حسد سے بچئے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حسد سے بچئے!
اللہ تعالیٰ ہمیں حاسدین کے شر سے پناہ عطا فرمائے۔ حسد ہمارے معاشرے کی وہ بیماری ہے جس سے بہت کم لوگ بچ پائے ہیں ۔ یہ مال و دولت ، حسن و جمال ، شہرت و مقبولیت اور علم و دیانت ہر ایک میں پایا جاتا ہے ۔یہ ایک موذی مرض اور مخفی دشمن ہے، ظاہری طور پر نظر آنے والے دشمن سے حفاظت کی انسان تدابیر اختیار کرتا ہے لیکن جو دشمن چھپا ہوا ہو اس سے بچنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔
حسد کسے کہتے ہیں ؟
کسی کے پاس کوئی دینی یا دنیاوی نعمت مثلاً مال و دولت ، حسن و جمال ، شہرت و مقبولیت ، صلاحیت و استعداد یا علم و دیانت وغیرہ دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ کاش وہ نعمت اس کے بجائے مجھے مل جائے یا کم از کم اُس کے پاس بھی نہ رہے ۔ حسد کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ جیسے میں اس نعمت سے محروم ہوں دوسرا شخص بھی محروم ہو جائے ۔اس گندے جذبے اور بری تمنا کا نام حسد ہے اور یہ انسان میں نہیں ہونا چاہیے۔
غِبطہ اور رشک :
کسی کے پاس کوئی دینی یا دنیاوی نعمت دیکھ کر نہ تو اس کے زوال کی تمنا کی جائے اور نہ ہی اس نعمت کو اس کے حق میں برا سمجھا جائے ہاں صرف یہ خواہش کرے کہ جس طرح فلاں بندے کے پاس دینی یا دنیاوی نعمت ہے وہ اس کےپاس بھی باقی رہے اور وہ نعمت اللہ مجھے بھی نصیب فرما ئے ۔ اس مبارک جذبے اور نیک تمنا کا نام رشک ہے اور یہ انسان میں ہونا بھی چاہیے ۔
حسد کی جائز صورت:
عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ : رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ.
صحیح مسلم ، باب لا حسد الا فی اثنین، الرقم: 1846
ترجمہ: حضرت سالم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قابل رشک دو طرح کےلوگ ہیں پہلا وہ جس کو اللہ نے مال و دولت عطا کیا ہو اور وہ اس کو دن رات اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو۔ دوسرا وہ جس کو اللہ نے قرآن کریم کی دولت سے مالامال فرمایا ہو اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو۔
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ عبادات میں معاملے ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش اور تمنا کرنا جائز ہے ۔ درحقیقت یہ حسد نہیں بلکہ رشک ہے مجازا اس پر حسد کا لفظ بول دیا جاتا ہے ،جس کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں۔
پہلا آسمانی گناہ :
سب سے پہلے اللہ کے حکم کا انکار کرنے والے ابلیس کا جرم یہی حسد تھا۔ ابلیس پہلے جِنات کے ساتھ زمین میں رہا کرتا تھا ، باقی جنات سرکش تھے جبکہ ابلیس اللہ کی خوب عبادت کرتا تھا ۔ جب اللہ رب العزت نے جنات کو ان کی سرکشی کی سزا دینا چاہی تو ملائکہ نے اللہ رب العزت سے ابلیس کی سفارش کی اللہ رب العزت نے ملائکہ کی سفارش کو قبول فرمایا اور اس کو ملائکہ کے ساتھ رہنے کی اجازت مرحمت کی ۔ کچھ عرصہ تک ابلیس ملائکہ کے ساتھ رہا لیکن جب حضرت آدم کو تخلیق کیا گیا اور خلافت الہیہ کے اعزاز سے نوازا گیا اور حضرت آدم علیہ السلام کی طرف منہ کر کے )درحقیقت اللہ کو (سجدہ کرنے کا حکم آیا تو ملائکہ سب کے سب سجدے میں گرگئے اور ابلیس اکڑ گیا ، انکار کیا اور اللہ کی تقسیم سے ناخوش ہو کر خود کو حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر کہنے لگا۔
اور اللہ رب العزت کے سامنے اپنے بہتر ہونے کی جو دلیل پیش کی اس کا منشاء بھی حسد کے سوا کچھ نہیں تھا ۔وہ اس طرح کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے جبکہ ابلیس کی تخلیق آگ سے اور آگ کا کام اوپر کو جانا ہے نیچے کی طرف آنا نہیں ہے اس وجہ سے مسجود بننے کی فضیلت بجائے آدم کے مجھے حاصل ہونی چاہیے )العیاذ باللہ( اللہ کی تقسیم کو غلط سمجھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو ملنے والی اس نعمت سے ابلیس نے حسد کیا جس کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ۔ حسد نے ابلیس کو ملائکہ کی رفاقت سے محروم کیا ، جنت سے محروم کیا ، عبادت سے محروم کیا ، اجروثواب سے محروم کیا اور اسی حسد نے ابلیس کو جہنم کا ایندھن بنایا اور مردود و مقہور بنایا ۔
