مسئلہ عموم قدرت باری اور اہل السنۃ دیوبند

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
مسئلہ عموم قدرت باری اور اہل السنۃ دیوبند
اس مسئلہ میں اکابرین اہل السنۃ دیوبند کا نظریہ ہماری مستند کتاب المہندعلی المفند میں فخر المحدثین و بدر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے یوں لکھا:ہمارے اور ہندی منطقیوں و بدعتیوں کے درمیان اس مسئلہ میں نزاع ہے کہ حق تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا یا خبر دی یاارادہ کیا۔اس کے خلاف پر اس کو قدرت ہے یا نہیں سو وہ یوں کہتے ہیں کہ ان باتوں کا خلاف اس کی قدرت قدیمہ سے خارج ہے اور عقلاً محال ہے ان کا مقدور خدا ہونا ممکن ہی نہیں اور حق تعالیٰ پر واجب ہے کہ وعدہ اور خبرکو ارادہ اور علم کے مطابق کرےاور ہم یوں کہتے ہیں ان جیسے افعال یقینا قدرت میں داخل ہیں البتہ اہل السنۃ و الجماعت اشاعرہ و ماتریدیہ سب کے نزدیک ان کا وقوع جائز نہیں ما تریدیہ کے نزدیک نہ شرعاً جائز اور نہ عقلاً اور اشاعرہ کے نزدیک صرف شرعاً جائز نہیں۔
المہند علی المفند ص 76،77 سوال و جواب نمبر25
ہماری بات کو حرمین شریفین اور مصرودمشق کے تقریباً46 علماء نے درست قرار دیا ہے اور یہی ہمارااور اہل بدعت کا اصل نقطہ اختلاف ہے۔ اہل بدعۃ حضرت کے نزدیک ہمارا نظریہ جو عرب و عجم کا مصدقہ ہے کفریہ ہے دیکھیے
1۔ بریلویوں کے مفتی اعظم مفتی احمد یار نعیمی گجراتی لکھتے ہیں: جو یوں کہے کہ رب قادر ہے کہ ولیوں کو دوزخ میں ڈال دے وہ قادر ہے کہ ابوجہل کو جنت میں بھیج دے وہ رب کی حمد نہیں کر رہا بلکہ کفر بک رہا ہے۔
تفسیر نعیمی ج7، سورۃ انعام آیت نمبر 65
2۔ مناظر بریلویہ جناب مولوی اجمل شاہ صاحب لکھتے ہیں:
حضرت نعمانی کے اس قول کا رد کر کے ’’اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ جو خبراس نے اپنے کلام ازلی میں دی ہو اس کے خلاف کرنے سے وہ عاجز نہیں سکتا۔‘‘ (یہاں تک حضرت نعمانی کا ارشاد تھا) اس کے یہی تو معنی ہوئے کہ وہ کلام جھوٹا ہو سکتا ہے اس کی خبریں غلط ہو سکتی ہیں یہ شائبہ کذب ہوا یا نہیں ہوا ضرور ہوا تو صاحب سیف یمانی اپنے قول سے کافر و ملعون ہوا اور اس کے تمام وہ اکابر جن سے یہ عقیدہ لیا ہے وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوئے۔
رد سیف یمانی ص201
اجمل شاہ صاحب ذرا کان کھول کر سنیے گا ہمارا جو نظریہ ہے جس کو آپ کفر قرار دے رہے ہیں۔ یہی نظریہ پیران پیر روشن ضمیر محبوب سبحانی قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے وہ لکھتے ہیں
اگر وہ (فرضاً) انبیاء کرام و صالحین میں سے کسی کو دوزخ میں داخل کر دے تب بھی وہ عادل ہے اور یہ اس کی حجت بالغہ ہو گی ہم پر تو یہی واجب ہے کہ ہم کہیں معاملہ و حکم سچا ہے اور ہم چوں چرا نہ کریں۔ ایسا ہو سکتا ہے اور ممکن ہے اور اگر ہو گا تو حق بجانب ہو گا اور سراپا انصاف ہو گا یہ ایسی بات ہے جو ہو گی نہیں اور نہ اس میں سے کوئی بات کرے گا۔
الفتح الربانی عربی اُردو، مجلس نمبر61، ص584 فرید بکسٹال لاہور
کیوں بریلوی صاحب کیا اگر ہمارا نظریہ اورہمارے اکابر غلط اور اسی بنیاد پر ہماری تکفیر ہے۔ تو ہم نے یہ نظریہ پیران پیر سے لیا ہے۔ اب فتویٰ دیکھتے ہیں کہاں لگتا ہےاور یہی بات آپ کے گھر میں بھی مل جائے گی تو ماننا پڑے گا کہ بریلوی فتویٰ تکفیر کی زد میں بریلوی خود پھنس گئے۔
1۔ بریلوی فقیہ ملت لکھتے ہیں بے شک مغفرت مشرکین تحت قدرت باری تعالیٰ ہے۔
فتاویٰ فیض الرسول ج1 ص2)مصدقہ منشا تابش قصوری
2۔ کاظمی صاحب لکھتے ہیں: نیکوں کو دوزخ میں ڈالنا یا بالعکس اس میں ہمارا کلام نہیں۔
مقالات کاظمی ج2، ص240،241
یعنی خدا تعالیٰ کی قدرت میں یہ بات داخل ہے۔
3۔ بریلویوں کے بڑے علامہ غلام رسول سعیدی کہتےہیں:
اگر وہ تمام کفار پر انعام فرمائے اور ان کو جنت میں داخل کر دے تو وہ اس کا مالک ہے۔ (یعنی کر سکتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے اور اس کی خبر صادق ہوتی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔
شرح مسلم ج7، ص653
شرح مسلم کی تصدیق کرنے والے بریلوی علماء
1۔ سید محمود احمد رضوی دارالعلوم حزب احناف لاہور
2۔ مولوی عبدالحکیم سرف قادری جامعہ نظامیہ لاہور
3۔ مفتی محمد نظام الدین مفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور
4۔ علامہ محب اللہ نوری شیخ الحدیث دارالعلوم حنفیہ فریدپوربصیر پور
5۔ علامہ اشرف سیالوی شیخ الحدیث سیال شریف
6۔ مفتی ڈاکٹر شجاعت علی قادری
7۔ علامہ سعادت علی قادری ہالینڈ
8۔ مفتی محمد گل رحمن برطانیہ
9۔ قادری عبدالمجید شرقپوری برطانیہ
10۔ مفتی محمد خان قادری لاہور
11۔ علامہ خالد محمود کراچی
12۔ مولانا محمد عالم مختار حق لاہور
13۔ مفتی محمد زبیر تبسم ناروے
14۔ مولانا افتخار علی چشتی ہالینڈ
15۔ سید حسین الدین شاہ صاحب پنڈی
کیا بریلوی اپنے ان 19 مولویوں کو کافر کہنے کے لیے تیار ہیں اگر نہیں تو کیوں ؟
الزام برفخرالمحدثین مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ:
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
ان کے پیر ابلیس کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے اور یہ اس کا برا قول خود اس کے بدالفاظ میں ص47 پر یوں ہے:شیطان و ملک الموت کی یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے کہ جسے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے۔
حسام الحرمین ص15
الجواب: ہم حیران ہیں کہ شیطان پر قیاس خود مولوی عبدالسمیع رامپوری نے کیا اپنی کتاب انوار ساطعہ میں اور اس پر تقریظ فاضل بریلوی کی ہے اور نام ہمارا لگا دیا۔
اس سے بڑھ کر کیا شاطرانہ چال ہو سکتی ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان پر قیاس کرنا کیا یہ تعظیم نبوی ہے؟ بریلوی اس بات کا ہمیں جواب دیں شیطان پر قیاس تو رامپوری اور فاضل بریلوی کریں قصور وار ہم ٹھہریں کیوں ؟ کیا بریلویوں کے ہاں شیطان پر قیاس کرنا درست ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو؟
چنانچہ رامپوری صاحب لکھتے ہیں:
ا ن احادیث سے معلوم ہوا کہ ملک الموت ہر جگہ حاضر ہے بھلا ملک الموت علیہ السلام تو ایک فرشتہ مقرب ہے۔ دیکھو شیطان ہر جگہ موجود ہے۔ درمختار کے مسائل نماز میں لکھا ہے کہ شیطان تمام بنی آدم کے ساتھ رہتا ہے مگر جس کو اللہ نے بچا لیا بعد اس کے لکھا ہے۔ واقدرہ علی ذالک کما اقدر ملک الموت علی نظیر ذالک یعنی اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اس بات کی قدرت دے دی ہے جس طرح ملک الموت کو سب جگہ موجود ہونے پر قادر کر دیا…پس اسی طرح سمجھو کہ جب سورج آسمان پر علیین میں موجود ہے۔ اگر وہاں سے آپ کی نظر مبارک کل زمینوں کے چند مواضع و مقامات پر پڑ جائے اور ترشح انوار فیضان احمدی سے کل مجالس مطہرہ کو ہر طرف سے مثل شعاع شمس محیط ہو جائے کیا محال اور کیا بعید ہے۔
(انوار ساطعہ ص357)
حضرت سہارنپوی نے اس کے جواب میں لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے: تمام مسلمان بشمول مصنف شیطان سے افضل ہیں تو کیا اپنا علم شیطان کے دائرہ کار کے علم سے ز ائد مانتے ہیں۔ مولف کے ایسے جہل پر تعجب بھی ہوتا ہے اور رنج بھی ہوتا ہے۔ کہ ایسی نالائق بات منہ سے نکال کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان پر قیاس کیا یہ کس قدر دوراز علم و عقل ہے۔
حضرت نے تو اس پر خوب خبر لی کہ تم نے آپ علیہ السلام کو شیطان پر قیاس کر کے کیوں نالائق بات کہی اُلٹا بریلویوں نے ہمیں کو سنا شروع کر دیا۔
اب مولوی اشرف سیالوی کی سنیے وہ لکھتے ہیں: انبیاء و اولیاء کو اصنام واوثان پر قیاس کرنا اور ان کے متبعین اور اطاعت گزاروں کو بت پرستوں پر قیاس کرنا یہ خالص خارجیت ہے اور مخلوقات میں بدترین مخلوق ہونے کی دلیل۔
گلشن توحید و رسالت ص139، ج2
جب بتوں پر قیاس کرنا خارجیت اور بدترین مخلوق ہونے کی دلیل ہے تو شیطان پر قیاس کرنا اور وہ بھی انبیاء علیہم السلام کو بدرجہ اولیٰ بدترین مخلوق ہونے کی دلیل ہے۔
دوسری جگہ یہی مولوی صاحب لکھتے ہیں: اوثان پر اللہ تعالیٰ کے تقرب اور فضل کے وسائل و ذرائع کو قیاس کرنا سراسر محرومی اور بدنصیبی ہے اور بے دینی و الحاد اور منصب نبوت و رسالت کی توہین و تحقیر ہے۔
گلشن توحید و رسالت ص 164، ج2
یعنی انبیاء و اولیاء کو بتوں پر قیاس کرنا۔ بدنصیبی محرومی بے دینی الحاد و منصب نبوت و رسالت کی توہین و تحقیر ہے تو معلوم ہو گیا کہ شیطان تو ان بتو ں سے بھی گیا گزرا ہے۔ اس پر قیاس کرنا بڑا جرم ہو گا۔
مفتی حنیف قریشی صاحب کہتے ہیں:
جانوروں کے ساتھ کسی جنس کا ذکر کیا جائے تو یہ اس جنس کی توہین ہے۔
مناظرہ گستاخ کون ص54
توکیا شیطان پر قیاس کیا جائے تو یہ درست مانو گے۔
مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
حضور کی شان میں ہلکے لفظ استعمال کرنے ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔
نور العرفان ص345، کتب خانہ نعیمی لاہور
اس سے گھٹیا مثال کیا ہو گی کہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان پر قیاس کیا جائے۔ القصہ یہ بریلوی اصول کی روشنی میں رامپوری اور احمد رضا نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ مگر ہم بریلویوں پر حیران ہیں کہ ان کو تو کچھ نہ کہا اور جس آدمی نے اس کو نالائق حرکت قرار دیا ہے۔ اس کو گستاخ رسول کہنا شروع کر دیا۔اصل عبارت پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے چند باتیں ذہن میں رکھیں۔
1۔ عقائد قیاس سے ثابت نہیں ہوتے۔
2۔ ہم اہل حق اہلسنت شیطان لعین کے دائرہ کار کا علم جو اس کی گندی سوچ پر مشتمل ہے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں مانتے۔
3۔ ملک الموت کی معلومات کہ فلاں کی روح قبض کرنی ہے اور فلاں کی وغیرہ معلومات ملک الموت کی نبی پاک علیہ السلام کو حاجت ہی کیا ہے۔
4۔ اللہ تعالیٰ نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان تمام باتیں بتا دی ہیں۔
5۔ اگر کوئی کہے رقص وغیرہ کا علم فاضل بریلوی کو نہیں لہٰذا فاضل بریلوی صاحب کا علم رقاصہ اور سینما والے سے کم ہے تو بریلوی کہیں گے کہ یہ غلط ہے بلکہ ان کی نسبت ہی بریلوی حضرات فاضل بریلوی کی طرف کرنا توہین سمجھیں گے۔
6۔ اور دنیا کی بعض باتیں جو علم دین سے متعلق نہیں ان کو اگر انبیاء نہ جانیں تو یہ ان کے لیے عیب نہیں۔
7۔ اگر بعض جزوی باتوں کا علم کسی کو ہو اور نبی کو نہ ہو تو اس سے وہ نبی سے بڑھ نہیں جائے نہیں جیسے کہ ہدہد نے آ کر سلیمان علیہ ا لسلام سے کہا تھا ایسی خبر لایا ہوں جو آپ کو نہیں۔
8۔ سیدنا علی ؓ کو حضرت مابور ؓ کے قتل کے لیے بھیجا وہ کنوئیں میں چھپے تھے جب حضرت علی ؓ نے نکالا اور قتل کرنے لگے وہ گر پڑے اور ان کی چادر (تہبند) کھل گئی۔ سیدنا علیؓ کی اچانک نظر ان کے ستر پر پڑی وہ تو نامرد تھے قتل نہ کیا۔واپس آئے آپ علیہ السلام نے تو سارا واقعہ عرض کر دیا۔تو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
الشاہد یریٰ ما لا یری الغائب
مسند احمد
اب کیا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا علم کوئی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کہے گا؟ ہرگز نہیں۔
اب عبارت کو دیکھیےجہاں حضرت نے اس شیطانی قیاس کا جواب دیا ہے جس کو اہل بدعت اچھا نہیں سمجھتےوہ عبارت یہ ہے
’’الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان اور ملک الموت کا حال دیکھ کر (یعنی ان کو جو بعض جزئیات حادثہ دنیاویہ کا علم ہے کہ جن سے ان کا مقصد اغوا اور قبض ارواح ہے۔ وہ ان کو حاصل ہو گیا ہے اور یہ پید ابھی اسی کے لیے گئے ہیں ان پر قیاس کر کے علم محیط زمین فخر عالم کو (یعنی علم غیر عطائی ذاتی آپ علیہ السلام کو مانا جائے تاکہ روئے زمین میں جہاں بھی مجلس موجود ہو وہیں آپ تشریف لائیں۔ ہم نے علم محیط زمین کا مطلب ذاتی علم اس لیے کیا ہے۔ کہ آگے حضرت سہارنپوری نے ص 57 پر خود لکھا ہے یہ بحث اس صورت میں ہے کہ علم ذ اتی آپ کو کوئی ثابت کر کے یہ عقیدہ کرے جیسا جہلاء کا یہ عقیدہ ہے اگر یہ جانے کہ حق تعالیٰ اطلاع دے کر حاضر کر دیتا ہے تو شرک تونہیں مگر بدون ثبوت شرعی کے اس پر عقیدہ در ست بھی نہیں۔  خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کاحصہ ہے۔ (یعنی ذاتی علم کو بغیر کسی دلیل کے نبی محترم کیلئے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے یعنی ذاتی علم کو بغیر کسی دلیل کے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت کرنا شرک ہی ہے جیسا کہ فاضل بریلوی نے خود ملفوظات ص 317میں فرما یا ہے کہ غیر خدا کے لیے کی ایک ذرہ ذاتی علم ماننا کفر ہے۔شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت کہ ملک الموت کا روحوں کو قبض کرنا اور شیطان کا بھاگ دوڑ کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا جس کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں ) نص سے ثابت ہوئی (وہ آپ بھی مانتے ہیں اور آپ نے بھی یہ باتیں لکھی ہیں کہ ان کاموں کے لیے ان کو وسعت دی گئی ہے۔ فخر عالم کی وسعت علم کی(یعنی ذاتی علم جو محیط ہو علم زمین پر) کون سے نص قطعی سے ثابت ہے۔
