تحفظ ناموس رسالت …تمام مکاتب فکرکااتحاد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تحفظ ناموس رسالت …تمام مکاتب فکرکااتحاد
قافلہ حق ،جنوری، فروری، مارچ 2011ء
ایک بارپھرتمام دینی جماعتیں تحفظِ ناموس رسالت کے لیے متحد ہوچکی ہیں۔ ناموس رسالت اس وقت اہل اسلام کے لیے سب سے اہم ایشوہے۔ قانون توہین رسالت میں ترمیم کرنے کے لیے بعض ناعاقبت اندیش حکمران چند ٹکوں کے عوض اپنے ایمان کوداؤ پر لگارہے ہیں اور شیریں رحمن صاحبہ، گورنرپنجاب سلمان تاثیر اوردیگر ان کے ہم نوا یہ چاہتے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کر لی جائے۔ گورنر پنجاب نے یہاں تک اپنے خُبثِ باطن کا اظہار کیا ہے کہ ’’یہ کالاقانون ہے۔‘‘العیاذ باللہ۔
کوئی روشن خیال اس جرم توہین رسالت کے مرتکب پرنافذ کردہ سزاکے بارے میں کہتاہے کہ ’’یہ ظلم ہے ، اسلام محبت اورروا داری کاسبق دیتاہے“ اورکوئی یوں ہذیان بکتےبکتے منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے کہتا ہے ’’یہ دقیانوسیت ہے ،اسلام میں امن وآشتی اورباہمی الفت کادرس پنہاں ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام رواداری اورمحبت کاعلمبردارہے۔ امن وآشتی اور باہمی الفت اس کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہیں۔ لیکن قرآن کریم کی ترتیب کے مطابق رحماء بینھم بعدمیں ہے۔ اشداء علی الکفار پہلے ہے۔
جب ظلم بڑھ رہاہو، شرک والحاد کے بھوت منہ کھولے کھڑے ہوں، جب ڈکیتی، قتل و غارت،لوٹ کھسوٹ،دنگا فساد ، رشوت ستانی ،سودخوری ،دین اسلام کا مذاق، صحابہ کرام، اہل بیت و ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، قرآن کریم، اسلام کی مقتدر شخصیات پر تبرابازی اورپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور توہین اورمعاشرتی اوراخلاقی جرائم عام ہونا شروع ہوجائیں تواسلام کے حدود و قصاص کے قوانین کو عمل میں لانا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
جب اعداء اسلام؛ دینِ اسلام کو مٹانے کے لیے کمربستہ ہو جائیں اور اسلام کے شعائر کامذاق اڑاناشروع کردیں۔ تو اسی امن و آشتی کے علمبرداراسلام کا حکم ہے فاضربوافوق الاعناق ان کی گردنوں پرمارو۔ نہیں بلکہ واضربوامنھم کل بنان ان کے جوڑ جوڑ پر مارو۔ جب قتل وغارت گری شروع ہوتو
ولکم فی القصاص حیوۃ
کا زریں اصول بھی اسلام ہی کاہے۔ جب شراب خوری معاشرے میں جنم پانے لگے توحد شرب خمر کا حکم بھی اسلام دیتاہے۔ جب چوری جیسی لعنت پھیلنے لگے توہاتھ کاٹنے کاحکم بھی یہی اسلام دیتا ہے۔ الغرض ہر جرم کے مطابق سزا کا قانون خودخالق لم یزل نے مرتب کردیاہے۔
پوری دنیامیں کوئی ملک ایسانہیں جہاں جرائم کے سدباب کے لیے قوانین موجودنہ ہوں۔ ہر قوم میں اپنے مقتدرشخصیات کی عزت وعظمت اوراحترام کے قوانین موجودہیں اور جو کوئی بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتاہے تو اسے سزا کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔
اسلام بھی ایک سچااور کھرادین ہے۔ احترام آدمیت کاجتنا اسلام محافظ ہے اتناکوئی اور مذہب نہیں ہے۔ اسلام ایک عام انسان کی بھی عزت وحرمت کانگہبان ہے اورمعاملہ جب پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کاآجائے تو پھراسلام حکم دیتاہے کہ ان کے گستاخ اوران کے بارے میں یاوہ گوئیاں کرنے والا کعبۃ اللہ کے غلاف میں چھپا ہواملے تو بھی اسے قتل کر ڈالو۔ قانون توہین رسالت تمام قوانین میں سب سے زیادہ چمکتا دمکتاقانون ہے۔والئ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اورناموس کامسئلہ توتمام مسائل میں سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ اس پر کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ مسلمان بے عمل ہوسکتاہے اوربد عمل بھی ہوسکتاہے لیکن عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہر گز نہیں ہوسکتا۔ بلکہ میراعقیدہ ہے کہ جوشخص محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہے وہ مسلمان کہلانے کامستحق نہیں۔
قانون توہین رسالت میں ترمیم کابل اسمبلی میں پیش ہوچکاہے انگریز کے حاشیہ بردار حکمران تمام اہل اسلام کے جذبات ایمانی سے کھیل کراس میں تبدیلی لاناچاہتے ہیں اور میرا قلم بھی اس کیفیت کولکھنے میں ہمت ہارجاتاہے کہ کیسے! آخر کیسے!!! یہ لوگ دشمن رسول کوخوش کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوناراض کرنے کایاراکرلیتے ہیں۔ کیاضمیرمردہ ہوچکے ہیں کیا اقتدار اور دولت کا نشہ اس قدرمست کیے ہوئے ہے کہ ایمان بھی یادنہیں؟
اللہ جزائے خیردے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین واراکین کوجنہوں نے بر وقت معاملہ کی حساسیت کوبھانپتے ہوئے آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس انعقادعمل میں لایا۔ کانفرنس میں راقم کوبھی مدعوکیا گیا تھا۔ میں یہ بات کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ منتظمین نے ہرحوالے سے اس کانفرنس کوکامیاب بنانے میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ یقینا لائق تحسین بھی ہیں اورقابل تقلید بھی۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مولانا عبدالمجیددامت برکاتہم نے اپناترجمان مولانا فضل الرحمن کو منتخب فرمایااوریقیناوہی اس کے اہل تھے۔ مولاناکی بصیرت افروز ،نپی تلی اور جامع مانع گفتگونے شرکائے کانفرنس کے حوصلوں کو پھر سے جوان کردیا۔ محترم قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے نقابت کے فرائض بڑی ہی متانت سے سر انجام دیے۔
کانفرنس میں شریک تمام مکتبہ فکر کے قائدین نے ناموس رسالت کے لیے اتحاد کا اعلامیہ دیا۔ دینی، مذہبی، اسلامی، مسلکی اورسیاسی جماعتوں کایوں آپس میں کسی مسئلہ پرمتحدہوناہی اس مسئلہ کی اہمیت بتلانے کے لیے کافی ہے۔میں ان تمام علمائے کرام کاجنہوں نے بڑی سنجیدگی سے اس معاملہ پر پالسیاں وضع کیں اورایک لائحہ عمل طے کیا، دل سے شکرگزارہوں کیونکہ ہماراماٹویہ ہے کہ اسلام ہر چیز پر مقدم ہے عقائد ونظریات کے سامنے سیاست کوایک بار نہیں لاکھ بارقربان کیاجاسکتاہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ بعض عیسائیت زدہ دماغ عام طور پر سوچتے ہیں کہ یہ دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث ہیں۔ یہ آپس میں ہی لڑیں گے اورہماری جان چھوٹی رہے گی۔
خبردار! اگر کسی نے یہ مفروضہ گھڑکراپنے ذہن پرسوارکررکھاہے تووہ اپنی اس غلط فہمی کو دور کرلے۔عیسائیت کے مقابلے میں ہم ایک گھر میں بیٹھے ہوئے افراد ہیں۔ ہم تم سے لڑیں گے پھر گھر بیٹھ کرآپس میں دلائل کے ساتھ تصفیہ کرلیں گے۔ اوراللہ اللہ خیرسلا۔ہم ناموس رسالت کے لیے ایک ہوچکے ہیں۔ ہم ختم نبوت کے لیے بھی ایک ہوچکے ہیں، بلکہ میری اس بات سے اہل انصاف اتفاق کریں گے کہ دیگر اجماعی مسائل وعقائد میں بھی ہمیں ایک ہونا چاہیے۔

