>اجتماعی قربانی …ہماری غفلتیں

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
اجتماعی قربانی …ہماری غفلتیں
ذہنی آوارگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب ہر شخص دینی امور میں” عطائیت“ کرنے لگا ہے۔ عوام الناس کے قریب رہ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ دین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کریم نےدستور زندگی اور ذریعہ نجات بنا کر نازل کیا تھا،
اس دین کو لوگ اب اپنی ضرورت سے زائد تصور کرنے لگے ہیں۔
تقریباً ہر شخص اپنے” فکری انتشار“ اور” غلط رائے زنی“ کے سنگریزے کو” اجتہاد کا موتی” سمجھ بیٹھا ہے ، دینی احکام پر اپنی عقلی الل ٹپ جمانے کی کوشش میں ہے۔” آزاد خیالی“ کو اس قدر اپنا حق سمجھتا ہے کہ دین کے مسلَّمات کو بھی معاشرتی رسوم و رواج کی کسوٹی پر پرکھنے لگا ہے۔ خود ساختہ اخلاقیات کے ایسے دائرے کھینچ رکھے ہیں جہاں غیروں کو خوش رکھنے کی فکر تو ہے مگر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل دکھنے کا غم نہیں۔ اپنی اَنا اور عزتِ نفس کا احساس تو ہے لیکن دوسرے کے احترام کی گنجائش نہیں ،دوسرے کی اصلاح کے درپے تو ہے اپنی تربیت کا پاس نہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے جب نکاح خواں کسی کا نکاح کراتے تو کلمہ طیبہ ، ایمان مجمل اور ایمان مفصل بھی سنتے………بہت تعجب ہوتا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟
مسلمان سے کلمہ شہادت سننے کی ضرورت کیا ہے؟
ایمان مجمل اور مفصل بھلا کس مسلمان کو نہیں آتی؟
لیکن اب !
اب تعجب نہیں ہوتا !کیوں؟
اب اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ، اشرافیہ طبقہ ،مراعات یافتہ طبقہ ، ملکی قوانین پر اثر انداز ہونے والوں کو ،ملک کے داخلی امور کے نگہبانوں کو اور پاکستان کی زبان سمجھے جانے والوں کو” سورۃ اخلاص“ بھی نہیں آتی۔ مقام افسوس ہے !!!
قارئین کرام !آپ کے سامنے ہے کہ آج کا مسلمان محض گوروں اور غیر مسلم اقوام کا نقاَّل اور ان کی تہذیب و کلچر کا قوَّال بن کر رہ گیا ہے ، دین نام کی چیز اس کے ہرشعبہ زندگی سے برابر مٹتی ہی چلی جارہی ہے ، دینی حکم ہو یا دنیاوی معاملہ ، ہر مسئلے کو لوگوں کے مختلف خیالات نے گھیرا ہوا ہے۔
بحیثیت عالم دین ہونے کے ہماری یہ مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ باہمی تشتت ، تفرقہ بازی ، مذہبی دھینگا مشتی کی فضا کو ختم کرکے رواداری ، اتحاد و اتفاق ، اخوت دینی اور ہم آہنگی کا سبق یاد کرائیں۔
ابھی قربانی کے دن قریب آر ہے ہیں۔ اہل اسلام؛ اللہ کریم کے حکم کے مطابق جانوروں کو ذبح کریں گے ،کوئی بکرے کی قربانی کر رہا ہوگا تو کوئی مینڈھے کی۔ اسی طرح بعض لوگ” اجتماعی قربانی“ میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ گائے ،بھینس کی قربانی ہو یا اونٹ کی …..اس میں شرکاء کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ اس پر راقم نےدلائل کے ساتھ تفصیلاً لکھ دیا ہے جو چند صفحات بعد آپ پڑھ سکتے ہیں …………یہاں صرف ایک بنیادی اور ضروری بات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ
اجتماعی قربانی کے شرکاء میں سے اگر کسی ایک حصہ دار اور شریک کا عقیدہ و نظریہ درست نہ ہو اتو تمام شرکاء میں سے کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔
غریب آدمی جس نے آٹھ دس ہزار روپے اکٹھے کر کے قربانی کے جانور میں حصہ ڈالا ہو اور شرکاء میں سے کسی کے غلط نظریے کے باعث اس کی قربانی بھی نہ ہو، بہت قابل افسوس امر ااور دکھ کی بات ہے۔
ہمارے پاس بہت سارے لوگ فون کر کے ، بذریعہ انٹر نیٹ ،خطوط اور براہ راست سوال کرتے ہیں کہ قربانی کے شرکاء کی تسلی کیسے کی جائے؟ آیا ان کا عقیدہ درست ہے یا نہیں؟ اگرغلط عقائد و نظریات والا شخص ہماری قربانی میں حصہ دار بنتا ہے تو ہماری بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
