خانقاہ اور خانقاہی اعمال

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خانقاہ اور خانقاہی اعمال
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو انہی میں مبعوث فرمایا۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آ کر مکمل اور تمام ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصدِ نبوت میں چار چیزیں بنیادی ہیں:
:1 تلاوتِ آیات :2 تزکیہ
:3 تعلیمِ کتاب :4 تعلیمِ حکمت)سنت(
انتظامی ضرورت :
عہد نبوت میں یہ کام مسجد میں کیے جاتے تھے ہاں کبھی کسی انتظامی ضرورت کے تحت یہی کام مسجد سے علیحدہ مکان میں بھی ادا کیے گئے جیسا کہ مدینہ طیبہ میں مقام صفہ پر ۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جامعہ، دارالعلوم اور مدرسہ وغیرہ کی کوئی خاص اصطلاح مقرر نہیں تھی ۔
بعد میں انتظامی ضرورت کے تحت تعلیم کتاب وحکمت اور تلاوت آیات کے لیے مدرسہ، مکتب، دارالعلوم اور جامعہ وغیرہ وجود میں آئے۔ ایسے ہی عہد نبوت میں ”خانقاہ“ کی کوئی اصطلاح مقرر نہیں تھی بلکہ یہ سارے امور مسجد ہی میں ادا کیے جاتے تھے ۔بعد میں انتظامی ضرورت کے پیش نظر تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور اخلاقیات کی عملی تربیت کے لیے ”خانقاہ“ وجود میں آئی۔
تزکیہ مناصب نبوت میں سے ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منجملہ فرائض میں سے تزکیہ بھی ہے یعنی امت کے قلوب میں سے غیر اللہ کی محبت اور غیر اللہ کا خوف ختم ہو کر اللہ وحدہ لاشریک کی محبت اور اللہ ذوالجلال کا خوف پیدا ہو ، ان کے قلب و روح سے بری خصلتیں ختم ہوکر نیک اوصاف اور عمدہ اخلاق پیدا ہوں کیونکہ جب تک دل غیراللہ اور گندے اوصاف کی آلائشوں سے پاک نہیں ہوتا اس وقت تک اس میں محبت الہیہ ، معرفتِ خداوندی ، رضائے باری عز وجل ، اطاعت رسول ، عقیدت نبوت اور عمدہ اوصاف و اعلی اخلاق کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتے ۔اب یہ ساری چیزیں جہاں ملتی ہیں اسے ”خانقاہ“ کہتے ہیں ۔
خانقاہوں کا ثبوت:
حکیم الامت مجدد الملت مولانا الشاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۔
تفسیر بیان القرآن ،سورۃ النور ، رقم الآیۃ: 36
یہ آیت ذکر اللہ کے لیے بنائی گئی خانقاہوں کی فضیلت اور ذکر ومراقبہ کے جس مقصد کےلیے یہ خانقاہیں بنائی گئی ہیں ان کے پورا کرنے کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اسی آیت کے تحت تفسیر ”معارف القرآن “میں فرماتے ہیں: روشنی مسجدوں اور خانقاہوں سے ملتی ہے جہاں صبح و شام اللہ کا ذکر ہوتا ہے …ان گھروں میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اس میں تسبیح و تہلیل اور تلاوت قرآن پاک اور دیگر اذکار سب داخل ہیں ان گھروں سے مراد مسجدیں اور خانقاہیں مراد ہیں ۔
مسجد نبوی کے دو مبارک عمل:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ وَقَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَقَوْمٌ يَتَذَاكَرُونَ الْفِقْهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كِلَا الْمَجْلِسَيْنِ إِلَى خَيْرٍ۔
مسند ابی داؤد الطیالسی، الرقم: 2365
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو وہاں کچھ لوگ اللہ عزوجل کا ذکر کر رہے تھے اور کچھ لوگ دینی مسائل کا آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) ان دونوں طبقوں کو خوشخبری دی اور (فرمایا دونوں ہی مجلسیں اچھی ہیں۔
اصحاب صفہ کی خانقاہ اور مدرسہ:
مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ ”سیرۃ المصطفیٰ“ میں فرماتے ہیں: صفہ اصل میں سائبان اور سایہ دار جگہ کو کہتے ہیں۔ وہ ضعفاء مسلمین فقراء شاکرین جو اپنے فقر پر فقط صابر ہی نہ تھے بلکہ امراء و اغنیاء سے زیادہ شاکر و مسرور تھے جب احادیث قدسیہ اور کلمات نبویہ سننے کی غرض سے بارگاہ نبوت و رسالت میں حاضر ہوتے تو یہاں پڑے رہتے تھے ، لوگ ان حضرات کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ گویا یہ اس بشیر و نذیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ”خانقاہ “تھی جس نے باہزار رضاء و رغبت فقر کو دنیا کی سلطنت پر ترجیح دی۔
حسن بصری رحمہ اللہ کی خانقاہ:
علامہ ذہبی رحمہ اللہ ”سیر اعلام النبلاء“ میں فرماتے ہیں :