حالات یہ کہتے ہیں عجب وقت پڑا ہے ……ہر شخص خدا ہے

 
اس شہر خرابات کے احکام نئے ہیں……پیغام نئے ہیں
صیاد پرانے مگر دام نئے ہیں………الزام نئے ہیں
بے حال کیا معرکہ روح و بدن نے……احوال چمن نے

چرکے بھی لگائے ہیں عزیزانِ وطن نے…یارانِ کہن نے

 
اے اہل قلم ! میں تو قلم توڑ رہا ہوں ……سر پھوڑ رہا ہوں

رہوار خطابت کی عناں چھوڑ رہا ہوں……رخ موڑ رہا ہوں

 

اے خاصہ خاصانِ

رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

 
والسلام
محمد الیاس گھمن
لاہور میں کل جماعتی ناموس رسالت کانفرنس
18دسمبر2011ء کوجمعیت علماء اسلام(س) گروپ کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس کا لاہور میں انعقادکیاگیا۔ کانفرنس میں علماء، عمائدین علاقہ اورسیاسی طبقہ کی کثیرتعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کا ایجنڈا ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی طرف سے شان رسالت میں گستاخی اور اس پر عدالت کی طرف سے سزا اور پھر اس سزا کے فیصلے کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی طرف سے غلط قرار دیے جانے پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنا تھا۔
اتحاد اہل السنۃو الجماعۃ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا عبدالشکور حقانی نے محفل کو زینت بخشی۔ ان کے ہمراہ مولانارضوان عزیز بھی تھے، مولاناعبدالرؤف فاروقی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے مولانا عبدالشکور حقانی دامت برکاتہم نے اپنی تجاویز یہ پیش کیں کہ:
1: ایساقانون بنایاجائے کہ جس میں مقتدرشخصیات کی توہین کرنے والے کوقرارواقعی سزا دی جائے۔
2: سلمان تاثیرنے عدالت کے فیصلے کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ صحیح نہیں‘‘ اس طرح جہاں اس نے توہین رسالت کی مرتکب خاتون کی حوصلہ افزائی کی ہے وہیں اس نے توہین عدالت بھی کی ہے۔ کیونکہ اس سزا پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اس کے بعد قانونی طورپرمعاملہ کوہائی کورٹ اوربعد میں سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتاہے۔ لیکن گورنرنے صاف کہاکہ یہ فیصلہ غلط ہے۔ لہذا گورنر سلمان تاثیر کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکیاجائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ہمارے ملک میں عدلیہ آزاد ہے۔