عوام الناس کی اس پریشانی کا آسان حل ہم نے یہ نکالا کہ” قربانی فارم“ ترتیب دیاجائے۔ جس میں بنیادی عقائد و نظریات کو نمبر وار لکھ لیا جائے۔ اس میں عقیدہ توحید ، ختمِ نبوت ، خلافتِ راشدہ ، عدالتِ صحابہ ، ائمہ اربعہ کی فقاہت اور ان کے متبعین مقلدین کا برحق ہونا، اکابر دیوبند کو متبع سنت سمجھنا اور عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار موجود ہو ، مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس پڑھا جانے والا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سماعت فرماتے ہیں۔ دور سے پڑھا جانے والا درود ملائکہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
اگر تمام شرکاء سے اس فارم کو پر کرا لیا جائے اس سے جہاں اپنی تسلی ہوگی وہاں پر غلط نظریات والے خود بخود الگ ہوجائیں گے اور آپ کی قربانی درست ہوجائے گی۔ عوامی سہولت کے پیش نظر ہم اس کو الگ بھی شائع کر رہے ہیں ، انٹر نیٹ پر بھیupload کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ گھر گھر تک ہمارا یہ کام پہنچ جائے ہماری طرف سے ہر عام و خاص کو اس کے شائع کرنے کی کھلی اجازت ہے وہ اس فارم کو اپنے اپنے علاقے میں بغیر کسی ردوبدل کے شائع کر کے تقسیم کریں۔
اگر کوئی شخص اس میں کسی طرح کی بھی ترمیم کرتا ہے تو اس فارم کی نسبت ہماری طرف نہ کی جائے۔ اب ملاحظہ فرمائیں:
قربانی فارم
میں ……………………………ولد …………………اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ
1: اللہ تعالیٰ کو ذات ، صفات ، اور افعال میں وحدہ لاشریک لہ مانتا ہوں اور ہر قسم کے کفر وشرک سے بری ہوں۔
2: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کے مدعی نبوت کو کافر سمجھتا ہوں۔
3: حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت یافتہ اور معیار حق اور جنتی مانتا ہوں۔
4: ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ ،امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کو امت کے عظیم فقہاء اور برحق مانتا ہوں اور ان کے پیش کردہ مسائل پر عمل کرنے والوں کو ہدایت یافتہ مانتا ہوں۔
5: اکابر علماء دیوبند کو سچا مومن اور متبع سنت مانتا ہوں اور ان کے تمام عقائد کو سچا مانتا ہوں۔
6: اپنے پیارے اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ والی اپنی قبر میں روح کے تعلق کے ساتھ زندہ مانتا ہوں اور اس بات کا عقیدہ رکھتا ہوں کہ روضہ مبارکہ پر پڑھا جانے والا درود شریف آپ خود سنتے ہیں اور دور سے پڑھا جانے والا درود آپ کی خدمت میں ملائکہ پیش کرتے ہیں۔
7: سنت پر عمل کرنے کوذریعہ نجات اور بدعت کو گمراہی جانتا ہوں۔
حصہ دار نمبر دستخط عید والے دن نماز جمعہ کی ادائیگی
اسلام؛ اللہ کریم کا محبوب دین ہے جس میں تا صبح قیامت زندگی کے ہر موڑ پر )خوشی و غمی، دکھ سکھ ، امن و خوف ، تنگی و خوشحالی۔ وغیرہ( رہنمائی ملتی ہے۔ تمام امور دینیہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے پر بجا لانا” شریعت“ کہلاتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی کمی و زیادتی کرنا جائز نہیں۔ ورنہ اسلام کی زبان میں اس عمل کو” صراطِ مستقیم“ کے بجائے” الحاد و بدعت“ کے نام سے تعبیر کیا جائے گا۔
انہی امور دینیہ میں نماز کو اہم العبادات قرار دیا گیا ہے۔ اس کو قائم کرنے پر اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا مژدہ سنایا گیا ہے جبکہ اس کے ترک پراللہ و رسول کی ناراضگی اور سخت سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ آج کے گئے گزرے دور میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی روایتی سستی اور کاہلی کو شریعت کے سر تھوپتے ہیں اور نماز کو چھوڑنے یا کم کرنے کے حیلے بہانے تراشتے ہیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ اگر جمعہ والے دن اتفاق سے عید ہو جائےتو کیا دونوں)نماز عید اور نماز جمعہ(کو ادا کرنا ضروری ہے یا ان میں صرف نماز عید پڑھ لینا کافی ہوگا؟؟ تمام اہل السنت والجماعت کا اتفاقی و اجماعی مؤقف قرآن و سنت اور آثار صحابہ کی روشنی میں یہی ہے کہ چونکہ ہر ایک کی الگ الگ حیثیت ہے اس لیے دونوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔ کسی ایک کے ادا کرنے سے دوسرا ذمے سے ساقط نہیں ہوگا۔
