرہ کے ساتھ شاذ ہے اور میں نہیں جانتا کہ ابوالضحی کا کوئی متابع ہے۔
کتاب الاسماء و الصفات ص 390، 389۔ تبیان القرآن ج 12، ص 92
سعیدی صاحب آگے لکھتے ہیں: حافظ عماد الدین بن عمر بن کثیر شافعی متوفی 774 ھ نے اپنی تفسیر میں سات زمینوں سے متعلق اثر ابن عباس کو امام بیہقی کے کتاب الاسماء و الصفات کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اس کی سند پر کوئی تبصرہ نہیں کیا
تبیان القرآن ج 12، ص93
آگے ابن حجر عسقلانی کی تحقیق نقل کی ہے کہ انہوں امام ابن جریر کا اقتباس نقل کیا ہے۔ جس میں انہوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ آگے علامہ عسقلانی نے فیصلہ یہ لکھا ہے کہ امام بیہقی نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ یہ مُرّہ کے ساتھ شاذ ہے۔
سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
علامہ عینی نے بھی سات زمینوں کی اسی طرح تحقیق کی ہے۔
تبیان ج12، ص 93
آگے لکھتے ہیں: حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911ہجری نے اس اثر کا ذکر امام ابن جریر امام ابن ابی حاتم، امام حاکم اور ان کی تصحیح کے ساتھ اور امام بیہقی کی شعب الایمان اور کتاب الاسماء و الصفات کے حوالوں سے کیاہے۔
آگے علامہ آلوسی کا قول نقل کیا ہے کہ: میں کہتا ہوں کہ اس اثر کے صحیح ہونے میں کوئی عقلی شرعی مانع نہیں ہے۔
بتیان ج12، ص 94
علامہ عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں:
اقول رواتہ ثقات علی الری الصحح و صحح سندہ جمع من ارباب التصحیح و سکت علیہ جمع من اصحاب الترجیح فعدم قبولہ رای غیر نجیح
یعنی میں کہتا ہوں کہ اس کے راوی صحیح قول کی بنیاد پر صحیح ہیں اور اس کی سند کو ارباب تصحیح نے صحیح قرار دیا ہے اور اصحاب ترجیح کے جم غفیر نے اس پر سکوت کیا ہے پس اس اثر کو قبول نہ کرنا ناپسندیدہ بات ہے۔
مولانا لکھنوی آگے مستدرک حاکم سے ایک مختصر روایت نقل کرتے ہیں۔
عن ابن عباس قال فی کل ارض نحوا براہیم ہذا حدیث علی شرط البخاری و مسلم
یعنی ابن عباسؓ سے مروی ہے ہر زمین میں ابراہیم علیہ السلام جیسے افراد ہیں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
زجرالناس ص5
المختصر یہ سارا رسالہ دیکھنے کے قابل ہے جو کئی صفحات پر مشتمل ہے اور تقریباً سارا اس کی سندکو صحیح ثابت کرنے پردلائل ہیں۔ مولانا لکھنوی اس اعتراض کا کہ یہ اثر شاذ ہے یہ جواب دیتے ہیں اگرچہ اس دور میں کئی لوگوں نے اس بات سے دھوکہ کھایا ہے۔ لیکن اہل علم کے ہاں یہ اعتراض معتبر نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ ہر شاذ و منکر مردود نہیں ہوتی بلکہ ان میں مقبول بھی ہوتی ہیں۔
آگے لکھتے ہیں کہ شاذ کی دو قسمیں ہیں۔ غیر مقبول اور مقبول
زجر الناس ص11
آگے لکھتے ہیں شاذ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حدیث مردود الروایت ہو۔
زجرالناس ص12
آگے لکھتے ہیں: القصہ کوئی شک نہیں کہ اس اثر کی سند صحیح ہے یا حسن اگرچہ شاذ بھی ہے اور جو اس میں شک کرے وہ جاہل ہے ان باتوں سے جو ائمہ حضرات نے لکھی ہیں اور مخالف ہے ان کی باتوں کا۔
زجر الناس ص12
آگے لکھتے ہیں:تحقیق تونے پہچان لیا کہ اس اثر کے طرق محفوظ ہیں جرح و قدح سے پس ضروری ہے کہ یہ مقبول ہو اور لائق احتجاج ہو۔
(زجر الناس ص 13)
مولانا لکھنوی ایک جگہ لکھتے ہیں: حدیث مذکور صحیح بسند اور معتبر ہے ارباب تحقیق نے اس کی توثیق کی ہے۔
جموعۃ فتاوی اردو ج 1 ص15
ایک جگہ لکھتے ہیں حدیث مذکور محققین محدثین کے نزدیک معتمد ہے حاکم نے اس کے حق میں صحیح الاسناد کہا ہے اور ذھبی نے حسن الاسناد کا حکم دیا ہے اس حدیث کے ثبوت میں کوئی
علت قادحہ معتمدہ
نہیں ہے۔
مجموعۃ فتاوی اردو ج 1 ص 33
قارئین گرامی قدر! ان اجلہ علماء و ائمہ کے سامنے ان چند رضا خانی حضرات کی کون سنتا ہے۔ باقی ہمارا سوال اور استدلال اس سے یہ ہے۔ ان سب کو منکر ختم نبوت مانتے ہو یا نہیں۔ جس وجہ سے مولانا احسن نانوتوی اور حجۃ الاسلام کی تکفیر کرتے ہیں۔ وہی وجہ مولانا لکھنوی سے لے کر امام حاکم بیہقی، سیوطی، ابن جریر، عسقلاتی، عینی، آلوسی، ذہبی رحمہم اللہ میں پائی جاتی ہے۔ تو کیا یہ سب منکرین ختم نبوت ہیں ؟
خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف والے کہتے ہیں: میں کہتاہوں کہ حدیث مثلہن کے معنی بطون سے تعلق رکھتے ہیں۔
مقابیس المجالس ص538
معلوم ہوا خواجہ صاحب اس کو درست مانتے تھے ورنہ اس کی تشریح کی ضرورت نہ تھی بلکہ رد کردیتے اور کہہ دیتےکہ یہ صحیح نہیں ہےتو کیا وہ بھی کافر ہیں ؟
اعتراض نمبر2:
مولوی غلام نصیر الدین سیالوی لکھتے ہیں:
جب مصنف تحذیرا لناس اس اثر کے مضمون کو صحیح سمجھتے ہیں تو ختم نبوت زمانی کے قائل کیسے رہے۔
عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ج1، صف 202
مولوی یاسین اختر مصباحی لکھتے ہیں: مولانا محمد احسن نانوتوی نے قیام بریلی کے زمانہ میں جب اپنے اس مسلک و موقف کا اظہار کیا کہ مختلف طبقات ارض میں بھی انبیائے کرام مثل آدم و نوح ومحمد علیہم السلام موجود ہیں اور اس کی بنیاد اثر ابن عباس کو بنایا تو حضرت مولانا نقی علی خان بریلوی نے اس کا زبردست تعاقب کیا کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہے۔
رسائل فضل رسول بدایونی ص60
یعنی اس اثر کے مضمون کو درست سمجھنا کہ باقی طبقات ارض میں انبیاء کرام مثل انبیاء کرام علیہم السلام موجودہیں تو یہ ختم نبوت کاانکار ہے۔
جبکہ مولانا غلام دستگیر قصوری لکھتے ہیں: ہر ایک کی خاتمیت اضافی ہے یعنی ان زمینوں میں جو نبی ہیں ان کی خاتمیت ان زمینوں کے اعتبار سے ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت اس زمین میں مبعوث ہونیوالے انبیاء کے اعتبار سے ہے۔
تبیان القرآن ج12، ص94
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ہم آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کے ممتنع بالذات ہونے کے اس جہان دنیا میں قائل ہیں پس اگر کوئی اور جہاں ہو اور اس میں سوائے اس دنیا کے انبیاء مبعوث ہوں اور ہر ایک ان کا خاتم ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل نبی اور خاتم ہو نے میں ہو تو اس کے ممتنع ہونے پر ہم حکم نہیں کرتے۔
تقدیس الوکیل ص134
مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جس طرح ایک خاتم الرسل اس طبقہ میں ہے اسی طرح سے ایک ایک خاتم ہر طبقہ میں ہے۔
