پارہ نمبر:18

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر:18
سورۃ المؤمنون
اس سورة کے شروع میں مؤمنین کی صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ اگر یہ صفات کوئی بندہ اپنا لے تو وہ پکا مؤمن ہوگا اور جنت میں جائے گا۔ اس لیے اس سورۃ کا نام "المؤمنون"رکھ دیا گیا ہے۔
مؤمنین کے اوصاف:
﴿الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ﴿۲﴾ۙ﴾
پہلی دس آیات میں اہل ایمان کے سات اوصاف کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی ان اوصاف کو مکمل طور پر اپناتا ہے تووہ صحیح معنوں میں مؤمن ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿قَدۡ اَفۡلَحَ ﴾
پکی بات ہے کہ وہ کامیاب ہے۔ اور وہ اوصاف یہ ہیں:
پہلی صفت: نمازخشوع اور خضوع کے ساتھ پڑھنا۔ خشوع کی ایک تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہےکہ خشوع والے وہ لوگ ہیں جو نماز میں عاجزی اور انکساری کرتے ہیں، دائیں بائیں نہیں دیکھتے اور نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے۔ لہذانماز میں رفع الیدین کرناخشوع کے خلاف ہے۔
مؤمنین کی بقیہ6 صفات یہ ہیں:
فضول کاموں اور فضول باتوں سے پرہیز کرنا۔ اپنے آپ کو برے اعمال و اخلاق سے پاک کرنا جسے تزکیہ کہتے ہیں۔ شرمگاہوں کی حفاظت کرنا۔ امانتوں کاخیال کرنا۔ وعدوں کو پورا کرنا۔ نماز کی پابندی کرنا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
یہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کیاجارہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا اے میری قوم! اللہ کی عبات کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ لیکن قوم نے بجائے ماننے کے انکار اور استہزاء کیا۔ بحکمِ خداوندی حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی بنائی، ماننے والوں کو اپنے ساتھ سوار کر لیا باقی طوفان میں غرق ہوگئے۔
"ربوہ" کا ذکراور معنی:
﴿وَ جَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗۤ اٰیَۃً وَّ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ﴿٪۵۰﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کو اپنی قدرت کی نشانی بنایا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر والد کے پیداہوئے۔ ایک بادشاہ تھا جو ان کا دشمن تھاوہ انہیں قتل کرنا چاہتا تھاتو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسی بلند جگہ (ربوہ)پر پناہ دی جو پر سکون، صاف ستھرے بہتے ہوئے پانی والی اور سر سبزوشاداب تھی اور یہ جگہ بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔
ربوہ ٹیلے کو کہتے ہیں۔ اس سے قادیانیوں والا خود ساختہ" ربوہ" جو پاکستان میں ہے مراد نہیں۔ اب ہمارے اکابر خصوصاً مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ کی تیس سالہ جدوجہد سے ربوہ کا نام بدل کر" چناب نگر "رکھ دیا گیاہے۔
مشرکین کی محرومی کی وجہ:
﴿قَدۡ کَانَتۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ ﴿ۙ۶۶﴾ ﴾
مشرکین کی عادت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنتے نہیں تھے بلکہ دوڑ جاتے تھے، آیات کا انکار کرتے تھے اور یہ کام غرور اور تکبر کی وجہ سے کرتے تھے۔ یہ لوگ رات کو محفلیں سجا سجا کر قرآن کریم کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے۔ ان مشرکین کی یہ گندی عادت تھی کہ رات کو بیٹھ کر قصے کہانیا ں سناتے، اللہ کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انہی بے ہودہ حرکات کی وجہ سے ایمان جیسی عظیم نعمت سے بھی محروم رہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو برحق جاننے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے۔
انعامات خداوندی:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۸﴾﴾