وَكَانَ عَمْرُو بنُ عُبَيْدٍ وَعَبْدُ الوَاحِدِ بنُ زَيْدٍ رَحِمَہُمَا اللہُ مِنَ المُلاَزِمِيْنَ لَهُ وَكَانَ لَهُ مَجْلِسٌ خَاصٌّ فِي مَنْزِلِهِ لاَ يَكَادُ يَتَكَلَّمُ فِيْهِ إِلاَّ فِي مَعَانِي الزُّهْدِ وَالنُّسُكِ وَعُلُوْمِ البَاطِنِ فَإِنْ سَأَلَهُ إِنْسَانٌ غَيْرَهَا تَبَرَّمَ بِهِ وَقَالَ: إِنَّمَا خَلَوْنَا مَعَ إِخْوَانِنَا نَتَذَاكَرُ۔
سیر اعلام النبلاء،ترجمۃ الحسن البصری رحمہ اللہ
ترجمہ: عمرو بن عبید اور عبدالواحد بن زید یہ دونوں امام حسن بصری رحمہ اللہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے والے تھے اور امام حسن بصری رحمہ اللہ کے گھر میں ایک خاص مجلس ہوا کرتی تھی اس میں دنیا سے بے رغبتی ، قربانی اور باطنی علوم کے بارے باتیں ارشاد فرماتے تھے اگر کوئی شخص ان باتوں کے علاوہ کوئی اور سوال کرتا تو اس پر ناگواری کا اظہار فرماتے اور یوں کہتے کہ ہم اپنے دوستوں سے مذاکرہ میں مشغول ہیں۔
لفظ خانقاہ کی ابتداء :
خواجہ عبیداللہ احرار رحمہ اللہ ”طبقات صوفیاء“ میں لکھتے ہیں : دوسری صدی ہجری زمانہ تابعین میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم عصر شیخ ابو ہاشم رحمہ اللہ کےلیے ذکر و شغل اور تعلیم و تزکیہ و سلوک کے واسطے باقاعدہ ”خانقاہ “کے نام سے مکان کی بنیاد رکھی گئی ۔
خانقاہی اعمال:
خانقاہ میں کیا ہوتا ہے؟ صحیح عقائد اور مسنون اعمال، اصلاح نفس ،روحانی بیماریوں سے چھٹکارا، ذکر اللہ کا طریقہ اور اعلی اخلاق و اوصاف اپنانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ ذیل میں خانقاہ میں وقت گزارنے کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے ۔
وضو:
عَنْ عَبْدِ اللهِ الصُّنَابِحِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ فَتَمَضْمَضَ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ فِيهِ فَإِذَا اسْتَنْثَرَ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ أَنْفِهِ فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجْتِ الْخَطَايَا مِنْ وَجْهِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَشْفَارِ عَيْنَيْهِ فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ يَدَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ يَدَيْهِ فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ رَأْسِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أُذُنَيْهِ فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ رِجْلَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ رِجْلَيْهِ ثُمَّ كَانَ مَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَصَلَاتُهُ نَافِلَةً لَه۔
سنن النسائی ، باب مسح الاذنین مع الراس ، الرقم: 102
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن صُنابحی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اس میں کلی کرتا ہے تو اس کے منہ )سے ہونے( والے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور جب وہ ناک میں پانی ڈال کر اسے جھاڑتا ہے تو اس کے ناک کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں اس کے بعد جب وہ چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ پلکوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں اور جب وہ دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی ۔ اور جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پیروں کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور اس کا نماز ادا کرنا اس کے لیے اضافی ہوتا ہے۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتُمْ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ
صحیح مسلم ، باب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء ، الرقم: 362
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی طرح پورا وضو کرنے کی وجہ سے قیامت والے دن تمہارے چہرے اور ہاتھ پاؤں بہت روشن ہوں گے اس لیے جو شخص اپنی اس نورانیت کو بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے۔
تہجد:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلَى رَبِّكُمْ وَمَكْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمَنْهَاةٌ لِلْإِثْمِ.