پہلا زمینی گناہ :
حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا کسی بات پر جھگڑا ہوا ، معاملے کو نمٹانے کے لیے حکم الہٰی ہوا کہ دونوں اللہ کے نام پر اپنا اپنا مال قربان کریں جس کی صورت یہ تھی کہ ہر شخص اپنا مال پہاڑ پر رکھ دے اوپر سے آگ آئے گی جو سچا ہوگا اس کامال جلا ڈالے گی ۔
ہابیل اور قابیل نے اپنا اپنا مال پہاڑی پر رکھا چونکہ اس معاملے میں ہابیل حق پر تھا اس لیے آگ آئی اور پہاڑ پر رکھے ہوئے ہابیل کے مال کو جلا کر بھسم کر دیا یہ اس بات کی علامت تھی کہ اللہ نے ہابیل کی قربانی کو قبول فرما لیا ہے ۔ جب قابیل نے یہ دیکھا کہ اس کے مال کو آگ نہیں نہیں جلایا تو وہ خود حسد کی آگ میں جل گیا ۔ بجائے اس کے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر راضی ہوتا اور اپنے برے عمل سے توبہ کرتا وہ ہابیل کو قتل کرنے پر آمادہ ہوگیا ۔ ہابیل نے لاکھ سمجھایا کہ مجھ سے حسد کرنے کا کوئی تُک نہیں بنتابلکہ اللہ تعالیٰ کا قانون عدل یہی ہے کہ وہ حق والے کی قربانی کو قبول کرتا ہے ۔ لیکن قابیل نے ایک نہ سنی اور کہا کہ میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔ ہابیل نے کہا اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے دست درازی کرے گا تو میں تجھ پر ہاتھ تک نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ بالآخر قابیل اپنے بھائی ہابیل کے قتل سے ہاتھوں کو رنگین کر بیٹھا ۔ روئے زمین پر یہ پہلا ناحق قتل تھا جو حسد کی وجہ سے ہوا ۔
قبول حق سے انکار کی وجہ:
یہودیوں کے دین اسلام قبول نہ کرنے کی بنیادی وجہ حسد ہے۔
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ۔
سورۃ النساء ،رقم الآیۃ: 54
ترجمہ: وہ لوگوں سے اس وجہ سے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا فضل (کیوں) عطا فرمایا ہے؟
باہمی حسد نہ کرو:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ… وَلَا تَحَاسَدُوا۔
صحیح البخاری، باب ماینھی عن التحاسد والتدابر، الرقم: 6064
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو۔
حسد نیکیوں کوختم کر دیتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ أَوْ قَالَ الْعُشْبَ۔
سنن ابی داؤد ، باب فی الحسد ، الرقم: 4257
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اپنے آپ کو حسد سے خوب اچھی طرح بچاؤ کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے ختم کردیتا ہے جیسے خشک لکڑیوں کو آگ ختم کر دیتی ہے ۔
فائدہ: پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ حسد کرنے والا اللہ کی تقسیم سے ناخوش ہوتا ہے جس کی وجہ سے اللہ بھی اس سے ناراض ہوتے ہیں اس وجہ سے اس کو نیکی کی توفیق بہت کم ملتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر نیکی کی توفیق مل بھی جائے تو وہ نیکیاں اس کے نامہ اعمال سے دھیرے دھیرے ختم ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے )خشک ( لکڑی کو آگ لگتی ہے تو وہ اس کو بالکل ہی راکھ بنا ڈالتی ہے اور لکڑی کا وجود ہی ختم کر دیتی ہے اسی طرح حسد کی آگ نیکیوں کو اسی طرح ختم کردیتی ہے ۔ اعاذنا اللہ منہ
ایمان اور حسد باہم متضاد :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ …لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ الْإِيمَانُ وَالْحَسَدُ۔
سنن النسائی، باب فضل من عمل فی سبیل اللہ علی قدمہ، الرقم: 3109
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی شخص کے دل میں ایمان)کامل(اور حسد دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ۔
فائدہ: اس حدیث مبارک میں ایمان کے اثرات اور ایمان کے کمال کے بارے میں ذکر ہے کہ حاسد کے دل میں ایسا کامل ایمان نہیں جس کے اثرات اس پر ظاہر ہوں یعنی ایمانی کمزوری ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حاسد حسد کرنے کی وجہ سے مومن ہی نہ رہے بلکہ کافر بن جائے یہ قطعا ً مراد نہیں ہے ۔
دین کو مونڈنے والی چیز:
أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ هِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ۔
جامع الترمذی، باب منہ، الرقم: 2434
