ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری
اہل اسلام کی طرف سے مولانا عبدالغفور حیدری جنرل سیکرٹری جمعیت علماء اسلام کو ڈپٹی چئیرمین سینیٹ منتخب ہونے پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس عالی منصب کی لاج رکھتے ہوئے وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم جمعیت علماء اسلام کے اراکین بالخصوص قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بصیرت اور فراست ایمانی کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ جن کی دور اندیشی اور حکمت عملی سے یہ سب کچھ ممکن ہوا۔ اللہ تعالی وطن عزیز پاکستان بلکہ تمام عالم اسلام کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور تمام اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ اسلام اور امن کا بول بالا فرمائے
یتیم کی کفالت
اسلام؛ اللہ کریم کی طرف سے عالم انسانیت کے لیے ایسا عظیم الشان لائحہ عمل اور دستور ہے جس میں سب کی رعایت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اقتدار والوں کو حکم دیا گیا کہ رعایا پر ظلم نہ کریں اور رعایا کو حکم دیا گیا کہ انتظامی معاملات میں حکمرانوں کے فیصلوں پر عمل کریں۔ دولت والوں کو حکم دیا گیا کہ غریبوں سے شفقت و نرمی کا برتائو کریں جبکہ غریبوں کو حکم دیا گیا کہ وہ احسان فراموش نہ بنیں۔ گویا پورا نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ جس میں جذبہ خیر خواہی ، باہمی محبت ، الفت و مودت ، رواداری اور احسان مندی کو بنیادی اور لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اسلام کے اجتماعی نظام کو جس زاویے سےبھی دیکھا جائے مکمل نظر آتا ہے۔ اس کی مرکزی خوبی ہے کہ یہ محض چند اشخاص اور وقتی حالات پر ہی انحصار نہیں کرتا بلکہ انسانی نسلوں کی بقاء اور عزت کا محافظ ہے۔ اس کے حسن معاشرت کی ایک جھلک یوں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
نسل انسانی کے وہ گوہر جن سے یتیمی نے ان کے سہاروں کو چھین لیا ہو ، بے آسرا ہو چکے ہوں۔ اسلام ان کو فوراً اپنی آغوش محبت و تربیت میں لے لیتا ہے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تاکید مزید کے طور پر دیتا ہے۔ ان کی کفالت ، پرورش ، دیکھ بھال کا فریضہ دوسرے مسلمانوں کو سونپتا ہے ان کو در بدر کی ٹھوکروں سے نجات دلاتا ہے زمانے کی تلخیوں سے بچانے کا حکم دیتا ہے۔ تاکہ یہ ضائع ہونے سے بچ جائیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں جابجا اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور ان لوگوں کی تعریف و تحسین کی ہے جو یتامیٰ مساکین اور اسیروں کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کی روزی کا بندوبست کرتے ہیں۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ، آپ کا اسوہ حسنہ ہمیں اس بات کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے کہ انسانیت کی خدمت قرب خداوندی اور رضاء الہٰی کے حصول کا آسان ترین ذریعہ ہے۔ چنانچہ
صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے) آپ نے اپنی دوانگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے( اکٹھے ہوں گے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یتیم کی دیکھ بھال کرنے والا اور میں جنت میں ایسے ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں آپس میں قریب قریب ہیں۔ خواہ وہ یتیم اس کا قریبی رشتہ دار ہو یا اجنبی ہو۔
جامع الترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں جو کسی یتیم کو اپنے ساتھ کھانے پینے میں شریک کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو یقینا ً جنت میں داخل فرمائیں گے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ کوئی ایسا گناہ نہ کرے جس کی مغفرت بالکل نہیں ہوتی۔
امام طبرانی رحمہ اللہ؛ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو تمام گھروں میں سے سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہوں۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت موجود ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان گھرانوں میں سے سب سے زیادہ بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم موجود ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جاتا ہو۔ اور مسلمان گھرانوں میں سے سب سے برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم تو موجود ہو لیکن اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو۔
امام احمد رحمہ اللہ؛ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آتے ہیں اللہ کریم ہر بال کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں نیکی درج فرما دیتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرا دل بہت سخت ہے۔ نیکی کی بات کو جلد قبول نہیں کرتااور برائی کی بات سے بے خوف ہوتا جاتا ہے اس کا علاج تجویز فرمائی
