مسلمان ……کیسے مسلمان ہیں؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مسلمان ……کیسے مسلمان ہیں؟
الحمدللہ !ہم” مسلمان“ ہیں۔ استغفراللہ! ہم” کیسے مسلمان“ ہیں؟؟
اس بات پر اللہ کریم کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم کہ اس ذات نے ہمیں مسلمان گھرانوں میں پیدا فرمایا ، ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے نام بھی مسلمانوں والے رکھے ، ہمیں اپنے مذہب کا تعارف” اسلام“ بتلایا۔ مذہبی شعار کی پہچان کرائی: اللہ وحدہ لا شریک لہ ، انبیاء کرام بالخصوص سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، کتب سماویہ بالخصوص قران کریم ، ملائکہ ،
صحابہ و اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلاف ، اولیاء کرام ، موت ، قبر ، قیامت ،حشر ، پل صراط ، جنت ،جہنم سے شناسا کیا۔
ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو انسانیت کے” تعمیرِ کردار“ پر بہت زور دیتا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو جعلی ، نقلی ،بناوٹی اور من گھڑت رسومات ، فرسودہ اور تاریک خیالیوں سے”عملی نجات“ دلاتا ہے۔ اسلام ہی وہ” مذہبِ اعتدال“ ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے لیے نہ تو” افراط کی ہمالہ“ عبور کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی” تفریط کی گھاٹیوں“ میں گرنا پڑتا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس سے معاشرے کی ڈوبی نبضوں کو”حرکتِ جاوداں“ بخشی جا سکتی ہے۔ امن ، انصاف ، عدل ، رعایا پروری ، اخوت ، بھائی چارگی ، ہمدردی ، ایثار ، موانست ، الفت ، محبت ، خیر خواہی ، رواداری ، صلہ رحمی وغیرہ اسلام کی منقش چادر پر جڑے وہ ہیرے ہیں جن کی شعاعوں سے اور رعنائیوں سے غیر مسلم لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔
اسلام؛ انسان کے ظاہر اور باطن دونوں کی درستگی اپنے ذمہ لیتا ہے ، عبادات کے ساتھ جب تک اخلاقیات ، معاشرت ، معاملات اور آداب کو نتھی نہ کیا جائے اس وقت تک اس کی صحیح تعریف بتلائی ہی نہیں جاسکتی۔ اسلام نے مسلمان کو عزت ، احترام ، وقار اور معاشرے میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں زمام اقتدار حوالے کی ہے۔ لیکن ……آج کے مسلمان کو ذرا دیکھیے !!اسے اسلام کی عطا کردہ” عزت” کی بجائے اغیار کی مسلط کردہ” ذلت“ پسند ہے۔ اسلام کی عطا کردہ” احترام ِآدمیت“ کی بجائے اغیار کی مسلط کردہ” ننگِ آدمیت“ سے پیار ہے۔ اسلام کی عطا کردہ” تہذیب و تمدن“ کی بجائے اغیار کا” تھوکا ہوا کلچر“ لذیذ لگنے لگا ہے۔ اسلام نے تلاوت کلام اللہ اور فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی” مٹھاس“ اس کے منہ میں ڈالی لیکن آج کے مسلمان نے اغیار بلکہ شیطان کی پسند فرمودہ” موسیقی“ کو اپنی” روح کی غذا“ قرار دیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ موسیقی ایسا سوہانِ روح مرض ہے جس سے غالب قومیں مغلوب ، فاتح قومیں مفتوح ، باعزت قومیں ذلیل اور بااثر قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
چند دن پہلے 14 فروری گزرا ہے ، ویلنٹائن ڈے{جنسی عیاشی رنگ رلیاں } مناتے ہوئے کئی مسلمان ایسے تھے جو” محبت“ کی آڑ میں” زنا کلچر اور عریانی و فحاشی“ کو فروغ دیتے ہوئے پائے گئے۔ ویڈیو سیکنڈل منظر عام پر لائے گئے۔ پولیس چھاپوں میں کئی” بے نقاب“چہروں سے” نقاب“ اٹھ گیا۔
کئی بچیوں کے والدین اسے دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھے۔ مسلمانوں کی ایسی جگ ہنسائی بلکہ یوں کہیے کہ” بے عزتی“ ہوئی جو کسی سے مخفی نہیں۔ایک دن کے چند لمحوں میں غیروں کی تہذیب کو سینے سے لگانے کا نتیجہ تھا کہ مسلمان سارے عالم میں” بدنام“ ہو کر رہ گیا۔
اس سارے منظر نامے میں؛ مَیں جب مسلمان کو دیکھتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں کہ آج کے” مسلمان ………کیسے مسلمان ہیں؟
مسلمان اتناسادہ ہے؟
ہرگزرتی سانس کے ساتھ حیات مستعار کٹتی چلی جا رہی ہے وقت کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ ہنوز اس سے غافل۔ ہمیں اپنے احوال پر غور کرنا ہوگا۔ ماضی پرفخر کم اور حال و مستقبل کی فکر زیادہ کرنی ہوگی ، ہماری لاپرواہی میں بیتی زندگی کی ساعتیں ہم سے شکوہ کناں بھی ہیں اور ہمیں دعوت فکر بھی دی رہی ہیں کہ باقی ماندہ وقت کو غنیمت جانو ، جو ہوچکا اس پر توبہ و استغفار اور آئندہ کے لیے محتاط زندگی اختیار کرو۔ ہماری ذاتی زندگی سے لے کر گھریلو زندگی تک اور گھریلو زندگی سے لے کر ہر شخص کی اجتماعی زندگی تک خالق دو جہاں کے احکام اور محبوب دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات دھیرے دھیرے نہیں بلکہ بڑی تیزی سے مٹتے جا رہے ہیں۔
شیطان مردود خوش اور رحمان و رحیم ناراض ہیں، یہ ہمارے حالات میں فساد اور بگاڑ میں وہ پوشیدہ امر ہے جسے ہم جان بوجھ کر سوچنا ہی نہیں چاہتے اس کو کبھی حکومت کے سرمنڈھتے ہیں اور کبھی فلاں طبقے پر اور کبھی فلاں طبقے پر۔
اگر ہم خلاق لم یزل کے احکامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق صدق دل سے عمل پیرا ہوجائیں۔ تو یادرکھیے غلامی کی دبیز چادر چاک ہوگی مسلمان اپنی نئی آن نئی شان سے نظر آئے گا۔ پھر مسلمان؛ تقسیم شدہ حدود میں محدود نہیں رہے گا بلکہ بقول اقبال مرحوم
چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

لیکن اس ذہنی غلامی سے نکلنے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم پختہ ارادہ کریں کہ غیروں کے کلچر ، ان کی تہذیب وتمدن ، ان کے طور طریقے اور ان کی مشابہت چھوڑ کر اسلام کی روشنی سے مستفید ہوں۔
محض باتوں باتوں سے کام نہیں بنتے بلکہ اس کی عملی مشق کرنا ہوگی ، آج کا مسلمان تھیوری(Theory)زیادہ پیش کرتا ہے اورپریکٹیکل (Practical) کم۔ ہروقت یہود و نصاریٰ کی مذمت زیادہ کرتا ہے انہیں اسلام ، پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کا دشمن گردانتا ہے لیکن ان کے طرزِ زندگی کو عملاً چھوڑتا بھی نہیں ، غیروں کے خود ساختہ قوانین کو معاشرے پر ظلم بھی سمجھتا ہے لیکن عملاً اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے کوشش بھی نہیں کرتا۔ غیروں کے بے ہودہ کلچر کو نقصان دہ بھی سمجھتا ہے لیکن عملاً اپنے کلچر کو بھی انہیں کے رنگ میں رنگ رہا ہے ، غیروں کے مادر پدر آزاد بود وباش کو معاشرے کی بربادی کا ذمہ بھی قرار دیتا ہے لیکن عملاً اسی بود وباش کو اپنے لیے باعث عزت اور فخر بھی سمجھتا ہے۔
اس سے ذرا آگے آئیں خود کو” سنی“ بھی کہتا ہے لیکن عملاً ایسی ایسی بدعات کا مرتکب ہو رہا ہے کہ الاماں الاماں۔ خصوصاً پاکستان کے باسیوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ربیع الاول کےابتدائی 12 دن محرم الحرام کےابتدائی 10 دنوں سے جیسے تعداد میں زیادہ تھے اس طرح خرافات میں بھی کم نہ تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے” جشنِ میلاد“ کی آڑ میں کون سا وہ لچر اور فضول کام ہے جو نام نہاد” سنی قوم” نے نہ کیا ہو؟ ہماری بات کو طنز نہ سمجھا جائے بلکہ سنجیدہ طبقہ اس پر غیر جانب دار ہو کر اپنے ضمیر کی آواز کو سمجھے۔اس سارے پس منظر میں آپ کو کیا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر حقائق سے نظریں چرائی جا رہی ہیں۔ یا واقعی مسلمان اتنا” سادہ” ہے؟