ترجمہ: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی امتوں والی )روحانی (بیماریاں تم تک پہنچ جائیں گی یعنی حسد و بُغض اور یہ مونڈ دینے والی بیماری ہے میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بیماری بال مونڈدینے والی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ حسد دین کو مونڈنے والی بیماری ہے ۔
فائدہ: حسد کو مونڈنے والی چیز )استرے(سے تشبیہ دی ہے اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جیسے استرا ہر طرح کے بالوں کو مونڈ دیتا ہے خواہ بال چھوٹے ہوں یا بڑے ، سیاہ ہوں یا سفید ۔ اسی طرح حسد بھی نیکیوں کو مونڈ دیتا ہے خواہ نیکی چھوٹی ہو یا بڑی خواہ وہ اخلاص کے ساتھ کی گئی ہو یا بغیر اخلاص کے ۔
لوگ سلامت رہیں گے جب تک…:
عَنْ ضَمُرَۃَ بْنِ ثَعْلَبَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَایَزالُ النَّاسُ بِخَیرٍ مَا لَم یَتَحَاسَدُوا۔
المعجم الکبیر للطبرانی ، الرقم: 8157
ترجمہ: حضرت ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک سلامت رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے پر حسد نہ کریں گے ۔
فائدہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دلوں کے طبیب ہیں آپ نے ہمارے دلوں کی سلامتی کے بارے میں فرمایا ہے جب تک دل حسد سے پاک رہیں گے سلامتی رہے گی اور جب حسد آجائے گا تو دلوں کی سلامتی ختم ہو جائے گی اور شر ہی شر پھیل جائے گا ۔
قصہ ایک جنتی کا :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَطَلَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ تَنْطِفُ لِحْيَتُهُ مِنْ وُضُوئِهِ قَدْ تَعَلَّقَ نَعْلَيْهِ فِي يَدِهِ الشِّمَالِ فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِثْلَ الْمَرَّةِ الْأُولَى فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ أَيْضًا فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ عَلَى مِثْلِ حَالِهِ الْأُولَى فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبِعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ إِنِّي لَاحَيْتُ أَبِي فَأَقْسَمْتُ أَنْ لَا أَدْخُلَ عَلَيْهِ ثَلَاثًا فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُؤْوِيَنِي إِلَيْكَ حَتَّى تَمْضِيَ فَعَلْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَنَسٌ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَاتَ مَعَهُ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلَاثَ فَلَمْ يَرَهُ يَقُومُ مِنْ اللَّيْلِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ إِذَا تَعَارَّ وَتَقَلَّبَ عَلَى فِرَاشِهِ ذَكَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَبَّرَ حَتَّى يَقُومَ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ غَيْرَ أَنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ يَقُولُ إِلَّا خَيْرًا فَلَمَّا مَضَتْ الثَّلَاثُ لَيَالٍ وَكِدْتُ أَنْ أَحْتَقِرَ عَمَلَهُ قُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ يَكُنْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي غَضَبٌ وَلَا هَجْرٌ ثَمَّ وَلَكِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَطَلَعْتَ أَنْتَ الثَّلَاثَ مِرَارٍ فَأَرَدْتُ أَنْ آوِيَ إِلَيْكَ لِأَنْظُرَ مَا عَمَلُكَ فَأَقْتَدِيَ بِهِ فَلَمْ أَرَكَ تَعْمَلُ كَثِيرَ عَمَلٍ فَمَا الَّذِي بَلَغَ بِكَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ قَالَ فَلَمَّا وَلَّيْتُ دَعَانِي فَقَالَ مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ غَيْرَ أَنِّي لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ غِشًّا وَلَا أَحْسُدُ أَحَدًا عَلَى خَيْرٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ هَذِهِ الَّتِي بَلَغَتْ بِكَ وَهِيَ الَّتِي لَا نُطِيقُ۔
مسند احمد ، الرقم: 12697
