پارہ نمبر: 25

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 25
علم غیب اللہ تعالیٰ کی ذات کا خاصہ ہے:
﴿اِلَیۡہِ یُرَدُّ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ؕ وَ مَا تَخۡرُجُ مِنۡ ثَمَرٰتٍ مِّنۡ اَکۡمَامِہَا وَ مَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِہٖ ﴿ۚ۴۷﴾﴾
مشرکین و کفار انکار کرنے اور استہزاء کرنے کےلیےاکثر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے سوال کرتے کہ کب آئے گی؟ یہاں جواب دیا گیا کہ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اسی طرح پھل کا اپنے شگوفے سےنکلنا، مادہ کو حمل ٹھہرنا، بچے کا پیداہونا؛ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم میں آئے بغیر وجود میں نہیں آتیں۔
انسان کی فطرت:
﴿وَ اِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَی الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ ﴿۵۱﴾﴾
اگر انسان پر اچھے احوال آجائیں اور خوشی کے مواقع ہوں تو انسان اکڑ دکھاتا اورتکبر کرتا ہے۔ اگر احوال اچھے اور موافق نہ ہوں تو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ انسان کی حالت یہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنی فطرت کو ایسا رکھنا چاہیے کہ جب وہ تکلیف میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتاہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالی ہی کی طرف رجوع کرے اس لیے کہ ہر حالت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ دونوں طرح کے حالات میں اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔
قدرت وتوحید باری تعالیٰ کی نشانیاں:
﴿سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ﴿۵۳﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ کائنات (آسمان وزمین) میں اور خود انسانی جسم میں ایسی کئی نشانیاں دکھاتے ہیں جن میں کوئی ادنیٰ عقل وشعور کا آدمی بھی غور کرےتو اس اعتراف پر مجبور ہوگا کہ ان کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے والی کوئی ایسی ذات موجود ہے جس کے علم وقدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ انسانی جسم کے ایک ایک عضو پر غور کریں کہ اسے کیسے بنایا گیا پھر اس میں رگیں کتنی اور کیسے جوڑی گئیں ان میں خون کتنی تیزی کے ساتھ دوڑتاہے۔ یہ ایسی کاریگری ہے کہ انسان ساٹھ ستر سال کا بھی ہوجائے تو اس کے اعضاء گھستے نہیں۔
سورۃ الشوری ٰ
مسلمانوں کی خاصیت یہ ہے کہ آپس میں مشورہ کرکے معاملات طے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس سورۃ کانام "شوریٰ" رکھ دیا گیا ہے۔ خصوصاً اجتماعی معاملات میں مشورے کی بڑی اہمیت ہے۔ سا ت سورتیں جن کے شروع میں حٰم ہے جنہیں حوامیم کہاجاتاہے یہ ان میں سے تیسری سورت ہے۔
ملائکہ کی وجہ سے آسمان کا پھٹنا:
﴿تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡ فَوۡقِہِنَّ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ﴿۵﴾ ﴾
ایسے لگتا ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان میں اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے اور اللہ کی عبادت کرنے والے فرشتے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ یوں لگتا ہے ان کے بوجھ سے آسمان پھٹ پڑے گا۔
رشتہ داری کا لحاظ کرو:
﴿قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ﴿۲۳﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تبلیغ فرماتے تو کفار ومشرکین کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی جاتی اور آپ علیہ السلام کی دعوت کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی جاتیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اے میرے پیغمبر! آپ ان سے کہیں کہ میں تمہیں جو دعوت دیتا ہوں اس پر پیسے نہیں مانگتا، بس یہ کہتا ہوں کہ رشتہ داری کا خیال کرو۔ مطلب یہ ہے کہ میرے تم پر دوحقوق ہیں۔ پہلا اوراصل حق تو یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں تم اس کا اعتراف کرکے میری اطاعت کرو۔ اگر یہ نہیں کرتے تو کم ازکم میرے دوسرے خاندانی حق کی وجہ سے میرا لحاظ کرلو کہ میری بات کو توجہ سے سنو! میں تمہارا آدمی ہوں، میرے راستے میں رکاوٹیں مت ڈالو۔
مصیبت کا سبب:
اکثر وبیشتر تو ایسے ہی ہوتا ہے کہ انسان کو تکلیف اس کے گناہوں کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ لیکن یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہےاور اس آیت سے وہ شخصیات مستثنیٰ ہیں جن کے گناہ نہیں ہوتے۔ انہیں پھر بھی آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے جیسے انبیاء علیہم السلام، نابالغ بچے وغیرہ۔ ان پر آزمائش کا آنا گناہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے درجات کو بلند کرنے کےلیے ہوتا ہے۔
آخرت میں اجر کے مستحقین کی کچھ صفات:
﴿وَ مَا عِنۡدَ اللہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ﴾
جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والاہے ان لوگوں کےلیے: جن کے عقیدے ٹھیک ہیں، جو اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، جب کبھی غصہ ہوتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی بات مانتے ہیں، نماز کی پابندی کرتے ہیں، اپنے معاملات باہمی مشورے سے طے کرتے ہیں، جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ خرچ بھی کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہو تو بدلہ لیتے ہیں۔ لیکن بدلہ لینے کےلیے بھی انصاف سے کام لیتے ہیں یعنی حق سے تجاوز نہیں کرتے۔
خالق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے:
﴿لِلہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾ ﴾
یہاں کائنات کی تخلیق کو بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق میں کوئی اور شریک نہیں۔ انسانیت کی تخلیق کو بھی بیان کیا کہ اولاد دینا، کسی کو لڑکی دینا یا لڑکا دینا، یا لڑکا لڑکی دونوں دینایا کچھ بھی نہ دینا اس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا کوئی عمل دخل نہیں، حتیٰ کہ ماں باپ جو اپنی اولاد کی پیدائش کےلیے ظاہری سبب بنتے ہیں انہیں بھی اس میں کوئی اختیار نہیں۔
قرآنی ترتیب میں لڑکی کا اللہ تعالیٰ نے پہلے ذکر کیا ہے۔ اگر کسی کے ہاں پہلی اولاد لڑکی کی صورت میں ہوتو وہ قرآنی ترتیب کے مطابق بھی ہو گی اور مبارک بھی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا انسان سے ہم کلام ہونے کا طریقہ:
﴿وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ﴿۵۱﴾﴾
مشرکین؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لائیں؟ آپ اللہ تعالیٰ سے بالمشافہ کلام نہیں کرتے جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بالمشافہ کلام کیا تھا۔ یہاں مشرکین کی اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پردےکے پیچھے سے کلام کیا۔ دنیا میں کسی انسان میں یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے آمنے سامنے کلام کرے۔ ہاں البتہ جب بات کرنی ہوتو تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو اپنایا جاتاہے:
وَحْیًا
یعنی الہام کے ذریعے اللہ تعالیٰ دل میں کوئی بات ڈال دیتےہیں۔
مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ
پردے کے پیچھے سے۔ یعنی کوئی صورت تو نظر نہ آئے بس آواز کانوں میں آئے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بات ہوئی۔
یُرْسِلَ رَسُوْلًا
اور تیسرا طریقہ اللہ تعالیٰ جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعہ اپنا کلام اپنے پیغمبر پر بھیج دیتے ہیں۔
سورۃ الزخرف
"زخرف"سونے کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورۃ میں سونے کا ذکر کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام زخرف رکھ دیا گیاہے۔ اس سورۃ میں مشرکین مکہ کے مختلف اعتراضات کے جوابات دے کر ان کی تردید کی گئی ہے۔ حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کاذکر کیا گیاہے۔
قرآن کریم کے واضح ہونے کا مطلب:
﴿حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ قسم ہے اس کتاب کی جو بڑی واضح ہے۔ یہاں پر واضح ہونے سے مراد یہ ہے کہ بطورِ وعظ ونصیحت قرآن کریم بڑی واضح کتاب ہے۔ اس کا معنی یہ کرنا کہ قرآن کریم میں احکام بہت واضح ہیں، یہ معنی درست نہیں ہے۔ کیونکہ اگر احکام واضح ہوتے تو استنباط اور اجتہاد کی ضرورت نہ ہوتی، حالانکہ احکام کے لیے استنباط اور اجتہاد کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ان آیات میں بھی اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے جن میں ابہام یا اجمال ہوتا ہے یا دوآیات آپس میں بظاہر متعارض ہوتی ہیں۔
مشرکین کی قابل نفرت سوچ:
﴿اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخۡلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصۡفٰکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ ﴿۱۶﴾ وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحۡمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿۱۷﴾﴾
مشرکین فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ثابت کرتے ہیں ؛ حالانکہ مشرکین کی اپنی حالت یہ ہے کہ اگر ان کے ہاں بیٹی پیدا ہو تو ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں، لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور اسے زندہ درگور کرنے کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں۔ یہ کتنی قابل نفرت اور غلط سوچ ہے۔ جس چیز کو تم اپنے لیے نا پسند کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کیسے ثابت کرتے ہو؟
مشرکین کے دعویٰ کی تردید:
﴿وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖۤ اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾﴾
گزشتہ آیات میں تھا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی جاتی تو وہ اپنے دین کو صحیح سمجھتے ہوئے کہتے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہےاور ہم انہی کے نقش قدم کے مطابق ٹھیک ٹھیک راستے پر جارہے ہیں۔
یہاں سے ان کے اس غلط دعوے کی تردید ہورہی ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن وسنت اور قطعی عقائد کے معاملے میں باپ دادا کی تقلید غلط طریقہ ہے۔ اگر باپ دادوا کے پیچھے چلناہی تھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام؛ جو ابوالانبیاء ہیں، جنہوں نے شرک سے کھلم کھلابیزاری اور براءت کا اعلان کیاتھا؛ ان کے پیچھے کیوں نہیں چلتے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اپنی اولاد میں یہی کلمہ توحید چھوڑا تھا، تم شرک پر کیوں چل رہے ہو؟
مشرکین کی غلط سوچ اور اس کی تردید:
﴿وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ ﴿۳۱﴾﴾
مشرکین کہتے کہ اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے اتارنا تھا تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر اتارا جاتا جس کے پاس مال و دولت خوب ہوتا۔ مشرکین کی سوچ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ خاصہ (نبوت) غریب آدمی کو نہیں بلکہ امیر آدمی کو ملنی چاہیے تھی۔
اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں اس کا جواب دیا: تم نبوت کو تقسیم کرتے ہو کہ نبوت فلاں کو ملنی چاہیے فلاں کو نہیں ملنی چاہیے۔ نبوت تو رحمتِ خاصہ ہے؛ دنیا کی روزی رحمتِ عامہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وقعت ہی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی تقسیم کا اختیار تمہیں نہیں دیا۔ نبوت تو بہت اعلیٰ درجے کی چیز ہے اس کی تقسیم کا اختیار تمہیں کیسے دیں گے!
ذکراللہ کو چھوڑنے کا نقصان:
﴿وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ ﴿۳۶﴾ ﴾
جو شخص ضد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کو چھوڑ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کی بات کو نہیں مانتا تو اللہ تعالیٰ اس پر شیطان کو مسلط فرما دیتے ہیں۔ پھر وہ شیطان اسے نیکی کی طرف نہیں آنے دیتا۔ شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور اس کو سیدھے راستے سے ہٹاتا ہے۔ وہ بندہ یہ سمجھتا ہے کہ میں ہدایت پر ہوں حالانکہ وہ ہدایت پر نہیں ہوتا۔
سابقہ انبیاء علیہم السلام سے پوچھنے کا مطلب:
﴿وَ سۡـَٔلۡ مَنۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلۡنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعۡبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾﴾
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے انبیاء علیہم السلام سے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے صحیفوں اور کتابوں کا جو کچھ حصہ باقی ہے اس میں آپ دیکھیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ لیلۃ المعراج میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء علیہم السلام سے ملاقات ہوئی اس وقت پوچھیں کہ کیا کبھی بھی ہم نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے معبود بنائے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے؟
موسیٰ علیہ السلام کا قصہ:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَقَالَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۶﴾ ﴾
یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کےقصے کا ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اللہ تعالی نے ان کے قصے کو مختلف پیرائے میں بیان کیا ہے۔
ایک کافر کے اعتراض کا جواب:
﴿وَ لَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوۡمُکَ مِنۡہُ یَصِدُّوۡنَ ﴿۵۷﴾ ﴾
جب سورۃ الانبیاء کی یہ آیت نازل ہوئی۔
﴿اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ﴾ "
کہ تم لوگ اور جس کی تم پوجا کرتے ہو، سب جہنم کا ایندھن بنو گے"۔ تو ایک کافر نےکہا کہ میرے پاس اس آیت کا جواب ہے، وہ یہ کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی پوجا کرتے ہیں، تو کیا وہ بھی جہنم میں جائیں گے؟ اس پر مشرکین نے بہت شورمچایاکہ اس نے لاجواب اعتراض کیا ہے۔ حقیقت میں اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ سورۃ انبیاء کی آیت میں بت پرستوں کو خطاب تھا۔ آیت زخرف میں بتوں کے علاوہ وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیا تھا۔ رہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تو انہوں نے تو کبھی بھی کسی کو اپنی عبادت کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ عیسیٰ علیہ السلام تو فرماتے ہیں "میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، مجھے خدا نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے"۔
عقیدہ اِبنیّت اور مشرکین کی تردید:
﴿قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾﴾
گزشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کی نفی تھی۔ اب یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ہونے کی نفی، مشرکین کے بے ہودہ اعتراضات اور ان کے غلط عقائد کا ردہے کہ اے پیغمبر! آپ یہ اعلان کردیجیے کہ اگر فرض محال کے طور پر خدا کا کوئی بیٹاہوتاتو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا۔
سورۃ الدخان
"دخان " عربی میں دھویں کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورۃ میں دھویں کا ذکر ہے اسی وجہ سے اس کانام دخان رکھا گیاہے۔
یہ سورۃ مکی ہے دیگر سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید، رسالت اور آخرت کو ثابت کیا گیا ہے۔ مشرکین مکہ پر قحط مسلط کیا گیا تھا اس کا بھی ذکر ہے۔
لیلہ مبارکہ سے کیا مرادہے؟
﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾﴾
قرآن کریم کو ہم نے برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں۔ لیلہ مبارکہ؛ برکت والی رات سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ کیو نکہ سورۃ القدر میں صراحت کے ساتھ قرآن کریم کا لیلۃ القدر میں نازل ہونا منقول ہے۔ تو اس سے لیلہ مبارکہ کی تعیین ہو رہی ہے۔
" اَنۡزَلۡنٰہُ "
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر پورا قرآن کریم ایک ہی مرتبہ نازل کیا گیا ہے۔ پھر آسمان دنیا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر 23سال تک تھوڑاتھوڑانازل ہوتا رہا۔
”دخان“ سے کیا مراد ہے؟
﴿فَارۡتَقِبۡ یَوۡمَ تَاۡتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾﴾
اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی مسلسل مخالفت اور اسلام دشمنی کی وجہ سے بد دعا کی تو مکہ پر سخت قحط پڑا اور قحط اتنا شدید تھا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک کی وجہ سے انہیں دھواں نظر آتا تھا۔ یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اگر آپ دعا کریں اور قحط ختم ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو قحط ختم ہو گیا لیکن وہ ایمان پھر بھی نہیں لائے۔
فرعون کی تباہی:
﴿وَ لَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَہُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ ﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سےکہا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو میرے حوالے کردو کیونکہ میں امانت دار پیغمبر بن کر تمہاری طرف آیاہوں۔ فرعون نے بجائے ماننے کے الٹا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کی دھمکیاں دیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے حواریوں کو سمندر میں غرق کر دیا۔
اہل جہنم کا کھانا:
﴿اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوۡمِ ﴿ۙ۴۳﴾ طَعَامُ الۡاَثِیۡمِ ﴿ۖ۴۴﴾﴾