براہین قاطعہ ص55
اس میں کیاگستاخی ہے؟
1۔ اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم محیط ذاتی ماننا شرک قرار دیا ہے۔ وہ آپ کو بھی مسلم ہے اور یہ قید ہماری نہیں بلکہ حضرت نے اس بحث کے آخر میں خود لکھی ہے کہ یہ بحث اس صورت میں ہے جب علم ذاتی مانا جائے۔
2۔ آپ علیہ السلام کے علوم عالمیہ و کمالیہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ شیطان و ملک الموت کے دائرہ کار کی بات ہو رہی ہے۔
3۔ نصوص قطعیہ میں تو ایسے علوم کو سرکا دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لائق نہیں کہا گیا ہے جیسے شعر گوئی وغیرہ اس لیے شیطانی سوچ وفکر پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو محیط ماننا نصوص قطعیہ کا رد ہے۔
4۔ اور مولانا کے یہ الفاظ کہ ’’یہ وسعت یہ اس بات پر مشیر ہے کہ ان ملک الموت اور شیطان کے دائرہ کار کی بات ہو رہی ہے نہ کہ مطلق اور جمیع علوم کی۔
5۔ یہ بات کہ شیطان کے دائرہ کار کا علم نبی کو ہوتا ہے ہمیں مسلم نہیں بریلویوں کو مسلم ہے۔ مثلاً جاء الحق میں مفتی احمد یار نعیمی نے لکھا ہے۔ حضور علیہ السلام کو تمام جہان والوں کا علم دیا گیا اور جہان والوں میں شیطان بھی شامل ہے۔
جاء الحق ص77
اس لیے بریلویوں کو تکلیف ہے کہ یہ گستاخی ہے ہم کہتے ہیں ان گندی باتوں کا علم ماننا گستاخی ہے نہ کہ انکار۔اس لیے کہ آپ کے جید عالم مولوی اللہ دتہ صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو وہ امور غیبہ جن کا علم ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ان کا علم عطا فرماتا ہے اور کسی کے لیے غیر ضروری معلومات مہیا کرنا حکیم اور علیم کی شان نہیں۔
تنویر الخواطر ص48
آپ کی معتبر کتاب روضۃ القیومیہ میں ہے ہزارہا علوم و معارف اس قسم کے ہیں کہ انہیں انبیاء سے منسوب کرنے سے عار آتی ہے۔
ج1۔ ص160
تو یہ بات ہمیں تو اچھی نہیں لگتی البتہ بریلوی حضرات کو اچھی لگتی ہے تو ان کی قسمت۔ الزام کاخلاصہ یہ تھا کہ یہ شیطان کے علم کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ مانتے ہیں۔ جبکہ یہ بات چور مچائے شور کے حساب سے ہے۔ کیونکہ یہ تو تم نے ہی لکھی ہے اور اپنا آپ چھپانے کے لیے ہمارے نام لگا دی جن کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں گزرا تھا ہم تو اس کو کفر سمجھتے ہیں۔ اب سنیے! فاضل بریلوی لکھتے ہیں
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اوروں سے زائد ہے۔ ابلیس کا علم معاذ اللہ علم اقدس سے ہر گز وسیع تر نہیں۔
خالص الاعتقاد ص6
یہی بات اویسی بہاولپوری نے عقائد صحابہ ص5 رسائل اویسیہ ج2 اور الیاس عطار قادری نے کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب کے ص 245 اور نعیم اللہ خان قادری نے شرک کی حقیقت کے ص132 پر نقل کی ہے۔جس کا مطلب صاف یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا علم اوروں سے تو زائد ہے مگر ابلیس کا علم آپ کے علم مبارک سے وسیع تو ہے مگر وسیع تر نہیں۔
2۔ مفتی احمد یار نعیمی نے معلم التقریر ص95 پر سیدنا آدم کو ابلیس کا شاگرد بنایا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ استاد کا علم طالب علم کم مان کر نہیں آتا زیادہ مانتا ہے تو پڑھنے آتا ہے۔
3۔ اور یہی مفتی صاحب نور العرفان ص 730 پیر بھائی کمپنی لاہور پر لکھتے ہیں: شیطان نے کہا میں پرانا صوفی عابد عالم فاضل اور آدم علیہ السلام نے نہ ابھی کچھ سیکھا نہ عبادت کی۔یعنی علم و عمل میں جناب آدم علیہ السلام سے شیطان زیادہ تھا۔
4۔ اب آپ بتائیں کہ بریلوی حضرات شیطان کے علم کو انبیاء سے زیادہ مانتے ہیں یا کم۔مگر بدنامی کے ڈر سے یہ جرم ہم پر دھر دیا۔وہ مثل مشہور ہے کسی علاقہ میں ناک کٹے کو حرامی کہتے ہیں۔ وہاں ایک ناک کٹا آ گیا اس کو جب یہ معلوم ہوا تو جو آدمی اس کے پاس آتا اس کو حرامی کہتا۔ حالانکہ وہ ناک والے ہوتے تھے صرف اس لیے کہ یہ مجھے نہ کہیں میں پہلے ہی کہہ کے ان منہ بند کر دوں۔
ہم آخر میں اپنا نقطہ نظر المہند علی المفند سے عرض کر دیتے ہیں۔ جو عرب و عجم کی مصدقہ ہے۔
سوال: کیا تمہاری یہ رائے ہے کہ ملعون شیطان کا علم سید الکائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم سے زیادہ اور مطلقاً وسیع تر ہے اور کیا یہ مضمون تم نے اپنی کسی تصنیف میں لکھا ہے اور جس کا یہ عقیدہ ہو اس کا حکم کیا ہے ؟
جواب: اس مسئلہ کوہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کا علم حکم و اسرار وغیرہ کے متعلق مطلقاً تمامی مخلوقات سے ز یادہ ہے اور ہمارا یقین ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلم ہے وہ کافر ہے اور ہمارے حضرات اس شخص کے کافر ہونے کے فتویٰ دے چکے ہیں جو یوں کہے کہ شیطان ملعون کا علم نبی علیہ السلام سے زیادہ ہے پھر بھلا ہماری کسی تصنیف میں یہ مسئلہ کہاں پایا جا سکتا ہے ہاں کسی جزئی حادثہ حقیر کاحضرت کو اس لیے معلوم نہ ہوناکہ آپ نے اس کی جانب توجہ نہیں فرمائی آپ کے اعلم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کر سکتا۔ جبکہ ثابت ہو چکا کہ آپ ان شریف علوم میں جو آپ کے منصب اعلیٰ کے مناسب ہیں۔ ساری مخلوق سے بڑھے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ شیطان کو بہتیرے حقیر حادثوں کی شدت التفات کے سبب اطلاع مل جانے سے مردود میں کوئی شرافت اور علمی کمال حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ ان پر فضل اور کمال کامدار نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ یوں کہنا کہ شیطان کا علم سیدنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے ہرگز صحیح نہیں