جامع الترمذی،باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم الرقم: 3472
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہیں چاہیے کہ رات کو قیام کرو! اس لیے کہ تم سے پہلے نیک بندوں کی عادت بھی یہی تھی، یہ تمہارا اپنے رب سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، یہ عمل تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور تمہیں گناہوں سے بچانے والا ہے۔
ذکراللہ:
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ۔
صحیح البخاری،باب فضل ذکر اللہ عزوجل،الرقم: 6407
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہےاور وہ جو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ ( ذاکر زندہ جبکہ دوسرا مردہ ہے)
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا عَمِلَ آدَمِيُّ عَمَلًا أَنْجَى لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ۔
المعجم الاوسط للطبرانی ، الرقم: 2296
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کام انسان کرتا ہے ان میں سے کوئی بھی عمل ذکر اللہ سے زیادہ اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا نہیں ۔
نوٹ: خانقاہ حنفیہ میں سلسلہ چشتیہ کی دوازدہ )12( تسبیحات کا معمول ہے ۔
باجماعت نماز:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً۔
صحیح البخاری، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، الرقم: 645
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں ستائیس گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔
نماز کے بعد کے اذکار:
عَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاَتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلاَثًا وَقَالَ : اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ.
صحیح مسلم، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ ، الرقم: 1273
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز مکمل فرما لیتے تو تین بار استغفراللہ پڑھتے اور اس کے بعد یوں دعا کرتے:
اَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ.
اے اللہ آپ ہی سلامتی والے ہیں اور آپ ہی کی طرف سے سلامتی ملتی ہے آپ ہی برکت بزرگی اور عزت والے ہیں۔
عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ: كَتَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ إِلَى مُعَاوِيَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الصَّلاَةِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ۔
صحیح مسلم، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ ، الرقم: 1277
ترجمہ: حضرت ورّاد رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو یوں فرماتے تھے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ اے اللہ !آپ جو چیز عطا فرمائیں اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز آپ روک لیں اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش کرنے والے کی کوشش آپ کے مقابلے میں فائدہ نہیں پہنچاتی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَبَّحَ اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ وَحَمِدَ اللَّهَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ وَكَبَّرَ اللَّهَ ثَلاَثًا وَثَلاَثِينَ فَتْلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ وَقَالَ : تَمَامَ الْمِئَةِ : لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ غُفِرَتْ خَطَايَاهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ.
صحیح مسلم، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ ، الرقم: 1291
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 33 مرتبہ اللہ اکبر کہے یہ 99 ہوگئے اور 100 کو ان کلمات کے ساتھ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ مکمل کرے،اس کے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔
نوٹ: اس کے علاوہ بھی دعائیں منقول ہیں جو نمازوں کے بعد مانگی جاتی ہیں۔
سورۃ یٓس:
عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِى رَبَاحٍ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ بَلَغَنِى أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَرَأَ يٓس فِى صَدْرِ النَّهَارِ قُضِيَتْ حَوَائِجُهُ۔
سنن الدارمی، باب فی فضل یٓس، حدیث 3481
ترجمہ: حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے )مرسلاً (مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سورۃ یٓس کو دن کے ابتداء میں تلاوت کرے تو اس کی ضروریات کو )اللہ تعالیٰ کی جانب سے (پورا کر دیا جاتا ہے۔
تلاوت قرآن کریم:
عَنْ زَيْدٍ رَحِمَہُ اللہُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ يَقُولُ : حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : اِقْرَؤُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لأَصْحَابِهِ ۔
صحیح مسلم ، باب فضل قراءۃ القرآن ، الرقم: 1825
ترجمہ: حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم قرآن کو پڑھو اس لیے کہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا ۔
نماز اشراق :
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی الْفَجْرَفِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُاللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَتْ لَہٗ کَاَجْرِحَجَّۃٍ وَّ عُمْرَۃٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ۔
جامع الترمذی، باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس فی المسجد، الرقم: 535
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی ، پھر وہیں اللہ کا ذکر کرنے بیٹھ گیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثو اب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ’’مکمل‘‘ کا لفظ تین بار ارشاد فرمایا۔
فائدہ: اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے بارہ منٹ بعد شروع ہوتا ہے ۔
نماز چاشت:
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ یُصْبِحُ عَلٰی کُلِّ سَلَامٰی مِنْ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ فَکُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَھْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ وَاَمْرٌبِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ وَنَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِصَدَقَۃٌ وَیُجْزِیُٔ مِنْ ذٰلِکَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُھُمَامِنَ الضُّحٰی۔
صحیح مسلم،باب استحباب صلوۃ الضحی ، الرقم: 1704
ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔ ہر با ر سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر با ر لا الہ الا اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر با ر اللہ اکبرکہنا ایک صدقہ ہے، اچھی بات کا حکم کرنا ایک صدقہ ہے، بری بات سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں جنہیں انسان پڑھ لیتا ہے۔
فائدہ: اس کا وقت طلوع آفتاب کے بعد شروع ہو کرزوال تک رہتا ہےلیکن افضل یہ ہے کہ دن کے چوتھائی حصہ گزرنے کے بعد پڑھی جائے۔
وعظ و نصیحت:
وَ لَوْ اَنَّہُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًا.
سورۃ النساء ، رقم الآیۃ: 66
ترجمہ: اور جس بات کی انہیں نصیحت کی جا رہی ہے اگر یہ لوگ اس پر عمل کر لیتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور ان میں خوب ثابت قدمی کو پیدا کر دیتا ۔
عَنْ تَمِيمِنِ الدَّارِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃُ ۔
صحیح مسلم ، باب بیان ان الدین النصیحۃ ، الرقم: 82
ترجمہ: حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔
فائدہ: قرآن و سنت میں وعظ و نصیحت کو نیکی کی طرف آنے اور برائی سے رکنے کے لیے بہت فائدہ مند قرار دیا گیا ہے اس لیے خانقاہ میں وقتاً فوقتاً بیانات ہوتے رہتے ہیں جس کی بدولت عقائد و اعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بہتر سے بہتر ہوجاتے ہیں ۔ خانقاہ حنفیہ میں یہ سلسلہ مستقل چلتا رہتا ہے۔
صلوٰۃ التسبیح:
صلوۃ التسبیح بہت اہمیت کی حامل ہے ۔اس کی چار رکعت ایک سلام کے ساتھ ہیں۔ ہر رکعت میں پچہتر(75) بار یہ تسبیح سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھنی چاہئے ۔ طریقہ اس حدیث میں منقول ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یَاعَبَّاسُ! یَاعَمَّاہ! اَلاَاُعْطِیْکَ اَلاَ اَمْنَحُکَ اَلاَاَحْبُوْکَ اَلاَاَفْعَلُ بِکَ عَشْرَ خِصَالٍ اِذَااَنْتَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ غَفَرَاللّٰہُ لَکَ ذَنْبَکَ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ قَدِیْمَہٗ وَ حَدِیْثَہٗ خَطَأَہٗ وَعَمَدَہٗ صَغِیْرَہٗ وَکَبِیْرَہٗ سِرَّہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ عَشْرَخِصَالٍ اَنْ تُّصَلِّیَ اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ تَقْرَئُ فِیْ کُلِّ رَکَعَۃٍ فَاتِحَۃَالْکِتَابِ وَسُوْرَۃً فَاِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَائَۃِ فِیْ اَوَّلِ رَکَعَۃٍ وَاَنْتَ قَائِمٌ قُلْتَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُخَمْسَ عَشَرَۃَ مَرَّۃً ثُمَّ تَرْکَعُ فَتَقُوْلُھَاوَاَنْتَ رَاکِعٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ مِنَ الرُّکُوْعِ فَتَقُوْلُھَاعَشْرًا ثُمَّ تَھْوِیْ سَاجِدًا فَتَقُوْلُھَاوَاَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ مِنَ السُّجُوْدِ فَتَقُوْلُھَاعَشْرًا ثُمَّ تَسْجُدُ فَتَقُوْلُھَا عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَاسَکَ فَتَقُوْلُھَاعَشْرًا فَذَالِکَ خَمْسٌ وَّسَبْعُوْنَ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ تَفْعَلُ ذٰلِکَ فِیْ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ اِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تُصَلِّیَھَافِیْ کُلِّ یَوْمٍ مَرَّۃً فَافْعَلْ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ جُمْعَۃٍ مَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ شَھْرٍمَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ عُمْرِکَ مَرَّۃً۔
سنن ابی داؤد،باب صلوۃ التسبیح ، الرقم: 1299
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا۔ اے چچا ! کیا میں آپ کو ایک ہدیہ ، تحفہ اور ایک خبر نہ دوں؟ کیا میں آپ کو دس باتیں نہ بتاؤں کہ جب آپ انہیں کرلیں تو اللہ تعالی آپ کے نئے پرانے بھول کرکئے اور جان بوجھ کر کئے ہوئے ، چھوٹے بڑے، چھپ کر کئے یا ظاہر سب گناہ معاف فرما دیں۔ وہ دس خصلتیں(باتیں) یہ ہیں کہ آپ چار رکعت پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھیں۔ جب پہلی رکعت میں قرات سے فارغ ہوں تو قیام ہی کی حالت میں یہ کلمات سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر پندرہ بار پڑھیں، جب رکوع کریں تو حالت رکوع میں دس بار پڑھیں ، پھر رکوع سے سر اٹھائیں تو دس مرتبہ کہیں پھر سجدہ کے لئے جھک جائیں تو سجدہ میں دس مرتبہ کہیں پھر سجدہ سے سر اٹھائیں تو دس مرتبہ کہیں پھر سجدہ کریں تو دس مرتبہ کہیں ، پھر سجدہ سے سر اٹھائیں تو دس مرتبہ کہیں (پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں)ہر رکعت میں یہ کل 75بار ہوگئے، آپ چار رکعت میں ایسا ہی کریں۔ اگر ہر دن پڑھنے کی طاقت ہو تو ہر دن پڑھیں، اگر ایسا نہ کرسکیں تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھیں، ہر جمعہ کی طاقت نہ ہوتو ہر مہینہ میں ایک بار پڑھیں ، اگر ہر مہینہ میں نہ پڑھ سکیں تو سال میں ایک بار پڑھیں اور اگر سال میں بھی نہ پڑھ سکیں تو عمر بھر میں ایک بار ضرور پڑھیں۔
ایک دوسرا طریقہ بھی صلوۃ التسبیح کے متعلق مروی ہے ۔ وہ یہ کہ ثناء پڑھنے کے بعد مذکورہ تسبیح پندرہ بار پڑھے ۔ پھر رکوع سے پہلے رکوع کی حالت میں ، رکوع کے بعد، سجدہ اولیٰ میں ، سجدہ کے بعد بیٹھنے کی حالت میں ، پھر دوسرے سجدہ میں دس دس بار پڑھے پھر سجدہ ثانی کے بعد نہ بیٹھے بلکہ کھڑا ہو جائے ۔ باقی ترتیب وہی ہے ۔
فائدہ: دونوں طریقوں میں سے جس کو اختیار کرے ، اس کے مطابق پڑھ سکتا ہے لیکن یہ خیال رہے کہ تسبیح ہر رکعت میں 75 بار ہونی چاہیے ۔
نماز اوابین:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی بَعْدَالْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ لَمْ یَتَکَلَّمْ فِیْمَابَیْنَھُنَّ بِسُوْئٍ عُدِلْنَ لَہٗ بِعِبَادَۃِ ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ سَنَۃً۔
جامع الترمذی ، باب ما جاء فی فضل التطوع ست رکعات ،الرقم: 435
ترجمہ : حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہیں کی تو اسے بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا۔
عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ ۔۔ رَاَیْتُ حَبِیْبِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ وَقَالَ مَنْ صَلّٰی بَعْدَالْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ غُفِرَتْ لَہٗ ذُنُوْبُہٗ وَاِنْ کَانَ مِثْلَ زَبَدِالْبَحْرِ ۔
المعجم الاوسط للطبرانی، الرقم: 7245
ترجمہ: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
فائدہ: اوابین نماز مغرب کے بعدعام طور پر چھ رکعت پڑھی جاتی ہیں ۔
سورۃ الواقعہ:
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْوَاقِعَةِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ لَمْ تُصِبْهُ فَاقَةٌ ۔
شعب الایمان للبیہقی، باب تخصیص سور منھا بالذکر، الرقم: 2268
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : جو شخص ہر رات کو سورۃ الواقعہ پڑھ لے تو اس کو فقر و فاقہ نہیں ہوگا۔
فائدہ: چونکہ مغرب ہوتے ہی رات شروع ہو جاتی ہے اس لیے نماز مغرب کے بعد اسے پڑھ لیا جاتا ہے۔
مجلس درود پاک:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ عَشْرًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ مِائَةً، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِائَةً كَتَبَ اللَّهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: بَرَاءَةً مِنَ النِّفَاقِ، وَبَرَاءَةً مِنَ النَّارِوأَسْكَنَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الشُّهَدَاءِ.
