صدیقہ کائنات ……عفیفہ کائنات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صدیقہ کائنات ……عفیفہ کائنات
اللہ تعالیٰ کی کروڑہا رحمتیں نازل ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل ، اصحاب ، ازواج اور بنات پر جنہوں نے ہم تک دین پہنچایا۔ امہات المومنین میں سے میری امی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے شعبان المعظم میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ آپ کے سامنے ذکر کیا جا رہا ہے لیکن اس کے پہلے بطور تمہید ایک اور واقعہ پیش کیا جاتا ہے ۔
غزوہ مُرَیْسِیع:
شعبان المعظم 5ہجری کو ایک اہم واقعہ پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنومصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار اپنے قبیلے اور کچھ دیگر قبائل کے لوگوں کے ہمراہ اہل اسلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے بنو مصطلق کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی اور واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات سے باخبر کیاکہ واقعی بنو مصطلق اور دیگر قبائل کے لوگ حارث بن ابی ضرار کی قیادت میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے والے ہیں ۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کوجنگ کی تیاری کا حکم دیا اورمورخہ 2شعبان 5 ہجری کو بنی مصطلق کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں امہات المومنین میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ اُمِ سلمہ رضی اﷲ عنہا بھی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔ روانہ ہوتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے انتظامی معاملات حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ یا پھر نمیلہ بن عبداللہ لیثی رضی اللہ عنہ کو سونپے ۔اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت ساتھ تھی جو اس سے پہلے کسی غزوے میں شریک نہیں ہوئی تھی ۔
دوسری طرف حارث بن ابی ضرار نے بھی اسلامی لشکرکی نقل و حرکت، سپاہیوں کی تعداد اور اسلحہ کی مقدار معلوم کرنے کے لیے ایک جاسوس بھیجا، یہ جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا اور مسلمانوں نے اسے قتل کردیا۔
حارث بن ابی ضرار اور اس کے قبیلے کے لوگوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ لشکر اسلام اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بنو مصطلق کی طرف آ رہا ہے مزید یہ کہ انہیں اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوئے۔ بنو مصطلق کے علاوہ جو دیگر قبائل کے لوگ ان کے ساتھ تھے وہ سب خوف کے مارے واپس ہوگئے۔ ادھر لشکر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مقام قدید کے قریب چشمۂ مریسیع تک پہنچ گئے ۔
نوٹ: مُرَیْسِیْع۔ م کو پیش جبکہ راء کو زبر ساتھ پڑھنا ہے ۔
حارث بن ابی ضرار نے یہ صورت حال دیکھی تو آمادہ ٔ جنگ ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صف بندی فرمائی۔ اسلامی لشکر کاجھنڈا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیا اور خاص انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں۔
یہ جنگ کچھ دیر تک جاری رہی، دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یکبارگی حملہ کیا اور بنو مصطلق کے قدم اکھڑ گئے، مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مشرکین نے شکست کھائی۔ بنو مصطلق کے گیارہ آدمی مارے گئے جن میں سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر مسافع بن صفوان بھی شامل تھے اور چھ سو کےقریب گرفتار ہوئے۔ ان قیدیوں میں بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برہ ) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا( بھی تھیں۔
مسلمانوں میں سے صرف ایک صحابی حضرت ہشام بن صباحہ رضی اللہ عنہ شہادت پر فائز ہوئے تھے،یہ بھی ایک شبہ کی وجہ سے شہید ہوئے ،ایک انصار ی صحابی کو ان کی پہچان نہ ہو سکی اور انہوں نے آپ کو دشمن کا آدمی سمجھ کرقتل کر دیا تھا۔ حارث بن ابی ضرار اور دیگر چند لوگوں نے راہ فرار اختیار کی اور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔
”افک“ کا دلخراش تفصیلی واقعہ :
یہ بات ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ اس سفر میں امہات المومنین میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ اُمِ سلمہ رضی اﷲ عنہا بھی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔ دشمنان اسلام منافقین نے آپ کی عفت وپاکدامنی پر انگلیاں بھی اٹھائیں۔ جسے عُرفِ عام میں” واقعہ اِفک“ کہا جاتا ہے یہ بہت دلخراش سانحہ تھا کئی دنوں کے صبر واستقلال کے بعد بالآخر اللہ رب العزت نے آپ کی پاکدامنی پر قرآنی مہر ثبت کردی، قرآن کریم کی سورۃ نور میں تفصیل کےساتھ مذکور ہے۔
