پارہ نمبر:24

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:24
تصرفِ باری تعالیٰ:
﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ﴿۴۲﴾﴾
ہر جاندار کی روح اللہ تعالیٰ کے قبضے، تصرف اور اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں روح کو قبض کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں واپس کردیتے ہیں۔ جیسے انسان سوجاتاہے تو روح ایک حیثیت سے قبض ہوجاتی ہے اور بیداری کے وقت واپس لوٹادی جاتی ہے۔ بسا اوقات نیند میں روح قبض ہوتی ہے اور بالکل واپس نہیں ہوتی یعنی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر وتشریح میری کتاب "دروس القرآن" میں ملاحظہ فرمائیں۔
رحمتِ خداوندی سے مایوس نہ ہوں:
﴿قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾﴾
یہ آیت گنہگاروں کے لیے بہت ہی امید افزا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دین اسلام کی طرف دعوت دی۔ انہوں نے کہاکہ جس دین کی طرف آپ دعوت دیتے ہیں وہ تو اچھا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم جو نے گناہ کیے ہیں مثلاً زنا، قتل ناحق، شراب وغیرہ اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا ہماری توبہ قبول ہوجائے گی؟ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ بڑے سے بڑا گناہ حتی کہ کفر وشرک ہی کیوں نہ ہو بس بندہ صدق ِدل سے توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کے ماضی کے سارے گناہ معاف فرمادیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔
نفخِ صور کا ہولناک منظر:
﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ﴾
صور پھونکے جانے کی وجہ سے سب بے ہوش ہو جائیں گے پھر سب مر جائیں گے اور جو پہلے مر چکے ہیں ان کی روحیں بے ہوش ہو جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صور پھونکنے کے اثر سے جو موت واقع ہو گی اس سے جبرائیل، اسرافیل، میکائیل اور ملک الموت محفوظ رہیں گے۔ لیکن بعد میں ان کو بھی موت آجائے گی اور سوائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے کوئی زندہ نہیں رہے گا۔
جنت مہمان خانہ اور جہنم قید خانہ:
﴿وَ سِیۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا﴾
اللہ تعالیٰ نے یہاں جہنم کا تذکرہ فرمایا کہ کفار کو جہنم کی طرف کھینچا جائے گا، جب جہنم کے پاس آئیں گے تو دروازے کھل جائیں گے۔ آگے جنت کے متعلق فرمایاکہ جب اہلِ جنت آئیں گے تو ان کے آنے سے پہلے جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے۔
قید خانے اور مہمان خانے میں فرق ہوتا ہے، جب قیدی کو جیل کی طرف لے کر جاتے ہیں تو دروازہ بند ہوتا ہے، اس کے پہنچنے پر دروازہ کھلتا ہے پھر دروازہ بند کر دیتے ہیں۔ جبکہ مہمان خانے کا طرز یہ نہیں ہوتا، مہمان خانہ مہمان کی آمد سے پہلے کھلا رکھتے ہیں۔
سورۃ المؤمن
اس سورت میں فرعون کی قوم کے ایک مرد مؤمن کا ذکر ہے جس نے فرعون کے دربار میں بیان کیا تھا۔ اسی پر اس سورت کا نام" مؤمن "رکھ دیا گیا ہے۔ وہ سات سورتیں جن کے شروع میں حم آتا ہے،سورۃ المؤمن ان میں سے پہلی سورت ہے۔ انہیں حوامیم یا آل حم کہتے ہیں۔ یہ سورتیں درج ذیل ہیں :
1۔ مؤمن 2۔ حم سجدہ 3۔ شوریٰ 4۔ زخرف 5۔ دخان 6۔ جاثیہ 7۔ احقاف
یہ سورتیں بڑی شان و عظمت اور فضیلت والی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کابیان:
﴿حٰمٓ ۚ﴿۱﴾تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوۡبِ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوۡلِ ﴿۳﴾ ﴾
یہاں اللہ تعالیٰ کی صفات بیان فرمائی ہیں:
”الْعَزِيزِ“
عزیز ہیں، غالب ہیں،
”الْعَلِيْمِ“
صاحبِ علم ہیں،
”غَافِرِ الذَّنْۢبِ“
گناہوں کو معاف فرمانے والے ہیں،
”قَابِلِ التَّوْبِ“
توبہ قبول فرمانے والے ہیں،
”شَدِیْدِ الْعِقَابِ“
سخت سزا دینے والے ہیں،
”ذِی الطَّوْلِ“
طاقت والے ہیں۔
لفظ
غافر؛ غُفْرَان
سے ہے، غفران کا اصل معنی ہے ڈھانپ لینا چونکہ جب انسان کے گناہ معاف ہو جائیں تو اس کا گناہ چھپ جاتا ہے، اس لیے گناہ کی معافی کو غفران سے تعبیر کرتے ہیں۔
