اسلام میں” صلہ رحمی“ کا معاشرتی کردار

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اسلام میں” صلہ رحمی“ کا معاشرتی کردار
پر امن معاشرے کو تعمیر کرتے وقت رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جن امور کو سنگِ بنیاد کی حیثیت دی ان میں ایک” صلہ رحمی“بھی ہے۔ اسلامی معاشرت میں حسن سلوک ،اخلاق حسنہ اور باہمی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے اور ان کو اپنانے پر بہت زور دیا گیا ہے
تاکہ امن و سکون اورراحت وچین میسر آسکے۔
قران کریم کی سورۃ رعد کی آیت نمبر21 تا 24 میں جہاں” صلہ رحمی“ کے بارے میں ترغیب اور تاکید موجود ہے وہاں پر اس کی وجہ سے ملنے والے انعامات خداوندی کا تذکرہ بھی واضح الفاظ میں مذکور ہے۔
قبیلہ خثعم کے ایک شخص نے ہادی دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں سوال کیا: کیا آپ واقعتاً اللہ کے برحق رسول ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! بالکل میں اللہ کا برحق رسول ہوں۔ اس کے بعد اس شخص نے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا کہ اللہ پر کامل ایمان لانا۔
سائل نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مزید بھی ارشاد فرمائیں کہ عقائد اسلامیہ کے بعد اللہ کے ہاں پسندیدہ بات کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا:” صلہ رحمی“کرنا۔
ایک مرتبہ ایک دیہاتی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا: اے اللہ کے برحق رسول !مجھے کوئی ایسا فارمولہ بتائیں کہ جو مجھے جنت کے قریب کردے اور جہنم سے دور کردے۔
اس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے ایک ایسا اصول مقرر فرمایا جس پر عمل پیرا ہوکر قیامت کی صبح تک آنے والا ہرشخص جنت کے قریب اور جہنم سے دوری اختیار کرسکتا ہے۔
نمبر1: اللہ کی وحدانیت پر کامل ایمان لاؤ نمبر2: نماز قائم کرو۔ نمبر3:زکوٰۃ ادا کرو اگر صاحب نصاب ہو تو  نمبر4:صلہ رحمی کرو۔
راوی حدیث حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمان کو سن کر وہ شخص جب چلا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میری بیان کردہ باتوں پر عمل کرے تو سیدھا جنت میں جائے گا۔
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی کتب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ”صلہ رحمی“ کرے۔
ایک اور حدیث مبارک میں ہے: جو شخص اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو (یعنی زندگی میں اللہ برکت عطاء فرمائے) اور اس کے رزق میں فراخی ہو مزید یہ کہ اسے بری موت بھی نہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے اور”صلہ رحمی“ کرے۔
بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی نقل کرتے ہیں: تورات میں یہ بات لکھی ہوئی تھی جو اپنی لمبی زندگی اور رزق میں کشادگی چاہتا ہو اسے چاہیے کہ وہ”صلہ رحمی“ کرے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو کر بیٹھے تھے ،ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمانے لگے: اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو اور”صلہ رحمی“ کرو، کیونکہ اس عمل کا ثواب جلدی قبول ہوتا ہے، حدیث کے آخر میں ہے جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے لیکن قطع رحمی کرنے والا اسے سونگھ بھی نہیں پائے گا۔
امام بزار اور امام حاکم رحمہما اللہ نے ایک حدیث حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے نقل کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تین خوبیاں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کا حساب وکتاب بہت آسان کردے گا اور اسے جنت میں بھی داخل کرے گا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں وہ کون سی تین خوبیاں ہیں؟
آپ نے فرمایا: جو شخص تم کو محروم کرے تم اسے نوازدو، جو تمہارے اوپر ظلم کرے اسے معاف کردو، جو تم سے قطع تعلقی اختیار کرے تم اس سے”صلہ رحمی“ کرو۔ جب تم یہ کام کرو گے تو اللہ تمہیں جنت عطاءفرمائے گا۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جابجا” صلہ رحمی“ کا حکم موجود ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا مسلم معاشرہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے کوسوں دور ہوتا چلا جارہا ہے۔ بھائی؛ بھائی سے تعلقات ختم کرچکا ہے، بہن؛ بہنوں سے سے ،ماں باپ؛ اولاد سےاور اولاد؛ والدین سے۔ ہم لوگ اپنے اعزہ و اقارب اور دوست احباب سے ہلکی پھلکی باتوں پر قطع تعلقی کرلیتے ہیں اور پھر خوشیوں پر آنا جانا ختم حتیٰ کہ موت فوت پربھی اپنی انا اور ضد پر اڑے رہتے ہیں ، یاد رکھیں کہ قطع تعلقی کے بیج کو بو کر پیار و محبت کاشت نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ احکام اسلامیہ کے مطابق” صلہ رحمی“ پر عمل کریں اور قطع رحمی سےہمیشہ بچیں۔