نوٹ: اِفک ”جھوٹ، تہمت اور بدعنوانی کے جھوٹے الزام“ کو کہتے ہیں۔ جبکہ بعض اہل لغت کے ہاں افک محض جھوٹ کو نہیں بلکہ ایسے بڑے جھوٹ کو کہتے ہیں جو اصل معاملے کی ساری صورتحال کو یکسر بدل دے۔ یہ لفظ ”فِکر“ کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ یعنی الف کے نیچے زیر کے ساتھ۔
مدینہ منورہ سے پہلے ذی قرع ایک بستی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ لشکر کی روانگی سے کچھ پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ جب واپس تشریف لا رہی تھیں تو اِتفاقاًآپ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ اپنے گلے پر پڑا، ایک دم ٹھٹک کر رہ گئیں کیونکہ اپنی ہمشیرہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے جو ہار عاریتاً لائی تھیں وہ گلے میں موجود نہیں تھا بلکہ کہیں گر چکا تھا ۔چنانچہ آپ واپس پلٹیں اور ہار تلاش کرنا شروع کیا ۔
دوسری طرف لشکر مدینہ منورہ کی طرف جانے کے لیے بالکل تیار تھا،آپ رضی اللہ عنہا نے یہ خیال کیا کہ ہار ابھی مل جائے گا اور میں واپس آجاؤں گی۔ لیکن ہار تلاش کرنے میں کافی دیر ہوگئی۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جاتے وقت کسی کو اطلاع نہیں دی کہ میں قضائے حاجت کے لیے جا رہی ہوں، ساربانوں )جو کجاوے کو اٹھا کر اونٹ پر باندھتے ہیں (نے خیال کیا کہ آپ کجاوے میں سوار ہیں۔
نوٹ: یہ کجاوہ ڈولی نما ہوا کرتا تھا جس میں مستورات سفر کرتی تھیں۔ چونکہ پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے اس لیے ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین سفر میں باپردہ ہی رہتی تھیں۔
اس کجاوے کے پردے نیچے لٹکے ہوئے تھے، ساربانوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ آپ رضی اللہ عنہا کجاوے کے اندر موجود ہیں۔ کجاوہ اونٹ پر کسا اورلشکر کے ساتھ چل دیے۔ اُس زمانہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بمشکل 14/15 سال تھی اور آپ رضی اللہ عنہا کا جسم بھی دبلا پتلا تھا ۔اِسی لیےکجاوہ کَسنے والے ساربانوں کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپ سوار ہیں یانہیں۔؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں: میں کافی دیر ہار تلاش کرتی رہی، بالآخر ہار مجھے مل گیا لیکن ایک پریشانی بھی ساتھ لاحق ہو گئی کہ قافلہ مجھے سے دور جا چکا تھا۔ غالباًساربانوں نے میرا کجاوہ اٹھایا اور اونٹ پر باندھ دیا یہ سمجھ کر کہ میں بھی اس میں سوار ہوں حالانکہ میں ہار تلاش کرنے گئی تھی ۔
اب اس میدان میں سوائے سیدہ عائشہ کے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے قافلے کے پیچھے جانے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ قافلہ والے جب مجھے اپنے اندر نہ پائیں گے تو لازماً تلاش کرنے کے لیے یہیں لوٹیں گے اس لیے آپ رضی اللہ عنہا چادر لپیٹ کر سو گئیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہا کو نیند آ گئی۔
جب لشکر کسی معرکے کےلیے نکلتے تو قافلے کے تین حصے ہوتے تھے۔ قافلے سےآگے کچھ فاصلے پر چندافراد ہوتے پھر قافلہ ہوتا اور آخر میں چند افراد یا کسی ایک کی ذمہ داری ہوتی کہ قافلے والوں کی کوئی چیز راستے میں گر گئی ہو تو وہ اسے اٹھالے۔
چونکہ قافلہ جا چکا تھا، قافلہ کے آخر ی حصہ کے ذمہ دار حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ تھے، وہ وہاں پہنچے اوردیکھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آرام فرما رہی ہیں ۔حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کو پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل چونکہ دیکھا ہوا تھا، اس لیے آپ رضی اللہ عنہا کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور
اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ
پڑھا۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کانوں میں جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کی آواز پڑی تو آپ فوراً جاگ گئیں اور جھٹ سے پردہ کر لیا ۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم! صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور اُن کی زبان سے سوائے
اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ
کے میں نے کوئی کلمہ نہیں سنا۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: صفوان نے اپنا اونٹ میرےقریب کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے، میں اُس پر سوار ہوئی اور صفوان اُس اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم دوپہر کو لشکرکے ساتھ آ کر ملے اور تمہت لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، اُنہوں نے کہا اور مجھ کو اِس کی کوئی خبر نہ تھی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مدینہ پہنچ کر میں بیمار ہوگئی۔ تقریباً ایک مہینہ بیماری میں گزرا، بہتان لگانے والے اپنے کام میں لگے رہے مگرمجھے ان باتوں کا کچھ علم نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس مہربانی میں کمی آ جانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں میرے ساتھ رہی، میں بہت پریشان تھی کہ آخر کیا بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کرکے واپس ہوجاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے،آپ کے اس انداز سے میری تکلیف میں اضافہ ہوتا تھا۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایسے حالات نے مجھے دل گرفتہ کر دیا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر آپ مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں ،میں وہاں چلی جاؤں تاکہ وہ میری تیمارداری اچھی طرح سے کرسکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں اِن باتوں سے قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہوچکی تھی۔ ہم عرب لوگ تھے، ہمارے گھروں میں اہل عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ اُم مسطح بنت ابی رہم بن مطلب تھیں، چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں اُلجھ کر ٹھوکر لگی اور گر گئیں تو اُن کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو (مسطح اُن کا بیٹا تھا، لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔
یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے ایک بدری مہاجر کو بددعاء دے کر برا کیا۔ تو اُم مسطح نے کہا: اے دختر ابی بکر! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں؟ میں نے پوچھا کون سی؟ تو اُم مسطح نے مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہوچکی ہے؟
اُم مسطح نے کہا: ہاں واللہ! یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہوگئے اور میں بغیر رفع حاجت کے واپس چلی آئی، واللہ! میں رات بھر روتی رہی، میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں اور شدت آگئی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں؟۔ ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ کر، دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تہمتیں تراشتے ہیں۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا ابو جان کو بھی اس بات کا علم ہے؟تو والدہ نے جواب دیا کہ : ہاں۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: اے میری ماں! اللہ تمہاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اِس کا چرچا ہے اورآپ نے مجھ سے اِس کا ذکر تک نہیں کیا، یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میری چیخیں نکل گئیں۔ میرے والدجو بالاخانہ پر تلاوتِ قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن کر نیچے آ گئے اور میری ماں سے میرے بارے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اِسے ساری بات کا علم ہو گیا ہے۔ یہ سن کر میرے والد بھی رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا، میری والدہ نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دیے اور یونہی تمام رات روتے ہوئےگزر گئی۔ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اِسی طرح صبح ہوگئی۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زبان سے شدت غم سے صرف یہ جملہ نکلا: اللہ کی قسم! ایسی بات تو ہمارے بارے میں زمانہ جاہلیت میں بھی کسی نے نہیں کہیں، اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اِس کے بعد کیسے ممکن ہے؟ جب اِس معاملہ میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ آپ کے اہل خانہ ہیں، ہم ان میں سوائے خیر و بھلائی کے کچھ نہیں جانتے ۔
اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل پریشانی اور رنج و غم کو دور کرنے کے لیے عرض کی : یا رسول اللہ! اللہ تعالی نےخواتین کے معاملے میں آپ پر تنگی نہیں رکھی۔ )آپ مزید پریشان نہ ہوں، اور اپنے آپ کو اس فکر میں گھولتے نہ رہیں ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پریشانیاں دیکھی نہیں جاتی(میری رائے یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور بھی خواتین ہیں۔ لیکن آپ اس معاملے میں جلدی نہ فرمائیں بلکہ گھر کی باندی بریرہ سے اس بارے حقیقت حال معلوم کر لیں۔