جیسا کہ کسی اپنے بچے کو جسے کسی جزئی کی اطلاع ہو گئی ہے یوں کہنا صحیح نہیں کہ فلاں بچہ کاعلم اس متبحر و محقق مولوی سے زیادہ ہے جس کو جملہ علوم و فنون معلوم ہیں۔ مگر یہ جزئی معلوم نہیں اور ہم ہُدہُد کا سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والا قصہ بتا چکے ہیں اور یہ آیت پڑھ چکے ہیں۔ کہ مجھے وہ اطلاع ہے جو آپ کو نہیں اور کتب حدیث و تفسیر اس قسم کی مثالوں سے لبریز ہیں۔ نیز حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ افلاطون و جالینوس وغیرہ بڑے طبیب ہیں جن کو دواؤں کی کیفیت و حالات کا بہت زیادہ علم ہے حالانکہ یہ بھی معلوم ہے کہ نجاست کے کیڑے نجاست کی حالتوں اورمزے اور کیفیتوں سے زیادہ واقف ہیں تو افلاطون و جالینوس کا ان ردی حالت سے ناواقف ہونا ان کے اعلم ہونے کو مضر نہیں اور کوئی عقلمند بلکہ احمق بھی یہ کہنے پر راضی نہ ہو گاکہ کیڑوں کا علم افلاطون سے زیادہ ہے۔ حالانکہ ان کا نجاست کے احوال سے افلاطون کی بہ نسبت زیادہ واقف ہونا یقینی امر ہے اور ہمارے ملک کے مبتدعین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمام شریف و ادنیٰ و اعلیٰ و افضل علوم ثابت کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری مخلوق سے افضل ہیں۔ تو ضرور سب ہی کے علوم جزئی ہو ں کلی آپ کو معلوم ہوں گے اور ہم نے بغیر کسی معتبر نص کے اس فاسد قیاس کی بناء پر اس علم کلی و جزئی کے ثبوت کا انکار کیا ہے۔ ذرا غور توفرمائیے کہ ہر مسلمان کو شیطان پر فضل و شرف حاصل ہے۔ پس اس قیاس کی بناء پر لازم آئے گا کہ ہر اُمتی بھی شیطان کے ہتکھنڈوں سے آگاہ ہو اور لازم آئے گا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر ہو اس واقعہ کی جسے ہدہد نے جانا اور افلاطون و جالینوس واقف ہوں کیڑوں کی تمام واقفیتوں سے اور سارے لازم باطل ہیں چنانچہ مشاہدہ ہو رہا ہے۔ یہ ہمارے قول کا خلاصہ ہے جو براہین قاطعہ میں بیان کیا گیا جس نے کند ذہن بددینوں کی رگیں کاٹ دیں اور دجال ومفتری گروہ کی گردنیں توڑ دی ہیں۔ سو اس میں ہماری بحث صرف بعض حادثات جزئی میں تھی اسی لیے اشارہ کا لفظ ہم نے لکھا تھا تاکہ دلالت کرے کہ نفی و اثبات سے مقصود صرف یہ ہی جزئیات ہیں لیکن مفسدین کلام میں تحریف کیاکرتے ہیں اور شاہنشاہی محاسبہ سے ڈرتے نہیں اور ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ جو شخص اس کا قائل ہو کہ فلاں کا علم نبی علیہ السلام سے زیادہ ہے۔ وہ کافر ہے چنانچہ اس کی تصریح ایک نہیں ہمارے بہترے علماء کر چکے ہیں اور جو شخص ہمارے بیان کے خلاف ہم پر بہتان باندھے اس کو لازم ہے کہ شاہنشاہ روز جزاء سے خائف بن کر دلیل بیان کرے اور اللہ ہمارے قول پر وکیل ہے۔
المہند علی المفند ص 57 تا 60
مزید سنئے!بریلوی جید عالم دین مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی لکھتے ہیں
رہی مولوی خلیل احمد صاحب سہارنپوری مرحوم کی عبارت براہین قاطعہ جس کو مختلف جگہ کے فقروں اور ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک کفری مضمون بنایا ہے یہ آپ کی (اعلیٰ حضرت) دستکاری کا ایک نمونہ ہے۔ کہیں کا فقرہ کہیں کاٹ کر لگا دیا اس کاسیاق و سباق غائب پھر اس میں بھی اپنی تصنیف شامل۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں
مولوی نذیراحمد خان صاحب مدرس مدرسہ طیبہ احمد آباد گجرات نے اول رد براہین قاطعہ کا لکھا تھا جس کا نام بوارق لامعہ ہے جو 1309ء بمبئی مطبع دت پرشاد سے شائع ہوا اس میں براہین قاطعہ کی اصل عبارت کا انہوں نے یہ مطلب کہیں نہ بتایا نہ اس پر حکم کفر بیان کیا۔
انکشاف حق 132
آگے لکھتے ہیں: کیا وہ ہندوستانی زبان اور اس کے محاورات کو نہ جانتے تھے یاوہ کفر و اسلام کو بھی نہ پہنچانتے تھے۔ ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک براہین قاطعہ کی عبارت کا یہ مطلب ہی نہیں تھا جو آپ نے بیان فرمایا ہے۔ ورنہ وہ اس پر ضرور رد بلیغ فرماتے اور اسے احکام کفربتاتے۔
انکشاف حق ص133
مولوی عبدالسمیع رامپوری کی سنیے ! رامپوری صاحب سے جب کہا گیا کہ براہین قاطعہ کاجواب لکھیں تو انہوں نے کئی عذرکیے اور یہ بھی عذر کیا کہ مؤلف براہین قاطعہ نے بہت سے مضامین ایسے لکھ دیئے ہیں جس سے اکثراہل اسلام متوحش اور نفوز ہو گئے اور آگے مختلف باتیں لکھیں مگر اس عبارت کا نام و نشان نہیں معلوم ہوتا ہے اس وقت کے اہل اسلام نے اس عبارت کو قابل گرفت نہ سمجھا۔
دیکھیے انوار ساطعہ ص32
آگے نظر ثانی کا عنوان قائم کر کے اس میں لکھتے ہیں ہاں جو کوئی شبہ صاحب براہین قاطعہ کا واجب الدفع سمجھاجائے گا اب نظر ثانی (انوار ساطعہ) کی کر رہا ہوں خاص اپنی (انوار ساطعہ) میں اس شبہ کو لکھ کر حل کر دیا جائے گا۔
انوار ساطعہ 34
اگر یہ عبارت کفریہ ہوتی تو وہ ضرور اس کو بھی واجب الدفع سمجھتے مگر انہوں نے کئی مقامات پر جوابات دینے کے باوجود اس مقام پر عبارت کو رد بالکل نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان کے علماء نے بشمول رامپوری صاحب یہ عبارت قابل ردو تردید نہ سمجھی اس لیے اس کو نہ رد کیا۔ یہ صرف فاضل بریلوی صاحب کی مہربانی ہے اور عنایت ہے کہ انہوں نے تکفیر کر ڈالی۔ حسد و عناد و بعض و کینہ کی آگ میں جلتے ہوئے۔ اس وقت فاضل بریلوی نے بھی اس کو کفر نہ کہا جب اس پر تقریظ لکھی تھی۔ اور رام پوری کی ہاں میں ہاں ملائی مگر اس عبارت کی تکفیر کا کہیں بھی ذکر نہیں۔
بہذا القدر نکتفی
الزام برحکیم الامت مجدد ملت الشاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ:
فاضل بریلوی لکھتے ہیں: اسی گنگوہی کے دم چھلوں میں سے اشرف علی تھانوی کہتے ہیں۔ اس نے ایک چھوٹی سے رسلیا تصنیف کی کہ چار و رق کی بھی نہیں اور اس میں تصریح کی کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایساتو ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چارپائے کو حاصل ہے۔ اس کی ملعون عبارت یہ ہے کہ آپ کی ذات مقدمہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے۔ یا کل اگر بعض علوم غیبہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید و عمر و بلکہ ہر صبیی و مجنوں بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔
حسام الحرمین ص18
اس میں گستاخی کیا ہے ہمارا یہ سوال بریلویوں سے ہے۔
وہ جواب میں لکھتے ہیں: تھانوی صاحب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پاک کو ہر کس و ناکس زید و عمر و بکر بلکہ مجنون پاگلوں جانوروں کے علم سے تشبیہ دی یا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پاک کو ان کے مساوی بتایا اور اس پر فریقین کااتفاق ہے کہ ان دونوں باتوں میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی توہین اور تحقیر ہے۔
مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا ص34