چنانچہ یہاں چند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں۔
امام مسلم ، امام نسائی اور دیگر محدثین رحمہم اللہ نے اس بارے ایک حدیث ذکر فرمائی ہے:
عن النعمان بن بشير قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في العيدين وفي الجمعة بسبح اسم ربك الأعلى وهل أتاك حديث الغاشية قال وإذا اجتمع العيد والجمعة في يوم واحد يقرأ بهما أيضا في الصلاتين۔
صحیح مسلم: ج1 ص351 ، سنن النسائی: ج1 ص201 باب القراءۃ فی العیدین
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں عیدوں اور جمعہ میں
” سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلىٰ“ اور” هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ“
پڑھتے تھے۔ جب عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں نمازوں میں یہی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید اور جمعہ جس دن اکٹھا ہو جائے تو آپ کا طریقہ دونوں نمازوں کی ادائیگی کا تھا۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں حدیث ذکر فرمائی ہے:
أن عليا كان إذا اجتمعا في يوم واحد صلى في أول النهار العيد وصلى في آخر النهار الجمعة۔
مصنف عبد الرزاق: ج3 ص177 باب اجتماع العیدین رقم الحدیث5750
جس دن عید اور جمعہ ایک ہی دن جمع ہو جاتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ دن کے اول حصہ میں عید اور دوسرے حصہ میں جمعہ پڑھتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد ہیں۔ عید اور جمعہ ایک دن جمع ہونے کے باوجود ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا فرما رہے ہیں اور یہ ادائیگی بے شمار صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کی موجودگی میں تھی۔
یہ دلیل ہے کہ ایک کی وجہ سے دوسرے کو ترک نہیں کیا جا سکتا بلکہ دونوں کی ادائیگی اپنے اپنے وقت میں کرنا ضروری ہے۔
علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ نماز عید” تطوع“ (فرائض سے الگ ایک عبادت) ہے اور نماز جمعہ” فرض“ہے۔ تطوع کی وجہ سے فرض کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔
چنانچہ لکھتے ہیں:الجمعۃ فرض والعید تطوع والتطوع لایسقط الفرض
المحلی لابن حزم ج3ص304
دین اسلام کی خوبی یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی حیثیت و استطاعت کے مطابق حکم دیتا ہے۔ مثلاً زکوٰۃ فرض ہے لیکن ہر شخص پر نہیں بلکہ جو شرعی لحاظ سے صاحب نصاب بنتا ہو۔ یہی حال دیگر احکام اسلامیہ صدقۂ فطر، قربانی ، حج وغیرہ کا ہے۔ اس تناظر میں میں دیکھا جائے تو اسلام نے بعض شرعی مسائل میں دیہات والوں اور شہر والوں کی الگ الگ رعایت رکھی ہے۔ چنانچہ شہر اور بڑی بستی والوں پرنماز جمعہ کی ادائیگی کو ضروری قرار دیا جبکہ چھوٹے قصبے ،گاؤں اوردیہات والوں کو اس کا پابند نہیں بنایا۔ انہیں یہ اختیار ضرور دیا ہے کہ اگر وہ شہر میں جا کر نماز جمعہ پڑھ لیں تو اچھی بات ہے ورنہ شرعا ان پر کوئی حرج نہیں۔
دور نبوی اور دور صحابہ میں دیہات والے جب شہر میں آکر عید پڑھتے تو اگر اتفاق سےوہ جمعہ کا دن ہوتا تو نماز عید پڑھ لینے کے بعد ان کو اختیار دیا جاتا کہ آپ واپس اپنے گھروں کو جانا چاہیں اور نماز جمعہ چھوڑ دیں تو کوئی بات نہیں لیکن اگر آپ یہاں شہر میں رہنے کا ارادہ کرو تو جیسے شہر والوں پر جمعہ کے دن نماز جمعہ پڑھنا فرض ہے تو تم پر بھی نماز جمعہ پڑھنا ضروری ہوگا۔ اب تم نمازجمعہ کی جگہ نماز ظہر نہیں پڑھ سکتے۔ چنانچہ چند روایات پیش خدمت ہیں:
أن النبي صلى الله عليه و سلم اجتمع في زمانه يومُ جمعة ويومُ فطر أو يومُ جمعة وأضحىٰ فصلى بالناس العيد الأول ثم خطب فأَذِنَ للأنصار في الرجوع إلى العوالي وتركِ الجمعة فلم يزل الامر على ذلك بعدُ۔