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔ دل کی سختی ختم ہو جائے گی امام طبرانی رحمہ اللہ؛ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس نے مجھے برحق رسول بنا کر بھیجا اللہ قیامت کے دن ایسے شخص کو عذاب نہیں دے گا جو یتیم پر رحم کرتا ہے اور اس سے نرم گفتگو کرتا ہے۔
یتیم کی دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت اور صحیح معنوں میں پرورش کے بارے میں قرآن و حدیث میں بکثرت ترغیب موجود ہے لیکن آج کل یتیموں مسکینوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا ہے ان کے حقوق کو غضب کیا جا رہا ہے۔ حق تلفی کی اس تلوار نے کئی خونی رشتوں کے تقدس کو بھی فنا کر دیا ہے سب سے پہلے قریبی رشتہ داریتیموں پر ظلم کا رندا چلاتے ہیں۔ یتیموں کے مال پر قبضہ ، جائیداد پر قبضہ ، میراث پر قبضہ ان کو گھروں سے نکالنا اور در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
ان الذین یاکلون اموال الیتامیٰ ظلما انما یاکلون فی بطونہم ناراً و سیصلون سعیرا۔
جو لوگ ناحق طریقے سے یتیموں کا مال ہڑپ کرتے ہیں درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں انہی لوگوں کو بہت جلد جہنم میں ڈالا جائے گا۔
سورۃ النساء آیت 10 
آج کے مسلمان کا یتیموں کے ساتھ معاملہ انتہائی خطرناک حد تک غلط روی کا شکار ہے چچا یتیم بھتیجے کا ، پڑوسی اپنے یتیم پڑوسی کا رشتہ دار اپنے یتیم رشتہ دار کے مال کو بے دھڑک کھائے جا رہا ہے۔ یہ حقوق العباد ہیں ان کی ادائیگی میں حقوق اللہ سے بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ ہم کسی یتیم پر ظلم تو نہیں کر رہے سرکاری ، نیم سرکاری اور غیر سرکاری تمام ادارے جہاں یتیم بچے موجود ہوتے ہیں۔ ان کا خاص طور پر خیال رکھا جائے ان کے حقوق نہ مارے جائیں بلکہ ان کی مالی اور تعلیمی کفالت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں جنتی بننے کا عزم کریں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
خالی الذہن…
ہم اس وقت خالی الذہن ہیں اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ ذہن کسی بھی معاملے پر غور وفکر اور سوچنے کے لیے خالی ہے کسی اور بات کو نہیں سوچ رہا اور دوسرا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ذہن فکر و تدبر اور سوچنے کی صلاحیت سے خالی ……محروم …… ہے۔
قارئین معذرت کے ساتھ !آپ اپنے بارے میں اوّل الذکر مطلب مراد لے سکتے ہیں لیکن میں اپنی قوم کی دگر گوں صورتحال کو مدِ نظر رکھ کر دوسرا مطلب مراد لینے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ
میری قوم؛ ایمانیات کی روح سمجھنے سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ اسلامی عقائد ونظریات کو جاننے سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ تہذیب ، کلچر اور فکری تمدن کے رو بہ انحطاط ہونے سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ ترقی یافتہ اقوام کے بنیادی اصولوں سے یکسر” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ مقصدِ تخلیق کائنات اور سبب وجود انسانیت کے بارے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ رہبر و راہزن میں خط امتیاز کھینچنے سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ ملی وقومی اور ملکی وبین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانے سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ مادی ترقی میں بھی پوری سوری ہے جبکہ دینی و اخلاقی اور روحانی ترقی سے تو بالکل” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ دشمن سے زیر ہے لیکن دشمن کو زیر کر نے کی صلاحیت سے بے چاری” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ چند ایجادات سے تو فرحاں وشاداں ہے لیکن عالمی سطح پر اپنی گراوٹی حیثیت سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ موسیقی ، ناچ گانے ، موج مستی ، شراب وکباب اور رقص وسرود میں غلطاں جبکہ تلاوت قرآنی کے ابدی اور روح پرور اثرات سے” خالی الذہن“ ہے
میری قوم؛ رسوم ورواج ، الحاد و زندقہ بدعات و خرافات میں مگن جبکہ دینی اقدار اور اعمال مسنونہ اپنانے سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ زنا ، لواطت کی رسیا جبکہ تعدد ازواج کی حکمتوں سے” خالی الذہن“ ہے
میری قوم کا اشرافیہ طبقہ پر تعیش ہے جبکہ متوسط اور نادار طبقے کی مفلسی سے” خالی الذہن“ ہے۔
میری قوم؛ ظلم کی چکی میں پسنے کے لیے ہمہ وقت تیار لیکن ظالم کا ظلم روکنے والے خدائی منصوبوں سے” خالی الذہن“ ہے۔
میں ایک بار پھر دہرا دوں کہ” خالی الذہن” سے میری مراد فکرو سوچ کی محرومی ہے اس لیے ہمیں اب خود کو بدلنے کا عزم کرنا ہوگا اپنی ذہنی اپج کو وسعت دے کر اقوام عالم کی زمام اقتدار کو ہاتھ میں لینا ہوگا کامل انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول ہائے جہاں بانی اپنا کر اور خدائی انعام یافتہ طبقات کی پیروی کر کے دنیا وآخرت کی کامیابیاں حاصل کرنا ہوں گی۔ میری ان گزارشات کو آپ خالی الذہن ہو کر ضرور سوچیے گا ……. لیکن” خالی الذہن“ نمبر ایک ہو کر۔