محرم اور قیامِ امن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محرم اور قیامِ امن
مذہبی تعصب سے بالا تر ہو کر زمینی حقائق کا جب جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ سنی علماء اور عوام ، گورنمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے محرم میں امن کے قیام کے معاملے میں مخلص ہیں۔ جبکہ بعض اہل تشیع علماء وذاکرین اپنے عوام کو سنی علماء اور عوام کے خلاف بھڑکاتے ہیں
اوراپنی اشتعال انگیز تقاریر سے سنی علماء اور عوام کے دل زخمی کرتے ہیں۔
ذکرِحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آڑ میں اسلام کے پہلے تین منتخب خلفاء کرام سیدنا ابوبکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم پر سب و شتم ، ان کو ماں بہن کی ننگی گالیاں اور العیاذ باللہ ان کو کافر و مشرک اور جہنمی کہتے ہیں ، سیدہ فاطمہ اور سیدہ سکینہ و زینب رضی اللہ عنہن کے مبارک تذکرے کے عنوان سے امہات المومنین بالخصوص سیدہ عائشہ صدیقہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما پر اتہمات و الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ فضائل علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا نام لے کر حب علی کم جبکہ بغض معاویہ زیادہ بیان کرتے ہیں۔ جس کے واضح ثبوت ریکارڈ پرموجود ہیں۔
اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتی ذمہ داران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا سد باب کریں اور ایسے مسلح گروہوں کو جو عبادت کے نام پر روڈ بلاک کرتے ہیں۔ اور شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں سنیوں کی مساجد ، مکاتب ، مدارس ، کاروباری مراکز اور املاک کو جلاتے ہیں انہیں قانون کا پابند کیا جائےاور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے ورنہ اگر سنی علماء کے کہنے پر سنی عوام اٹھ کھڑی ہوئی توملک خانہ جنگی کی دلدل میں ڈوب جائے گا۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔
گلشن نبوت کا مہکتا پھول سیدنا حسین ابن علی
ہجرت کے کٹھن سفر کو طے کیے چا ربرس کا عرصہ بِیت چکا تھا ،شعبان المعظم کے پانچویں روز خانوادہِنبوت میں جگر گوشۂ ِرسول حضرت فاطمہ بتول رضی اﷲ عنہا کی گودمیں ایسے لَعل نے جنم لیاجو صبر واستقلال ، عزیمت وشجاعت ،ہمت وجوانمردی ، بصیر ت وفراست کااستعارہ بن گیا۔ جیسے دنیانواسہ ِرسول حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے مبارک نام سے یاد کرتی ہے۔
ولادت باسعادت کے بعدجب آپ کو اپنے نانارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم بہت مسرور ہوئے۔ بے پنا ہ محبت کااظہار فرمایا،دہن مبارک سے کجھور چباکر تحنیک فرمائی اور برکت کے لیے اپنے لعاب ِدہن کو نو اسے کے منہ میں ڈالا۔ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے جسم مبارک میں نبی وعلی کا لہو پہلے سے گردش کر رہا تھا اب گٹھی بھی نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے لعاب مبارک کی مل گئی۔
نام مبارک’’ حسین’’ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کاتجویزکردہ ہے ، آپ رضی اﷲ عنہ کے کانوں میں توحید ورسالت ،فلاح وکامیابی،اطاعت وعبادت کا پہلا درس( یعنی اذان واقامت ) بھی اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ساتویں دن سر کے بال بھی آپ علیہ السلام نے اتر وائے ،بالوں کی تعداد کے برابر چاندی بھی آپ ہی نے خیرات کی ،عقیقہ بھی آپ نے ہی کیا اور آپ رضی اﷲ عنہ کا ختنہ کیاگیا۔
سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے محدثین کی تحقیق کو مدار بناکر آپ رضی اﷲ عنہ کے حلیہ مبارک کا یوں نقشہ کھینچاہے: آپ انتہائی خوبصورت ،ذہانت وذکاوت آپ کے چہرے پر جھلکتی ہو ئی ،قوت وشجاعت کے پیکراور غیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
کان جسد الحسین یشبہ جسد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم:
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا جسم مبارک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے بہت مشابہت رکھتاہے۔
