2015 خوئے غلامی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
201 اور ……خوئے غلامی !
اقبال مرحوم کہتے ہیں:
حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر
دین ہو ، فلسفہ ہو ، فقر ہو ، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر
حرف اس قوم کا بے سوز ، عمل زار و زبوں

ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!

خوئے غلامی کی کئی مثالیں ہرروز آنکھیں تکتی ہیں اور نم ہو کر تھم جاتی ہیں ایک ایسی قوم جس کی شان و شوکت اور ہیبت و جلال سے عالَم پر لرزہ طاری ہوتا تھا ، اغیار اس کے غلام اور جس کی انداز حکمرانی سے امن و انصاف کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔
اسے کیا ہوا؟
آج اس پر اغیار ایسے مسلط ہیں کہ انہوں نے اس کی تہذیب و تمدن کو فرسودہ قرار دے دیا ، ان کے کلچر اور طرز زندگی پر تنگ نظری کا لیبل چسپاں کر دیا ، ان کے افکار و نظریات کو شدت پسندی کے گھاٹ اتار دیا۔
حیف صد حیف!جب سے اسے دشمنوں نے تھپک کر خواب غفلت میں سلایا ہے یہ قوم اٹھنے کا نام نہیں لے رہی ، آنکھوں پر مغربی معاشرے کے اطوار و تہوار کی پٹی ایسی چڑھائی ہے کہ اندر اندر اسلامی معاشرے کی بینائی بھی جاتی رہی ہے۔
چشم فلک نے آج تک یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ کسی غیر مسلم نے کوئی اسلامی تہوار منایا ہو، لیکن مسلم قوم ان کے ہر تہوار میں قدم بقدم شریک نظر آتی ہے وہ ویلنٹائن ڈے کے نام سے ہو یا اپریل فول کے نام سے ، نیو ہیپی ایر ہو یا کوئی اور۔
ہمارا اسلامی سال شروع ہوا ………کسی گورے اور کالے کی طرف سے مبارکبادی کا مژدہ نہیں سنا گیا ، کسی نے جشن نہیں منایا ، کسی نے خوشیوں کے ڈونگرے نہیں برسائے ، کسی نے مسرت کے باجے نہیں بجائے ، کسی نے شادمانی کے گیت نہیں گائے ، کسی نے اس پر بغلیں نہیں بجائی اور نہ ہی کسی کی باچھیں کھلی ہوئی نظر آئیں۔
جبکہ دوسری طرف نیا شمسی سال شروع ہوتا ہے تو غیر مسلم اقوام کے شانہ بشانہ ہمارے مسلمان بھی اسلامی اقدار کو پامال کرتے ہیں، اپنی شناخت بھول جاتے ہیں ، موسیقی ، ناچ گانا ، شراب و شباب ، رقص و سرود ، موج مستیاں اور رنگ رلیاں ، اپنی جمع پونجی کو یوں اڑاتے ہیں جیسے” حرام کی کمائی“ ہو۔
خدا کے لیے مسلمانو!اپنے دین ، اپنے عقائد و نظریات اور اپنی تہذیب و تمدن اور اپنے کلچر کو زندہ کرو ، غلامی کے طوق اتار پھینکو۔ اپنی حیثیت کا خیال کرو۔ ورنہ قوموں کے مٹ جانے کے یہی اسباب ہوتے ہیں۔
دورِ حاضر ہے حقیقت میں وہی عہدِ قدیم
اہلِ سجادہ ہیں یا اہلِ سیاست ہیں امام
اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور
سینکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی

پختہ ہو جاتے ہیں جب” خوئے غلامی“ میں غلام!