المعجم الاوسط للطبرانی ،الرقم: 7235
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جوآدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہےاللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ درودرحمت بھیجتا ہے اور جو مجھ پر دس دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ جل شانہ اس پر سو مرتبہ درودرحمت بھیجتا ہے اور جو مجھ پر سو بار درود بھیجتا ہےاللہ تعالیٰ اس کی پیشانی پر لکھ دیتے ہیں کہ یہ شخص نفاق سے بھی بری ہے اور جہنم سے بھی بری ہے اور قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ اس کا حشر فرمائیں گے۔
فائدہ: خانقاہ حنفیہ کے ہرماہانہ اور سالانہ اجتماع میں کئی لاکھ مرتبہ درود پاک پڑھا جاتا ہے اس عقیدے کے ساتھ کہ ہمارا یہاں سے پڑھا ہوا درود فرشتے روضہ اقدس علی صاحبہا الف الف تحیۃ وسلام پر لے جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
محفل نعت:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ فَيَقُومُ عَلَيْهِ يَهْجُو مَنْ قَالَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا نَافَحَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سنن ابی داؤد، باب ماجاء فی الشعر، الرقم: 4361
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مسجد )نبوی(میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسان )رسول اللہ کے نعت خوان(کے لیے منبر رکھتے اور وہ اس پر بیٹھ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی مذمت میں اشعار پڑھتے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )انہیں( دعا دیتے کہ روح القدس )جبرئیل علیہ السلام( آپ کی مدد فرمائیں جب تک آپ اللہ کے رسول کی مدافعت کرتے رہیں۔
فائدہ: ہر وہ محفل جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک تذکرہ ہو وہ بابرکت محفل ہوتی ہے ۔ اس سے اہل ایمان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوتی ہے ۔اس لیےخانقاہ حنفیہ میں نعت رسول بڑی محبت وعقیدت کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔
سورۃ الملک:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ سُورَةً مِّنَ الْقُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّى غُفِرَ لَهُ وَهِيَ سُورَةُ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ۔
جامع الترمذی ، باب ماجاء فی فضل سورۃ الملک ، الرقم: 2816
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم کی ایک ایسی سورۃ ہے جس کی آیات تو تیس ہیں یہ اپنے پڑھنے والے کی شفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت کر دی جائے گی اور وہ سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک ہے ۔
فائدہ: دیگر احادیث میں اس سورۃ کے اور بھی فضائل موجود ہیں کہ اپنے پڑھنے والے کو قبر کے عذاب سے محفوظ کرا دے گی۔ اس لیے خانقاہ حنفیہ میں اس کو باقاعدگی سے پڑھا جاتا ہے ۔
توبہ و استغفار:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللهِ فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْيَوْمِ إِلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ.