یہاں سے اہل جہنم کے کھانوں کا ذکر ہے۔ انہیں جہنم میں کھانے کےلیے زقوم کا درخت ملے گا جس کی شکل تلچھٹ جیسی ہوگی توان کے پیٹ میں ہنڈیا کی طرح ابال شروع ہو جائے گا، یہ درخت شکل سے بھی بے کارہو گا اور ذائقے کے اعتبار سے بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔
اہل جنت کےلیے انعامات:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ ﴿ۙ۵۱﴾ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ﴿ۙ۵۲﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں جہنمیوں کی خوراک کاذکر تھا۔ یہاں سے متقین کے انعامات کاذکر ہے کہ متقین ایسی جگہ پر ہوں گے جو امن والی ہو گی، باغات میں ہوں گے اور چشموں میں ہوں گے۔ باریک ریشم بھی پہنیں گے اور موٹا ریشم بھی پہنیں گے، آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ خوب صورت آنکھوں والی حوروں سے ہم ان کی شادیاں کرائیں گے۔ اللہ کریم مجھے بھی جنت کی خوشیاں نصیب کریں اور آپ سب کو بھی نصیب کریں۔
سورۃ الجاثیہ
"جاثیہ"کا عربی میں معنی ہے گھٹنوں کے بل بیٹھنا۔ چونکہ اس سورۃ میں قیامت کی ہولناکی کو بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ خوف کی وجہ سے گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے؛ اسی وجہ سے اس کا نام جاثیہ رکھ دیا گیا ہے۔
دلائل توحید وقدرتِ باری تعالیٰ:
﴿اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ﴿۳﴾﴾
یہاں شروع میں اللہ تعالیٰ نے دلائلِ توحید وقدرت بیان فرمائے ہیں اور طرز میں تنوع رکھا ہے، الگ الگ طرز اختیار فرمایا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں یقین رکھنے والوں کےلیے دلائل ہیں۔ دن اور رات کے آنے جانےمیں اور جو رزق خدا نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا، اور ہواؤں کے چلنے میں عقلمندوں کے لیے دلائل ہیں۔
گویایہاں تین قسم کے لوگ ہوئے: جوایمان لاچکے ہیں۔ جو ایمان تو نہیں لائے لیکن ان کو دلائل پر یقین ہے اسی وجہ سے ایمان بھی لے آئیں گے۔ تیسرے نہ ایمان لائے اور نہ ہی دلائل پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس عقل سلیم ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ یقین کرکے ایمان لے آئیں گے۔ مذکورہ تینوں کامیاب ہوں گے۔
شریعت؛ عقائد اور مسائل کا نام:
﴿ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸﴾﴾
گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کتاب، حکومت، نبوت، پاکیزہ روزی اور کھلے کھلے احکام دیے تھے۔ اس کے باوجود وہ حسد وضد کی وجہ سے آپس کے اختلاف میں پڑگئے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے۔ اب یہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہورہا ہے کہ اے میرے پیغمبر! ہم نے آپ کو دین کی ایک خاص شریعت پر رکھا ہے لہذا اسی کی پیروی کرنا اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلناجو حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔
شریعت بنیادی طور پر دو چیزوں کا نا م ہے: عقائد اور مسائل۔ عقائد میں گزشتہ انبیاء علیہم السلام اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔ البتہ مسائلِ شریعت ان کے الگ تھے اور ہمارے الگ ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی شریعت کا جو مسئلہ ہوتا ہے وہی مسئلہ ہماری شریعت کا بھی ہوتا ہے۔ یہ اس وقت ہے جب ان کی شریعت کے مسائل کو منسوخ نہ کیا گیا ہو۔ ان کی شریعت کے وہ مسائل جنہیں منسوخ کردیا گیا ہو وہ ہماری شریعت کے مسائل نہیں ہوں گے۔
نسخ مسائل میں ہوتاہے عقائد میں نہیں ہوتا کہ کل عقیدہ اور ہو اور آج عقیدہ اور ہو۔ اس لیے عقائد میں اختلاف نہیں ہے، صرف مسائل میں ہے۔
قیامت کی ہولناکی:
﴿وَ لِلہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ یَوۡمَئِذٍ یَّخۡسَرُ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ﴿۲۷﴾﴾
قیامت کے دن مختلف مراحل سے گزرنا پڑے گا ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ لوگ وہاں کے ہولناک مناظر دیکھ کر گھٹنوں کے بل گر جائیں گےاور انہیں نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔ دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ انبیاء علیہم السلام اور بہت سارے صلحاء رحمہم اللہ بھی گھٹنوں کے بل بیٹھیں گے لیکن ان کا بیٹھنااتنے کم وقت کےلیے ہوگاجو نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ یاپھر ان کے بیٹھناخوف کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے ہوگا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