دعا مانگتے وقت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دعاء مانگتے وقت
اللہ تعالیٰ جب کسی پر اپنا کرم فرماتے ہیں تو اس کو اپنی ذات سے دعاء مانگنے کی توفیق نصیب فرماتے ہیں ۔دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ضروریا ت سے بے نیاز ہو ان کا تعلق خواہ دنیا کی ضروریات سے ہو یا آخرت کی ضروریات سے ہو ۔
انسان کو ہدایت ، نعمت ، عزت ، رزق ، شہرت ، مال و دولت اور وسائل درکار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ دنیا کی خوشیاں حاصل کر سکے اور ایسے اسباب سے بچاؤ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جن کی وجہ سے خوشیاں برباد ہو جاتی ہیں بالکل اسی طرح آخرت میں اللہ کے انعام و اکرام ، ابدی کامیابی ، دائمی خوشیاں ،جنت اور رضاء الہی کی ضرورت ہو گی ، جومحض اس کے فضل و احسان ، شفاعت اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ نیک اعمال کی کثرت سے نصیب ہو گی ۔ اور یہ سب خرانے اللہ تعالیٰ کے پاس موجود ہیں ، اس لیے اسی ذات سے مانگنے کا حکم قرآن کریم اور متعدد احادیث مبارکہ میں موجود ہے،چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي۔
سورۃ غافر ، آیت نمبر 60
ترجمہ: اور کہا تمہارے رب نے کہ مجھ سے )دعا(مانگو۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ دعاء کرتے وقت انسان کی کیفیت کیا ہونی چاہیے؟
…1 ہم محتاج ہیں:
سب سے پہلے تو اس کو اپنی سب سے بڑی ضرورت تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم محتاج ہیں دنیا میں صرف اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں نتیجہ اور انجام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔
2… رحم وکرم کا یقین:
دل میں اللہ کی عظمت وبزرگی، قدرت و طاقت ، رحم و کرم، فضل و احسان ، جود وکرم اور محبت و رافت کو جمانے کی کوشش کریں کیونکہ تمام اختیارات اللہ تعالی ہی کے پاس ہیں ، اگر وہ چاہے گا تو میری حاجت پوری ہوگی ، میری مشکل حل ہو گی، میری مصیبت ٹلے گی ، مجھے کامیابی ملے گی اور مجھے خوشی نصیب ہو گی ۔ ورنہ ذلت و خواری ، مصائب و مشکلات اور ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھنا پڑے گا ۔ دل میں اللہ کی محبت اور رحمت کے غلبے کا تصور پختہ کریں ، یہ یقین پیدا کریں کہ جس ذات سے میں مانگ رہا ہوں وہ ذات مجھے عطاء کرے گی وہ کسی کی محتاج نہیں ۔
3… اللہ کے خزانے کم نہیں ہوتے:
اس کے خزانے بہت زیادہ ہیں اگر ساری کائنات مل کر بھی اس سے مانگے تب بھی اس کے خزانوں میں کچھ بھی کمی نہیں آتی ۔اپنے گناہوں کی ندامت کا احساس ساتھ ساتھ کرتے رہیں ہم اس قابل نہیں کہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ، بلکہ ہمیں تو ندامت کی وجہ سے اس کے حضور ہاتھ باندھے کھڑا رہنا چاہیے ، یہ تو اس کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے دربار میں ہاتھ پھیلانے کی توفیق دی ہے ۔
4… احساس و اظہار ندامت:
احساس ندامت کی وجہ سے اگر دل بھر آئے اور رونا آجائے تو رو دیجیے اور اگر دل کی سختی اس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ رونا نہیں آ رہا تو رونے والی شکل بنا لیں ۔
5… قبولیت کا یقین رکھیں:
پھر لجاجت سے مانگیئے ، اللہ کی ذات سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ناز و انداز سے مانگیئے پھر دل میں دعاء کی قبولیت کا یقین پیدا فرمائیں کیونکہ دعاء مانگنے والوں کے خالی ہاتھ جب اللہ کی بارگاہ میں اٹھتے ہیں تو اللہ رب العزت ان اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی نہیں لوٹاتے ۔
چنانچہ حدیث پاک میں ہے :
عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِىٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِى مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا ۔
سنن ابی داؤد ،باب الدعاء حدیث نمبر 1490
ترجمہ: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب مہربان اور حیا کرنے والا ہے،بندہ جب ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ خالی ہاتھوں کو واپس لوٹانا حیا کے خلاف سمجھتے ہیں ۔