کفار اپنے آپ سے نفرت کریں گے:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنَادَوۡنَ لَمَقۡتُ اللہِ اَکۡبَرُ مِنۡ مَّقۡتِکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ اِذۡ تُدۡعَوۡنَ اِلَی الۡاِیۡمَانِ فَتَکۡفُرُوۡنَ ﴿۱۰﴾﴾
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا انہیں پکار کر کہا جائے گا کہ آج تم جس قدر اپنے آپ سے بےزار ہو رہے ہو اللہ اس سے بھی کہیں زیادہ بےزار ہوتا تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم انکار کر دیتے تھے۔ یعنی کفار جب جہنم میں ہوں گے تو اس وقت اپنے آپ سے نفرت کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ افسوس کریں گے کہ ہم نے دنیا میں کفر کا راستہ کیوں اختیار کیا تھا۔
دنیا میں واپس آنے کا سوال:
﴿قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿۱۱﴾﴾
قیامت کے دن کفار کہیں گے اے ہمارے رب! دو مرتبہ آپ نے ہمیں موت دی تھی اور دو مرتبہ زندگی دی تھی، ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، کیا اب واپس جانے کی کوئی صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب تم واپس نہیں جا سکتے۔
یہاں دوموتوں سے مراد ایک پیدائش سے پہلے کی اور دوسری دنیا میں زندگی کے آخر کی۔ دو حیاتوں سے مرادایک پیدائش والی دوسری حشر والی۔ یہ دونوں ظاہری ہیں، تیسری موت و حیات برزخ والی ہے جو مخفی ہے اس لیے آیت میں اس کاصراحتاً ذکر نہیں ہے، برزخی حیات پر قرآن وحدیث کے مستقل دلائل موجود ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۲۳﴾﴾
موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات اور دیگر دلائل دے کر فرعون، ہامان اور قارون کے پاس دعوت دینے کےلیے بھیجا گیا۔ جب لوگ ایمان لانے لگے توفرعونیوں نے تجویز پیش کی کہ ان کے ایمان لانے والے مردوں کو قتل کردو اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو تا کہ انہیں لونڈیاں بنا کر ان سے خدمت لے سکیں۔ قتل کرنا یا تو اس وجہ سے تھا کہ ان کی نسل نہ بڑھے یا اس وجہ سے تھا کہ یہ ڈرجائیں ایمان نہ لائیں۔
رجل مؤمن کی تقریر:
﴿وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ﴿۲۸﴾ ﴾
فرعون؛ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو العیاذ باللہ قتل کرنا چاہتا تھا تو فرعون ہی کے خاندان کا ایک مؤمن بندہ اٹھا جس نے اپنا ایمان چھپایا ہوا تھا، اس نے فرعون اور آل فرعون کو سمجھایا۔ اس رجل مؤمن نے کہا: کیا تم ایسے بندے کو قتل کرنا چاہتے ہو جو فرما رہے ہیں کہ میرا رب اللہ ہے! اور وہ اپنے رب کی طرف سے واضح دلائل لے کر بھی آئے ہیں۔ اگر یہ جھوٹ بولتے ہیں تو جھوٹ کا وبال خود انہی کو پہنچے گا۔
انبیاء اور مؤمنین سے نصرت خداوندی کا وعدہ:
﴿اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿ۙ۵۱﴾﴾
اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ ہم اپنے نبیوں کی اوران پر ایمان لانے والوں کی دنیوی مدد اور نصرت بھی کرتے ہیں۔ اکثر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ تو یہ وعدہ دنیامیں ان کی موجودگی میں پورا ہوا جیسے غزوہ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر اور بعض انبیاء علیہم السلام (حضرت یحییٰ،زکریا اور شعیب علیہم السلام )کے دنیا سے جانے کے بعد ان کے دشمنوں سے انتقام لینے کی صورت میں پورا ہواکہ کفار کو یا تو تباہ و برباد کردیا یا مغلوب کردیا۔ اور آخرت میں انبیاء کرام علیہم السلام اور مؤمنین کےلیے مدد ونصرت کا خصوصی وعدہ ہے۔
عصمت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللہِ حَقٌّ وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ ﴿۵۵﴾﴾
اس آیت کریمہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزوں کو حکم دیا گیا ہے: آپ صبر کریں، اللہ سےمعافی مانگیں اپنے ان معاملا ت کی جو آپ کی شان کے لائق نہیں تھے اور صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کریں۔ اھل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو امت کو سبق دینامقصود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہونے کے باوجوداتنی کثرت سے اپنے ایسے کامو ں پر معافی مانگتے ہیں جو حقیقت میں گناہ نہیں تو جولوگ معصوم نہیں انہیں بطریق اولی معافی مانگنی چاہیے۔
انعاماتِ خداوندی:
﴿اَللہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ﴿۶۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے جو انعامات اپنے بندوں کو عطا فرمائے ہیں ان میں سے دونعمتیں رات اور دن ہیں۔ دن کو اس لیے بنایا کہ انسان روشنی میں اپنے کام کاج اور دیگر معاملات دیکھ اور چلا سکے۔ جب تھک جاتاہے تو اللہ تعالیٰ نے سکون اور آرام کےلیے رات بنائی۔ اندھیراچھاجاتاہے اور انسان رات کو سکون حاصل کرتے ہیں۔
علم غیب اور مختار کل کی نفی:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ قَصَصۡنَا عَلَیۡکَ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ لَّمۡ نَقۡصُصۡ عَلَیۡکَ وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللہِ ﴿٪۷۸﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بہت سے پیغمبر مبعوث ہوئے۔ ان میں سے بعض کے حالات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوآگاہ کیا گیا اور بعض کے حالات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کا خاصہ ہے۔ مشرکین روزانہ نت نئے فرمائشی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے اور ایمان نہیں لاتے تھے۔ یہاں انہیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جواب دیا جارہا ہے کہ معجزہ دکھانا کسی پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی دکھایا جاتاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔
وحی کے مقابلے میں اپنے علم پر ناز کرنا:
﴿فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ﴾
جب پیغمبر کفار کے سامنے کھلی کھلی نشانیاں پیش کرتے تو کفار اپنے علم پر نازکرتے اور ان کامذاق اڑاتے۔ یہاں علم سے مراد دنیاوی زندگی کا ظاہری علم وفن اور ظاہری ہنر ہے۔ اس پر اکڑتے اور کہتے کہ ہم کیوں کلمہ قبول کریں! پھر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاتو ایمان قبول کرنے لگے۔ یہ نزع کی حالت کے وقت کا ایمان تھااور ایسا ایمان معتبر نہیں، تو انہیں نقصان ہی اٹھانا پڑا۔
سورۃ حم السجدہ
﴿حٰمٓ ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۚ﴿۲﴾ ﴾
کفار مکہ کی طرف سے پیش کش:
اس سورۃ کا دوسرا نام سورۃ فصلت ہے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں تشریف فرما تھے، ابو الولید عتبہ بن ربیعہ نے آکر آپ کو پیش کش کی کہ اگر آپ کو حکومت چاہیے تو ہم آپ کو اپنا حاکم بناتے ہیں، اگر پیسے چاہییں تو اکٹھے کرتے ہیں، اگر آپ پر کسی جن کا اثر ہے تو علاج کرواتے ہیں، مگر آپ اپنی تبلیغ چھوڑ دیں، ہمارے مذہب اور بتوں کو برابھلا نہ کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اس سورۃ کی تلاوت شروع کی۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پر پہنچے
﴿فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُکُمۡ صٰعِقَۃً مِّثۡلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ﴿ؕ۱۳﴾﴾
تو ابو الولید پر خوف طاری ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک پر رکھا اور کہا کہ میں خاندان اور قرابت کا واسطہ دیتا ہوں کہ رک جائیں اور آگے نہ پڑھیں۔ عتبہ نے واپس اپنے لوگوں کے پاس آکر کہا میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بہتر یہی ہے کہ تم لوگ ان (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔
مشرکین کی ضد:
﴿وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا فِیۡۤ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ وَ فِیۡۤ اٰذَانِنَا وَقۡرٌ وَّ مِنۡۢ بَیۡنِنَا وَ بَیۡنِکَ حِجَابٌ فَاعۡمَلۡ اِنَّنَا عٰمِلُوۡنَ ؓ﴿۵﴾﴾
کفارکہتے تھے کہ جس چیز کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں اس کے لیے ہمارے دل پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ پڑے ہوئے ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے آپ اپنا کام کریں اور ہم اپنا کام کریں۔ حالانکہ پردہ نہیں تھا کیونکہ ہوتا تو نظر آ جاتا۔ یہ محض کفار کی ہٹ دھرمی تھی کہ ہم تمہاری بات نہیں سن رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جواب میں فرمایا میں بھی تم جیسا انسان ہوں البتہ مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اور مشرکین کے لیے تباہی ہے۔