اللہ تعالیٰ مُنِعم ذات ہیں اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے تین(کان، آنکھیں اور دل) اہم نعمتیں ہیں۔ ان نعمتوں کا تقاضایہ تھا کہ جب اللہ نے بغیر مانگے آنکھ دی ہے تو اس سے وہ کچھ دیکھتے جو اللہ چاہتے ہیں، کان دیے ہیں تو ان سے وہ سنتے جو اللہ چاہتے ہیں، اللہ نے دل دیا تو اس سے وہ سوچتے جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔ یہ انعامات تواللہ تعالیٰ نے دیے ہیں اور استعمال تم اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہواور شکر بھی کم اداکرتے ہو، یہ بات مناسب نہیں ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
کفار کےلیے عذاب کی وعید:
﴿قُلۡ رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیۡ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ﴿ۙ۹۳﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دلائل توحید ورسالت بیان فرمائے ہیں ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ کفار ومشرکین حق کو مانتے اور قبول کرتے۔ لیکن انہوں نے نہ ماناتو یہاں ان کےلیے وعید سنائی جارہی ہے کہ کفار عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اس سے مراد یاتو اخروی عذاب ہے یا دنیوی عذاب ہے۔ ان پر دنیوی عذاب ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آجائے اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی جا رہی ہے کہ آپ دعا مانگیں کہ اے اللہ! اگر آپ نے ان لوگوں کو میرے سامنے ہی عذاب دینا ہے تو مجھے اس سے محفوظ رکھنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عذاب سے بالکل محفوظ ہیں لیکن پھر بھی آپ کو یہ دعا سکھائی گئی تاکہ آپ ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھیں اور امت کو تلقین بھی ہوجائے کہ وہ یہ دعا مانگا کریں۔
کافر کی تمنا:
﴿حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ ﴿ۙ۹۹﴾ ﴾
کافر کو جب موت کے آثاراورآخرت کی منزلیں نظر آنے لگیں گی تو اس وقت کہے گا اے رب! مجھے واپس لوٹادیں، تاکہ میں ایمان لے آؤں اور وہ نیک اعمال کرسکوں جنہیں میں دنیا میں نہ کر سکا!جواب ملے گا ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ محض اس کی ایک بات ہے جس کو وہ اپنے منہ سے کہہ رہاہے۔ یہ واپس جا کر بھی اچھے کام نہیں کرے گا۔
اور ان کے پیچھے ایک پردہ ہے جو قیامت تک کے لیے ہے۔ مرنے کے بعد سے لے کر اٹھنے تک کے زمانے کو برزخ یعنی پردہ کہتے ہیں۔ اگر ہم میت کی قبر پر جائیں او ر میت کو دیکھ لیں تو یہ پردے کے خلاف ہے اور اگر میت ہم کو دیکھ لے تو یہ پردے کے خلاف نہیں ہے۔ برزخ کا معنی اور تفصیلی بحث میری کتاب "دروس القرآن " میں اسی مقام پر ملاحظہ فرمائیں۔
جہنمیوں کی آہ وپکار:
﴿ تَلۡفَحُ وُجُوۡہَہُمُ النَّارُ وَ ہُمۡ فِیۡہَا کٰلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾﴾
قیامت کا دن ہوگا، کافرجہنم میں ہوں گے، ان کے چہرے جھلس رہے ہوں گے اور وہاں وہ اللہ تعالیٰ کو پکار رہے ہوں گے کہ اے اللہ! ہمیں یہاں سے نکال دیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی تھیں اور تمہیں ڈرایا جاتا تھا لیکن تم ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے۔ وہ کہیں گے کہ یا اللہ! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی، ہم گمراہ ہوگئے، اللہ! ہمیں یہاں سے نکال دیں اب ہم نافرمانی نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ذلیل ہوکر یہیں جہنم میں پڑے رہو اب تم نے ہم سے بات نہیں کرنی۔ پھر یہ اہل جہنم کسی سے بات نہ کر سکیں گے۔
انسان کی پیدائش بے مقصد نہیں:
﴿اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں یونہی فضول پیداکیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ اللہ رب العزت اونچی شان کا مالک ہے، حقیقی بادشاہ ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اللہ عزت والے عرش کےمالک ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، ان کا حساب تو اللہ کے ذمہ ہے، قیامت کو کافر کامیاب نہیں ہوں گے۔ آخر میں فرمایا کہ اے میرے پیغمبر! آپ یہ دعا مانگا کریں:
﴿رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴾
اے میرے رب میری کوتاہیوں کو معاف کر اور میرے حال پر رحم کر اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
فائدہ:
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا گزر ایک بندے پر ہوا جو کئی امراض میں مبتلا تھا۔ آپ نے سورۃ المؤمنون کی آخری آیات
﴿اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا﴾
سے آخر تک اس کے کان میں پڑھ دیں وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ! آپ نے اس کے کان میں کیا پڑھا؟ انہوں نے عرض کیا حضور! میں نے سورۃ المومنون کی آخر ی آیتیں پڑھی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی مؤمن مکمل یقین کے ساتھ یہ آیتیں پڑھے تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے۔
اس لیے سورۃ المؤمنون کی آخری چار آیات
﴿اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا﴾
سے لے کر
﴿وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ﴾
تک یاد کر لیں، زبانی یاد نہیں ہوتیں تو قرآن کھول کر پڑھ لیا کریں۔ اگر گھر میں کوئی بیمار ہے تو یہ چار آیتیں اس کے کان میں دم کر دیا کریں، سر درد ہے یا کوئی اور تکلیف ہے تو بھی ان کو پڑھ لیا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کامل یقین نصیب فرمائیں۔

سورۃ النور
اس سورۃ میں مختلف دینی،اخلاقی اور معاشرتی احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ معاشرے میں بے حیائی، فحاشی اور برائی کو روکنےاور عفت وعصمت کو عام کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ نیز ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت، گھروں میں جانے کے آداب اور پردہ کے متعلق احکامات کو تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔
حدزنا:
﴿اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ ﴿۲﴾﴾
اگرغیرشادی شدہ مرد اور غیر شادی شدہ عورت نے زنا کیا ہو تو انہیں بطور حد سوسوکوڑے مارے جائیں گے۔ جبکہ شادی شدہ مرداور شادی شدہ عورت کی سزا حدیث پاک میں سنگساری بیان کی گئی ہے۔ فعلِ زنا ثابت ہونے کے تین طریقے ہیں:1: چار مرد گواہ ہوں۔ 2: زانی یا زانیہ خود اعتراف کرے کہ مجھ سےفعلِ زنا سرزد ہوگیا ہے۔ 3: کنواری عورت کا حمل ظاہر ہو جائے تو اس سے دریافت کیاجائے گا کہ یہ حمل کس کا ہے؟وہ جس کا نام لے تو اس سے تحقیق کی جائے گی اگر وہ بھی اس فعلِ بد کااقرار کرلے تو مرد وعورت دونوں شرعی سزا کے مستحق ہوں گے ورنہ صرف عورت کو سزا ملے گی۔ مزید تفصیلات کتبِ فقہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
حدقذف:
﴿وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ﴿۴﴾﴾
کسی پر زنا کا الزام لگانے والے کے ذمے ہے کہ وہ چار گواہ پیش کرے۔ اگر چار گواہ پیش نہیں کر سکتا تو اس تہمت لگانے والے پر حدِ قذف(80کوڑے) لگائی جائے گی اور وہ مردود الشہادۃ ہوجائے گا، آئندہ کسی کیس میں اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی۔ اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کو آخرت میں سزا نہیں ملے گی لیکن دنیا کی سزا باقی رہے گی یعنی اس کو کوڑے بھی لگیں گے اور آئندہ گواہی بھی قبول نہیں ہو گی۔
واقعہ افک ؛ام المؤمنین کی براءت:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ﴿۱۱﴾﴾
یہاں واقعہ افک کاذکر ہے۔ سن 6 ہجری میں غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا۔ اس سفر میں صدیقہ کائنات، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ جب قافلہ کی روانگی ہونے لگی تو آپ رضی اللہ عنہا قضا ئےحاجت کےلیے گئی ہوئی تھیں۔ قافلہ روانہ ہو گیا، آپ وہیں رہ گئیں۔ بعد میں حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے اونٹ پر سوار کر قافلہ کے ساتھ مل گئیں۔ لیکن عبد اللہ بن ابی؛ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ازلی دشمن تھا؛ نے افتراء باندھا، ام المؤمنین پر تہمت لگائی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی کی لاڈلی بیوی کی براءت کا اعلان فرما کر آپ کی عفت وپاکدامنی کی گواہی دی اور اسے
