یہ میرا پاکستان ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
یہ میرا پاکستان ہے
14 اگست صبح دس بجے مرکز اہل السنت والجماعت سرگودھا میں” استحکامِ پاکستان سیمینار“ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ مرکز کی وسیع و عریض عمارت اور پنڈال میں ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ مرکز اہل السنت کا تمام عملہ اپنی اپنی ذمہ داریاں بھی نبھا رہا تھا
اور آزادی وطن کی مسرت ان کے چہروں پر چھلک رہی تھی۔ سرگودھا شہر اور مضافات سے مذہبی ، سماجی اور سیاسی حلقوں نے نہ صرف اس میں بھر پور شرکت کی بلکہ اس اقدام کو” جذبہ حب الوطنی“ قرار دے کر خوب سراہا۔
استحکامِ پاکستان سیمینار کے اختتام پراستحکامِ پاکستان ریلی کا افتتاح تھا۔ ریلی ٹھیک وقت مقرر پر مرکز اہل السنت والجماعت 87 جنوبی سے شروع ہوئی اور پورے شہر کا چکر لگاتے ہوئے کمپنی باغ سرگودھا میں جا کراس کا اختتام ہوا۔استحکام پاکستان سیمینار اور ریلی میں مذہبی اور سیاسی و سماجی قائدین نے وطن کی تعمیر ، ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا اور اللہ کے حضور خوب دعائیں بھی مانگیں۔ اس دوران میرے اور شرکاء کی سماعتوں نے جن الفاظ کو بارہا اپنے دامن میں پناہ دی وہ یہ تھے: ” یہ تیرا پاکستان ہے۔۔۔ یہ میرا پاکستان ہے۔” اس ترانے میں بانیانِ پاکستان کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور اس ارضِ وطن کے لیے جانوں کی قربانی پیش کرنے والے شہدا کا ذکر خیر بھی موجود ہے۔ وقفے وقفے سے باسیانِ وطن کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ نعرہ بھی بلند ہوتا رہا۔
پاکستان کا مطلب کیا؟۔۔۔۔۔۔ لاالہ الا اللہ
تیرا میرا رشتہ کیا؟۔۔۔محمدرسول اللہ
یومِ آزادی منانے والے متوالوں نے 1947 ء کا وہ 14 اگست بھی یاد کیا جب اس کو اغیار کی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی۔
جس آزادی کے لیے مسلمانوں نے ہندووں اور سکھوں کے جبر و جور کو برداشت کیا ، جس آزادی کے حصول کے لیے فرنگیوں کے تشدد اور جفاؤں کو سہا جاتا رہا ، جس آزادی کے لیے اسلام کی بیٹیوں کی عزتیں تاراج ہوئیں ، جس آزادی کے لیے دودھ پیتے بچے جان کی بازی ہارتے رہے ، جس آزادی کے لیے بوڑھوں کے ناتواں لاشے گرتے رہے ، جس آزادی کے لیے بہنوں کے سہاگ لٹتے رہے۔ جس آزادی کے لیے مساجد گرائی جاتی رہیں ،قرآن جلائے جاتے رہے ، مدارس اور تعلیم گاہوں کو مسمار کیا جاتا رہا ، جس آزادی کے لیے قربانیوں کی داستانیں رقم ہوتی رہیں۔وہ آزادی۔
ہاں !وہ آزادی۔۔۔ جس میں ہمارے دین کا تحفظ ، ہمارے عقائد و نظریات کا فروغ ، ہمارے کلچر اور تہذیب کی بقاء تھی ، وہ آزادی جس میں ہمارے معاشرے کی آبرو محفوظ تھی ، وہ آزادی جس کے خیموں میں امن کے چراغ روشن کرنے تھے ، وہ آزادی جس کے محلات میں شعور و آگہی کی قندیلیں لٹکانی تھیں ، وہ آزادی جس میں علم کی شمعیں جلانی تھیں ، وہ آزادی جس میں محبت و ہم آہنگی کی معطر ہوائیں چلانی تھیں ، وہ آزادی جس میں اتحاد و اتفاق کی فصل کاشت کرنی تھی۔ وہ آزادی جس میں اپنے خوابوں کی تعبیر پوری کرنی تھی۔
اس آزادی کو انقلاب کے سفید ہاتھی روندنے آگئے ہیں۔۔۔ اس آزادی کو مٹانے کے لیے کچھ مسخرے اب” مارچ” کر رہے ہیں۔ کچھ انقلابی نمودار ہوئے جنہوں نے اس ملک کی سالمیت پر شب خون مارا ، اور کچھ” نیا پاکستان“ بنانے کے لیے اپنے مٹر گشت بلکہ کوچہ گشتی کو” آزادی مارچ“ کہہ رہے ہیں۔” انقلاب“ کی بدصورت اور بدروح کو وہ مظلوم خاندان ہی بہتر جانتے ہیں جن کے گھروں سے جنازے اٹھے۔ ان کے وہ ملک دشمن اور جان لیوا منصوبے منہ کھولے کھڑے ہیں جس کی بھینٹ” ملک کے رکھوالوں“ کو بھی چڑھا دی گئی۔
دوسری طرف بے حیائی کا وہ سونامی آیا کہ جس میں اسلام آباد میں 14 اگست سے تادم تحریر ، ناچ کلچر ، ڈانس کلچر ، موسیقی کلچر ، زنا کلچر اور اسلامی تشخص سے” آزادی“ کلچر کے بھنور میں کئی عزتیں ڈوب گئیں ، مخلوط کلچر کی ہڑبونگ میں کتنے نوجوانوں نے دخترانِ قوم اور حوا کی بیٹیوں کے سروں سے حیا ، عفت اور پاکدامنی کی چادر کو تار تار کیا اوراس کی غیرت کو پیوند خاک کیا۔
پاکستان میں خانہ جنگی کو فروغ دینے کے لیے یہودیت نے جن مہروں کی چال چلی ہے وہ ٹائی پتلون او رجبے ود ستار دونوں میں دیکھے جا سکتے ہیں، ملک دشمن قوتوں کے ایجنٹ اپنے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔
ایک طبقہ اس کی جمہوریت اور آئین کا دشمن بنا ہوا ہے اور اس کے استحکام کو گزند پہنچانے کے لیے خود ساختہ غیر آئینی دفعات کو” نافذ“ کرنے کے لیے اپنی جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کو” انقلاب“ کانام دے رہا ہے جبکہ دوسرا طبقہ” سول نافرمانی“ کا شور مچا کر اپنے اندر” خدا کی نافرمانی“ کا چور چھپانے میں مصروف عمل ہے ،یہ قوم اسی” پرانے پاکستان“ میں رہنا چاہتی ہے جس کے لیے ان کے آباء و اجداد نے خون کے دریا عبور کیے۔
“ انقلاب“ کی سرخ آندھیاں” نئے پاکستان“ کا پیش خیمہ کبھی نہیں بن سکتیں ، 67 سال ہوچکے میری قوم کے کانوں میں جو نغمہ گونج رہا تھا وہ اب تلک اس کے کانوں میں گونج رہا ہے اورگونجتا رہے گایہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے۔
خدارا!وطن عزیز پر رحم کریں !