کفار کو تنبیہ:
﴿فَاَمَّا عَادٌ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ قَالُوۡا مَنۡ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً﴿۱۵﴾ ﴾
اللہ تعالی نے گزری ہوئی قوموں کے برے انجام کا ذکر فرمایا۔ قوم عاد و ثمود جو اپنے آپ کو بہت قوت و طاقت والے خیال کرتے تھے اور تکبر وغرور کی وجہ سے اپنے پیغمبروں پر ایمان نہیں لائے تو برباد ہوگئے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں اگر تم بھی ایسا ہی کروگے تو تم بھی ہلاک و برباد ہوجاؤگے تمہارے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوگا۔
اعضاء جسمانی کا گواہی دینا:
﴿وَ یَوۡمَ یُحۡشَرُ اَعۡدَآءُ اللہِ اِلَی النَّارِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ ﴿۱۹﴾ حَتّٰۤی اِذَا مَا جَآءُوۡہَا شَہِدَ عَلَیۡہِمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ اَبۡصَارُہُمۡ وَ جُلُوۡدُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۰﴾ ﴾
کچھ کفار چھپ کرگناہ کرتے اور کہتے کہ اس گناہ کا تو کسی کو پتا نہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اس کا علم نہیں۔ حالانکہ کائنات کا کوئی ذرہ بھی اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان کے اعضاء(کان، آنکھوں اور کھال) کو قوت گویائی عطا فرمائیں گے تو انسان کے اپنے اعضاء خود اس کے خلاف گواہی دیں گے۔
اہل ایمان کا ذکر:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾﴾
گزشتہ آیات میں کفار کاتذکرہ تھا، یہاں اہل ایمان کا ذکر ہورہاہے۔ ان کی شان یہ ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر ثابت قدم رہتے ہیں۔ مصائب کے وقت بھی دین پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہتے ہیں۔ نتیجۃً اللہ تعالیٰ ان کو حزن و غم سے محفوظ فرمالیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے مہمان اوراس کی رحمت کے مستحق ہوتے ہیں۔
لفظ "استقامت " کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ استقامت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر سیدھے جمے رہو۔ گویالفظ استقامت تمام شرائع اسلام کو جامع ہے۔
حفاظتِ قرآن کریم:
﴿لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ حَکِیۡمٍ حَمِیۡدٍ﴿۴۲﴾﴾
گزشتہ آیت میں ملحدین کے انجام(جہنم) کا ذکر تھا۔ ملحد اسے کہتے ہیں جو قرآن کریم کے الفاظ کو مانے لیکن معنی میں تحریف کرے۔ یہاں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا ذکرہے۔ قرآن کریم ایک ایسی آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے۔ جس طرح قرآن کریم کے الفاظ محفوظ ہیں اسی طرح معانی بھی محفوظ ہیں۔
﴿مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ﴾
سے مراد ظاہریعنی الفاظ قرآن ہیں۔
﴿مِنۡ خَلۡفِہٖ﴾
سے مراد باطن یعنی معانی ہیں۔ جو سامنے ہے وہ نظر آتا ہے اور جو پیچھے ہے وہ نظر نہیں آتا۔ یعنی قرآن کا ظاہر بھی محفوظ رہے گا اور قرآن کا باطن بھی محفوظ رہے گا۔ نہ کوئی قرآن کا لفظ بدل سکتا ہے نہ ہی معنی بدل سکتا ہے۔ کوشش تو کریں گے لیکن رسوا ہوں گے، بالآخر حق ہی غالب رہے گا۔
قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت:
﴿وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ءَؔاَعۡجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیٌّ﴿٪۴۴﴾ ﴾
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی فصاحت اور بلاغت کی ایک حکمت یہ بیان کی ہے کہ اگر یہ قرآن کریم فصاحت وبلاغت پر مشتمل نہ ہوتاتومشرک لوگ یہ اعتراض کرتے کہ صاحب ِکتاب جس پر قرآن کریم کا نزول ہوا وہ خود تو فصیح و بلیغ ہیں مگران پر نازل ہونے والی کتاب غیر فصیح ہے، معلوم ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پیدا ہونے والے شبہ کا تسلی بخش جواب دیاکہ یہ کتاب فصاحت وبلاغت کے اتنے اونچے معیار پر ہے کہ اہل عرب جنہیں اپنی فصاحت وبلاغت پر نازہے وہ بھی اس کی ایک آیت کی مثل لانے سے عاجز آگئے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ کلام کسی مخلوق کا نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