اللہ سے مانگیے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اللہ سے مانگیئے
اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات )خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے (مانگنا شریعت میں ”دعاء“ کہلاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں دعاء کے فضائل و احکام بہت زیادہ ہیں۔
دعاء کی ضرورت:
اللہ رب العزت ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہیں،اللہ کے علاوہ نہ تو کوئی حاجت روا ہے اور نہ ہی مشکل کشا،صرف وہی ذات ہمیں فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نقصان سے بچا سکتی ہے، ہم سب اس کے مملوک اور وہ ذات ہم سب کی مالک ہے،ہم سب اس کے در کےفقیر اور محتاج ہیں وہ غنی اور وھاب ذات ہے، ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا ہے ۔الغرض ہم بندے ہیں اور وہ آقا ہے ۔اس کریم ذات کا محض اتنا کرم ہی کافی ہے کہ وہ ہم جیسے نالائق، غیر مستحق بلکہ مستحقِ سزا و عقاب لوگوں کواپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے لیکن یہاں تک معاملہ صرف کرم کا ہے ۔
کرم کی انتہاء:
اب اُس کرم کی انتہاء تو دیکھیے کہ جو اس سےدعاء نہ مانگے وہ ذات اس سے ناراض ہو جاتی ہے،ایک حدیث پاک میں ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء ، حدیث نمبر 3295
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سے )دعاء(نہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں ۔
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے کیونکہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں ۔اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعاء نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہو گا؟اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کےلیے دعا ءکی ضرورت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
اللہ سےمانگنے کی چند وجوہات:
یوں تو مسلمان کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مملوک اور بندہ ہے اس لیے اسے اللہ سے اپنی حاجات اور ضروریات کو مانگنا چاہیے ۔ مزید یہ کہ اگر غور کیا جائے توکئی وجوہات ایسی ہیں کہ جن کا بھی تقاضا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ء مانگنی چاہیے،ان میں سے چند یہ ہیں :
1 … رحمان و رحیم:
قرآن کریم میں ہے:
اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔
سورۃ الفاتحہ، آیت نمبر 2
ترجمہ: )اللہ تعالیٰ کی ذات (بے حد مہربان نہایت رحم کرنے والا۔
یہ بالکل واضح ہے کہ جو بے رحم ہو اس سے کچھ نہیں مانگا جاتا، رحم کرنے والے سے ہی مانگا جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت کی ذات تو صرف رحم کرنے والی ہی نہیں بلکہ بے حد رحم کرنے والی ہےدنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رحم کرنے والی ہے ۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعاء صرف اسی سے ہی مانگی جائے جو بے حد رحم کرنے والا ہے ۔
2 … قدرت کاملہ:
قرآن کریم میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 20
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔
جس ذات سے مانگنا ہے اس کے لیے قدرت والا ہونا بھی ضروری ہے اگر اس کی قدرت ہی نہ ہو تو دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟ مرادیں کیسے پوری کرے گا ؟ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعاء اس سے کی جائے جس کو ہر کام کی مکمل قدرت ہو اور وہ ذات سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی نہیں ۔
3 … قبولیت:
قرآن کریم میں ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔
سورۃ البقرۃ، آیت 186
ترجمہ: )اے میرے پیغمبر(!جب میرے بندےآپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو )آپ فرمادیں کہ ( میں قریب ہوں ، جب کوئی دعاء کرنے والا مجھ سے دعاء کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لیے کہیں جانا نہیں پڑتا بلکہ وہ ذات تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اس کو پکاریں تو وہ ذات سنتی بھی ہے اور قبول بھی کرتی ہے ۔
4 … الحی القيوم:
قرآن کریم میں ہے:
اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ
سورۃ البقرۃ، آیت 255
ترجمہ: صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہیں ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔
بے جان اور کمزور کسی کو کیا دے سکتا ہے اور ایسا زندہ جس کو ہروقت مرنے کا دھڑکا لگا رہتا ہوں وہ کسی کی حاجت روائی کیسے کر سکتا ہے اس لیے دعاء اس ذات سے مانگنی چاہیے ہمیشہ سےہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، قوت و طاقت والی ہے، کمزور نہیں ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے ۔
5 … غنی کریم :
قرآن کریم میں ہے:
إِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
سورۃ النمل، آیت نمبر 40
ترجمہ: بے شک میرا رب عنایت کرنے والا ہے اور کرم کرنے والا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ جو خود کسی دوسرے کا محتاج ہو اس سے کیا مانگنا؟ مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو ۔ اس لیے دست دعاء بھی اس کے سامنے دراز کرنا چاہیے ۔غنی کے ساتھ ساتھ اس کا کریم ہونا بھی ضروری ہےکریم کا مقابل بخیل ہوتا ہے بخیل سے کچھ نہیں مانگا جاتا اور مانگ بھی لیا جائے تو بخیل نہیں دیتا اگر دے بھی دے تو ضرورت سے کم دیتا ہے ۔ کریم وہ ذات ہے جو استحقاق کے بغیر بھی نواز دے ۔
6 … مُختارِ کل:
قرآن کریم میں ہے :
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ
سورۃ القصص، آیت نمبر68
ترجمہ: اور تیرا پروردگار جس کو چاہتا ہے عدم سے وجود میں لاتا ہے اور اختیارات کا مالک ہے۔
اللہ تعالی کی ذات مُختار کل ہے ۔ تمام تر اختیار ات اس کے پاس ہیں اس لیے مانگنے کے لیے اسی ذات کے سامنے ہاتھ پھیلانے چاہییں جس کے پاس تمام اختیارات ہوں اور جو خود مختار نہ ہو بلکہ کسی اور کا پابند ہو تو وہ مختار کل نہیں ہو سکتا۔ نہ تو اللہ کے علاوہ کوئی مختارِ کل ہے اور نہ ہی کسی اور سے مافوق الاسباب مانگنا جائز ہے ۔
7 … الغفور الرحیم:
قرآن کریم میں ہے:
إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
سورۃ الزمر، آیت نمبر 53
ترجمہ: بے شک وہی معاف کرنے والا،رحم کرنے والا ہے ۔
انسان خطا کا پُتلا ہے۔ شیطان ، نفس یا ماحول سے مغلوب ہو کر بالآخر گناہ کر بیٹھتا ہےسوائے انبیاء کرام علیہم السلام کے کوئی بھی انسان گناہوں سے معصوم نہیں اس لیے اس سے گناہ کا ہوجانا خلاف عقل نہیں ۔گناہ کے بعد اب یہ معافی مانگنا چاہتا ہے تو اب ضروری ہے کہ یہ ایسی ذات کے سامنے ہاتھ پھیلائے جو معاف کرنے والی ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے ۔
8 …سمیع علیم:
قرآن کریم میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
سورۃ الحجرات آیت نمبر1
ترجمہ: بے شک اللہ ہر کسی کی ہر بات سننے والا اور جاننے والا ہے۔
جس سے دعاء مانگی جا رہی ہو وہ اس کو سن بھی سکتا ہواور جانتا بھی ہو کہ کیا مانگا جا رہا ہے؟اور جو مانگا جا رہا ہے وہ دینا بھی ہے یا نہیں ؟ اس لیےایسی ذات سے دعاء مانگنے کا حکم ہے جو سنتی بھی اور جانتی بھی ہے ۔ سننے کے مفہوم میں بہت زیادہ وسعت ہے ہر کسی کی ہر وقت سنے اور علم کے مفہوم میں بھی بہت وسعت ہے کہ ہر کسی کی ہر زبان کی ہر بات کو جانے بلکہ اس میں بھی مزید وسعت ہے کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ کسے ، کس وقت ،کیا اور کیسے دینا ہے ؟ اور کسے، کب ،کیا اور کون سی چیز نہیں دینی ؟ مذکورہ بالا آیات قرآنیہ کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں دعاء مانگنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ اور یہ کہ دعاء کس سے مانگنی ہے ؟ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعاء مانگنے کی کون سی وجوہات ہیں ؟
ان شاء اللہ آئندہ چند صفحات میں دعاء سے متعلقہ دیگر اہم امور پر بات ہوگی جس میں دعاء مانگنے کا حکم،کیفیت دعاء ، دعا ء کے درجات، دعاء کے اسباب، قبولیت دعاء کے اوقات،کن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کن کی نہیں؟ مختلف مواقع پر مانگی جانے والی مسنون دعائیں، دعا ءمیں کیا مانگ سکتے ہیں اور کیا نہیں؟اسی طرح خود مانگنا اور دوسروں سے دعاءکی درخواست کرنا، وسیلہ کے ساتھ دعاء کرنا اور بغیر وسیلہ کے مانگنا، انفرادی اور اجتماعی دعاء، کن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر مانگی ہے کہاں نہیں ؟وغیرہ ۔