21 دسمبر اور قیامت
جب کسی قوم کا کوئی رہنما نہ رہے جو ان کی فکری تربیت کرے اور زمانے کے نشیب وفراز سے انہیں آگاہ کرے ،تو وہ قوم قوم نہ رہتی بلکہ انسانوں کی ایک بھیڑ بن جاتی ہے، جس کا حال بے حال اور مستقبل بد حال ہو جاتا ہے۔ ہر چھوٹی سی اجتماعی خوشی انہیں خوش فہمی میں مبتلا کر دیتی ہے اور تھوڑا سا بھی قومی غم ان کے قو ٰی کو معطل کر دیتا ہے۔ پاکستانی قوم کیونکہ وہ واحد قوم جسے اس وقت کوئی رہنما میسر نہیں ہے اورفکری ونظریاتی بلکہ حد درجہ افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ یہ اپنی مذہبی تربیت سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پورے ملک کے طول وعرض میں ایک افواہ سر گرم رہی کہ 21 دسمبرکو کائنات کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور قیامت قائم ہو جائے گی اور تمام فارغ لوگ زبانی گفتگو کے ذریعے یا موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے اس افواہ کو پھیلانے میں مصروف رہے اور یہ خبر پھیلانے والے وہ لوگ تھے جن کو بیکاریے جنوں نے سر پیٹنے کے سوا اور کوئی شغل نہیں رہا۔ اس دوران عجیب وغریب ایس ایم ایس پڑھنے کو ملتے رہے، کوئی اسے کسی سیارے کی طرف منسوب کرتا جو عنقریب زمین سے ٹکرائے گا، کوئی کچھ اور لکھتا ہے اور بعض لوگوں نے تو ظرافت طبعی سے کام لیتے ہوئے یوں کہا کہ دجال تو 23 دسمبر کو پاکستان آرہا ہے، قیامت 21دسمبر کو کیسے آ سکتی ہے؟
خواب آور لیڈروں کے بارے میں مضحکہ خیز پیغامات چلائے گئے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ بحیثیت مسلمان یہ سب باتیں اور افواہیں اور ان پر یقین کرنا اور فضول کج باسیوں میں اپنا وقت ضائع کرنا ہمیں زیب دیتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ارشاد فرمائی:
”من حسن اسلام المر ء ترکہ مالا یعنیہ“
المعجم الاوسط للطبرانی: رقم الحدیث 8402
آدمی کے اسلام کی بڑی خوبی یہ ہے کہ فضول ، لایعنی کام کوچھوڑ دے۔
اس لیے ایسی افواہوں پر یقین کرنے کی بجائے اس ابدی اور ازلی سچائی یعنی قیامت کی تیاری کرنی چاہیے اور قیامت کے قریب نمودار ہونے والے فتنوں سے آگاہی حاصل کر کے ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ،اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،آئمہ مجتہدین و فقہا ء اور محدثین حضرات نے جو ہمارے مقتداء اور پیشوا ہیں ہمیں اندھیرے میں نہیں چھوڑا، ہماری راتیں بھی الحمد اللہ شرعی راہنمائی کے اعتبار سے دل سے زیادہ روشن ہیں۔
نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قیامت کی علامات بیان فرمائی ہیں ہمیں ان کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہیے اور ان تمام برائیوں اور بے حیائی کے کاموں سے رکنا چاہیے جو بروز حشر ہمارا برا حشر کریں گے؛جیسے ماں باپ کی نافرمانی کرنا ،دین کو چھوڑ کر دنیاوی تعلیم حاصل کرنا ، اولاد کا ماں باپ پرحکمران بن جانا اور امت کے بعد والے طبقات کا اکابرین امت پر لعن طعن کرنا ،شراب نوشی ،گانے بجانے کے آلات کا عام ہوجانا ،سود اور زنا کا عام ہوجانا وغیرہ وغیرہ بالخصوص موجودہ دور میں ٹاک شوز میں الحاد اور بے راہ روی کے بند دروازے کھول دیے ہیں اور خواندہ و ناخواندہ اپنے اسلاف کو جلی کٹی سنانے میں مشغول نظر آتا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہماری قوم کے لیے ہے جو جھوٹی افواہوں پر یقین کرتے ہیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرمودات پر توجہ نہیں کرتے جن میں اس دور پر آشوب میں نمٹنے کے روحانی نسخے بیان کیے گئے ہیں۔ افواہوں پر کان نہ دھریں بلکہ پوری توجہ اور محنت سے آخرت کی تیاری کریں۔
اور اب ……………دسمبر فول
چونکہ اپریل فو ل کی کہانی ہوئی اب کافی پرانی ہوچکی ہے جدت اور نئے پن کا تقاضا تھا کہ اس کو سال کے آخری مہینے میں بھی منایا جائے اس لیے” اپریل فول” کے ساتھ ساتھ اب” دسمبر فول“ بھی حاضر خدمت ہے۔