مملکتِ خداداد پاکستان میں ان دنوں خوف و ہراس ، بے چینی و بے سکونی ، کرپشن ، لاقانونیت اور ظلم و جور کی زہریلی ہواؤں نے یہاں کے ہر باسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر طرف ماردھاڑ ، لوٹ کھسوٹ کا شور و غوغا ہے۔ انصاف کی دہلیز تک مظلوم و لاچار کی رسائی ناممکن ہے ، بے کس و مجبور غریب عوام کسی مسیحاء کی تلاش میں” بہروپیوں“ کے دام میں پھنسے ہوئے ہیں۔
غیر اسلامی نظر و فکر کے حامل چند سیاسی مہرے بلکہ اقتدار کے نشے میں” چند مست ہاتھی“ اسلام کے ان ابدی قوانین……جن سے معاشرے میں امن و سکون، راحت و چین ، ترقی اور خوشحالی میسر ہوتی ہے…..کو العیاذباللہ ظالمانہ اور فرسودہ قرار دے کر دقیانوسیت ، قدامت پسندی اور تنگ نظری سے تعبیر کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ یہود و نصاریٰ کے ایماء پریہ ملک پاکستان کی اکثریت ….اہل اسلام …… کی دل آزاری اور ملک کو دولخت کرنے کی ایک سوچی سمجھی مضبوط اور منظم سازش ہے۔
اب بات کراچی ، لاہور اور چند شہروں تک محدود نہیں بلکہ ملک کے تقریباً ہر حصے میں اس سازش کے تانے بانے بنے جا چکے ہیں۔ اہلیانِ پاکستان کو تمام ذاتی ، علاقائی اور قومی تفرقے بازے سے بالاتر ہوکر سوچنا ہو گاورنہ تاریخ کے نقشے پر ان کا کوئی نشان تک نہ ہوگا۔ آج دنیا کے ہر کونے میں اہل اسلام کو بے دردی سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے مسلمانوں کی بے بسی کی انتہاء دیکھ کر دل پارہ پارہ ہوا جاتا ہے۔
اس لیے میری پوری پاکستانی قوم سے گزارش ہے کہ اس موقع پر تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔ اندرونی و بیرونی دشمن کی ظاہری اور خفیہ چالوں کو سمجھیں۔ اپنوں اور بیگانوں کی غیر جانب دار ہو کر پہچان پیدا کریں۔ وطن عزیز کے استحکام اور بقاء کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہ مملکت عطیہ خداوندی ہے اس کی قدر کریں۔
محبِ دین اور محبِ وطن افراد و شخصیات کو اپناخیرخواہ مقتدا سمجھ کر ان کا بھرپور ساتھ دیں۔ یہود و نصاریٰ کی غلامی کرنے والے رہزنوں کو راہنما سمجھ کر اپنی متاع عزیز مت لٹوائیں۔
ان سب کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اسلامی تعلیمی کو بھر پور طریقے سے مدلل انداز میں عام کیا جائے۔ جب تک سنت کے نور سے اہل ایمان کے دلوں میں فراست و بصیرت پیدا نہیں ہوگی۔ اس وقت تک ظلم اپنی بھیڑ چال یونہی چلتا رہے گا اور یونہی اس دھرتی پر آئے دن ظلم و تشدد کی نئی سے نئی داستانیں رقم ہوتی رہیں گی۔
عوام؛ عوام کو چھوٹے پیمانے پر اور اہل اقتدار بڑے پیمانے پر بے گناہی کی موت مارتے رہیں گے۔ ہماری عزتیں تاراج ہوتی رہیں گی ، ہمارے گھروں میں صفِ ماتم یونہی بچھتی رہیں گی۔ ظلم یونہی ہوتا رہے گا۔ ظالم یونہی مضبوط ہوتا رہے گا۔ یہ نہ ہو کہ کہیں ایسا منظر دکھائی دے رہا ہو۔
لگا کر آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں آج تماشے کا شوق بہت
جھکا کر سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے

حضور کا شوق سلامت رہے ، شہر اور بہت!