خلاصۃ الکلام یہ ہوا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھٹیا تشبیہ دینا یا آپ کے علم کو گھٹیا چیزوں کے برابر کہنا توہین و گستاخی ہے۔اب ہم سے سنیئے! حضرت حکیم الامت کی عبارت میں نہ تو آپ علیہ السلام کے علم مبارک کو جانوروں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور نہ ہی ان کے برابر کیا گیا ہے۔
آئیے! بریلویوں کے جید عالم مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی کی سنیئے وہ اسی عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
جناب ابھی تک آپ یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس عبارت میں آپ کے نزدیک تشبیہ ہے یعنی معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو ان مذکورہ اشیاء کے علم کے ساتھ تشبیہ ہے یا برابر ی (کیونکہ ابھی گزر چکا ہے کہ بریلوی کہتے ہیں یا تشبیہ ہے یا برابری 
فاضل بریلوی نے تو برابری کے معنی متعین کیے ہیں۔ چنانچہ اس کا ترجمہ عربی میں مثل کے ساتھ کیاہے۔
مگر جناب کو ان کے بیان کئے ہوئے معنی میں تردد ہے جب ہی تو یہ کہ رہے ہیں۔ کہ تشبیہ دی یا برابر کر دیا۔ نعوذباللہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولوی اشرف علی صاحب کی عبارت میں نہ تشبیہ ہے نہ برابری لفظ ایسا نہ تشبیہ کے لیے متعین ہے نہ برابری کے لیے یہ فاضل بریلوی کی خوبی فہم ہے کہ اپنی رائے سے مقرر کر کے اس پر احکام کفر لگا دیئے۔
سنیئے!اہل زبان ہندوستان کے یہاں لفظ ایسا ہر جگہ تشبیہ کے لیے ہی نہیں بولا جاتا ہے ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ زید نے ایسا گھوڑا خریدا ہے۔ جو اس کو پسند آیا یا زید نے ایسا کام کیا جس سے سب لوگ خوش ہو گئے۔ کہیے کہاں دونوں مثالوں میں لفظ ایسے کے معنی تشبیہ یا برابری کے لیے کب ہوئے پھر چند سطور کے بعد لکھتے ہیں
اگر مولوی شریف الحق صاحب کے بقول تشبیہ ہے تو تشبیہ میں مشبہ و مشبہ بہ میں برابری کیا لازم ہے اہل فن کا مقررہ قاعدہ ہے کہ مشبہ بہ مشبہ سے اقوی ہوتا ہے۔ خلیفہ معتمد باللہ کی مدح میں جو اس مداح حسان مصیصی شاعرانہ اندلس نے کہا تھا۔
کان ابوبکر ابو بکر الرضی
و حسان حسان و انت محمد
یعنی اے محمد وح تیراوزیر ابوبکر ابن زیدون ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مانند ہے اور تیرا مداح شاعر حسان مصیصی حسان بن ثابت مداح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند ہے اور تو خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند ہے۔
اس پر بعض شارحین شفا نے کہا تھا کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر معتمد باللہ کو حسان شاعر نے کہ دیا ہے اس پر علامہ خفا جی نے شرح شفا میں اور علامہ علی قاری نے اپنی شرح شفا میں اعتراض فرمایا اور تشبیہ کی بناء پر دعویٰ برابری کو خلاف قاعدہ مقررہ اہل فن قرار دیا۔
علامہ خفا جی نے نسیم الریاض میں فرمایا کہ ان شارحین کے کلام کو نہ ذکر کرنا ہی بہتر ہے۔ علامہ علی قاری نے فرمایا یعنی اس شعر حسان مصیصی پر شارحین نے مصنف کی تبعیت میں طویل کلام کیا ہے لیکن کلام اشکال سے خالی نہیں اس لیے کہ تشبیہ سے مشبہ بہ کے ساتھ کمال میں برابری لازم نہیں آتی بلکہ قاعدہ مقرر ہے کہ مشبہ بہ اقوی ہوتا ہے۔ سارے حالات میں۔ الخ…
اس میں تصریح ہے کہ تشبیہ میں برابری نہیں ہوتی اگر کسی اعلیٰ درجہ کی چیز کو کسی ادنیٰ درجہ کی چیز سے بغرض سمجھانے مخاطب کو تشبیہ دے دی جائے تو اس کو توہین و تنقیص نہیں کہا جا سکتا۔
صحیح بخاری شریف میں حدیث موجود تھی:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ آپ پر وحی کس طور سے آتی ہے۔ تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبھی کبھی مجھ پر وحی مثل گھنٹہ کے آواز کے آتی ہے۔
غور کیجئے کہ اس حدیث شریف میں وحی الٰہی کے نزول کو گھنٹہ کی آواز کے مثل فرمایا یعنی گھنٹہ کی آواز سے تشبیہ دی ہے حالانکہ گھنٹہ کی آواز کو حدیث شریف میں شیطانی آواز فرما یا گیا ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ
جس قافلہ میں گھنٹہ ہوتا ہے اس قافلے میں رحمت کے فرشتے نازل نہیں ہوتے کیا معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین وحی فرمائی؟
انکشاف حق ص128تا 130
پھر آگے لکھتے ہیں: جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کی پیدائش اور تمام عالم کی بقا کا سبب مان رکھا ہے اور تمام علوم عالیہ شریفہ لوازم نبوت کا جامع مان رہا ہے۔کیا معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کی برابری زید عمر و مجانیں۔ و بہائم و حیوانات کے علم سے کرے گا۔
افسوس عقل و انصاف کو ترک کردینا اور اپنی انفرادی رائے کو تمام اہل علم کی رائے پر ترجیح دے دینا جبکہ مصنف خود اپنی عبارت کے لیے اس مضمون کا انکار صریح کر رہا ہے اور دوسرے اہل علم بھی اس خبیث مضمون کو اس عبارت کے لیے نہیں مانتے اس پر بھی وہی کہنا دین و دیانت کے خلاف نہیں تو اور کیا ہے۔
انکشاف حق ص131
قارئین ذی وقار! مفتی خلیل احمد صاحب قادری برکاتی نے صاف کہہ دیا ہے کہ اس عبارت میں حکیم الامت نے نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک علم کو چوپاؤں کے برابر کہا ہے اور نہ ہی تشبیہ دی ہے۔
اور ہم بھی یہی کہتے ہیں اور یہی بات حکیم الامت نے بھی ارشاد فرمائی کہ لفظ ایسا مطلق بیان کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اللہ ایسا قادر ہے اب یہاں نہ تشبیہ ہے اور نہ برابری۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ گفتگو حکیم الامت رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم مبارکہ کے متعلق نہیں کر رہے بلکہ وہ تو لفظ عالم الغیب پر گفتگو کر رہے ہیں کہ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوعالم الغیب بعض علم کی وجہ سے کہا جاتا ہے تو پھر تو ہر ایک کو کہنا چاہیے کیونکہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ معلومات ہوتی ہے جو کہ بعض علم کہلاتی ہے۔ آخری جملہ جو فاضل بریلوی نے اڑا دیا اس سے یہ بات مفہوم ہو رہی تھی وہ ٹکڑا یہ ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہوتی ہے اگر ٹکڑا لکھ دیا جاتا تو ہر آدمی اس ٹکڑے کو دیکھ کر بات سمجھ لیتا ہے کہ لفظ ’’ایسا علم ‘‘سے نبی پاک علیہ السلام کے علم مبارک کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس آخری ٹکڑے والے علم کی طرف اشارہ ہے۔ مگر فاضل بریلوی تو فاضل تھے۔
اور دوسری خیانت فاضل نے یہ کی کہ ایک ٹکڑا اور عبارت کا آخر سے اُڑا دیا جو یہ تھا کہ تو چاہیے کہ سب کو عالم الغیب کہا جاوے تاکہ لوگوں کا دماغ اس طرف نہ جائے کہ بات اس پر ہو رہی ہے کہ آپ علیہ السلام کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اب ٹکڑا اُڑانے سے لوگوں کو دھوکہ دیا کہ بات آپ علیہ السلام کے علم مبارک کی ہو رہی ہے۔ القصہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے مشورہ دیا کہ بے دین لوگ آپ کی تحریر کی وجہ سے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں عبارت اگرچہ ٹھیک ہے مگر اس کو بدل دیا جائے تو کیا حرج ہے۔تو آپ نے اس مشورہ کو قبول کر کے عبارت کو بدل دیا، اب عبارت یوں ہے
اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کیا تخصیص مطلق بعض علوم تو غیر انبیاء کو بھی حاصل ہیں تو چاہیے سب کو عالم الغیب کہا جاوے۔
تغیر العنوان ص13
مگر بریلویت وہیں کھڑی ہے۔اب بریلویت کے گھر میں چلتے ہیں۔ انہوں نے لفظ ایسا سے دو الزام لگائے۔
1۔ تھانو ی صاحب نے آپ کے علم مبارک کو جانوروں کے علم سے تشبیہ دی۔
2۔ ان کے برابر علم کہا اب ہم بھی بریلوی لوگوں کے گھر سے ایسے الفاظ لاتے ہیں اور پھر دنیا کے غیر جاندار اور سمجھ دار لوگوں کو دعوت فکر دیں گے کہ اگر ہمارے لیے یہ اصول ہے تو ا ن کے لیے کیوں نہیں۔
1۔ مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
کسی کو الو گدھا کہہ دو تو وہ رنجیدہ ہوجاتا ہے اور حضرت قبلہ و کعبہ کہہ دو تو خوش ہوتا ہے حالانکہ الو گدھا بھی مخلوق ہیں اور قبلہ و کعبہ بھی ایسے ہی خالق کے مختلف ناموں میں مختلف تاثیریں ہیں۔
اسرار الاحکام ص52
اب دیکھیے لفظ ”ایسے ہی “کووہ کہہ رہے ہیں جیسے کسی کو الو گدھا کہہ دیا جائے تو اثر پڑتا ہے ایسے ہی خدا کے ناموں سے دم وغیرہ کرنے میں بھی اثر ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے اثر میں خدا کے نام اور اُلو گدھا کے ناموں کو برابر نہیں کیا اور کیا ایسی گھٹیا چیز سے تشبیہ دے کر ان کا ایمان باقی رہا۔مگر بریلویت کو سا نپ سونگھ جائے جو اس عبارت کا جواب دینے کی کوشش کریں۔
2۔ یہی مفتی صاحب اور جگہ لکھتے ہیں: انبیاء نے اپنے آپ کو ظالم ضال خطاوار وغیرہ فرمایا ہے اگر ہم یہ لفظ ان کی شان میں بولیں تو کافر ہو جائیں ایسے ہی حضور سے فرمایا گیا اپنے کو بشر کہو۔
نور العرفان ص802، کتب خانہ نعیمی لاہور
تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں مفتی احمد یار نعیمی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو ظلم اور گمراہی کے برابر کہا ہے یا اس سے تشبیہ دی ہے؟جو فتویٰ حکیم الامت حضرت تھانوی پر لگاتے ہو وہ مفتی احمد یار نعیمی پر بھی لگاؤ۔
3۔ یہی مفتی اور جگہ لکھتے ہیں:
جب لاٹھی سانپ کی شکل میں ہو گی تو کھائے گی پیئے گی مگر ہو گی لاٹھی یہ کھانا پینا اس کی اس شکل کااثر ہو گا ایسے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور ہیں جب بشری لباس میں آئے تو نوری بشر تھے۔یہ کھانا پینا نکاح وفات اسی بشریت کے احکام ہیں۔
نور العرفان ص805 کتب خانہ نعیمی لاہور
کیوں شریف الحق امجدی صاحب ! یہاں بھی لفظ ایسے آیا ہوا ہے تو کیا آپ کے اصول سے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کوسانپ سے تشبیہ نہیں دی جا رہی کیا یہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت مبارک کو سانپ کے برابر نہیں کہا جا رہا۔ یہاں آپ خاموش کیوں ہیں کیا وہ فتوے اور اصول ہمارے لیے ہی ہیں یا یہاں بھی کچھ توجہ فرمائیں گے۔
اور یہ بات گزر چکی ہے کہ حفظ الایمان کی عبارت پر سب سے پہلے مناظرہ مولوی احمد رضا اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے مابین ہوا۔ جس میں بڑی ذلت سے فاضل بریلوی کو دو چار ہونا پڑا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے
انوار مظہریہ ص292
اس وقت حضرت مولانا منظور احمد نعمانی صاحب نے حامد رضا کے اعلان پر کہ اگر یہ ہمارے متعلق ہوتی تو ہم اس پر عدالت میں درخواست دائر کرتے اور ہتک عزت کا پرچہ ان پر کروایا جاتا۔یہی عبارت حامد رضا خان کے نام سے لے کر اپنے رسالے میں چھاپ دی مگر بریلویت کو سانپ سونگھ گیا۔ آج بھی کوئی بریلوی اپنی ضد پر اڑا رہے تو اس کے نام سے یہ عبارت لکھ سکتے ہیں۔
4- مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں:
وہاں سب لوگوں نے اللہ رب العزت کے سوال الست بربکم کے جواب میں بلی کہا تھا لیکن یہاں کوئی شداد کوئی فرعون کوئی ہامان اور ابولہب بن گئے اس کی وجہ یہی ہے کہ عالم ارواح و عالم اجساد کا معاملہ مختلف ہے اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم ارواح میں ملائکہ و انبیاء کے نبی تھے لیکن یہاں نہ کوئی ملک نہ نبی پھر آپ نبی کس کے تھے۔
نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ص62
بریلوی حضرات سے ہمارا سوال یہ ہے کہ یہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل فرعون و ہامان سے نہیں دی جا رہی؟ اس عبارت پررتوخود بریلوی مسلک کے لوگ بھی کہہ اُٹھے
آپ نے بڑی دیدہ دلیری سے اوربے باکی سے سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے عالم ارواح میں نبی ہونے اور بقول آپ کے عالم اجساد میں تقریباً 40 سال تک نبی نہ ہونے کا موازنہ حکم خداوندی کے مطابق جانوروں سے بھی بدتر کفار بلکہ کفار کے سرداروں کے کفر سے کر دیا۔
نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہر آن لحظہ ص 62، 63
اس تشبیہ و برابری پر کیابریلوی علماء نے اس کو کافر کہا؟ اگر نہیں تو کیوں؟
5- فاضل بریلوی سے ایک سوال ہوا کہ ایک عالم نے اپنے وعظ میں کہا۔’’اے مسلمانوں آپ لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں اس کے بعد آپ لوگ خیال کریں کہ قوت ایمانی میں کہا ں تک ضعیف ہو گیا ہے۔ دیکھو کسی حاکم کا چپراسی سمن لے کر آتا ہے۔ تو اس کا کس کا قدر خوف ہوتا ہے۔ حالانکہ حاکم ایک بندہ مثل وشما سمن آدھے پیسے کا کاغذ جس میں معمولی مضمون ہوتا ہے۔ چپراسی 5،6 ر وپے کا ملازم ہوتا ہے۔ مگر حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کے خوف کے مارے لوگ روپوش ہو جاتے ہیں لاچاری سے لینا ہی پڑتا ہے بعد ہ وکیل کی تلاش اور روپے کا صرف کرنا کذا وکذا اور اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین کہ وہم بھر میں تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ اس کا حکم نامہ قرآن پاک و مقدس کہ جس کے ایک ایک حرف پر دس بیس تیس نیکی کا وعدہ ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔الخ
الجواب: حاش للہ اس میں نہ تشبیہ ہے نہ تمثیل نہ اصلا معاذ اللہ توہین کی بو۔
فتاویٰ رضویہ ج15، ص150
اب دیکھیے مولوی واعظ صاحب کہہ بھی رہے ہیں کہ ایک مثال دیتا ہو اور اس میں اس نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال چراسی سے دی ہے۔ مگر فاضل بریلوی نے چونکہ اپنا آدمی تھا اس لیے یہ کہہ دیا کہ کوئی تشبیہ و تمثیل نہیں حالانکہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں مثال دیتا ہوں۔ اس آدمی نے تمثیل مانی بھی ہے مگر نہ اس مثال میں چپراسی سے آپ علیہ السلام کی برابری تسلیم کی جاتی ہے۔اور نہ تشبیہ۔
تو ہم بھی یہی کہتے ہیں ہماری مثال میں اس قسم کی گفتگو نہیں۔ اگر یہ گستاخی نہیں تو پھر ہماری کیوں ہے۔کیا اسی وجہ سے ہے کہ ہم نےدین خالص لوگوں کو سنایا جس سے تمہیں تکلیف ہوئی۔
اصل میں توہین اور گستاخی بریلویت میں بہت ہے مگر چور بھی کہے چور چور کا اصول اپناکر انہوں نے اپنی گستاخانہ عبارات اور توہین پر عشق و محبت کے مدعی ہونے کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور علماء کرام اس فرقہ کی کتب کو جاہل و مجہول سمجھ کر پڑھتے نہیں اور جو بریلویت کو پڑھتا نہیں وہ ان کی گستاخیوں پر مطلع کیسے ہو گا۔
اس لیے علماء کرام سے گزارش ہے کہ ان کی کتب کو پڑھیں اور پھر فیصلہ فرمائیں کہ یہ لوگ گستاخ ہیں یا عاشق۔
ایک اور طرز سے:
بریلوی اس حفظ الایمان کی عبارت پر اعتراض کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کو تشبیہ دی گئی ہےجانوروں کے علم کے ساتھ تو یہ بات برابری کو لازم کرنے والی ہے۔ یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کو جانوروں کے علم سے تشبیہ دینے کی وجہ سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا علم مبارک جانوروں کے علم کے برابر ہے۔ یہ بات احمد رضا خان کی کتب کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے۔تو جواباً عرض یہ ہے کہ ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی اور خلیل احمد رانا جیسے بریلوی اسکالر کا عقیدہ و نظریہ تو یہ ہے کہ
مشابہت سے مساوات بھی لازم نہیں آتی چہ جائے کہ مشبّہ کی برتری کا قول کیا جائے۔
افضیلت غوث اعظم دلائل و شواہد ص86
تو معلوم ہو گیا کہ فاضل بریلوی نے بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ جو کہ قابل معافی جرم نہیں اور یہی جرم اس کے ایمان کو کھا گیا کہ وہ خود اپنے فتویٰ کفرمیں بری طرح پھنس گیا جیساکہ آپ اجمالی نظر میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
مفتی عبدالمجید خان سعیدی لکھتے ہیں: مثال محض تفہیم کے لیے ہوتی ہے مساوات کے لیے نہیں۔
کنزالایمان پر اعتراضات کا آپریشن ص186
مفتی حنیف قریشی کہتے ہیں:
تشبیہ اور استعارہ سے مشبہ و مشبہ بہ کی برابری سمجھنا پرلے درجے کی حماقت و جہالت ہے۔
ص 539، روئیداد مناظرہ گستاخ کون
مولوی ابوکلیم محمد صدیق فانی لکھتے ہیں:
مثال کے بیان سے مقصد کسی بات کو عام فہم انداز میں بیان کرنا مقصود ہوتا ہے یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ جس چیز کے لیے مثال دی جا رہی ہے۔ مثال اس کا عین ہے اور ہوبہواس پر صادق آتی ہے۔ محدث حافظ ابن قیم جوزی لکھتے ہیں
انہ لا یلزم تشبیہ الشی ء بالشیء مساواتہ لہ۔
المنار المنیف ص60 طبع بیروت
(یعنی کسی شے کو کسی سے تشبیہ دی جائے تو یہ لازم نہیں آتا کہ یہ شے اس کے برابر ہے)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: تشبیہ اور استعارہ سے مشبہ اور مشبہ بہ سے برابری سمجھنا پرلے درجے کی حماقت (بے وقوفی ) ہے۔
آئینہ اہلسنت ص 390
مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں:
مثال میں صرف وجہ تمثیل کا لحاظ ہوتا ہے جملہ امور میں اشتراک نہیں ہوتا۔
حاشیہ مناظرہ جھنگ ص52
بلکہ مولانا لکھنوی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ کبھی تشبیہ ناقص کے ساتھ مجرد تفہیم کے واسطے ہوتی ہے۔
مجموعہ فتاوی اردو ج1ص20
ایک اور طرز سے بریلوی عالم کا اعتراض:
بریلوی علامہ سردار احمد فیصل آبادی لکھتے ہیں:
اس ناپاک عبارت میں حضور پرنور شافع یوم النشور کے علم شریف کو بچوں، پاگلوں، جانوروں چارپاؤں کے علم سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کی شان اقدس میں صریح توہین اور کھلی گستاخی ہے۔
دیوبندی سے لاجواب سوالات ص 183،184
یعنی گھٹیا اشیاء کے ساتھ تشبیہ دینا گستاخی و توہین و کفر ہے۔جیسا کہ جید بریلوی عالم اور بریلویوں کے حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں
آپ کی شان میں ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔
ملخصاًنور العرفان ص 345
اب آئیے دوسری طرف:
ہم پہلے بھی چند مثالیں لکھ آئے ہیں کچھ اور بھی عرض کر دیتے ہیں: بریلویت ملت کے قائد مولوی اشرف سیالوی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی مثال کافروں سے دیتے ہیں اور ان کی اس بات پر بریلوی علماء بھی بہت نالاں ہوتے ہیں۔
مثلاً مفتی عبدالمجید خان سعیدی لکھتے ہیں:
مصنف تحقیقات نے جو حدیث لا یقاس بنا احدسے انحراف کرتے ہوئے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت والا معاملہ کافروں، مشرکوں اور منافقوں سے ملا کر جس سوئے ادبی کا ارتکاب کیا ہے وہ اس پر مستزاد ہے حالانکہ نبوت جب سلب سے پاک ہے اور سلب نبوت محال ہے تو اسے غیر نبی اور وہ کافر، مشرک اور منافق کے کفر و شرک اور نفاق سے ملا دینا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ سلب نبوت کے قائل نہ ہوتے تو یہ بات کبھی منہ سے نہ نکالتے اور گندی تشبیہ سے پرہیز کرتے۔
سندیلوی کا چیلنج منظور ہے ص 34
مولوی اشرف سیالوی لکھتے ہیں:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس بشری نسبتاً کثیف تھا اس لیے اس کثافت کو باربار کے شق صدر اوار چلہ کشی وغیرہ کے ذریعے جب لطیف کر دیا گیا تب آپ کو یہ منصب سونپا گیا اس حقیقت کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ دوپہر کے سورج کے آگے سیاہی مائل اور دبیز تہہ والا بادل۔
ملخصاً تحقیقات ص204
اس پر تبصرہ کر کے سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
مصنف تحقیقات نے حضور کے چالیس سال کی عمر شریف تک بالقوہ بمعنی صلاحیت و استعداد نبی ہونے سے بھی صاف انکار کیا ہے اور آپ کی بشریت مقدسہ و مطہرہ منورہ از کی و اطیب کو کثیف قرار دے کر اسے موٹی تہہ والے سیاہ بادل سے تشبیہ دی ہے جو سخت سوء ادبی ہے۔
