سال نو کا آغا ز

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سال نو کا آغا ز
ماہنامہ فقیہ، فروری 2012ء
اسے حسن اتفاق کہیے یا حسن ترتیب کہیے سال نو کا آغا ز اپنے ساتھ فقہاء کی عظمت کا نیک شگون لئے طلوع ہوا ہے۔ فقہاء کرام کی مساعی جمیلہ اگر چہ عر صہ دراز سے تا ریخ کی زینت بن کر سرد خانے میں پڑی تھیں اور زمانہ تیز روی سے گرد اڑا تا ہو ا جا رہا تھا انسانیت جدید چکا چوند سے نشان منزل گم کر چکی تھی اگرچہ یہ بےرحم سرچ لائٹس جو ریسرچ کے نا م پر اندھیرا پھیلانے میں مصروف ہیں ان کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ قافلہ انسانیت صحراء زیست کےسرا بوں میں یوں ہی بھٹکتا رہے۔
سو ہم نے یہ سوچا جب تک ان پرا نے چرا غوں کی محبت بھری لو سے راہ عمل متعین نہ کی جا ئے تب تک سوا ئے گمرا ہی بے راہ روی اور اسلا ف سے بد گمانی کے اور کچھ حاصل نہ ہو گا لیکن اس "جب اور تب "کا در میا نی فاصلہ ختم کر نے کےلئے دوں ہمتی کو خیر آبا د کہتے ہو ئے میدا ن میں اترنا ہی تھا۔ سو الحمد للہ ہم نے اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے اس میدا ن میں قدم رکھا اور دفاعی حا لت سے نکل کر حا لت اقدا م میں آئے اور طرز کہن کو خیر آبا د کہتے ہو ئے جدیدیت سے متا ثرہ طبقہ کو فقہاء کرا م سے آشنا کر نے کے لئے سر دست محدود وسا ئل کے ساتھ دو اہم کام کئے اور یہ دونوں کام الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے متعلق ہیں۔
جہا ں تک با ت الیکٹرونک میڈیا کی ہے تو اس کے ذریعے دعوت کا کام بحمد اللہ عرصہ سے جاری ہے اور اس سال کے آغا ز ہی میں 8جنوری 2011ء لاہور فور سیزن ہوٹل میں "مقام فقہ "کے عنوان سے ایک سیمینا ر منعقدہوا جس میں صرف ڈاکٹرز اور وکلا حضرات مدعو تھے۔ انہیں فقہ کی اہمیت سے روشناس کروایا گیا۔ ڈا کٹر علامہ خالد محمود صا حب پی۔ ایچ۔ڈی۔ لندن نے اور بندہ نے اس حوا لہ سے کچھ تجاویز پیش کی۔یہ با رش کا پہلا قطرہ تھا جو فقہ سے بے تعلق زمینوں کی پیا س کوبجھا نے کےلئے کود پڑا ہے۔ ان شاءاللہ اس بابر کت موسلا دھا ر با رش سے بنجر زمینیں سیراب ہو کر سبزہ زار ہو ں گی اور پیاسی روحیں اپنی تشنہ لبی کو شاد کر ےگی۔
الیکٹرا نک کے بعد دوسرا مر حلہ ایسے پرنٹ میڈیا کا تھا جو صرف فقہاء کی عظمت وخدما ت کو اجاگر کرتاہو۔ سو اس کےلئے"ماہنامہ فقیہ "کا اجرا ء کیا جا چکاہے جس کا دوسرا شما رہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ اس سال کے آغاز میں چو لی دا من کا ساتھ لیے ہو ئے دونوں کا م جو خد مت دین کے لئے معروف ہیں، منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئے ،خدا انہیں ہمیشہ ترو تا ز ہ رکھے۔
تحدیث بالنعمۃ:
اول یہ کہ ہم اللہ کی اس نعمت کاشکر ادا کرتے ہیں کہ اس عدیم الفرصتی کے دور میں پابندی وقت کو اپنا شعار بنایا ہے اور ہما ری جماعت کی سر پرستی میں ہو نے والا ہر پرو گرا م پا بندی وقت کا ایک شاہکار ہوتا ہے۔ ہم پروگرا م کا انعقاد کر کے دعوت با دیہ پیمائی دے کر محمل نظا رہ آبلہ پا ئی نہیں کرتے بلکہ اول سے آخر اپنے تمام پروٹو کولز کو ترک کرکے خا لص دعوتی طرز پر تمام انتظا مات میں مصروف رہتے ہیں اور وقت سے شروع ہو کر مقررہ وقت پر ہی ہما را پروگرا م ختم ہو تا ہے۔ اس پابندی وقت پر میں اپنے رفقاء کوڈھا لنا ،اچھالنا اور اجالنا نہیں چا ہتا کیو نکہ ہر شخصیت ذاتی خو بیوں سے بنتی ہے الفا ظ کے اسراف سے نہیں اور راقم اس با ت پر خدا کا شکر گذا ر ہے کہ اس نے مجھے ایسے رفقاء عطا ء فر ما ئے جو ان خو بیو ں سے مزین ہیں۔
ہما ری پا لیسی:
چونکہ تحریکوں کے عروج وزوال پرنظر رکھنے والے کسی بھی شخص سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ نظریاتی تحریکیں جو عقائد کے تحفظ کے لئے بنا ئی جا تی ہیں ان میں سیاست کبھی بار آور نہیں ہو تی اور عسکری قوت سے اپنے نظریات دوسرو ں پر تھونپنے سے نظریاتی فصل کبھی شاداب نہیں ہوتی۔ اس لئے ہما ری تحریک کی پالیسی ہی یہ ہے جس پر ہم سختی سے کا ر بند ہیں کہ عملاً سیاست اور عسکریت سے کنا رہ کش ہو کر خالص علمی ماحو ل میں خد مت دین کے فریضے کوسر انجا م دیا جا ئے تاکہ علمی تحریک تشدد کا شکار ہو کر اپنے خا لص علمی اہدا ف سے نہ ہٹ جا ئے۔ اس لئے ہم نے اپنی پا لیسی کوعلی الاعلان واضح کیاہے کہ ہم عملاً سیا ست اور عسکریت سے کنا رہ کش محض پرامن طریقہ سے علمی کا م کر نے کے داعی ہیں۔
دشمن کی چال اور ہما رے سیدھے سا دے بھا ئی:
دنیا کے قدیم مذاہب میں ایک مذہب عیسائیت ہے لیکن پیش آمدہ روز مرہ کے مسائل کو حل کرنے سے یہ مذہب عا جز ہے اس لیے کہ ان کا دین اجتہادکی نعمت سے محرو م ہے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جس میں ہمیں تغیر پذیر انسا نیت کے تقاضوں کو شریعت کے مطابق پورا کر نے کےلئے قرآن وسنت اجماع اور قیا س شرعی جیسے چا ر اصو ل عطاء فر ما ئے جن سے ہمارے فقہاء کرا م نے ہما رے ہزارو ں مسا ئل کا حل پیش کیا ہے۔
فجزاہم اللہ عن المسلمین احسن الجزاء۔
ہما رے کچھ بھا ئی عیسائیت سےمتا ثر ہو کر اجما ع اور قیاس شرعی کا انکا ر کر بیٹھے اور تقریبا ً ایک صدی سے زائد عرصہ تک ان کی محنت اجما ع اور قیا س کے انکار پر مبنی رہی ، اب الحمد للہ ہما ری اس مختصر سی مگر پر خلوص کا وش سے ان حضرات نے بھی اجماع اور قیا س شرعی کو ماننا شروع کردیا ہے۔ بقول شا عر
لجھا گئے شرما گئے دامن چھڑا گئے