کچھ دنوں سے شنید تھی کہ فلاں تاریخ کو دنیا ختم ہوجائے گی” مایا“ تہذیب میں جو کیلنڈر رائج ہے اس میں آخری تاریخ 21 دسمبر 2012 ہے اس سے آگے کی تاریخ کیلنڈر میں موجود نہیں۔ اس لیے کچھ” مایا نسٹ” گھبرا گئے اور 21 دسمبر بوقت 11:11پر دنیا کی تباہی کا انتظار کرتے رہے لیکن جب آنکھیں کھولیں تو دنیا کو باقی پایا۔
آپ کو یاد ہوگا 1999 کے آخری عشرے میں بھی ایک افواہ اڑائی گئی تھی کہ 2000 میں دنیا ختم ہوجائی گی چونکہ ساری دنیا کا ایٹمی نظام کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے اور 1999 کے بعد 2000 کا ہندسہ کمپیوٹر میں نہیں آرہا اس لیے 2000 میں دنیا کا وجود مٹ جائے گا۔ سنا ہے کہ ہالی وڈ کے چند احمقوں نے اکٹھے ہوکر 2009 میں ایک فلم بھی ریلیزکی جس میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ 2012 میں دنیا اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔
ہم نے تو ان باتوں کو محض کھیل تماشا سمجھا بلکہ” دسمبر فول“ کا نام دینا مناسب خیال کیا لیکن زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی بے بنیاد خبروں اور ویڈیوز نے کافی” انسانیت“ کو متاثر کیا لوگ سہم گئے ، کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ، کمزور دل لوگ ہر آن مقررہ تاریخ…… 21 دسمبر 2012 …….پر آنکھیں موند کر موت کا انتظار کرنے لگے۔ بچے اور خواتین خوفزدہ ہوکر گھروں میں محصور ہوکررہ گئے بلکہ ایک رپورٹ کےمطابق ایسے” افلاطون“ بھی نمودار ہونا شروع ہوئے جنہوں نے کہا کہ ہم نے موت سے بچاؤ کے لیے ایک” محفوظ گھر“تیا ر کر لیا یعنی وہاں موت نہیں آئے گی۔ فیا للعجب
دسمبر فول کے حوالے سے 23 دسمبر کو لاہور مینار پاکستان میں بھی ایک واقعہ پیش آیا۔ جس میں” ریاست بچانے“ کے لیے ایک ڈاکٹر صاحب کافی عرصے بعد پاکستان میں” انقلاب” کی راہ ہموار کرنے کے لیے تشریف لائے۔
روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار” عطاء الحق قاسمی” اپنے کالم” پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد آمد“ میں رقم طراز ہیں:
”علامہ طاہر القادری بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں چنانچہ ان کی تنظیم کا دائرہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلا ہوا ہے ان سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ میں نے ایک کیسٹ میں ان کے عقیدت مندوں کو وجد کے عالم میں رقص کرتے اور… پھر باری باری علامہ صاحب کو سجدہ کرنے کی کوشش کرتے دیکھا
لیکن علامہ صاحب کو ان کی یہ مشرکانہ حرکت ناگوار گزر رہی تھی تاہم ان کی دلآزاری بھی نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ شفقت سے ان کی کمر پر ہاتھ پھیرتے جس کی برکت سے چند لمحوں بعد وہ سجدے سے سر اٹھالیتے اور اسی طرح وجدو سرمستی کے عالم میں رقص کرتے ہوئے واپس اپنی نشستوں پر چلے جاتے اور ان کی جگہ دوسرے ارادت مند آجاتے۔
باری باری عقیدت کے اظہار کا یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا………بدقسمتی سے ہمارے ہاں علم دین سے وابستہ ہر شخص خود کو شیخ الاسلام سمجھنے لگتا ہے، چنانچہ انہیں کسی دوسرے کے سر پر یہ تاج اچھا نہیں لگتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء حتیٰ کہ بریلوی مکتب فکر کے علماء نے بھی جو علامہ صاحب کے ہم مسلک ہیں ابھی تک ان کے شیخ الاسلام ہونے پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی۔
اس افسوسناک رویے کو معاصرانہ چشمک کے علاوہ کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ایک اور صفت بہت نمایا ں ہے وہ ان کا وسیع المشرب ہونا ہے۔ ان کے دل میں کسی بھی مکتب فکر کے حوالے سے کوئی عناد نہیں چنانچہ وہ محرم کے مہینے میں اہل تشیع کے ہاں مجلسیں بھی پڑھتے ہیں وہ جب مصائب کے بیان پر آتے ہیں تو سامعین کے علاوہ خود علامہ صاحب پر بھی رقت طاری ہوجاتی ہے۔ بیان اور انداز بیان کی یہ تاثیر کسی بڑے سے بڑے ذاکر کے ہاں بھی کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔“