﴿ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ ﴾
کہا۔
اہلِ علم وفضل کو خدائی پیغام:
﴿وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ لۡیَعۡفُوۡا وَ لۡیَصۡفَحُوۡا ﴿۲۲﴾ ﴾
واقعہ افک میں منافقین کے پرو پیگنڈے میں کچھ سادہ لوح مسلمان بھی شریک ہوگئے۔ ان میں حضرت مِسطح رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے بعد میں سچی توبہ کرلی تھی۔ وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے رشتے دار تھے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کی مالی امداد فرمایا کرتے تھے۔ جب واقعہ افک پیش آیاتو آپ نے صدمے کی وجہ سے قسم کھائی کہ میں ان کی مدد نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مدد جاری رکھنے کا کہااور فرمایا کہ جو لوگ اہل ِعلم وفضل اور اہلِ خیر ہیں وہ ایسی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتے دار وں کو کچھ نہیں دیں گے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قسم کا کفارہ ادا کردیااور سابقہ معمول کے مطابق ان کی مدد جاری فرمادی۔
مکانات میں داخلے کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۷﴾﴾
چار قسم کے مکانا ت ہیں:
نمبرایک وہ مکان جس میں آدمی خود اکیلا رہتا ہے۔ نمبر دو وہ مکان جس میں اور لوگ بھی رہتے ہوں، رشتے دار ہوں یا اجنبی ہو ں۔ نمبرتین وہ مکان جس میں کسی کا رہائش پذیر ہونا معلوم نہ ہو کہ کوئی اس میں رہتا بھی ہے یا نہیں! نمبر چاروہ مکانات جو رہائش کےلیے نہیں ہیں جیسے مسجد، خانقاہ اور مدرسہ وغیر ہ۔
نمبر ایک اس میں اجازت کی ضرورت نہیں۔ نمبردو اس میں اجازت کے بغیر نہیں جاسکتے۔ نمبرتین اس میں بھی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتے۔ نمبر چار میں اجازت کی ضرورت نہیں۔
آنکھ اور عصمت کی حفاظت کا حکم:
﴿قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ﴿۳۰﴾﴾
یہاں آنکھوں کو جھکانے اور شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک ہے مرد کا نا محرم عورت کو دیکھنا اور ایک ہے عورت کا نا محرم مرد کو دیکھنا۔ اگر عورت کے لیے نا محرم مرد کو دیکھنے کی اجازت ہوتی تو اللہ تعالیٰ عورت کو آنکھ نیچے رکھنے کا کبھی نہ فرماتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے ذمہ ایک کام ہے عورت کو نہ دیکھنا اور عورت کے ذمہ دو کام ہیں: نمبر ایک مرد کو نہ دیکھنا۔ نمبر دواپنے چہرے کو چھپا کر رکھنا۔ اسی وجہ سے مرد پر پردہ نہیں اور عورت پر پردہ لازم ہے۔
پھر پردے کا حکم دیا کہ خاتون کا پورا جسم پردہ ہے۔ بوقت ضرورت شدیدہ ہتھیلیاں اور چہرہ کھول سکتی ہے۔ اگر اشد ضرورت نہ ہوتو نہ کھولے کیونکہ عورت کا چہرہ ہی حسن کا اصل مرکز ہوتاہے تو عام حالات میں اس کو چھپانے کا حکم ہے۔
اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کا نور ہے:
﴿اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ﴿ۙ۳۵﴾ ﴾
اس آیت میں اللہ نے اپنے نور؛ نورِ ہدایت کی مثال دی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: اللہ نور ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے
”مُنَوِّرٌ“
یعنی روشن کرنے والا۔ ”نور“ کا حقیقی معنی ہے:
”اَلظَّاہِرُ بِنَفْسِہٖ وَالْمُظْہِرُ لِغَیْرِہٖ“
خود ظاہر ہو اور دوسرے کو ظاہر کرے۔ نور کا یہ حقیقی معنی اللہ پر صادق نہیں آتا کیونکہ اللہ ظاہر نہیں ہیں تو یہاں نور کا مجازی معنی ہے۔ نو ر سے مراد ہے کہ اللہ رب العزت آسمانوں زمین کو روشن کرتے ہیں۔ اس میں تمام مخلوقات آتی ہیں۔
اللہ رب العزت کیسے روشن کرتےہیں؟ تو اس کی مثال دی ہے کہ جیسے ایک طاقچہ ہو، اس طاقچے میں چراغ ہو اور چراغ ایک قندیل میں ہو اور چراغ کو جس تیل سے جلایا جا رہا ہو وہ زیتون کا تیل ہو۔ زیتون بھی ایسا کہ جس پر پورا دن سورج کی روشنی پڑتی رہتی ہے خواہ سورج مشرق میں ہو یامغرب میں، اسی وجہ سے اس کا تیل نہایت صاف اور عمدہ ہوتا ہے۔ مراد اس سے مؤمن کا دل ہے کہ مؤمن کے دل میں طبعی طور پر ایمان کے قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے، پھر جب اوپر سے وحی الٰہی آتی ہے تو بہت جلد اسے عمل کی توفیق مل جاتی ہے۔
