تیری رہبری کا سوال ہے؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تیری رہبری کا سوال ہے؟
اسلام سے دوری کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں ، کسی گھر ، محلہ ، شہر ، قصبہ اور کسی ایک ملک کی ہی بات نہیں بلکہ پوری دنیا فتنہ و فساد کی لپیٹ میں ہے۔ پچھلے دنوں میں چند ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جس سے ہر آنکھ پرنم ہوگئی۔
زندہ دلان لاہور میں 5 سالہ اور فیصل آباد میں 12 سالہ دو بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ہرشخص نے ان درندہ صفت لوگوں کو لعن طعن کیا۔ بہت سارے لوگوں نے دامن پھیلا پھیلا کر بددعائیں دیں۔
واقعی بہت دکھ کی بات ہے۔
یہ غم ہے ، دکھ ہے ، المیہ ہے ، سانحہ ہے ، معاشرے میں پروان چڑھتا ظلم ہے ، رواج پاتا جرم ہے۔ سب کچھ درست ہے۔ لیکن ان باتوں کا محض تذکرہ کرنے سے کیا ہوگا؟ روایتی سیاسی بیان بازی شروع ہوجاتی ہے: ہم اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں ، گہرے دکھ و رنج کا اظہار کرتے ہیں ، ہم سب کے دل زخمی ہیں ، مجرم یوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کے لواحقین سے یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم ان کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔یہ باتیں بے بسی کی دلیل ہوا کرتی ہیں۔ محض مذمت کافی نہیں ، ایسے بدبختوں کو حکومت وقت گرفتار کرے ، ان کو قرار واقعی سزا دے ، ننگ وطن ننگ ملت اور ننگ انسانیت کے چہرے بے نقاب کرکے مظلوموں کی اشک شوئی کرے۔
ہاں !ایک بات اس سے بھی اہم ہے۔ ان تمام واقعات میں محض آئینی ، قانونی اور انتظامی اداروں کو کوسنا ، فوج اور پولیس کو بے نقط سنانا ہی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتا۔ اپنی اداؤں پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ اپنے رویّے اور طرز ِمعاشرت میں بھی تبدیلی لانا پڑے گی ، زمینی حقائق سے آنکھیں چرا کر ہم خود کو دھوکہ تو دے سکتے ہیں لیکن اس سے ذلت و پستی کی دلدل سے نکل نہیں سکتے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہمارے گھروں میں ، ہماری سوسائٹی میں اور ہماری عملی زندگی میں بہت سارے ایسے عناصر بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں ہم نظر انداز کر کے آگے کی طرف چل دیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ، دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود کے حوالے سے ہماری کوتاہیاں بھی ناقابل معافی جرائم کی فہرست میں سر فہرست ہیں۔ہماری لاپرواہی اور عدم نگہداشت کی کوکھ سے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن کا نزلہ صرف چند افراد پر گرا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان جیسے واقعات میں ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں ٹھہرا سکتے۔
اس لیے بچوں کے سرپرستوں اور بالخصوص والدین سے گزارش ہے کہ وہ ان کی اخلاقی اور تعلیمی تربیت میں سستی سے کام نہ لیں۔ اپنے فرائض بھی نہ بھلائیں۔ آئینی و قانونی اداروں …اگرچہ جیسے کیسے بھی ہیں… پر سارے کا سارا فساد معاشرہ کا بوجھ لادنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی کرنا چاہیے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی تعلیم اور ماحول میں پرورش پانے والوں نے معاشرے کو سکون و راحت اور چین دیا ہے اور غیر اسلامی ماحول میں نشو و نما پانے والوں کے زہریلے جرثومے مہلک اور جان لیوا ثابت ہوئے ہیں۔ ہمیں دوسروں کو احساس دلاتے وقت خود کو بھی انصاف کی کٹہرے میں کھڑا کر کے سوال کرنا چاہیے۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟

مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے