پارہ نمبر:22

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:22
ازواجِ مطہرات کےلیے ہدایات:
﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے مقام کو بیان فرمایا کہ ان کا مقام ومرتبہ دیگر عورتوں سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گی تو ثواب بھی دو گنا ملے گا،اگر گناہ کریں گی تو عذاب بھی دوگنا ملے گا۔ یہاں انہیں چھ ہدایات بھی دی ہیں: 1: اگر کوئی بندہ مسئلہ پوچھنے آئے توجان بوجھ کر نزاکت سے بات نہ کریں، وگرنہ وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے اس کے دل میں طمع پیدا ہو گی۔ 2:اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہیں۔ 3:قدیم جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھریں۔ 4: نماز کی پابندی کیا کریں۔ 5: زکوۃ ادا کیا کریں۔ 6: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیا کریں۔ مذکورہ ہدایات اگرچہ ازواج مطہرات کو ہیں لیکن اس میں دیگر تمام مسلمان عورتیں بھی شامل ہیں۔
اہلِ بیت میں کون کون شامل ہیں:
﴿اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾﴾
مذکورہ ہدایات پر عمل کرنے کا فائدہ اور نتیجہ یہ ہو گا کہ ازواج مطہرات سے اللہ تعالیٰ گندگی کو دور رکھ کر ایسی پاکیزگی عطا فرمائیں گے جو ہر طرح سے مکمل ہوگی۔
سیاق وسباق، ماقبل اور مابعد میں ازواج مطہرات ہی کا ذکر چل رہاہے اس لیے ازواج مطہرات تواہل بیت کا براہ راست مصداق ہیں۔ اھل السنۃ والجماعۃ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اہلِ بیت میں پہلے پیغمبر کی بیویاں، پھر پیغمبر کی اولاد، پھر اولاد کی اولاد اور پھر داماد شامل ہیں۔ آیات کےسیاق وسباق، ماقبل اور مابعد سے ازواج مطہرات تواہل بیت کا براہ راست مصداق ہیں، جبکہ عمومِ الفاظ اور صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق چاروں بنات(حضرت زینب، حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہن )اور ان کی اولاد اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔
اس آیت کی مزید تفصیل، اہل بیت کا مصداق اور اعتراضات کے جوابات میری کتاب "دروس القرآن "میں اسی مقام پر ملاحظہ فرمائیں۔
حکم ِخدا اور حکم ِمصطفیٰ کے سامنے سرِ تسلیمِ خم:
﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ﴾
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ کا نکاح اپنی پھوپھی کی بیٹی حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ کرنا چاہا تو حضرت زینب اور ان کے بھائی عبد اللہ بن جحش کو یہ بات ناگوار گزری کیونکہ حضرت زید آزاد کردہ غلام تھے جبکہ حضرت زینب قریشی خاندان سے تھیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اونچے خاندان والی عورت کا ایک آزاد کردہ غلام سے نکاح معیوب سمجھاجاتاتھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ یا اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ فرمادیں تو پھر کسی مؤمن اور مؤمنہ کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اس فیصلہ کو قبول نہ کریں۔ اس آیت کے نزول کے بعد دونوں( بہن بھائی) نے سر خم تسلیم کیا اورنکاح پر راضی ہوگئے۔ رضی اللہ عنہما
حضرت زید وزینب رضی اللہ عنہما کا واقعہ:
﴿وَ اِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنۡعَمَ اللہُ عَلَیۡہِ وَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِ اَمۡسِکۡ عَلَیۡکَ زَوۡجَکَ وَ اتَّقِ اللہَ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ﴿۳۷﴾﴾
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کا نکاح اپنی پھوپھی کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے کرادیا۔ چونکہ زینب بنت جحش اونچے خاندان سے تھیں اور حضرت زید آزاد کردہ غلام تھے اس لیے ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی۔ بالآخر حضرت زید نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے طلاق دینے کےلیے مشورہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈریں طلاق نہ دیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے آگاہ فرمادیا تھا کہ طلاق ہوگی اس کے بعد آپ حکم خداوندی سے حضرت زینب سے نکاح کریں گے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اظہار نہیں فرمارہے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکا ح ہونے سے مخالفین کو اعتراضات کا موقع مل جاتا کہ اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس رسم کو مٹاناتھا کہ منہ بولا بیٹا احکامات میں حقیقی بیتے کی طرح نہیں ہے۔ اس لیے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی طلاق کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زینب سے نکاح ہوگیا۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے نسبی باپ نہیں؛ لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم
عقیدہ ختم نبوت:
﴿وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾﴾
اہل السنۃ والجماعۃکے عقیدہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننا بھی ضروری ہے اور آخری نبی ماننا بھی ضروری ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہ مانے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جو نبی مانے مگر آخری نبی نہ مانے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ صفات:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾﴾
یہاں دوآیات میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنی امت یا دیگر انبیاء علیہم السلام کی امتوں پر گواہی دیں گے جب گزشتہ امتیں اپنے نبیوں کی تکذیب کریں گی۔ بشارت دینے والے، ڈرانے والے، اللہ تعالیٰ کے حکم سےاللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں اور ایسے چراغ ہیں جو امت کو روشنی دیتے ہیں۔
خاتم الانبیاء کی خصوصیات:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ ﴿۵۰﴾﴾
یہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک خصوصیات بیان ہورہی ہیں۔ نمبر ایک: چارسے زائد بیویاں آپ کےلیے حلال ہیں۔ نمبر دو: مال فئی میں جو باندی آپ کی ملکیت میں آجائے تو وہ آپ کےلیے حلال ہے، خاصیت اس طرح ہے کہ تقسیم سے پہلے آپ کسی باندی کو لے سکتے ہیں۔ نمبر تین: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چچا کی بیٹیاں،پھوپھی کی بیٹیاں، ماموں کی بیٹیاں اور خالہ کی بیٹیاں صرف وہ حلال ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ نمبر چار: اگر کوئی ایمان والی عورت اپنے آپ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدیہ کرے بغیر حق مہر کے اور پیغمبر پاک اس سے نکاح کرنا چاہیں تو نکاح ہو سکتا ہے۔
کھانے کی دعوت کے آداب:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ ﴿۵۳﴾ ﴾
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کیا اور لوگوں کو بلایا تو بعض احباب کھانا تیار ہونے سے پہلے آ گئے۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تو چھوٹا سا تھا، بٹھانے کی جگہ نہیں تھی تو حضرت زینب دیوار کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئیں۔
کھانا کھا لیا گیا لیکن بعض لوگ نہیں اٹھے اور وہیں پر باتیں کرنے کے لیے جم کر بیٹھ گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ناگوار گزرا تو آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے۔ آپ جب واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ پھر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے آپ کو ناگواری ہوئی تو ان لوگوں کو احساس ہوا ور وہ اٹھ کر چلے گئے۔
اس آیت میں فرمایا کہ تین باتوں کا خیال رکھناچاہیے:جن کو کھانے پر بلایا جائے صرف وہ آئیں۔ کھانے سے پہلے جا کر نہ بیٹھیں، اس سے میزبان کو مشغول ہونا پڑتا ہے۔ کھانا کھا کر چلے جایا کریں، وہاں بیٹھے نہ رہیں۔ آج بھی ان آداب کی رعایت ضروری ہے۔
ازواج مطہرات سے نکاح کی حرمت:
﴿وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا﴾
اس آیت سے ازواج مطہرات سے نکاح کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہورہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طبعی اور فطری بات ہے کہ جو غیور آدمی ہے وہ اپنی منکوحہ کو خواہ طلاق دے دے، کسی اور کو اس کا شوہر بننا اسے طبعاً ناگوار گزرتا ہے۔ عام بندے کی طبعی ناگواری کا خیال نہیں رکھا گیا لیکن پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طبعی تقاضے کا اللہ تعالیٰ نے خیال فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعزاز دیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے کبھی نکاح نہ کرنا کہ اس سے نبی کو طبعاً ناگواری محسوس ہو گی۔
پردے کا حکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ﴾