بلکہ جامع ترمذی میں خود حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے مروی ہے:حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کاجسم مبارک اوپر والے نصف حصہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ملتاجلتا تھا جبکہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نیچے والے نصف حصے کی ساخت پر داخت اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم اقدس سے مشابہ تھی۔
اس مشابہت ِرسول اﷲ کااثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے آپ کاچال چلن ، گفتار رفتار ، جلوت خلوت ، قول وعمل ،ایثاروہمدردی ، عادات واطوار ، خوش خلقی ،حسن سلوک ، مروت رواداری ،شجاعت وعزیمت ،دوراندیشی وفر است ،حکمت ودانائی ،علم وتقویٰ، زہدوورع ،خشیت وللٰہیت ، محبت ومعرفت ِخداوندی الغرض نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔
ان اوصاف کو دیکھتے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ باذن الہٰی ایک فرشتہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربارمیں عرض کرنے لگا: ’’حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار بنائے جائیں گے۔‘‘
فرشتے کی یہ بات خدائے ذوالجلال کی محبت کی عکاس ہے اﷲ کر یم اپنے ان دو اولیاء کو جنت کے نوجوانوں کے سرداربنائیں گے۔ رسول اﷲ کوبھی آپ سے بے پناہ محبت تھی جس کاآپ نے مختلف مقامات پر اظہاربھی فرمایا۔
1: صحیح مسلم میں ام المومنین زوجہ رسول سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز صبح تڑکے تڑکے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے تشریف لائے۔ اتفاق سے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ بھی وہاں آ نکلے آپ نے ان کو اپنی چادر میں لے لیا پھر یکے بعد دیگرے حضرت حسین، حضرت فاطمہ اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنھم بھی تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام نے ان سب کو اپنی چادرمیں جمع فرمالیا اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ
انما یرید اﷲ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔
تلاوت فرمائی۔اﷲ تعالی کو یہ منظور ہے کہ اے پیغمبر کے گھر والو! تم کو معصیت ونافرمانی کی گندگی سے دور کھے اور تم کو ظاہر اًوباطناًعقیدۃًوعملاًوخلقاً پاک صاف رکھے۔
بیان القرآن تحت آیت انما یرید اﷲ
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانو ی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: لفظ اہل بیت کے دو مفہوم ہیں ایک ازواج دوسرے عترت۔خصوصیت قرائن سے کسی مقا م پر ایک مفہوم مراد ہو تا ہے کہیں دوسر ااور کہیں عام بھی ہو سکتا ہے۔
2: صحیح بخاری میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ ایک عراقی نے ان سے پوچھاکہ کیا حالتِ احرام میں مکھی مارنا جائز ہے؟ تو حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنھما نے فرمایا: عراقیوں نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو توشہید کر ڈالا اب مکھی مارنے کے احکام پو چھنے لگ گئے ہیں؟یاد رکھو! رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن وحسین دنیا میں میرے مہکتے ہو ئے پھول ہیں۔
جیسے پھول قلب ونظر کو سرور اور دماغ کو فرحت بخشتاہے۔ایسے ہی ان پھولو ں سے نبی کے قلب و نظر کو سرور اور دماغ کو فرحت وتازگی ملتی ہے۔
3: جامع التر مذی میں ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا سے اکثر فرمایاکرتے تھے: حسین کو میرے پاس بھیجو تاکہ میں ان کواپنے سینے سے لگاؤ ں اور پیار کروں۔
4: جامع الترمذی میں حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے اﷲ ! میں حسن وحسین سے محبت کرتاہو ں آپ بھی ان سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے محبت فرمائیں جوان سے محبت کرتاہے۔
5: جامع الترمذی میں حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:حسین میری اولاد ہے اور میراحسین سے خصوصی تعلق ہے، اﷲ تعالیٰ اس شخص سے محبت فرماتے ہیں جوحسین سے دعویٰ محبت میں عملاً سچاہو۔
6: جامع الترمذی میں حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے: حسن وحسین نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔
نوٹ: جلیل القدر محدث ملاعلی قاری فرماتے ہیں: حدیث پاک کی مراد یہ ہے کہ حسنین کریمین ان تمام لوگوں میں افضل ہیں جوعالم شباب( جوانی )میں انتقال کر گئے اس سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ حسنین کریمین بھی جوانی میں دنیا سے کو چ فرماگئے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جیسے نوجوان مروت اور جو انی والے کام سرانجام دیتے ہیں ایسے ہی حسنین کریمین نے کارنامے سر انجام دیے ہیں۔
اسلام کی تعلیم میں نہ افرا ط نہ تفریط بلکہ اعتدال ہی اعتدال ہے ،بعض لوگوں کو حدیث مذکورہ بالاسے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید حسنین کریمین کامقام ،مرتبہ اوردرجہ خلفاء راشدین  ابوبکر،عمر ،عثمان اور علی رضی اﷲ عنھم سے زیادہ ہے حالانکہ ایسا ہرگزنہیں۔
جامع الترمذی میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:انبیاء ورسل کے علاوہ ابوبکراورعمر رضی اﷲ عنہما ان تمام اولین وآخرین جنتی لوگوں کے سردار ہیں جوبڑی عمر میں انتقال کرگئے اور حضرات حسنین کریمین بھی بڑی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے اس لحاظ سے حضرات شیخین (ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما) حسنین کریمین کے بھی سردارہوئے۔
مرقاۃ شرح مشکاۃ میں حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے ،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرنبی کاجنت میں خاص دوست ہو گااور میرا مخصوص دوست حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ ہوں گے۔
آپ علیہ السلام کے اس فرمان ِمبارک کاصحیح مطلب یہ ہے کہ دیگر مخصوص رفقاء کی صف میں عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ بھی شامل ہوں گے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ نے البدایہ والنہایہ میں حضرت بریدہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنھماکی حدیث نقل فرمائی ہے کہ حسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے بھی زیادہ فضیلت والے ہیں۔
ان روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ خلفاء راشدین کامقام و مرتبہ حضرات حسنین کریمین سے بھی بلند ہے۔ دین ِاسلام میں فرق مراتب رسولو ں کے مابین بھی ملحوظ ہے اور حضرات صحابہ واہل بیت کے درمیان بھی مسلمہ حقیقت ہے۔
شہید کربلا کی منقبت و شہادت
حضرت حسینؓ کی فضیلت کیلیے نواسہ رسولؐ ہونے کی نسبت ہی بہت بڑی ہے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ارشادات سے آپؓ کی قدرمنزلت معلوم ہوتی ہے۔ چند احادیث یہ ہیں:
1: آپﷺ کا ارشاد ہے:’’ حسنؓ اور حسینؓ میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی تو اس سے اللہ محبت کرے گا اور جس سے اللہ محبت کرتا ہے اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘۔
2: حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:’’ حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘۔
3: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ ہمارے پاس تشریف لائے اور آپﷺ کے ساتھ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دونوں تھے، ایک ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پر اور آپؐ ایک دفعہ ایک کا بوسہ لیتے اور دوسری دفعہ دوسرے کا۔
4: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ سیدنا حسینؓ کسی جنازہ پرگئے تو حضرت ابوہریرہؓ بھی ان کے ساتھ تھے۔ واپسی پرحضرت حسینؓ کو کچھ تھکاوٹ محسوس ہوئی تو استراحت فرمانے لگے۔ جب آپ ؓ لیٹے تو ابوہریرہؓ آپ کے قدموں سے راستہ کا غبار ہٹانے لگے۔ سیدنا حضرت حسینؓ کو ایسے بزرگ صحابی کا یہ کام کرتے ندامت ہوئی اس لئے فرمایا آپ کیوں کررہے ہیں؟ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا آپ اس بات کو چھوڑیئے اور مجھے اپنا کام کرنے دیجئے۔ بخدا آپ کی جو فضیلت مجھے معلوم ہے اگر دوسروں کو معلوم ہوجائے تو وہ آپ کو کندھوں اور گردنوں پر اٹھائیں۔