مجموعۃ فتاوی اردو ج 1 ص20
تو قصوری صاحب اورمولانا لکھنوی نے مختلف زمینوں میں اور انبیاء مان لیے تو بریلویوں کو چاہیے تھا کہ ان کے خلاف بھی منکر ختم نبوت ہونے کی وجہ سے کتاب لکھ دی جاتی۔ مگر ایسا کیوں نہیں اگر یہی جرم مولانا کا ہو تو ان پر فتویٰ کفر اور یہی جرم قصوری اور مولنا لکھنوی کا ہو انہیں معافی آخرکیوں ؟
اعتراض نمبر3:
سید تبسم شاہ بخاری لکھتے ہیں: ایک اور مسئلہ یہ نکالا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظیر ممکن ہے اس عقیدے سے بھی ختم نبوت پر زد پڑتی ہے۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 25
ایک جگہ لکھتے ہیں: نظیر کو محال نہ مانا بلکہ ممکن مانا تو آپ ختم نبوت کے منکر اورکذب الٰہیہ کے قائل ٹھہرے اور یہ بھی کفرہے۔
دیوبندیوں سے لاجواب سوالات ص 1052
جبکہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے جبکہ امکان نظیر کے قائلین کوماجور و مثاب لکھا ہے۔
دیکھیے فتاویٰ مہریہ ص9
تو کیا ختم نبوت کا منکر ماجور و مثاب ہوتا ہے؟ اور علامہ فضل حق خیر آبادی کے دوست مفتی صدر الدین آزردہ نے بھی امکان نظیر کے مسئلہ میں شاہ صاحب سے اتفاق کرتے ہوئے علامہ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔
خیرآبادیات ص 131
تو اب ان دونوں پیر مہر علی شاہ اور مفتی صدر الدین آزردہ کو منکر ختم نبوت کیوں نہیں کہا گیا اور نہ کہنے کی بناء پر آج تک کی بریلویت کیا مسلمان ٹھہری؟
اعتراض نمبر4:
مولوی عمر اچھروی لکھتے ہیں:
احناف کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے بعد کسی کو نبی فرض کرنا بھی کفر ہے۔
مقیاس حقیقت ص 198
جبکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا
لوکان بعدی نبی لکان عمر
اور دوسری حدیث یوں ہے:
لوعاش ابراہیم لکان نبیاً
جیسے ارشادات عالیہ کا کیا بنے گا؟تو نبی پاک علیہ السلام نے بھی تو نبوت کو فر ض کیا ہے۔
اب اچھروی کے ایمان کی خیر مناؤ۔
کاظمی صاحب لکھتے ہیں: اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اگر بالفرض محال بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو۔ توخاتمیت محمدی میں ضرور فرق آئے گا۔
مقالات کاظمی ص 298
ہمارا سوال ہے کہ کاظمی وغیرہ دیگر بریلوی حضرات جو کاظمی کے ہم مشرب تھے یا ہیں ان کا کیا بنے گا۔ یہ سب اعتراضات تھے۔ تو حجۃ الاسلام پر اور پھنستے بریلوی ملاں جا رہے ہیں۔
اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو سہی

یہ گھر جو بہہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو

 
کیا کاظمی کافر ہے اگر نہیں تو کیوں ؟
اعتراض نمبر5:
مولوی غلام نصیر الدین سیالوی لکھتے ہیں:
مولانا سرفراز خان صاحب صفدر نے یہ بات ثابت کرنے کے لیے مولوی قاسم نانوتوی ختم نبوت زمانی کے قائل تھے۔ فرمایا حضرت نانوتوی نے منطقی طور پر ختم نبوت ثابت کی ہے۔ کیونکہ نانوتوی صاحب نے فرمایا ہے مابالعرض کا سلسلہ مابالذات پر ختم ہو جاتا ہے۔
دوسرے انبیاء وصف نبوت کے ساتھ بالعرض متصف ہیں حضور علیہ السلام بالذات متصف ہیں لہٰذا سلسلہ نبوت آپ پر ختم ہو گیا۔سرفراز صاحب قاسم نانوتوی کی اس عبارت کو ختم نبوت زمانی پر بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس طرح تو باقی انبیاء علیہم السلام کی نبوت سے تو انکار ہوجائے گا۔
عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ص198ج1
یعنی نبی پاک علیہ السلام کو بالذات نبی ماننا اور باقی کو بالعرض ماننا یہ انبیاء کی نبوت و رسالت کا انکار ہے۔
مولوی احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں:
حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نبوت میں ذاتی اور عرضی کی تفریق کرنا قرآن مجید کی متعدد آیات کے خلاف ہے۔
مقالات کاظمی حصہ سوم ص531
مولوی تبسم شاہ بخاری لکھتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات اور دیگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نبوت و رسالت کو محض بالعرض اور مجازی نبوۃ و رسالت قرار دینا قرآن مجید میں تحریف معنوی اور انبیاء کی نبوت کا صریح انکار ہے۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس 197
القصہ بریلوی اصول یہ ہے کہ ذاتی اور عرضی کی تقسیم کرنا انکار نبوت ہے۔
الجواب:
یہ حجۃ الاسلام کی اپنی اصطلاح ہے اور اصطلاحات اپنی اپنی ہو سکتی ہیں۔ پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں
لا مشاحۃ فی الا صطلاح
تحذیر الناس میری نظر میں 40
یعنی اصطلاحات کے بنانے میں کوئی جھگڑا نہیں۔
یعنی حضرت کی بات کا مطلب یہ ہے کہ نبی پاک علیہ السلام کو نبوت کسی کے وسیلے سے نہیں ملی۔ اور باقی انبیاء کو نبوت آپ علیہ السلام کے وسیلےسے ملی اسی کو حضرت نے بالذات و بالعرض کا نام دیا ہے اور یہ بات تو بریلوی حضرات کو بھی مسلم ہے۔ ہم آگے چل کر اس کی تفصیل عرض کرتے ہیں۔ سر دست ذاتی و عرضی کے معنی عرض کرتے ہیں۔ علماء نے اس کے کئی معنی لکھے ہیں۔
آپ شرح مطالع ہی ملاحظہ فرما لیتے تو مسئلہ حل ہو جاتا۔اس میں ہے۔
الخامس ان یکون دائم الثبوت للموضوع و مالا یدوم ہو العرضی
یعنی ذاتی کا پانچواں معنی یہ ہے کہ چیز اپنے موضوع کے لیے ہمیشہ ہمیشہ ثابت ہو اور جو چیز ہمیشہ نہ ہو وہ عرضی ہے۔
اورآپ کی نبوت آپ کو شروع سے ہی ملی یہ آپ ہی کا وصف ہے کیونکہ دوام کا معنی بھی یہ کیا جاتا ہے کسی چیز کا تمام اوقات میں موجود رہنا۔ تو جب رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وصف نبوت تمام انبیاء سے قبل ملا ہے۔ اور آپ شروع ہی سے نبی تھے یعنی آپ کی روح مبارکہ بھی شروع ہی سے نبی تھی۔
تویہی تو آپ کی نبوت کے بالذات ہونے کی دلیل ہے اور باقی انبیاء کی نبوت کے بالعرض ہونے کی اور اسی کتاب شرح مطالع میں ہے السادس ان یحصل لموضوعہ بلاواسطہ وفی مقابلہ العرضی یعنی جو چیز اپنے موضوع کو بلاواسطہ ملی ہوئی ہووہ ذاتی ہے۔ جو کسی واسطہ سے ملی ہوئی ہو وہ عرضی ہے۔
ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت بلاواسطہ و وسیلہ ملی ہے اور باقی انبیاء کو نبوت آپ کے واسطے و وسیلےسے ملی ہے۔ تو نبوت کا ذاتی اور عرضی کی طرف تقسیم کرنا بالکل درست ہے ان معنوں میں جو ہم نے عرض کیے۔ملخصاچراغ سنت
باقی آپ کے فتاویٰ میں کون کون بریلوی پھنستا ہے۔آیئے دیکھیے!