کافروں کے اعمال کی مثال:
﴿وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ﴿ۙ۳۹﴾﴾
اس آیت میں ان کفار کے اعمال کی مثال دی گئی ہے جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن توحیدورسالت کو نہیں مانتے۔ ان کفار کے اعمال کی مثال ایسے ہے جیسے آدمی ریگستان میں سفر کررہا ہوتو اسے دور سے ریت کی چمک ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے پانی؛ لیکن حقیقت میں وہ پانی نہیں ہوتا تو" سراب " سے اس نے دھوکہ کھایا۔ اسی طرح کفارکے وہ نیک اعمال جن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں آخرت میں فائدہ دیں گے، ایمان نہ ہونے کی وجہ سے وہ نیک اعمال سراب کی طرح دھوکہ ہیں۔
دوسری قسم کے کفار کے اعمال کی مثال:
﴿اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ﴿٪۴۰﴾ ﴾
یہاں ان کفار کی مثال ہے جو آخرت پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ ان کفار کی مثال ایسے ہے جیسے بہت گہرا سمندر ہو اوراس میں اندھیرے ہوں، اس کے اوپر پھر ایک موج ہے پانی کی، پھر اس کے اوپر ایک اور موج ہے، پھر اس کے اوپر بادل ہیں۔ اب اتنا اندھیرا ہو تو آدمی کو اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آتا۔
کامیابی کی بنیاد چار باتوں پر ہے:
﴿وَ مَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَخۡشَ اللہَ وَ یَتَّقۡہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴿۵۲﴾﴾
اگر کوئی شخص چار باتوں کا اہتمام کرے تو کامیاب ہوجائے گااور وہ چار باتیں یہ ہیں:
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللہَ
اللہ رب العزت کی اطاعت کرے؛ اس کا تعلق فرائض کے ساتھ ہے۔
وَ رَسُوۡلَہٗ
اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔
وَ یَخۡشَ اللہَ
ماضی میں اللہ تعالیٰ ڈرتا رہا ہو۔
وَ یَتَّقۡہِ
اور مستقبل میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔
خلافتِ راشدہ موعودہ:
﴿وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ﴿۵۵﴾ ﴾
اس آیت کو"آیتِ استخلاف" کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خلافت کا وعدہ کیاہے وہ اھل السنۃ والجماعۃ کے مسلک کے مطابق حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔ انہی کوخلافت راشدہ حق چار یاربھی کہتے ہیں اور چار خلفائے راشدین بھی کہتے ہیں۔ تو اس آیت میں انہی چار حضرات کی خلافت کا ثبوت ہے۔
تین اوقات میں اجازت لیں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ﴿۵۸﴾﴾
گزشتہ آیات میں بڑوں کے متعلق حکم تھا کہ کسی کے گھر بغیر اجازت داخل نہ ہوں۔ اب یہاں غلام، لونڈی اور چھوٹے بچوں کے متعلق حکم ہے کہ تین اوقات میں ان کو بھی گھروں اور کمروں میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوناچاہیے۔ کیونکہ ان اوقات میں انسان بے تکلفی میں صرف ضروری کپڑوں میں ہوتا ہے اور تنہائی چاہتاہے تو ان کے داخل ہونے سے بے پردگی بھی ہوتی ہے اور ناپسندیدگی بھی۔ اس لیے انہیں حکم دیا کہ تین اوقات نماز فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت اور نماز عشاء کے بعد بغیر اجازت گھروں یا کمروں میں داخل نہ ہو ں۔
معذورین کو کھانے میں شریک کرنا:
﴿لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ ﴿٪۶۱﴾﴾
معذور حضرات یعنی نابینا، پاؤں سے معذور وغیرہ تندرستوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے شرماتے تھے کہ کہیں ہمیں کھانے کی تہذیب نہ ہویا معذور سوچتا کہ جگہ نہ زیادہ گھیر لوں۔ اسی طرح تندرست حضرات کو بھی الجھن ہوتی تھی کہ کہیں یہ معذوری کی وجہ سے مشترک کھانے میں ہم سےکم کھائیں اور اپنا پوراحصہ نہ لے سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو ساتھ بٹھا کر کھلانے میں کوئی حرج نہیں۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں باریک بینی کی ضرورت نہیں۔
مخلص مسلمانوں کی مدح اور منافقین کی مذمت:
﴿اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤی اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ یَذۡہَبُوۡا حَتّٰی یَسۡتَاۡذِنُوۡہُ ﴿۶۲﴾﴾
یہ آیت غزوہ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی تھی جس میں مخلص مسلمانوں کی مدح اور منافقین کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جب کفار کے تمام قبائل مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کےلیے متحد ہوکر آنے لگے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کےلیےخندق کھودنے کاحکم دیا تو مخلص مسلمان صدق دل سے کام میں لگے رہتے۔ جب جانا ہوتا تو اجازت لے کر جاتے۔ جبکہ منافقین اول تو سستی کرتے جب آجاتےتو بہانے بنا کر یا مخفی طور پر نکل جاتے۔
عام مجالس میں بھی اسی طرح ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ مخلصین مسلمان جب آپ سے اجازت مانگیں تو ان کو دے دیا کریں اور ان کےلیے دعائے مغفرت بھی کیا کریں۔
آج بھی یہی حکم ہے کہ کسی اجتماعی مشورے کے لیے جب سب جمع ہوں تو بلا اجازت چلے جانا درست نہیں۔ اجازت لے کر جانا چاہیے۔

سورة الفرقان
"فرقان" کے معنی ہیں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا۔ اس سورۃ میں قرآن کریم کوفرقان فرمایا گیا ہےاسی وجہ سے اس سورۃ کانام بھی فرقان رکھا گیا ہے۔ اس سورة میں بنیادی عقائد کے علاوہ مشرکین کے اعتراضات کے جواب دیے گئے ہیں، مومنین کے لیے انعامات کا ذکر ہے اور سورۃ کے آخر میں عباد الرحمن کے اوصاف کو بیان کیا گیاہے۔
پہلا اعتراض او ر جواب:
﴿وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا ۚ﴿ۛ۴﴾﴾
مشرکین کہتے تھے کہ قرآن کریم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گھڑا ہے۔ ان کانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نظریہ تھا کہ دیگر کچھ لوگ بھی اس کی مدد کرتے ہیں۔ یعنی یہودیوں سے کچھ باتیں سیکھ لی ہیں وہی ہمیں بتادیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وحی الہی یعنی قرآن کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ظلم اور کھلے جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ اگلی آیت میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر! آپ فرما دیجیے کہ قرآن میری طرف سے(افتراء) نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
دوسرا اعتراض اور جواب:
﴿وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾﴾
ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسا نبی ہے جو کھاتا پیتاہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، فرشتہ بھی نہیں اور اس کے پاس خزانہ بھی نہیں۔ اگر نبی ہوتا تو اس کے ساتھ ملائکہ ہوتے، پیغمبر ہوتا تو نہ کھاتا نہ پیتا۔
جواب دیا کہ مشرکین کیسی نکمی مثالیں پیش کرتے ہیں کہ نبی ہوتا تو اس کے ساتھ فرشتہ ہوتا۔ لیکن اگر پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ فرشتہ ہوتا تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اس کے فرشتہ ہونےپر کیا دلیل ہے؟ اگر نبی ہوتا اور نہ کھاتا تو یہ کہتے کہ ہم کھاتے ہیں تو ہمارا نبی تو وہ ہونا چاہیے جوکھانے والاہو!
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّاۤ اِنَّہُمۡ لَیَاۡکُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَ یَمۡشُوۡنَ فِی الۡاَسۡوَاقِ ﴿٪۲۰﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں مشرکین کا اعتراض تھا کہ یہ کیسا نبی ہے جو کھاتا بھی ہے، پیتابھی ہے، بازاروں میں چلتا بھی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ نبی انسان نہیں ہونا چاہیے بلکہ فرشتے کو نبی ہونا چاہیے۔ یہاں جواب دیا کہ جن انبیاء علیہم السلام کو تم بھی نبی ورسول مانتے ہو وہ بھی تو انسان ہی تھے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چلتے تھے۔ لہذا اس سے تم سمجھ لیتے کہ کھانا پینا، بازار میں پھر نا وغیرہ منصب نبوت ورسالت کے منافی نہیں ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