مصنف عبد الرزاق: ج3 ص176 باب اجتماع العیدین
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں جمعہ اور عید الفطر یا جمعہ اور عید الاضحیٰ ایک ہی دن جمع ہوگئے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو پہلی عید پڑھائی اور خطبہ دیا۔ پھر انصار کو اجازت دی کہ وہ بستیوں میں واپس جا سکتے ہیں اور جمعہ چھوڑ سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیشہ یہی طریقہ جاری رہا۔
عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ أَنَّهُ شَهِدَ الْعِيدَ يَوْمَ الْأَضْحَى مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَاكُمْ عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْعِيدَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَيَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيَوْمٌ تَأْكُلُونَ مِنْ نُسُكِكُمْ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ ثُمَّ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَكَانَ ذَلِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا يَوْمٌ قَدْ اجْتَمَعَ لَكُمْ فِيهِ عِيدَانِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْتَظِرَ الْجُمُعَةَ مِنْ أَهْلِ الْعَوَالِي فَلْيَنْتَظِرْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَرْجِعَ فَقَدْ أَذِنْتُ لَهُ۔
صحیح البخاری: ج2ص835 ب باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی ابو عبید نے کہ وہ عید الاضحیٰ کے موقع پر نماز کے لیے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاضر ہوئے۔ آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی پھر لوگوں کو خطبہ دیا فرمایا اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو ان دونوں عیدوں کے روزے رکھنے سے منع کیا ہے، ان دونوں میں سے ایک تو عید الفطر ہے دوسرے وہ ہے جس میں تم اپنی قربانیوں کے گوشت کھاتے ہو۔ ابو عبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر میں عید کی نماز کے لیے حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ حاضر ہوا یہ اتفاق سے جمعہ کا دن تھا آپ نے بھی خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا فرمایا لوگو! یہ ایسا دن ہے کہ جس میں تمہارے لیے دو عیدیں اکھٹی ہو گئی ہیں۔ اہل عوالی میں سے جو جمعہ کا انتظار کرنا چاہے وہ انتظار کرے اور جو واپس جانا چاہیے میری طرف سے اس کو اجازت ہے۔
اس حدیث میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ اجازت و اختیار صرف دیہات والوں کے لیے تھا، اہلِ مدینہ کے لیے ہرگز نہ تھا ورنہ” اہل العوالی“یعنی دیہات والوں  کی تخصیص بے معنیٰ ہو جاتی۔
عن عُمَرَ بن عبد الْعَزِيزِ قال اجْتَمَعَ عِيدَانِ على عَهْدِ رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم فقال من أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ من أَهْلِ الْعَالِيَةِ فَلْيَجْلِسْ في غَيْرِ حَرَجٍ۔
کتاب الام: ج1ص428
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو عیدیں اکٹھی ہو گئیں تو آپ نے فرمایا: اہل عوالی میں سے جو (نماز جمعہ کے لیے) بیٹھنا چاہے وہ بیٹھ جائے بغیر کسی تنگی کے۔
اب چند روایات پیش کی جا رہی ہیں جن میں اگرچہ واضح طور پر” اہل العوالی“یعنی دیہات والوں کے الفاظ تو نہیں لیکن سیاق و سباق، قرائن سے سمجھ میں آتا ہے کہ نماز جمعہ پڑھنے کا اختیاری حکم” اہل عوالی“یعنی دیہات والوں کیلیے ہے۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: اجْتَمَعَ عِيدَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ: « إِنَّهُ قَدِ اجْتَمَعَ عِيدُكُمْ هَذَا وَالْجُمُعَةُ وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ ، فَمَنْ شَاءَ أَنْ يُجَمِّعَ فَلْيُجَمِّعْ ». فَلَمَّا صَلَّى الْعِيدَ جَمَّعَ.
السنن الکبریٰ للبیہقی: ج3 ص318 باب اجتماع العیدین
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں دو عیدیں جمع ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:” آج تمہاری عید اور جمعہ کا دن جمع ہوا ہے، ہم جمعہ ضرور پڑھیں گے تو جو چاہے جمعہ پڑھے“ چنانچہ جب آپ نے عید پڑھا لی تو جمعہ بھی پڑھا۔
روایت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں” إِنَّا مُجَمِّعُونَ“ میں” اِنَّا“ ضمیر جمع متکلم کے لیے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام اہل مدینہ کو شامل ہے۔ کہ” ہم سب اہل مدینہ تو لازماً جمعہ پڑھیں گے (کیونکہ ہم پر فرض ہے)“ تو بعد والے جملہ
” فَمَنْ شَاءَ أَنْ يُجَمِّعَ فَلْيُجَمِّعْ“
کا تعلق بالیقین ان لوگوں سے ہے جن پر جمعہ فرض نہیں ہے اور وہ دیہات والےہیں۔
عن ابن عباس عن رسول الله صلى الله عليه و سلم: أنه قال اجتمع عيدان في يومكم هذا . فمن شاء أجزأه من الجمعة . وإنا مجمعون ان شاء الله.
سنن ابن ماجہ: ص94- باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: آج کے دن دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں جو چاہے یہ عید ہی اس کے لیے جمعہ کے عوض ہے لیکن ہم ان شاء اللہ جمعہ ضرور ادا کریں گے۔
علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وفي ذلك دليل على أن فرض الجمعة والظهر لازم وأنها غير ساقطة وأن الرخصة إنما أريد بها من لم تجب عليه الجمعة ممن شهد العيد من أهل البوادي والله أعلم وهذا تأويل تعضده الأصول وتقوم عليه الدلائل ومن خالفه فلا دليل معه ولا حجة له.
التمہید لابن عبد البر: ج4 ص402 تحت الحدیث: الواحد و الاربعون
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جمعہ اور ظہر کی فرضیت لازم ہے، یہ ساقط نہیں ہوں گے اور رخصت کا تعلق ان دیہاتی لوگوں کےساتھ ہے جو عید کی نماز پڑھنے کے لیے تو آتے ہیں لیکن ان پر جمعہ فرض نہیں ہے۔اصولوں کی روشنی میں اس روایت کا یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے اور اس پر کئی دلائل قائم ہیں۔ جو لوگ اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل و حجت نہیں ہے۔
مندرجہ بالا موقف تمام اہل السنت والجماعت کا ہے۔ چند تصریحات:
1:امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م150ھ) فرماتے ہیں
:عِيدانِ اجتَمَعَا في يومٍ واحدٍ فالاول سنةٌ والآخر فريضةٌ ولا يُتْركُ واحدٌ منهما۔
جامع الصغیر ص113باب فی العیدین و الصلوٰۃ بعرفات
جب دو عیدیں (عید اور جمعہ) ایک دن اکٹھی ہو جائیں تو اول سنت (ثابت بالسنت )ہے اور دوسری فرض ہے اور ان دونوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑا جائے۔
نوٹ: ”عید سنت ہے“ کا مطلب بیان کرتے ہوئے علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
:لِأَنَّ مُرَادَهُ ثَبَتَ وُجُوبُهُ بِالسُّنَّةِ وَلِهَذَا قال وَلَا يُتْرَكُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا.
تبیین الحقائق: ج1 ص538 باب صلاۃ العیدین
امام صاحب کی مراد یہ ہے کہ نمازِ عید کا وجوب سنت سے ثابت ہے، اس کی دلیل:” وَلَا يُتْرَكُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا“ کہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑا جائے۔
2: امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م204ھ)فرماتے ہیں:
وَلَا يَجُوزُ هٰذَا لِأَحَدٍ من أَهْلِ الْمِصْرِ أَنْ يَدَعُوْا أَنْ يُّجَمِّعُوْا إلَّا من عُذْرٍ يَجُوزُ لهم بِهِ تَرْكُ الْجُمُعَةِ وَإِنْ كان يومَ عِيدٍ. . . . وَهَكَذَا إنْ كانَ يومَ الْأَضْحٰى لَا يَخْتَلِفُ، إذَا كانَ بِبَلَدٍ يُجَمَّعُ فيه الْجُمُعَةُ ويُصَلَّى الْعِيدُ وَلَا يُصَلِّى أَهْلُ مِنٰى صَلَاةَ الْأَضْحٰى وَلَا الْجُمُعَةَ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ بِمِصْرٍ.
 کتاب الام للشافعی: ج1 ص428 کتاب صلاۃ العیدین 
کسی شہری کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی عذر شدید کے جمعہ ترک کرے اگرچہ عید کا دن ہی کیوں نہ ہو۔ اور بغیر اختلاف کے عید الاضحیٰ کا یہی حکم ہے جب آدمی ایسے شہر میں ہو جہاں جمعہ اور عید کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ اہل منیٰ عید الاضحیٰ اور جمعہ کی نماز نہ پڑھیں کیونکہ منیٰ مصر (شہر) نہیں ہے۔
امام ابن عبد البر المالکی رحمۃ اللہ علیہ(م463ھ) فرماتے ہیں
:وأما القول الأول إن الجمعة تسقط بالعيد ولاتصلى ظهراً ولا جمعةً فقول بَيِّنُ الفساد وظاهرُ الخطأ متروكٌ مهجورٌ لا يُعْرَجُ عليه۔
 التمہید لابن عبد البر: ج4 ص401 
پہلا قول کہ” عید کی وجہ سے جمعہ ساقط ہو جاتا ہے، اس کے بعد آپ نے ظہر پڑھیں نہ جمعہ” تو یہ قول بالکل فاسد ہے، اس کا غلط ہونا ظاہر ہے، یہ قول متروک و مہجورہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ ابن قدامہ الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ [م620ھ] لکھتے ہیں:
وقال أكثر الفقهاء تجب الجمعة لعموم الآية والأخبار الدالة على وجوبها ولأنهما صلاتان واجبتان فلم تسقط إحداهما بالأخرى كالظهر مع العيد.
المغنی لابن قدامۃ: ج 3ص84-مسألۃ وفصل: اتفاق الجمعۃ والعيد في يوم واحد
اکثر فقہاء فرماتے ہیں کہ (عید کے دن جمعہ آ ج آ جائے تو) جمعہ ادا کرنا بھی واجب ہے اس لیے کہ آیت قرآنی کے عموم اور احادیث مبارکہ سے جمعہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دونوں نمازیں واجب ہیں ، لہذا ایک کی وجہ سے دوسری کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
معلوم ہوا کہ آج جو لوگ مسلمانوں میں یہ غلط فہمی پھیلا رہے ہیں”اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہو جائیں تو اس دن جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے چاہے کوئی پڑھے یا نہ پڑھے۔بلکہ راجح قول کے مطابق اس دن نماز ظہر بھی کا چھوڑنا بھی جائزہے۔“ان کی یہ بات بے بنیاد اور شرعی دلائل کے مقابلے میں غلط ہے۔