اے عشق تیرا شکریہ یہا ں تک تو آ گئے

 
ہما رے ان فقہاء کرام کی یہ خد مات بلا شک وشبہ تا ریخ اسلامی کا ایک زریں کارنامہ ہے مگر جیسے کہ مولانا حسرت موہانی نے فر ما یا تھا کہ مسلمان قومی خدما ت کی صرف سزا دے سکتے ہیں جزاء تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ کا ش ہما ری قوم اپنے فقہاء کرام اور ان کی مساعی جمیلہ کی قدر کرنا سیکھتی۔
کرنے کا کام اور ہمارا المیہ:
ہماری قوم کا اخلاقی مذاق چونکہ معصیت زدہ ماحول کے باعث نیکی سے روز افزوں دور ہو رہا ہے اس لئے اگر نہاں خانہ دل میں چھپی ایمان کی روشنی اگر کسی نیکی پر اکساتی ہے تو معاشرے کی آزاد روی کسی تھری پیس سوٹ میں ملبوس مغرب زدہ مفکرکے آستانے پر اس نیک خواہش کو ذبح کر دیتی ہے اور روحا نیت اور تعلیم دین کے پھول چننے کے خواہش مند ان ڈاکٹرز اسکالرز اور جدیدیوں کے پھیلائے کانٹوں سے اپنا دا من ایمان تارتار کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس رہزن کو پھر رہبر بھی سمجھتا ہے اور متاع ایمان ویقین لٹوا کر بھی اسے احساس زیاں نہیں ہوتا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

 
اور ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم افکار اسلاف کو لباس اسلاف ہی میں بیا ن کرتے ہیں لوگو ں کے داد وتحسین کےحصول کےلئے مسجد پر مندر کی پیوند کا ری نہیں کرتے۔ ہمیں تو محبوب خدا کی ہر ادا ء اپنی جا ن سے محبوب ہے۔ کاش مغرب زدہ طبقہ بھی ان اغیار کی ایجنٹوں کو پہچاننے ، اور اپنے گھر کے افراد کی قدر کر نا سیکھیں۔

غیروں سے مانگتے پھرتے ہیں مٹی کے

چراغ

اور خود اپنے خورشید پہ سائے پھیلا دیے ہیں

 
کسی بھی شعبہ کی ترقی میں ظا ہری اسباب کو ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے جس بے سرو سامانی کے عا لم میں ہر علمی محا ذ پر دفاع حق کا مقدس فرض سر انجام دینا شروع کیا ہےاور اب تک بے شما ر ما لی مشکلات کے باوجود بحمد اللہ ہم رواں دواں ہیں، بس یو ں سمجھئے کہ فی الحال اتبا ع پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میں ابھی ہم مکی دور سے گذر رہے ہیں۔ اللہ تعا لی سے دعا ہے کہ ہمارے تمام شعبہ جات میں خصوصی فضل والا معاملہ فر ما ئے۔
آمین بجاہ النبی الکریم
والسلام
محمد الیاس گھمن