سندیلوی کا چیلنج منظور ہے۔ 47
مفتی احمد یار نعیمی کو بھی دیکھیے اورا س کی دلیری کو بھی مدنظر رکھیے کہ ام البشر سیدہ حواء علیہا السلام کے متعلق کیا تشبیہ دیتا ہے، کہتا ہے
حضرت حوا کو حضرت آدم کے جسم سے بغیر نطفہ بنایا دیکھو انسان کے جسم سے بہت سے کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں مگر وہ اس کی اولاد نہیں کہلاتے۔
نور العرفان ص 93، النساء آیت نمبر 1
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں:
ظاہری صورت کی یکسانیت دیکھ کر اولیاء انبیاء کو اپنا مثل نہ سمجھو نیم اور بکائن کا درخت یکساں معلوم ہوتا ہے مگر پھلوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
نور العرفان ص 169، سورۃ الانعام آیت نمبر 99
یہاں انبیاء و اولیاء کو تشبیہ بکائن کے کروے درخت سے دی ہے۔
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں
بھڑ اور شہد کی مکی ایک ہی پھول چوستی ہیں مگر یہ پھول کا رس بھڑ کے پیٹ میں پہنچ کر زہر اور شہد کی مکھی کے پیٹ میں پہنچ کر شہد بنتا ہے ایسے ہی ہمارا کھانا غفلت کا باعث ہے اور انبیاء کی خوراک نورانیت کے ازدیاد کا ذریعہ ہے۔
نورالعرفان ص 414، سورۃ المومنون آیت نمبر 32
لفظ ”ایسےہی“ بھی موجود ہے جو بریلوی اصول میں برابری اور تشبیہ دونوں کے لیے آتاہے اور جن بریلویوں کے نزدیک صرف تشبیہ کے لیے آتا ہے وہ بھی دیکھیں کہ انبیاء کرام کو شہد کی مکھی سے تشبیہ دی گئی ہے جوکہ بریلوی اصول سے گستاخی بنتی ہے۔آگے چلئے
مفتی صاحب لکھتےہیں: سانپ اور بھینس اگرچہ اللہ کی مخلوق ہے اس کی روزی کھاتے پیتے ہیں۔ مگر سانپ کے پاس زہر ہے اور بھینس کے پاس دودھ۔ اس لیے آپ سانپ کو مارتے ہیں اور بھینس کی خدمت کرتے ہیں۔ ایسے ہی کفار کے پاس کفرکا زہر ہے اور حضرات انبیاء، اولیاء، علماء کے پاس ایمان کا دودھ۔
تفسیر نعیمی ج3، ص 364، سورۃ آل عمران آیت نمبر 33
مفتی صاحب کا ایک اور ظلم ملاحظہ فرمائیں: جیسے ایک ہی رحم سے مختلف اولاد پیدا ہوتی ہے ایسے ہی ایک ہی تعلیم سے مریدین کے مختلف حالات ہوتے ہیں نگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی تھی۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درجات مختلف۔
تفسیر نعیمی ج 3، ص243، سورۃ آل عمران آیت نمبر6
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں: سچے مرید کا قلب گویا رحم ہے اور شیخ کامل کی نگاہ گویا نطفہ۔
اتنی حقیر چیزوں سے نبی پاک اور انبیاء علیہم السلام کو تشبیہ دینے والا کیا بریلوی اُصول کی رو سے گستاخ نہیں۔
میں بریلوی مناظرین سے پوچھوں گا کہ سیالوی کی تشبیہات کا گھٹیا ہونا تم بھی مانتے ہو کیا اسے کافر و گستاخ اپنے سردار احمد کے فتوے سے کہتے ہو یا نہیں۔
اور اگر اس اصول سے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو معافی نہیں تو مفتی احمد یار نعیمی کو معافی کیوں جو انبیاء کو تشبیہ کبھی بھینس سے اور کبھی کسی سے دیتا ہے۔ اسے معافی کیوں ہے۔ بریلوی اکابرین نے اس کے خلاف کتنی کتابیں لکھی ہیں ؟ آخر کیوں معافی دی۔ بریلوی حضرات شیر مادر سمجھ کر اور گیارہویں کا ٹھنڈا میٹھا دودھ سمجھ کر ان سوالات کو ہضم تو کر سکتے ہیں جواب نہیں دے سکتے۔
آخری بات:
بریلوی حضرات ایک اشکال لا ینحل سمجھ کر کرتے ہیں اور ان کے اکابر نے یہ اشکال اپنی کتب میں لکھا ہے کہ
مولوی مرتضیٰ حسن در بھنگی کا کہنا ہے کہ لفظ ’’ایسا‘‘ تشبیہ کے لیے نہیں ہے بلکہ معنی میں ’’اتنا‘‘ یا ’’اس قدر‘‘ کے ہے۔ البتہ اگر تشبیہ کے معنی میں ہوتا تو توہین نبوت ہوتی جو موجب کفر ہے اور مولوی ٹانڈوی کا کہنا ہے کہ لفظ ’’ایسا‘‘ تشبیہ کے لیے ہے اگر معنی میں ’’اتنا‘‘ یا ’’اس قدر‘‘ کے ہوتا تو توہین رسالت ہوتی ہے۔ جس سے یہ کفر لازم آتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ مولوی مرتضیٰ کی تاویل کی بناء پر مولوی حسین احمد پر کفر لازم آتا ہے اور مولوی حسین احمد کی تاویل و توجیہہ کے پیش نظر مولوی مرتضیٰ کافر ہوتے ہیں۔
خون کے آنسو ص 132۔ مصدقہ مصطفی رضا خان بریلوی
بریلوی حضرات نے جو تحریر لکھی ہے تو ان عبارات کا مطلب بریلوی سمجھے نہیں۔ وہ اس لیے کہ عبارات عقل سے سمجھ آتی ہیں اور یہ سب بھیڑیں ہیں جیسا کہ وصایا شریف میں فاضل بریلوی نے تصریح کر دی ہےاور دنیا جانتی ہے کہ جانوروں میں بھیڑ کو بے وقوف ترین جانور سمجھا جاتا ہے بلکہ دنیا والے بے وقوف لوگوں کو بھیڑ بھی کہتے ہیں۔ خیرہم عرض بھی کر دیتے ہیں کہ کبھی تو اس کنوئیں سے نکل کر باہر آ جائیں گے اور سمجھ لیں گے
مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوری اور مولانا منظور نعمانی رحمہم اللہ نے جو یہ کہا کہ ’’ایسا‘‘ کو تشبیہ کے لیے ماننا کفر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مقدار کو تشبیہ دینا جو آپ علیہ السلام کے علم کی مقدار ہے۔چو پاؤں وغیرہ کے علم سے تو یہ برا ہے۔
یعنی وہ مقدار جو آپ کے علم مبارک کی ہے ویسی مقدار تو چو پاؤں کو بھی حاصل ہے کہنا تو یقینا کفر و الحاد ہے۔
اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ نے لفظ ’’ایسا‘‘ کو جو اتنے اور اس قدر کے معنی میں لینا کفر بتایا ہے تو ان کی مراد بھی یہی ہے کہ جو یہ کہے کہ جتنا علم سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے اتنا اور اسی قدر اور اسی مقدار میں چوپاؤں کوبھی حاصل ہے۔ تو یہ کفر و توہین ہے اب سب حضرات کی باتوں کانتیجہ و مقصد یہ ہے کہ لفظ ’’ایسا‘‘ کو تشبیہ کے لیے مانو یا ’’اتنا‘‘ اور ’’اس قدر‘‘کے معنی میں مانو اگر مقصد یہ ہے کہ جتنی مقدار نبی پاک علیہ السلام کے علم مبارک کی ہے ویسی مقدار جانوروں کے علم کی ہے یا جتنی مقدار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کی ہے اتنی مقدار جانوروں وغیرہا کے علم کی ہے تو کفر ہے۔
اب آپ دیکھیے کہ نہ تو فتو یٰ شیخ العرب و العجم حضرت مدنی پرآیا اور نہ حضرت چاند پوری و نعمانی رحمہم اللہ پر لگتا ہے بلکہ دھوکا دینے والے رضاخانی حضرات پر لگتا ہے۔تفصیل کے لیے جہنم کی بشارت کو ملا حظہ فرمائیے۔
ہم نے ضرورت کے بقدر بحث کر دی ہے اگر اور ضرورت محسوس ہوئی تو پھر مزید بھی لکھ دیا جائے گا۔ ان شاء اللہان ارید الا الاصلاح ما استطعت و ما توفیقی الا باللہ وصلی اللہ وسلم علی حبیبہ سیدنا و مولانا محمد والہ واصحابہ اجمعین