1- مولانا عطا محمد نقشبندی جامعہ اسلامیہ عربیہ خیرالمعاد ملتان کے شیخ الحدیث لکھتے ہیں: علامہ سلیمان جمل کے نزدیک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بالاصالت یعنی اصل اور مستقل نبی و رسول ہونے کے لحاظ سے داعی تھے۔ اور دیگر انبیاء کرام نے آپ کے نائب و خلیفہ ہونے کی حیثیت سے دعوت دی۔
خلاصۃ الکلام ص53
یہاں نبی پاک علیہ السلام کو اصل نبی قرار دیا گیا اور باقی سب کو نائب۔
یہی آپ کے شیخ الحدیث آگے لکھتے ہیں:
عارفین اُمت نے تصریح کی کہ حقیقی اور مطلق رسول آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام نے اپنے اپنے زمانہ میں آپ علیہ السلام کے تابع ہو کر آپ کی نیابت میں رسالت و نبوت کا فریضہ سر انجام دیا۔
خلاصۃ الکلام ص 61
یہاں آپ کو حقیقی رسول قرار دیا گیا ہے۔جیسے آپ بریلویوں نے حجۃ الاسلام کی بات سے اپنا مطلب نکالا ہے ایسے ہی کوئی یوں کہہ دے کہ حقیقی مقابل مجازی ہوتا ہے۔ اب عارفین کرام پر کیا آپ الزام لگائیں گے کہ وہ جملہ انبیاء کو سوائے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے مجازی نبی مانتے ہیں۔ اگر نہیں لگاتے تو کیوں نہیں ؟جب بات حجۃ الاسلام اور عارفین کی تقریباً ایک ہے۔ تو فتویٰ ایک کیوں نہیں؟ آپ کے یہی جید شیخ الحدیث صاحب آگے لکھتے ہیں
علامہ آلوسی فرماتے ہیں: اسی لیے عارفین نے فرمایا نبی مطلق رسول حقیقی اور مستقل شریعت لانے والے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دیگر جملہ انبیاء حضور علیہ السلام کے تابع ہیں۔
خلاصۃ الکلام ص 63
یہی بات غلام نصیر الدین سیالوی نے لکھی ہے عبارات اکابر کاتحقیقی و تنقیدی جائزہ میں۔ یہی شیخ الحدیث علامہ عطا محمدنقشبندی لکھتے ہیں
’’علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت کا مطلب واضح ہے کہ جب دیگر بعض انبیاء کو بچپن میں نبوت عطا کی گئی اور ان میں استعداد موجود تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بچپن میں اس کی استعداد کے زیادہ لائق ہیں۔ ‘‘
کیونکہ آپ اصل ہیں اور وہ فرع۔ اصل کی صلاحیت فروع سے زیادہ ہوتی ہے۔
خلاصۃ الکلام ص114
ہم اصل کے لفظ پر کلام آگے کرتے ہیں۔سر دست ایک حوالہ اور بھی دیکھ لیجئے:
2- مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں ہے: شیخ ابوعثمان نے فرمایا ابتداء سے لے کر انتہا تک کوئی نبی بھی حقیقی نہیں ہے۔ سوائے اس حقیقت احمدیہ کے۔
تو ادھر بھی کچھ فتوے کا رُخ کریں نا۔
3- رأس البریلویہ و امام البریلویہ جناب مولوی نقی علی خان صاحب لکھتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت میں اصل ہیں۔
الکلام الاوضح ص192، سرور القلوب ص 226
4- ذاکر حسین شاہ سیالوی لکھتے ہیں: نبوت کا اصل آپ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے۔
نبی الانبیاء و المرسلین ص 91
5- مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں: سلسلۂ رسالت کی اصل اور بنیاد آپ ہیں۔
کوثر الخیرات ص35
6- مولوی عبد المجید خان سعیدی لکھتے ہیں: جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت میں بھی اصل اور واسطہ ہیں۔ الخ
نبوت عند الشیخین ص6
مزید لکھتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اول الخلق سبب ایجاد عالم اصل اور واسطہ کل ہیں۔
نبوت عند الشیخین ص19
7- بریلوی علامہ کاظمی لکھتے ہیں حضور تمام عالم کے وجود اس کے ہر کمال کی اصل ہیں۔
نبوت عند الشیخین ص 20
8- پیر کرم شاہ بھیروی نے مولانا نانوتوی کی عبارت نقل کر کے پھر محشی کی عبارت نقل کی ہے پھر آگےلکھا کہ علماء اہلسنت کا یہی عقیدہ ہے ان عبارات میں یہ تھا ”آپ کی نبوت ذاتی ہے اور دیگر کی عرضی “تو اس کو پیر کرم شاہ اہلسنت کا عقیدہ قرار دے رہے ہیں۔
تحدیز الناس میری نظر میں ص27
اب آئیےدیکھیئے! جتنے لوگوں نے اصل کا لفظ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے لیے بولا ہے۔ چاہے علامہ سلیمان جمل ہوں یا آلوسی یاعارفین اُمت رحمہم اللہ یا نقی علی خان، یا ذاکر سیالوی یاعطامحمد نقشبندی سب زد میں آ گئے وہ اس طرح کہ
سید تبسم شاہ بخاری لکھتے ہیں:
یہ لفظ اصلاً ہی بالذات کا ترجمہ ہے لفظ اصل ذات کے معنی میں آتا ہے یانہیں ؟اس کے متعلق بے شمار لغوی اشتہادات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ کہ آتا ہے
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 162
مولوی غلام مہر علی لکھتےہیں:
یہاں ذات کا بدل اصل اور اصل کا بدل ذات موجود ہے۔
دیوبندی مذہب ص 595
تو معلوم ہوا کہ اصل کا معنی ذاتی بھی ہے۔تو جتنے اکابرین اور بریلویوں نے اصل کے لفظ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کیے ہیں۔ وہ منصب نبوت میں آپ کو ذاتی مانتے ہیں اور باقی انبیاء کو ذاتی نہیں مانتے۔ تو پھر عرضی ہی مانتے ہیں۔ تو جو بات حجۃ الاسلام نے کہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت میں ذاتی ہیں۔ باقی عرضی تو وہی بات یہ سب اکابرین اور بریلوی بھی کہہ رہے ہیں۔ اب کاظمی سے لے کر یہ تبسم بخاری تک سے سب کان کھول کر سن لیں کہ ان کو یعنی اپنے بریلویوں کو کافر کہیں ورنہ اپنے ہی فتاوی کی روشنی میں آپ خود کافر ہوجائیں گے جیسا کہ شروع میں ہم لکھ آئیں ہیں بریلویوں کے حوالے سے کہ جو کافر کو کافر نہیں کہتا وہ خود کافر ہوتا ہے۔