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابھی آپ کے سامنے ایک جنتی شخص آئے گا چنانچہ ایک انصاری صحابی مجلس میں آئےوضو کرنے کی وجہ سے ان کی داڑھی سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے اور انہوں نے بائیں ہاتھ میں اپنا جوتا تھاما ہوا تھا ۔ دوسرے دن بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ کل والی بات دہرائی اور وہی انصاری صحابی گزشتہ کل والی حالت میں تشریف لائے ۔ تیسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات ذکر فرمائی اور وہی انصاری صحابی اسی کیفیت میں مجلس میں تشریف لائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مجلس سے تشریف لے گئے تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس انصاری صحابی کے پیچھے ہو لیے )تاکہ ان کے اس عمل کے بارے معلوم کر سکیں جس عمل کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنتی ہونے کی بشارت دی تھی(اور ان سے کہا کہ میرے کچھ گھریلو حالات ایسے ہیں جن کی وجہ سے میں اپنے گھر کے بجائے تین دن تک آپ کے پاس رہنا چاہتا ہوں اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنے ہاں مجھے رہنے کی اجازت دے دیں ۔ انہوں نے اس کی اجازت دے دی ۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے تین راتیں ان کے ہاں گزاریں، اور ان کے معمولات کو دیکھتے رہے کہ وہ قیام اللیل کی باقاعدگی نہیں کرتے تھے ہاں جب رات کو جب کبھی بھی آنکھ کھلتی اور کروٹ بدلتے تو اللہ کا ذکر اور تسبیح بیان کرتے اور فجر تک یہی کیفیت رہتی ۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے بقول میں نے ان کی زبان سے کلمہ خیر کے سوا کچھ نہیں نکلا ۔ جب بھی بات فرمائی تو اچھی بات فرمائی۔
جب اسی کیفیت میں تین راتیں گزریں تو میرے دل میں ان کے ان اعمال کے قلیل ہونےکا خیال پیدا ہونے لگا تو میں نے ان سے کہا: میرا گھریلو کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس کی وجہ سے میں اپنے گھر نہ رہ سکتا ۔ اصل بات یہ تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلسل تین دن تک یہ بات سنتا رہا کہ ایک جنتی شخص آنے والا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ارشاد فرمانے کے بعد آپ تشریف لاتے تھے۔ اس لیے میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں کچھ دن آپ کے ساتھ رہوں اور آپ کے معمولات کا قریب سے مشاہدہ کروں اور اس کے بعد خود بھی انہی معمولات کو اپناؤں ۔
مگر تعجب ہے کہ میں نے آپ کو کوئی بہت بڑا عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے جنتی ہونے کی بشارت دی۔اس پر وہ انصاری صحابی فرمانے لگے : میرے معمولات تو بس اتنے ہی ہیں جو تم نے دیکھ لیے۔
ان کی یہ بات سن کر جب عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ واپس ہونے لگے تو اس انصاری صحابی نے انہیں بلایا اور فرمایا: ہاں ایک بات ایسی ہے جسے تم آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ یہ ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کینہ نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ نے جس کو جو نعمت عطافرمائی ہے میں اس پر کبھی حسد نہیں کرتا ۔ یہ بات سن کر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ یہی آپ کی امتیازی خوبی ہے جس کی وجہ سے آپ کو یہ بلند ترین مقام نصیب ہوا ہے ۔
حسد کے نقصانات:

حسد کرنے والا جلن اور کڑھن کا شکار رہتا ہے۔

مسلسل غم اور پریشانی کی کیفیت میں رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے ناخوش رہتا ہے۔

ایسی مصیبت میں گرفتار رہتا ہے جس پر اجر نہیں ملتا ۔

اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔

احساس کمتری کا بھی شکار رہتا ہے ۔
حسد سے بچنے کا نسخہ:
حسد جیسے روحانی اور نفسیاتی مرض سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جائیں تو ان شاء اللہ حسد سے دل پاک ہو جائے گا ۔

تنہائی میں اس کے لیے دعائیں کرے ۔

اس کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ کرے ۔

اپنے جس مسلمان بھائی سے حسد ہو رہا ہو اس کو سلام میں پہل کرے۔

اس کی عدم موجودگی میں اس کے بارے خیر کے کلمات کہے اور لوگوں میں اس کی خوبیوں کا تذکرہ کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حسد اور دیگر برائیوں سے محفوظ فرمائے اور نیک عادات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ ، سرگودھا
جمعرات ،11 اپریل، 2019ء