صحیح مسلم ، باب فی التوبۃ ، الرقم: 6958
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو!اللہ کے حضور توبہ کرو کیونکہ میں بھی اللہ کے حضور دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں ۔
فائدہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر چھوٹے بڑے گناہ سے معصوم ہیں ان کا توبہ کرنا کمال تواضع ہے ۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي۔ يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي۔
جامع الترمذی ، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار ، الرقم: 3463
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : اے آدم کی اولاد!تو جب بھی مجھ سے دعا کا طالب بن کر آئے گا اور مجھ سے معافی کی امید لگائے گا تو میں تیری مغفرت کر دوں گا ،خواہ تونے کتنے ہی بڑے گناہ کیے ہوں مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔ اے آدم کی اولاد!اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور پھر بھی تو مجھ سے مغفرت مانگے، میں تیری مغفرت کر دوں گا اور اس پر مجھے کسی کی کوئی پرواہ بھی نہیں ۔
اصلاحی تعلق:
ہم جس ماحول میں پرورش پا رہے ہیں یہ سراسر فحاشی ، عریانی اور گناہوں کا ماحول ہے ایسے ماحول میں اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے اور نیکیوں کی طرف بڑھنے کے لیے قلبی تعلق کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان پر اس نیک صحبت کے اثرات منتقل ہوتے ہیں ۔ اس حوالے سے خانقاہ میں تشریف لانے والے تمام شرکاء خود کو اصلاح کا طالب سمجھ کر تشریف لاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے ان کو بہت فائدہ ہوتا ہے ۔
بیعت طریقت:
اسلام اور احکام اسلام پر ڈٹے رہنے ، کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کے لیےبیعت کرنا قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔ اور بیعت طریقت میں بھی اسی بات پر بیعت کی جاتی ہے ۔ چند دلائل ملاحظہ ہوں:
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّ لَا یَسْرِقْنَ وَ لَا یَزْنِیْنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ وَ لَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیۡدِیْہِنَّ وَ اَرْجُلِہِنَّ وَ لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔
سورۃ الممتحنہ، رقم الآیۃ: 12
ترجمہ: اے نبی !جب آپ کے پاس ایمان والی خواتین آئیں آپ اُن سے اِن باتوں پر بیعت لیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی ، چوری نہیں کریں گی ، زنا نہیں کریں گی ،اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی ، بہتان نہیں باندھیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ انہیں بیعت فرما لیں اور ان کے لیےاللہ سے مغفرت کی دعا مانگیں ۔ یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ۔۔۔قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ تِسْعَةً فَقَالَ « أَلاَ تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔ فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا فَبَايَعْنَاهُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَعَلاَمَ نُبَايِعُكَ قَالَ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَتُصَلُّوا الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَتَسْمَعُوا وَتُطِيعُوا ». وَأَسَرَّ كَلِمَةً خُفْيَةً قَالَ « وَلاَ تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا » قَالَ فَلَقَدْ كَانَ بَعْضُ أُولَئِكَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُهُ فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا أَنْ يُنَاوِلَهُ إِيَّاهُ
سنن ابی داؤد ، باب کراہیۃ المسالۃ، الرقم: 1644
ترجمہ: حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے سات ، آٹھ یا نو بندے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے ؟……ہم نے اپنے ہاتھ پھیلائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کیا ۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ اے اللہ کے رسول!ہم نے آپ کی کن باتوں پر بیعت کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات پر کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو گے ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤگے ، پانچ نمازیں ادا کرو گے ، ہر شریعت کا حکم سنو اور اس پر عمل کرو گے اور ایک بات پوشیدہ طور پر ذکر فرمائی اور وہ یہ تھی کہ تم لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگو گے۔
راوی حدیث حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ان بیعت کرنے والوں کا اگر کوڑا بھی گر پڑتا تو وہ بھی کسی کو نہ کہتے کہ تم اٹھا دو بلکہ خود ہی اٹھاتے ۔
فائدہ: اس بات پر بیعت کرنا کہ شریعت پر مضبوطی سے چلیں گے اور جن چیزوں سے شریعت نے روکا ہے وہ کام نہیں کریں گے اور اللہ رب العزت کے ذکر اور اطاعت میں پوری توجہ سے کام لیں گے یہی بیعت طریقت ہے ۔
دعا و مناجات:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء ، الرقم: 3295
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سےنہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں۔
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے کیونکہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں ۔اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعا نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہو گا؟اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کےلیے دعا ءکی ضرورت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
سبحان اللہ !کتنا پرنور اور پر کیف منظر ہوتا ہے جب اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگی جا رہی ہوتی ہیں ۔
اللہ کریم اللہ والوں کی ایسی نیک مجالس میں شرکت کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، کراچی
جمعرات ،14 فروری، 2019ء