القصہ جو بات حضرت حجۃ الاسلام نے فرمائی تھی کہ اللہ نے آپ کو براہ راست و صف نبوت دیا اور باقی انبیاء کرام کو آپ کے واسطے سے دیا۔یہی بات بریلوی اکابر علماء نے تحریر کی ہے۔
علامہ کاظمی لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی نعمت حضور ہی کے وسیلہ سے ملتی ہے اور یقینا نبوت و رسالت بھی انبیاء کرام و رسل عظام علیہم السلام کو حضور ہی کے طفیل ملی۔
بحوالہ ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 197
بریلوی شیخ القرآن مولوی غلام علی اوکاڑوی لکھتے ہیں:
اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ ہر صاحب کمال کو جو کمال ملا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ملا ہے۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 188
اعتراض نمبر6:
حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی پر اعتراض کرتے ہوئے سید تبسم شاہ بخاری صاحب لکھتے ہیں:
قرآن حکیم نے جب خاتم النبیین فرما دیا تو آیت آپ کے آخری نبی ہونے میں نص قطعی ہو گئی۔ آخری نبی کا معنی خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا صحابہ کرام رضِی اللہ عنہم تابعین اور تمام امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کا عقیدہ ایمان اسی پر رہا اور اسی پر رہے گا۔ جملہ ائمہ کرام مفسرین و محدثین نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہی بتایا کہ خاتم بمعنی آخری نبی ہے اسی پر اجماع ہے۔ اور اسی پر تواتر ثابت ہے۔ اس معنی میں نہ کوئی تاویل مانی جائے گی نہ کوئی تخصیص بلکہ تاویل و تخصیص کرنے والا بھی خارج از اسلام ہو گا اور سمجھ بوجھ کر بھی ایسے کافر کے کفر میں شک کرنے والا اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 23
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
انقطاع نبوت کا انکار اور تکمیل نبوت کا اقرار یہ عقیدہ قادیانیت کے لیے بہت مفید ہے۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 112
اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں۔
1۔ اس لفظ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کے علاوہ کوئی اور لینا کفر ہے۔
2۔ ایسے کفر کو جو کفر نہ کہے وہ بھی کافر۔
3۔ اس کا معنی تکمیل نبوت کرنا، انقطاع کا نہ کرنا قادیانیت کو مفید ہے۔
4- اس معنی میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں ہو سکتی۔
القصہ دیکھیے: بریلویت بانی فاضل بریلوی نے اپنے والد کی کتاب الکلام الاوضح کی تعریف و توصیف کی اورا سے علوم کثیرہ پر مشتمل کہاہے۔ اسی میں لکھاہے:
جو اس لفظ کو بمو جب قرأت عاصم رحمۃ اللہ علیہ کے خاتم النبیین بفتح تا پڑھیں تو ایک اور خاصہ آپ کا ثابت ہوتاہے۔ کہ سوا آپ کے یہ لقب بھی کسی کو حاصل نہ ہو۔ مہر سے اعتباربڑھتا ہے۔ اور آپ کے سبب سے پیغمبروں کااعتبار زیادہ ہوا اور مہر سے زینت ہوتی ہے اور آپ انبیاء کی زینت ہیں۔
الکلام الاوضح ص 202
اس لفظ کامعنی صرف آخری نبی نقی علی خان بھی نہیں مانتا۔ بلکہ اس کا معنی انبیاء کی نبوت پر مہر لگانے والا کیا ہے۔ تو یہ بھی نص قطعی کا منکر، اجماع اُمت کامنکر، اس معنی میں تاویل کرنے والا ہے۔ لہٰذا کافر ہوا اور پیچھے گزر چکا کہ جو کسی کفر کی تحسین کرے وہ بھی کافر ہے۔ لہٰذا فاضل بریلوی بھی گیا۔ اس لیے تبسم صاحب ذرا قدم پھونک پھونک کے رکھیے۔آگے دیکھیے۔
پیر جماعت علی شاہ کے بیٹے سید محمدحسین شاہ جماعتی لکھتے ہیں:
جن اوصاف حمیدہ، اخلاق جمیلہ شمائل حسنہ، فضائل برگزیدہ مکارم اخلاق سے انبیاء کرام خالی تھے۔ وہ سب کے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں پائے جاتے ہیں اور آپ ہر طرح سے کامل ومکمل ہے۔ ختم نبوت کے یہی معنی ہیں کہ نبوت آپ کے ذریعے سے تکمیل کو پہنچ گئی۔
افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم ص 130
اس کو مدون کیا ہے آپ کے جید عالم مولوی صادق قصوری نے اس پر مقدمہ پیر کرم شاہ صاحب نے لکھا ہے۔ تو یہ سب قادیانیوں کی تائید کرنے والے اور ختم نبوت کے اجماعی معنی اور قطعی معنی سے ہٹ کر معنی کرنے والے ہیں۔ یہ بھی بقول آپ کے سب کافر۔ اگر کوئی بریلوی اب ان کی تعریف و تحسین کرے گا وہ بھی آپ کے بقول کافر جا ٹھہرا۔
آگے آئیے:
مولانا محمد ذاکر صاحب خلیفہ مجاز خواجہ ضیاء الدین سیالوی کی ادارت میں چھپنے والے رسالے میں ہے
ختم نبوت سے مراد قطع نبوت یا انقطاع رسالت نہیں بلکہ تکمیل نبوت و ابدیت رسالت ہے۔ یعنی نبوت اس کا رگۂ حیات میں اپنے تمام ارتقائی منازل طے کر کے جس نقطہ عروج پر پہنچی اس کا نام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
الجامعہ نومبر دسمبر 1961ء، جلد نمبر13، شمارہ نمبر4، ص10
کیامولانا ذاکر صاحب جو خواجہ قمر الدین سیالوی کے اخص الخواص لوگوں سے تھے، وہ قادیانی نواز ہیں؟ کیا انہیں آپ کافر کہیں گے۔ اگر نہ کہیں بھر بھی جاتے ہیں اور اگر کہیں تو پھر بھی۔
سوچ لیں۔ مشورہ کر کے جواب دیں آپ کو قیامت تک کی مہلت ہے جو الزامات جناب آپ مولانا نانوتوی پر لگا رہے تھے وہ سب کے سب آپ کے گھر میں ملتے ہیں۔ پہلے اپنے گھر کی فکر کیجئے۔ پھرباہر۔
اعتراض نمبر 7:
کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک کسی نبی کی نبوت میں دوسرے نبی کی نبوت کے بالمقابل کوئی فرق نہیں پایا جاتا نہ کسی نبی کا وصف نبوت کسی دوسرے نبی کے وصف سے کم و بیش ہو سکتا ہے۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص 191
اب دیکھیے قارئین کرام!