5: ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ سید نا عبداللہ بن عباسؓ نے جوکہ عمر اور دیگر اوصاف میں سیدنا حسینؓ سے بڑھ کرتھے سیدنا حسین کو بڑے احترام کے ساتھ سواری پر سوار کرایا۔ راوی حدیث نے اتنا احترام کرتے دیکھا تو یہ پوچھا کہ یہ کون شخص ہیں؟ فرمایا کہ یہ رسول اللہؐ کے نواسے حضرت حسینؓ ہیں اور یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہوا کہ میں نے ان کو اس احترام کے ساتھ سوار کرایا ہے۔
شہادت:
حضرت حسین ؓ نے جب اہل کوفہ کے پرزور اصرار پر رخت سفر باندھنے کا ارادہ فرمایا حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور آپ کے بھائی محمد بن حنیفہؒ نے خیرخواہانہ طورپر جانے سے روکا۔ مگرچونکہ آپ سفر کا عزم کرچکے تھے اس لیے یہ مشورہ قبول نہ کیا اور سفرپرروانہ ہوگئے۔ دوران سفر آپؓ نے اپنے چچازاد برادر مسلم بن عقیل کو کوفہ میں قاصد بناکر بھیجا۔ تاکہ وہاں کے حالات دیکھیں اور ہمیں مطلع کریں کہ اگر حالات درست ہوں تو ہم یہ سفر اختیار کریں۔ جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپؓ کی بیعت کی۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے حضرت حسینؓ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لائیں۔ حضرت حسین ؓ سفر ہی میں تھے کہ اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے مسلم بن عقیل کو قتل کرادیا ہے۔ یہ خبر سن کررفقاء سفر نے قصاص لئے بغیر جانے سے انکار کردیا۔
چنانچہ قافلہ روانہ ہوا۔ مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حربن یزید ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ نمودار ہوا اور اسے اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ حضرت حسینؓ کو مع ان کے لشکر کے گرفتار کرکے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے۔ حضرت حسین بن علیؓ نے یہ منظر دیکھ کر اس کو تنبیہ فرمائی کہ تم نے خود ہی خطوط لکھ کر مجھے بلوایا ہے، اب دغابازی کیوں کرتے ہو؟ پھر آپؓ نے تمام خطوط اس کو دکھائے تو حربن یزید نے آپ کو دھمکی آمیز لہجہ میں کہا: ’’ جنگ سے بازرہو! بصورت دیگر قتل کردیئے جاؤگے۔‘‘ یہ سن کر ابن علیؓ نے فرمایا: (میں روانہ ہوتا ہوں اور نوجوان مرد کیلئے موت کوئی ذلت نہیں ہے، جب کہ اس کی نیت حق ہو اور راہ اسلام میں جہاد کرنے والا ہو) پھر آپؓ نے دوسرا قاصد روانہ کیا جس کا نام قیس بن مسھر تھا، ابن زیاد نے اس کو بھی قتل کروادیا جب اس بات کی خبرحضرت حسینؓ کو ہوئی تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ بالآخر آپ بہت طویل مسافت طے کرکے 2محرم 60ھ میں میدان کربلا میں پہنچ گئے۔ ادھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر میدان جنگ کی طرف روانہ کردیا۔ جب اس کی آپ ؓسے ملاقات ہوئی تو آمد مقصد پوچھا، تو حضرت حسینؓ نے عمر بن سعد کے سامنے ایک پیشکش کی …آپ لوگ میری طرف سے ان تین چیزوں میں سے ایک چیز کواختیار کرلیں:
1: میں اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیا جائے تاکہ وہاں خود اسلام کی حفاظت کرسکوں۔
2: میں مدینہ منورہ کی طرف چلا جاؤں مجھے واپس جانے دیا جائے۔
3: مجھے موقع دیا جائے کہ میں یزید سے اس معاملہ میں بالمشافہ بات کرسکوں۔
عمر بن سعد نے اس بات کو قبول کیا اور ابن زیاد کو یہ پیش کش لکھ بھیجی جس کے نتیجہ میں ابن زیاد نے حکم بھیجا کہ میں صرف ایک بات قبول کرتا ہوں کہ حسین بن علیؓ اپنے پورے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسینؓ کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو اپنے متبعین کو نہایت پرجوش انداز میں خطبہ دیا۔ تمام رفقاء نے وفاداری کا بھرپور یقین دلایا۔ رات تمام حضرات نے اپنے رب کے حضورآہ زاری کرتے ہوئے گزاردی۔ دشمن کے مسلح سوار ساری رات خیموں کے گرد گھومتے رہے۔ آخر دس محرم کو فجر کی نماز کے بعد حضرت حسینؓ نے اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں جن کی کل تعداد 72تھی۔
میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا۔ نتیجتاً حضرت حسینؓ کا خیمہ جلادیا گیا۔ دشمنوں نے انتہائی سفاکی اور بیدردی سے معصوم بچوں کو بھی خون میں نہلانے سے دریغ نہ کیا۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا جب زرعہ بن شریک نے نواسہ رسولؓ کے بائیں کندھے پر تلوار کا وار کیا، کمزوری سے پیچھے کی طرف ہٹے تو سنان بن ابی عمروبن انس نخعی نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپؓ زمین پر گرپڑے۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے خاتون جنت کے نورنظر کو ذبح کردیا۔ سرتن سے جدا کردیا۔ اس خون ریز معرکہ میں حضرت حسینؓ کے 72ساتھی شہید اور کوفیوں کے 88 آدمی قتل ہوئے۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ حضرت حسین ؓکا سر کاٹ کر ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے انتہائی گستاخی کرکے چھڑی کے ذریعے نواسہ رسولؓ کے ہونٹوں کو چھیڑ کر جسد خاکی کی توہین کی اور یزید کو لکھ بھیجا کہ میں نے حسینؓ کا سر قلم کردیا ہے۔
دسویں محرم کے ڈھلتے سورج نے انسانیت کی تاریخ کا یہ درناک واقعہ دیکھا جس کو خون سے رنگین دھرتی نے اپنے سینے پر ہمیشہ کیلئے نقش کردیا نوجوانان جنت کے سردارؓ اور خانہ نبوت کے چشم وچراغ نے اپنے خون سے شجر اسلام کو سیراب کرکے انمٹ داستان رقم کی جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
سنو!!کربلا سے کیا آواز آتی ہے؟
ذات ِرسول سارے کمالات کا مرکب ہوتی ہے اللہ کریم نے اس میں تمام تر اوصاف جلیلہ یکجا کر دیے ہیں ، اس میں جہاں حلم و بردباری ہوتی ہے وہاں غیرت و شجاعت بھی درجہ انتہاء پر ہوتی ہے۔ عفو و درگزر کے ساتھ ساتھ دین متین کے دشمنوں سے قتال و جہاد اس کا عظیم منصب ہوتا ہےپھر جب یہی خون نبی کی نسل کی رگوں میں گردش کرتا ہےتو دنیاکو ایک حسین بن علی رضی اللہ عنہما نصیب ہوتا ہے۔ جو صلح جو ئی اور شجاعت کے تمغے سینے پر سجا کر ظلم کی وادی میں اترتا ہے تو دنیائے باطل کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اللہ نے خون رسول میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ جب وہ خدا کے حضور ہو تو انکساری اور خاشعیت کا مظہر کامل بن جاتا ہے اور جب وہ باطل سے صف آرا ء ہو تو میدان کارزار میں ہمت و عزیمت کا ہمالیہ بن جاتا ہے۔
وہ دیکھیے !!کربلا کی وادی میں اہل حق کا سپہ سالار جگر گوشہ بتول اپنے گھرانے کے مرد و زن کو لیے آج ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنے چلا آ رہا ہے۔ ظالموں نے ظلم کی انتہاء کردی ، 72 خانوادۂِ نبوت کے چشم و چراغ تہ تیغ ہو گئے ، بچے ذبح کردیے گئے ، ان کے سروں کو نیزوں کی انیوں پر چڑھا دیا گیا ،لیکن اس تپتی ہوئی رزم گاہ میں خدا کی لاریب کتاب کی تلاوت پھر بھی سنائی دے رہی ہے ان اللہ مع الصابرین، اللہ کی معیت صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
شہدائے کربلا عملی طور پر یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ماتم اور سینہ کوبی بزدلوں کا وطیرہ ہے ،کربلا کا شاہ حسین رضی اللہ عنہ کہہ رہا ہے کہ میرا مزاج مجاہدانہ ہے بزدلانہ نہیں۔
محرم الحرام میں امن و امان کیسے ممکن؟
محرم الحرام میں ملکی و علاقائی امن و امان بحال رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف مسالک کے اجتماعات کا انعقاد باہمی اشتعال بڑھا دیتا ہے، نتیجہ افراتفری اور بدامنی کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس لیے امن و امان کے فروغ کے لیے سب سے بنیادی کام یہ کیا جائے کہ مذہبی اجتماعات اور جلسوں کو اپنی اپنی مساجد ومدارس اور مذہبی عبادگاہوں تک محدود رکھا جائے۔
یا اگر عوامی اجتماع منعقد ہو ں تو خاص میدان میں اجازت ہو ،کھلے عام سڑکوں پر آنے اور روڈ بلاک کرنے سے روکا جائے۔
ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کھلے عام سڑکوں اور گلی کوچوں میں اپنے مخصوص افکارو نظریات کا اظہار کرے گا خصوصاً دوسرے فریق کی مسجد و مدرسہ کے سامنے تو یقیناً یہ امر باہمی منافرت اور فرقہ واریت کی بنیاد بنے گا۔ لہذا یہ سلسلہ یکسر ختم کیا جائے۔
ایک اقدام اس سلسلے میں اور بھی کیا جائے تو ضرور نتائج رس ثابت ہو گا کہ اونچی سطح کا ایک اجلاس بلایا جائے جس میں تمام مسالک کے جید علماء شریک ہوں۔
فرقہ واریت کو روکنے کے لیے تمام شرکاء کی باہمی مشاورت سے ایسا قانون بنایا جائے جس پر تمام مسالک عمل پیرا ہوں۔ اس سے باہمی نفرت کی سلگتی چنگاریاں مدھم پڑ جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں امن و استحکام عطا فرمائے۔