بشکریہ روزنامہ جنگاللہ ہمیں تمام شریروں کے شر سے محفوظ رکھے اور یہودی ایجنڈے پر کام کرنے والے ہر جبہ ودستار میں چھپے مجرموں سے باخبر رہنے کی توفیق بخشے۔
خیر!دسمبر ایک بار پھر الوداع کہہ کر ایک سال کے عرصے کے لیے ہم سے رخصت ہوا اور سالِ نو کی خوشیاں لیے جنوری آچکا ہے یہ چلا جائے گا فروری بھی حسب سابق بیت جائےگا مارچ اپریل الغرض تمام مہینے اپنے دنوں کی گنتی مکمل کر کے چلے جائیں گے قمری مہینے …محرم صفر …… یا شمسی مہینے… جنوری فروری وغیرہ یہ اللہ تعالی کی نشانیاں ہوتے ہیں جن کا تذکرہ اللہ رب العزت نے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ مثلا ً
ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب۔
سورۃ یونس آیت 5 
وجعلنا اللیل والنھار ایتین ………. لتعلموا عدد السنین والحساب۔
سورۃ اسراء آیت نمبر 12 
اور اسی طرح سورۃ رحمان میں ارشاد باری ہے
الشمس والقمر بحسبان
محولہ بالا تمام آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کے حکم سے اپنی منازل طے کرتے ہیں اور ان کے ذریعے دن اور رات کا حساب لگاکر تاریخیں معلوم کی جاتی ہیں۔
سورج ، چاند ، ستارے ، سیارے ، اجرامِ فلکیہ ، اجسامِ سماویہ ، آسمان و زمین نہ تو خود بنے ہیں اور نہ ان کا نظام خود چلتا ہے بلکہ قادرِمطلق ذات نے ان کو وجود بخشا اور اپنے اپنے کام میں لگا دیا ہے اور یہ اس وقت تک اپنے کام میں لگے رہیں گے جب تک اسے کائتات کی بقاء مقصود ہوئی۔
ہاں !جب اسے منظور ہوا تو پھر سورج کو لپیٹ دیا جائے گا ، ستارے بے نور ہوجائیں گے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے آسمان میں دراڑیں پڑ جائیں گی زمین ریزہ ریزہ ہو جائے گی یعنی وہ دن آجائے گا جسے قیامت کہتے ہیں اور دنیا نیست ونابود ہو جائے گی۔
یہاں ایک امر ملحوظ خاطر رہے کہ ہم صرف اس سوچ وبچار میں اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو ضائع نہ کریں کہ دنیا کب ختم ہورہی ہے؟ قیامت یعنی اختتام دنیا کی نشانیاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلادیں ہیں کتب حدیث میں ان کو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے ہمیں تو اپنی فکر کرنا ہوگی کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے
من مات فقد قامت قیامتہ
جو مر گیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ خواہ 21 دسمبر ہو خواہ کوئی بھی دن ہو۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے” الجمع الجوامع“ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا ہے کہ ہرروز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اعلان کرتا ہے
من استطاع ان یعمل خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر علیکم ابدا
آج اگر کوئی نیک عمل کرسکتا ہے تو کر لے آج کے بعد میں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔
جھوٹے مذاہب کے پیروکاروں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی افواہوں سے دنیا ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کا حتمی اور یقینی علم صرف اور صرف اللہ جل مجدہ کے پاس ہے۔
حدیث جبریل میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کب قائم ہوگی تو آپ نے فرمایا کہ
ماالمسوؤل عنھا باعلم من السائل
جیسے پوچھنے والے کو اس کے آنے کا حتمی اور یقینی علم نہیں ہے اسی طرح مجھے بھی اس کا علم نہیں ہاں البتہ اس کی چند نشانیاں ہیں۔
جب فخرانسانیت کو اختتام دنیا کا حتمی علم نہیں سونپا گیا تو ننگِ انسانیت کے اس بارے میں معین شدہ ایام کیا معنی رکھتے ہیں؟
الحمد للہ پکے سچے مسلمان ہیں ہمیں اللہ اور اس کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کافی ہیں۔ ہمیں اس طرح کی افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہییں خود بھی بچنا چاہیے اور باقی انسانیت کو بھی شریعت اسلامیہ قبول کرنے کی دعوت دینی چاہیے۔
جو یقیں کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی

جنہیں وسوسوں نے ڈرایا وہ قدم قدم پر بھٹک گئے