جتنے بریلوی لوگ اور اکابرین اُمت ہم پیش کر چکے ہیں کہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل اور حقیقی نبی سمجھتے ہیں توفرق کے تمہارے بریلوی قائل ہو گئے اب آپ اپنے دام میں خود پھنس گئے ہیں۔ پتہ نہیں بریلویت کے کفر پرایک کتاب یہ تبسم صاحب کب لکھیں گے۔
اعتراض نمبر8:
غلام نصیر الدین سیالوی لکھتے ہیں:
بعض حضرات یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا
انی عند اللہ لمکتوب خاتم النبیین وآدم لمنجدل فی طینتہٖ۔
اس کے بارے میں گزارش ہے کہ اس حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ اگرسرکار علیہ السلام کو سب سے پہلے نبوت ملی ہے تو آپ خاتم الانبیاء کیونکر ہو سکتے ہیں اگر سب سے پہلے سرکار علیہ السلام ختم نبوت سے متصف تھے۔ تو پھر بعدمیں ایک لاکھ 24ہزار انبیاء کیسے مبعوث ہوئے۔ اس طرح تو پھر نانوتوی کاکلام ٹھیک ہو جائے گا کہ اگر بعدزمانہ نبوی کوئی اور نبی آجائے گاتو ختم نبوت میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ نیز دیگر انبیاء علیہم السلام صرف علم الٰہی میں نبی تھے بالفعل نہیں ہے۔ تو پھر سرکار علیہ السلام ان سے آخری کیسے ہو گئے۔ آخری نبی ہونے کامطلب تو یہ ہے کہ سارے انبیاء علیہم السلام کے بعد نبوت کا اعطا ہوا اور اس ہستی کے بعد نبوت کاسلسلہ ختم ہو گیا۔
تحقیقات ص 393، 394
اس سے چند باتیں ثابت ہوئیں۔
1۔ اگر نبوت آپ کو سب سے پہلے ملنا مانی جائے تو آپ خاتم النبیین نہیں ہو سکتے۔
2۔ اگر آپ کو شروع سے ہی یعنی تخلیق آدم سے پہلے ہی سے ختم المرسلین مانا جائے تو پھر مولانا نانوتوی کاکلام درست ہو جائے گا۔ بالفاظ دیگر اس کااور مولانا نانوتوی کا نظریہ ایک جیسا ہو گا۔
3۔ آخری نبی کا مطلب یہ ہے آپ کو نبوت سب کے بعد ملے۔
4۔ مفتی عبد المجید خان سعیدی نے غلام نصیر الدین سیالوی کے متعلق لکھا ہے کہ بیٹا اور اس کے توسط سے مولنا نادرست اور موید عقیدہ کفریہ نانوتویہ بتا رہا ہے۔
مسئلہ نبوت ص30
یعنی یہ کہنا کہ اب جناب آدم سے پہلے ہی خاتم الانبیاء تھے یہ غلام نصیر الدین سیالوی کے نزدیک عقیدہ کفریہ کا موید ہے تو پھر اگلے آنے والے سب علماء بھی کفر کے موید ہونے کی وجہ سے کافر ہوئے۔
پہلی اور تیسری بات تقریباً ایک ہی طرح ہے۔ہم اس پر کلام کر کے آگے چلتے ہیں۔
جونبوت آپ کو شروع ہی سے ملنا مانے وہ خاتم الانبیاء نہیں مان سکتا یا اس صورت میں آپ خاتم الانبیاء نہیں بن سکتے۔ تو وہ آدمی آپ کے فتوے سے ختم نبوت کا منکر ہوا۔ تو پھر لیجئے:ان کتابوں کے مصنفین اور مویدین اور مصدقین جو تقریباً نصف صد سے زائد بریلوی اکابر علماء ہیں وہ سب ختم نبوت کے منکر ٹھہرے۔
1۔ خلاصۃ الکلام مولوی عطا محمدنقشبندی
2۔ نبوت مصطفی ہرآن ہر لحظہ پروفیسرعرفان قادری
3۔ نبوت مصطفی اور عقیدہ جمہوراکابر علماء امت مفتی نذیر احمد سیالوی
4۔ تنبیہات مولوی عبدالمجید خان سعیدی
5۔ اہم شرعی فیصلہ پیر محمدچشتی
6۔ تجلیات علمی فی رد نظریات سلوی مفتی محمود حسین شائق
7۔ توضیحات قاضی محمد عظیم نقشبندی
8۔ نبی الانبیاء و المرسلین سید ذاکر حسین شاہ سیالوی
یہ سب سب کے اس پر مصر ہیں کہ آپ علیہ السلام کو نبوت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ملی۔تو کیا یہ سب منکرین ختم نبوت ہیں ؟ اگر ہیں تو بتائیں ورنہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے لعنت کا طوق آپ پر ہے۔دوسری بات یہ تھی کہ آپ علیہ السلام کو شروع ہی سے خاتم الانبیاء مان لینا مولانا نانوتوی کے کلام سے متفق ہونا ہے۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے:
آپ کے شارح بخاری مولوی محمود رضوی لکھتے ہیں: حضور نے فرمایا ! میں خاتم الانبیاء اس وقت سے ہوں جب کہ آدم آب و گل میں تھے۔
(مسند احمد ج4، ص 127)(دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ص85)
بریلوی حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں کہ’’احمد اور بیہقی او ر حاکم نے صحیح اسناد سے حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میں رب تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہو چکا تھا حالانکہ ابھی آدم علیہ السلام اپنے ضمیر میں جلوہ گر تھے۔‘‘
(مشکوۃ)
رسائل نعیمیہ ص64
مولوی عبدالاحد قادری لکھتے ہیں:
حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت خاتم النبیین تھا جب ابھی حضرت آدم علیہ السلام مٹی ہی تھے۔‘‘
رسائل میلاد مصطفی ص258
مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز تھے۔‘‘
(ملخصاً تنویر الابصار ص22،23، بحوالہ سندیلوی کا چیلنج منظور ہے)
کاظمی صاحب لکھتے ہیں حدیث کامطلب یہی ہے کہ میں فی الواقع خاتم النبیین ہو چکا تھا نہ یہ کہ میرا خاتم النبیین ہونا علم الہی میں مقدر تھا۔
مسئلہ نبوت عند الشیخین ص21
سیالوی صاحب! آپ کاکیا پروگرام ہے۔ یہ مولانا نانوتوی کے موافق تمہارے بزرگ ہوئے یا نہ اب ان کے کفر و ایمان کا مسئلہ نہ رہا۔ بلکہ تمہارے ایمان کامسئلہ بن گیا اب بھی ان کو بزرگ مانتے ہوتو تم بھی گئے اور اگر ان کو بھی کافر مانو تو یہ تم سے ہو نہ سکے گاکہ باپ کو بھی کافر کہو۔
اب ہم تفصیل سے عبارات تحذیر الناس کے متعلق کچھ عرض کرتے ہیں۔
اعتراض نمبر9:
حجۃ الاسلام پر ایک اور اشکال اور اس کاجواب
کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
ہمیں نانوتوی صاحب سے شکوہ نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تاخر زمانی تسلیم نہیں کی یایہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدعیان نبوۃ کی تکذیب و تکفیر نہیں کی انہوں نے سب کچھ کیا ہے۔ مگر قرآن کے معنی منقول متواتر کو عوام کا خیال قرار دے کر سب کیے پر پانی پھیر دیا۔
مقالات کاظمی ج2، ص360
الجواب: الحمد للہ یہ تو بریلوی مان گئے کہ مولانا نانوتوی ختم نبوت زمانی کو مانتے ہیں اور یہ بھی مان گئے انہوں نے آپ علیہ السلام کے بعد مدعی نبوت کی تکفیر بھی کی ہے۔