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاکہ اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمان والی عورتوں سے فرمائیں کہ وہ پردہ کریں۔ اس آیت سے پردہ کا حکم ثابت ہورہا ہے۔ یہ حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام ایمان والی عورتوں کو حکم ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلیں تو بڑی چادر اوڑھ لیں۔ ایسی چادر ہونی چاہیے جس سے جسم کی ساخت چھپ جائے۔ چادر ہو یا برقعہ ؛ دونوں میں اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
انسان؛ بارِ امانت کا حامل:
﴿اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا﴿ۙ۷۲﴾﴾
”امانت“ سے مراد شریعت ہے۔ اللہ رب العزت نے امانت یعنی عقائد اور اعمال دونوں پیش فرمائے آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر اور ساتھ اختیار دیا کہ تم چاہو تو لے لو اور تم چاہو تو نہ لو تو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے اس بار کواٹھانے سے انکار کر دیا اور نوع انسانی نے اس کو اٹھا لیا۔
سورۃ سبا
اس سورت میں قوم سبا کاواقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس سورت کانام "سبا"رکھاگیا ہے۔
حضرت داود علیہ السلام کے فضائل:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَ الطَّیۡرَ ۚ وَ اَلَنَّا لَہُ الۡحَدِیۡدَ ﴿ۙ۱۰﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کو حسنِ صوت عطافرمائی تھی۔ جب حضرت داود علیہ السلام تسبیح وذکرکرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھااور انہیں حکم دیا تھا کہ حضرت داود علیہ السلام کے ساتھ مل کر تسبیح کریں۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے لوہے کوان کے لیے نرم فرمادیا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے اسے موڑ کرزرہ وغیرہ بناتے تھے اور بڑے عمدہ طریقے اور سلیقے سے بناتے تھے۔
سلیمان علیہ السلام کے معجزات اور انعامات:
﴿وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ﴾
اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع فرمادیا تھا۔ وہ اس کے ذریعے دور دراز کا سفر مختصر وقت میں طے کرلیتے تھے۔ تخت ہوا میں اڑتا اور ایک مہینے کی مسافت صرف ایک صبح یاشام میں طے کرلیتا۔ جنات کو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے تابع کردیا تھا، جیسے چاہتے ان سے کام لیتے۔ تانبے کا چشمہ بھی تھا اس سے برتن وغیرہ بناتے۔
سلیمان علیہ السلام کی وفات:
﴿فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ﴿ؕ۱۴﴾﴾
سلیمان علیہ السلام ایک دن عبادت کے لیے عصا لے کر کھڑے ہو گئے۔ جنات دیکھ رہے تھے کہ آپ عبادت کے ساتھ ساتھ ہماری نگرانی بھی کر رہے ہیں۔ اسی دوران ملک الموت نے باذن اللہ آپ کی روح قبض کرلی۔ آپ علیہ السلام فوت ہوگئے لیکن جنات یہی سمجھتے تھے کہ سلیمان علیہ السلام زندہ ہیں اور نگرانی کر رہے ہیں۔ ایک سال تک جنات اپنے کام میں لگے رہے۔ جب تعمیر کا کام مکمل ہوا اللہ نے دیمک کے کیڑے کو بھیجا،اس نے سلیمان علیہ السلام کے عصا کو کھایا، عصا ٹوٹا تو سلیمان علیہ السلام زمین پر گر گئے۔ پھر جنات کو پتا چلا کہ سلیمان علیہ السلام کو فوت ہوئے تو ایک سال گزر گیا ہے اور ہم کام میں لگے ہیں۔ اس سے دو باتیں مقصود تھیں:بیت المقدس کا باقی ماندہ کام مکمل ہو جائے اور یہ واضح ہوجائے کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں۔
قوم سباکا واقعہ:
﴿لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِہِمۡ اٰیَۃٌ ﴾
قوم سبا کے رہنے کی جگہ میں اللہ تعالی نے برکت عطا فرمائی تھی۔ ملک یمن کے دار الحکومت کا نام ہے ”صنعاء“ اس سے تین منزل کے فاصلے پر ایک شہر تھا ”مآرب“ اس میں یہ قوم آباد تھی۔ یہ بہت خوبصورت جگہ تھی۔ ان کی سڑکوں کے دونوں طرف پھل دار باغات کے سلسلے تھے جو دور تک چلے گئے تھے۔ پہاڑوں کے درمیان ایک وادی میں یہ شہر آباد تھا۔ یہاں کے بادشاہوں نے پہاڑوں کے درمیان میں ایک مضبوط ڈیم بنا دیا تھا جس میں پانی کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ پہاڑوں سے آنے والا پانی اور بارشوں کا پانی اس میں ذخیرہ ہوتا تھا۔ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کی تو اللہ تعالیٰ نے بند توڑنے کے لیے چوہے بھیجے۔ ان چوہوں نے بنیادوں کو کاٹا، وہ بند ٹوٹ گیا اور تباہی وبربادی ہو گئی۔
غور وفکر کی دعوت:
﴿قُلۡ اِنَّمَاۤاَعِظُکُمۡ بِوَاحِدَۃٍاَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلہِ مَثۡنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوۡا مَا بِصَاحِبِکُمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ﴿۴۶﴾﴾
مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہتے تھے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاآپ ان سے فرمائیں کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتاہوں کہ تعصب اور ضد کو چھوڑ کر انصاف کرتے ہوئے آپس میں مشورہ کرویا تنہائی میں بیٹھ کر سوچ وبچار کرو کہ مجمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اندر چالیس سال تک رہے ہیں بچپن سے لے کر اب تک سارے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ ان کی صداقت وامانت کے تم بھی قائل ہو کیا ایسا شخص مجنون ہوسکتاہے ؟
سورۃ الفاطر
اس سورت کی پہلی آیت میں فاطر کا لفظ ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "فاطر" رکھ دیا گیا ہے۔
سورت فاطر مکی سورت ہے دیگر مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید، رسالت اور آخرت کو ثابت کیا گیا ہے۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ مشرکین اور کفار کی تکذیب سے پریشان نہ ہوا کریں، آپ کی ذمہ داری صرف تبلیغ کرنا ہے۔
فرشتے قاصد ہیں:
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ﴿۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا قاصد بنا کر بھیجا ہے۔ قاصدکا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان فرشتے واسطہ ہوتے ہیں۔ فرشتوں میں سے کسی کے دو پر ہیں، کسی کے تین پر ہیں، کسی کے چار پر ہیں،لیکن اس میں حصر نہیں ہے اس سے زائد بھی ہوسکتے ہیں جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں روایت میں ہے کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔
کلمات طیبات کا مصداق:
﴿اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ﴿۱۰﴾ ﴾
پاک کلمات سے مراد کلمہ توحیدہے اور اس کے علاوہ دیگر اذکار بھی اس میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کے چڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کلمات اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہوجاتے ہیں۔ اور نیک عمل کے اس کلمہ کو اوپر اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ کلمات کی نفسِ قبولیت کے لیے تو اعمال شرط نہیں لیکن قبولیتِ تامہ کے لیے اعمال شرط ہیں۔
تین قسم کے افراد:
﴿ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ وَ مِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَ مِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللہِ ﴿ؕ۳۲﴾﴾
ام المؤمنین حضرت عائشہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہ بات ثابت ہے کہ ظالم، معتدل اور سابق بالخیرات یہ تینوں امت محمدیہ کے منتخب افراد ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے لیے امت محمدیہ کو چنا ہے۔ ان میں ظالم، معتدل اور بہت اچھے بھی ہیں۔
ظالم وہ ہیں جو نیکیاں کریں اور گناہوں سے نہ بچیں۔ معتدل وہ ہیں جو حلال کا م کرتےہیں اور حرام سے بچتے ہیں لیکن مکروہات سے نہیں بچتے اور مستحبات کو نہیں کرتے۔ سابق بالخیرات وہ ہیں جو حلال کام کرتے ہیں اور حرام سے بچتے ہیں، مستحبات اپناتے ہیں اور مکروہات سے بچتے ہیں لیکن اس کے باوجود بعض مباح چیزیں جن کے کرنے کی اجازت ہے، وہ انہیں عبادت میں حد درجہ انہماک یا شبہات کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔
جو سابق بالخیرات ہیں وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ جو مقتصد یعنی معتدل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے۔ جو ظالم اور اصحاب اعراف ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔
جانوروں کی ہلاکت کا مطلب:
﴿وَ لَوۡ یُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوۡا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہۡرِہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ﴿٪۴۵﴾ ﴾
اگر اللہ تعالیٰ اعمالِ کفریہ کی وجہ سے سزا دیں تو اس زمین پر کسی ذی روح کو نہ چھوڑیں، خواہ وہ جانور ہو یا انسان۔ اس کاایک مطلب یہ ہے کہ جانور انسانوں کے فائدے کےلیے بنائے گئے تھے جب انسانوں کو نہیں رکھناتو پھر جانوروں کے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