اعتراض صرف یہ رہا کہ یہ عوام کاخیال بتایا۔تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ عوام سے مراد جہلاء نہیں کیونکہ فاضل بریلوی لکھتے ہیں
عوام سے مراد وہ ہوتے ہیں جو حقائق تک نہ پہنچے ہوں چاہے عالم کہلاتے ہوں۔
فہارس فتاویٰ رضویہ ص401
یعنی جو بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ان کوبھی عوام کہاجاتا ہے۔ چاہے وہ علماء بھی ہوں یہ بات تو صاف ہو گئی جہلامراد نہیں۔ باقی حضرت کے ارشاد کا مطلب صاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا عام طور پر لوگ یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ آپ کا زمانہ آخری ہے اور اس کی علت اور اصل وجہ کو نہیں پا سکتے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ تو اس کی وجہ اور علت آپ کا خاتم المراتب ہوناہے۔ اور اکمل ومکمل ہونا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو آخر میں بھیجا گیا بولیے اس میں کیا قباحت ہے۔اس علت کی وجہ سے آپ کے خاتم النبیین ہونے کا کسی مفسر و محدث کو بھی انکار نہیں۔ اور آپ کے گھر سے بھی اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں اور گزر بھی چکی ہیں۔ جیسے فاضل بریلوی نے رسوخ فی العلم نہ رکھنے والوں کوطبقہ عوام میں شامل کیا اسی طرح حضرت نے فرمایا اور یہ نہیں فرمایا کہ یہ خیال جاہلوں کا ہے۔ یعنی مولانا نا نوتوی نے ان کو عوام کہا ہے جو رسوخ فی العلم نہیں رکھتے نہ کہ حضرت نے جاہل لوگوں کو عوام کہا ہےلہٰذا مولانا کا دامن صاف ہے۔
اعتراض نمبر10:
حجۃ الاسلام پر ایک اور اشکال اورا س کا مسکت جواب
مولانا نے آیت ختم نبوت میں اجماعی مفہوم آخری نبی کو چھوڑ کر اور مفہوم لیا ہے۔
الجواب: حضرت حجۃ الاسلام نے خاتم النبیین کااجماعی مفہوم ترک نہیں کیا۔ اجماعی مفہوم تھا آخری نبی ماننا تو حضرت نے اسی آیت سے آپ کا آخری نبی ہونا بھی ثابت کیا۔ حضرت اجماعی مفہوم مان کر بطور فائدے یا نکتے کے اپنے مدعا کو بیان کرتے ہیں اور یہ کوئی جرم نہیں کیونکہ مفسرین نے اپنی تفاسیر میں یہ سب کچھ کیا ہے۔ دور نہ جائیں اسی تفسیر نعیمی کو دیکھ لیں۔ جو بریلوی حضرات کے گھر کی معتبر تفسیر ہے اس میں ہر آیت کی تفسیر کے بعد اس سے چند فوائد نکال کر بیان کیے گئے ہیں۔
ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا
کی تفسیر میں بریلویت کی ریڑھ کی ہڈی کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
’’اے عائشہ!پہلے طے کر لو اس بات کو کہ بیٹے کی خواہش ہے یا نہیں تاکہ آگے جا کر کوئی یہ بکواس نہ کرے اور اگر کرے تو اپنا منہ آپ ہی کالاکرے۔ تم یہ آج فیصلہ کرلو کہ بیٹے کی خواہش ہے تو پھر رسول کے گھر میں نہیں رہ سکتیں۔ ‘‘
التبیان العظیم ص 81
اس آیت کی یہ تفسیرپوری اُمت میں کس نے کی ہے کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اجماعی مفہوم جو آج تک لیا گیا ہے کہ تمہیں دنیاوی زیب و زینت اور دنیا چاہیے تو پھر تمہیں رخصت کر دیا جائے اس کو ترک کر کے کاظمی صاحب نے الگ مفہوم گھڑا ہے۔ اگر آپ یہ جواب دیں گے کہ نہیں وہ مفہوم مان کر بطور نکتے اور فائدے کی یہ بات کہی ہے تو یہی جواب حضرت نانوتوی رحمہ اللہ تعالی کی طرف سے بھی سمجھ لیں۔ مگر یہ آپ کی بات پھر بھی ٹھیک نہیں کیونکہ یہ بہت بڑا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپر آپ بہتان لگا رہے ہیں اور قرآن پر بھی جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ اولادکی خواہش تو ہر شادی شدہ عورت کو ہوتی ہے اور یہ قلبی شوق اور خواہش ہوتی ہے جس کو آپ اتنے سخت الفاظ میں رد کر رہے ہیں۔ اللہ ہی آپ کو سمجھ دے۔
اسی طرح صلوٰۃ وسطیٰ کا تذکرہ قرآن نے فرمایا ہے اور احادیث میں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات سے وہ عصر کی نماز معلوم ہوتی ہے۔ مگر آپ کو بھی علم ہے کہ کئی حضرات نے اس سے مختلف نمازیں مراد لی ہیں۔
اب ان کے متعلق کیافتویٰ سرزد ہو گا۔ جو جواب آپ ادھر لیں وہی ہماری طرف سے بھی تصور فرما لیں۔
اعتراض نمبر11:
جب اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے تینوں عبارتوں کو آگے پیچھے کیوں کیا؟ تو بریلوی علامہ تبسم شاہ بخاری کود کر میدان میں آ ٹپکے اور کہنے لگے وہ تین عبارات علیحدہ علیحدہ بھی مستقل طورپر کفریہ ہیں۔
حاشیہ جسٹس کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ ص 135
ابوکلیم محمد صدیق فانی بھی چلائےکہ:
تحذیر الناس کی تینوں عبارتیں اپنی اپنی جگہ پر مستقل کفریہ عبارتیں ہیں۔
افتخار اہلسنت ص25
الجواب:
پہلی عبارت تحذیر الناس کی جو اعلیٰ حضرت نے پہلے لکھی ہے:
ویسے تو وہ ص14 کی ہے۔ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔
تمہید ایمان مع حسام الحرمین ص 70
اگر یہ کفر ہے تو دیکھیے بڑے بڑے بریلوی کفر کی دلدل میں پھنس جائیں گے۔
1۔ شاہ نقی علی خان صاحب لکھتے ہیں ’’ چار پیغمبر یعنی حضرت ادریسؑ اور حضرت عیسیٰؑ اور حضرت خضرؑ اور حضرت الیاس ؑکہ بعد آپ کی بعثت کے زندہ رہے۔
سرور القلوب ص225
مولوی احمد رضا خان فرماتے ہیں: چار انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام وہ ہیں جن پر ابھی ایک آن کے لیے بھی موت طاری نہیں ہوئی دو آسمان پر سیدنا ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام اورسیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دو زمین پر سیدنا الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیدنا حضرت خضر علیہ السلام۔
ص437 ملفوظات مشتاق بک کارنر لاہور
مولوی محمد اشرف سیالوی بریلوی لکھتے ہیں: حضرت عیسیٰ، حضرت ادریس، حضرت خضر، حضرت الیاس علیہم السلام ظاہری حیات کے ساتھ زندہ موجود ہیں۔
کوثر الخیرات ص 70
یہ سب بریلوی کہہ رہے ہیں کہ اب بھی یہ چار نبی موجود ہیں دو زمین پر اور دو آسمان پر تو یہ کہہ کر یہ سب کافر ہوئے یا نہیں ؟اور آپ پڑھ چکے ہیں جو احمد رضا کا ہم عقیدہ نہ ہو وہ کافر ہے تو پھر دنیا جہان کے بریلوی بشمول فانی صاحب اور تبسم صاحب کافر ٹھہرے کیونکہ یا تو وہ اس عقیدے کو مانتے ہیں یامنکر ہیں۔ اگر مانتے ہیں تو پھر بھی ان دو فتوؤں کی وجہ سے کافر۔ نہیں مانتے تو احمد رضا کے ہم عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے کافر ہیں۔
حضرت کی عبارات کو سمجھنے سے پہلے تھوڑی سی تمہید:
اس کے لیے ہم امام الحکمۃ و الکلام حضرت العلامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے چند باتیں عرض کر رہے ہیں۔
یوں سمجھیے ایک کمرے میں 10 آدمی یکے بعد دیگرے داخل ہوئے کیا کوئی بھی یہ کہے گا کہ آخری آدمی ان سب سے افضل ہے کیونکہ وہ آخر میں آیا۔ ہر گز نہیں۔ اسی طرح سیدنا علیؓ کا زمانہ خلافت بعد میں ہے مگر افضل پہلے خلفاء ہیں تو معلوم ہوا محض آخر میں آنے کی وجہ سے آدمی افضل نہیں ہوتا۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے۔
کہ قرآن نے تو خاتم الانبیاءکی اسی وصف کی وجہ سے تعریف کی ہے۔ جب محض آخرمیں آنا افضلیت کی بات اور دلیل نہیں تو اس آیت سے تعریف کیوں کر ثابت ہو گی۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ اور مقام و مرتبہ سب سے بلند بالا ہے۔ اس لیے آپ کو آخر میں مبعوث کیا گیا۔ تو آپ کے آخری نبی ہونے کی وجہ اور علت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی شان و مقام و مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے۔ یہیں ایک اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جس کی شان سب سے زیادہ ہو اس کو آخر میں بھیجا جائے تو ہم اس کے متعلق یہ عرض کرتے ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھیج دیا جاتا تو آپ کے بعد آنے والے نبی مقام میں کم ہونے کی وجہ سے ان کے لائے ہوئے احکام بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکامات سے مقام میں کم ہوتے۔یہاں قرآن تھا وہاں صحائف یا دیگر کتب ہوتیں۔ تو پھر اعلیٰ احکام کو ادنیٰ کے ذریعے منسوخ کر دیا جاتا۔
اور اگر درمیان میں بھی آتے تو بھی یہی صورت بنتی کہ نسخ اعلیٰ بالادنیٰ ہوتا یعنی کم مقام والے احکامات کے ذریعے اعلی شان و مقام والے احکام منسوخ ہوجاتے جو کہ حکمت خداوندی کے خلاف ہے۔کیونکہ حکمت تو یہ ہے
ماننسخ من آیۃ اوننسہا نات بخیر منہا۔ الایۃ
یعنی جو آیت ہم منسوخ یا بھلاتے ہیں۔ اس سے بہتر لاتے ہیں۔ یعنی منسوخ سے ناسخ بہتر ہوتا ہے یا برابر۔
تو نہ تو آپ علیہ السلام کے برابر کوئی تھا اور نہ افضل۔ اس وجہ سے آپ کا آخر میں آنا آپ کا کمال ہے۔ اب سوال پیدا ہوا کہ آپ علیہ السلام کے برابر یا افضل کیوں کوئی نہیں ہو سکتا۔
تو اس کا جواب یہ ہے اوصاف کی دو قسمیں ہیں ذاتی، عرضی،ذاتی کہتے ہیں کہ یہ وصف اپنے موصوف کے لیے شروع ہی سے ثابت ہو اور عرضی کہتے ہیں کہ یہ وصف اپنے موصوف کے لیے شروع ہی سے تو نہ ہو بعد میں ثابت ہو یا ذاتی کہتے ہیں۔ یہ وصف اس کا اپنا ہوتا ہے یعنی کسی ذریعے سے نہیں ملتا اور عرضی اس وصف کے کہتے ہیں جو اپنا نہیں ہوتا کسی کے ذریعے سے ملتا ہے۔
مثال کے طور پر: یہ درودیوار روشن ہیں ان پر روشنی سورج کی ہے۔
تو درودیوار کی روشنی عرضی ہے ذاتی نہیں اس لیے رات کو یہ روشن نہیں اور سورج کی روشنی ذاتی ہے۔ وہ کبھی بھی اس سے جدا نہیں ہوتی۔اسی طرح:
چاند کی روشنی اپنی نہیں بلکہ اس میں روشنی سورج سے آ رہی ہے۔ تو چاند کی روشنی جن چیزوں پر پڑتی ہے۔ ان کو روشنی چاند کی وجہ سے بھی۔ اب سلسلہ چلا کہ رات کو مختلف اشیاء روشن ہیں۔ چاند کی وجہ سے اور چاند روشن ہے سورج سے۔ تو روشنی کا سلسلہ یہاں سورج پر آ کر ختم ہو گیا۔اسی طرح د یکھئے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ کوجب پیدا کیا گیا تو اسے نبوت سے سرفراز کیا گیا اورباقی نبیوں کو نبوت روح اور بدن عنصری کے متعلق ہو جانے کی بعد ملی۔گویا آپ علیہ السلام موصوف بالذات ہوئے وصف نبوت سے اور باقی انبیاء موصوف بالعرض ہوئے۔جب اللہ نے آپ علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا تو اپنی حکمت سے یادداشت کے اوپر حکمت کے پردے لٹکا دیئے۔آپ کو پچھلا منظر یاد نہ رہا۔ جب آپ کی عمر مبارک 40سال کو پہنچی توپھر آگاہ فرمایا کہ اپنی نبوت کا اعلان فرما دیں۔ القصہ آپ علیہ السلام اس وصف نبوت سے موصوف بالذات ہیں تبھی تو آپ ارشاد فرما رہے ہیں کہ
کنت نبیا و آدم بین الروح و الجسد
کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم روح اور جسد کے مابین تھے۔
اب دیکھیے کہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو جاتاہے۔ جیسے رات کو روشنی جو مختلف چیزوں پر ہے یہ آتی ہے چاند سے اور چاند کی روشنی آئی سورج سے اور یہاں سورج پر پہنچ کر سلسلہ ختم ہو گیا اسی طرح تمام انبیاء کی نبوت آپ علیہ السلام کے وسیلے سے ان کو ملی ہے اور آپ علیہ السلام کی نبوت بالذات ہے یعنی کسی کے وسیلے سے نہیں ملی تو یہ سلسلہ آپ علیہ السلام پر پہنچ کر ختم ہو گیا۔یعنی آپ علیہ السلام پر تمام کمالات کو تمام محاسن و فضائل کو ختم کر دیا گیا۔اس کو ختم نبوت مرتبی کہتے ہیں۔
یہ مقام و مرتبہ اس وقت سے ملا جب آدم علیہ السلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن اس ختم نبوت مرتبی کے باوجودانبیاء تشریف لاتے رہے اورسلسلہ نبوت چلتا رہے اور جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ نے اعلان فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر ختم نبوت زمانی کہ آپ کے زمانہ کے بعد کوئی نبی نیا نہیں آئے گابھی آپ کو حاصل ہو گئی۔اب دو قسم کی ختم نبوت ہوئیں:
1۔ ختم نبوت مرتبی
2۔ ختم نبوت زمانی
ہمارے نزدیک دونوں قسم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔
ایک دوسری طرح دیکھتے ہیں:
ایک نقطہ ہوتا ہے اور اسے مرکز دائرہ بھی کہتے ہیں اور ایک اس کے گرد دائرہ ہوتا ہے۔ اب دائرہ کا اس مرکز سے پورا تعلق ہوتا ہے اور دائرہ اسی مرکز کی وجہ سے بنتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مرکز نبوت ہے اور باقی انبیاء دائرہ نبوت ہیں۔ مرکز نہ ہو تو دائرہ کہاں تو یہ دائرہ اسی مرکز کی وجہ سے ہوتا ہے توتمام انبیاء کو نبوت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ملی اور سارے انبیاء کا سلسلہ نبوت آ کر آپ علیہ السلام پر ختم ہو جاتا ہے اور اللہ نے شان و مرتبہ و مقام و منصب کو بھی آپ پر ہی ختم فرما دیا۔تو اسی کو ختم نبوت مرتبی کہتے ہیں۔
القصہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں قسم کی ختم نبوت حاصل ہیں۔ قادیانی صرف ایک مانتے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت مرتبی مانتے اور یہ مسلمان صرف ختم نبوت زمانی مانتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت دیکھیے کہ قادیانی سے برسوں پہلے خدا نے مولانا نانوتوی کو پیدا کیا اور ان سے یہ جواب دلوا دیا کہ ہم دونوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تو قادیانیوں کامنہ بند کرد یا۔
اس بات کو دوبارہ ذہن نشین فرما لیں کہ مولانا نانوتوی نے یہ نہیں فرمایا کہ آخر میں آنے میں کوئی فضیلت نہیں بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ آخر میں آنے میں بالذات فضیلت نہیں یعنی بالعرض تو فضیلت ہے وہ ہم عرض کرچکے ہیں۔
ماخوذ ازمناظرے مباحثے بتغیر یسیر
اب دیکھیے اصل عبارات کو
اگر آپ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی بالفرض نبی موجود ہو۔ تو بھی ختم نبوت میں فرق نہیں پڑتا تو اس سے مراد حجۃ الاسلام کی یہ ہے کہ خاتمیت مرتبی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کیونکہ یہ تو آپ کو شروع ہی سے حاصل تھی اور دیگر انبیاء تشریف لاتے رہے تو فرق نہ پڑا اب اگر بالفرض و المحال کوئی نبی آ جائے تو کیسے فرق پڑے۔سوال ہوگا کہ خاتم زمانی میں تو فرق پڑے گا۔جواب یہ ہے کہ بالکل پڑے گا اسی لیے تو حجۃ الاسلام نے بالفرض و اگر جیسے لفظ استعمال کیے ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نیا نبی آئے یہ عبارت تو صرف خاتمیت مرتبی کو ہی سامنے رکھتے ہوئے حضرت نے فرمائی ہے۔اگرنبی کے آنے کو جائز مانتے ہوتے تو حضرت فرض کیوں کرتے اور یہ بات تو فاضل بریلوی بھی لکھتے ہیں کہ فرض محالات جائز ہے۔
اللہ جھوٹ سے پاک ہے ص139
تو اعتراض کیوں؟ باقی زمانی ختم نبوت کا خیال کر کے اسے محال سمجھا کہ آپ کے بعد کوئی نبی آئے تبھی تو فرض کیا۔ جیسے پیچھے گزر چکا ہے کہ بریلویوں نے لکھا ہے اگر مرزا قادیانی نبی ہوتا تو سیدنا ابراہیم کی اولاد سے ہوتا۔تو جیسے یہ اگر کہنے سے نبی بن نہیں گیا یہاں بھی اگر اور بالفرض کہنے سے نئے نبی کے آنے کو ممکن نہیں مانا جا رہا بلکہ محال ہی مانا جا رہا ہے کیونکہ محال کو ہی فرض کیا جاتا ہے نہ ممکن کو۔بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ خاتم زمانی کو خاتم مرتبی کے لیے لازم مانتے ہو جب نیا نبی آ جائے خاتم زمانی ٹوٹ گیا اور جب وہ نہ رہا تو ملزوم بھی نہ رہا۔
تو جواباً عرض ہے کہ اسی لیے تو حجۃ الاسلام نے اگراور بالفرض کہا یعنی ایسا ہونامحال ہے نا کہ ممکن، اور محال کو فرض کرنا جرم نہیں۔ جیسا کہ قرآن مقدس میں بھی محالات کو فرض کیا گیا ہے۔جیسے اگر رحمن کا بیٹا ہوتا …الخ، اور اگر زمین و آسمان میں دو خدا ہوتے الخ…ایک اور بات حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی ختم نبوت زمانی کے قائل ہیں اور منکر کو کافر کہتے ہیں دیکھیے۔
شیخ العرب و العجم حضرت مدنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم زمانی ہونے کی پانچ دلیلیں ذکر فرما رہے ہیں۔ تین دلیلیں قرآن سے ایک حدیث سے اور ایک اجماع اُمت سے آیت قرآنی اس بارے میں
ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘
یا تو عام مانا جائے کہ اس کے دو افراد ہوں ایک خاتم مرتبی اور دوسرا خاتم زمانی اور لفظ خاتم کادونوں پر اطلاق اس طرح کیا جاتا ہے جیسے کہ مشترک معنوی اپنے متعدد افراد پر اطلاق کیاجاتا ہے۔ جیسے لفظ عین کئی معنوں میں مشترک ہے۔ ہر ایک پر برابری کے ساتھ بولا جاتا ہے) پس اس دلیل سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر دو وصف اس آیت سے ثابت ہوں گے۔ اور یہ دلالت مطابقی ہے کہ لفظ اپنے موضوع لہٗ پر دلالت کرے۔)
یہ دلیل اول کی اجمالاً تقریر ہوئی اور دلیل ثانی کی تقریر یہ ہے کہ لفظ خاتم کے معنی حقیقی خاتمیت مرتبی کے لیے جاویں اورخاتمیت زمانی معنی حقیقی نہ ہوں بلکہ مجازی ہوں لیکن آیت میں مراد ایسے معنی ہوں کہ جو معنی حقیقی اور مجازی دونوں کو شامل ہوں بطریق عموم مجاز کے اس صورت میں ہر دو وصف کاثبوت آپ کی ذات پاک کے لیے ظاہر ہے اور دلیل ثالث یہ ہے کہ معنی حقیقی خاتم کے خاتمیت مرتبی کے ہیں لیکن خاتمیت مرتبی کو خاتمیت زمانی لازم ہے۔ تاکہ نسخ الاعلی بالانی لازم نہ آئے اسی لیے یہ ختم زمانی ختم مرتبی کو لازم ہے۔
اس لیے بدلالت التزامی خاتمیت زمانی پر دلالت کرے گی اور اس آیت سے خاتمیت مرتبی اور زمانی کا ثبوت لازم آئے گا دلیل چہارم یہ کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہو گیا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اس لیے ثبوت خاتمیت زمانی کاضرور ہو گا اور منکر اس کا اسی طرح کافر ہو جیسے کہ منکر احادیث متواترہ کا لیکن ان احادیث کا تواتر لفظی نہیں تواتر معنوی ہے دلیل پنجم یہ ہے کہ اجماع اُمت کامنعقد ہو گیا ہے کہ آنجناب علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم الانبیاء زماناً ہیں اور اقرار اجماع کاکرنا ضروری اور منکر اس کا کافر ہے۔
الشہاب الثاقب ص 73، 74