نوٹ : بعض کم فہم لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے یہ سمجھتے ہیں کہ العیاذ باللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں ام المومنین کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی یا اچھی حیثیت نہیں تھی۔ حالانکہ ہرگز ہرگز ایسا معاملہ نہیں تھا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُم المومنین کی پاکدامنی و عفت میں ذرہ برابر بھی تردد نہیں، باقی رہے ان کے یہ کلمات تو ان کو بغض عائشہ سے پاک دماغ ہی سمجھ سکتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کامل یقین کامل تھا بریرہ ضرور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں گواہی دے گی اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو اطمینان ہو جائے گا کہ کیونکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا خانگی معاملات کو قریب سے مشاہدہ کر رہی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : بریرہ! اگر تو نے ذرہ برابر بھی کوئی شے ایسی دیکھی ہو جس میں تجھ کو شبہ اور تردد ہو تو بتلا۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: قسم ہے اُس ذات پاک کی، جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر مبعوث فرمایا، میں نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی کوئی بات معیوب اور قابل گرفت کبھی نہیں دیکھی، سوائے اِس کے کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہیں، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہیں، اور بکری کا بچہ آکر اُسے کھا جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا یہ جواب سنا فوراً مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور منبر پر کھڑے ہو کر مختصر خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ اے مسلمانو!تم میں سے اس شخص کے خلاف کون میرا ساتھ دینے کو تیار ہے کہ جس نے میرے اہل بیت کو ایذاء پہنچائی۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہل خانہ سے سوائے نیکی اور پاکدامنی کے کچھ نہیں دیکھااور بالکل اسی طرح جس شخص کا اُن لوگوں نے نام لیا ہے اُن میں بھی سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا۔
حدیث کے مضمون سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس سے مراد حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ ہیں۔
چنانچہ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ نے پورے قبیلے کی طرف سے ترجمانی کرتے ہوئے گفتگو فرمائی اس کے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی۔ اختلاف مزاج کے بشری تقاضوں کے تحت بد مزگی سی محسوس ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور دونوں کو خاموش رہنے کا حکم فرمایا ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں :میرا یہ سارا دن بھی روتے ہوئے گزرا، ایک لمحہ بھر کے لیے بھی آنسو نہیں تھمے۔ رات بھی اِسی طرح گزری، میری اِس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اِس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور میں روئے جا رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی۔
اِسی دوران اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے میرےقریب بیٹھ گئے۔جب سے جھوٹامنفی پروپیگنڈا عام ہوا کبھی آپ میرے پاس آکر نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے اِنتظار میں ایک مہینہ گزر چکا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان فرمائی۔ اِس کے بعد یہ فرمایا:اے عائشہ! مجھے تیرے بارے میں ایسی ایسی بات پہنچی ہے، اگر تو اس بَری ہے تو دیکھنا عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور بَری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اِس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات ختم فرمائی تو اُسی وقت میرے آنسو تھم گئے۔ یہاں تک کہ آنسو کا کوئی ایک قطرہ بھی میری آنکھ میں نہ رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا:
ابو !آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں، اُنہوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دوں؟
پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد میں نے خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا:اللہ کو بخوبی علم ہے کہ میں اس سارے معاملے میں بری اور بے قصور ہوں لیکن )منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے ( لوگوں کے دلوں پر اس کے اثرات گہرے پڑ چکے ہیں ۔
اگر میں یوں کہوں کہ میں اس سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین کروگے اور میں نےروتے ہوئےیہ کہا:
اللہ کی قسم! میں اُس چیز سے کبھی توبہ نہیں کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے غلط منسوب کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جو یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا
فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ
صبر بہتر ہے اور اللہ ہی مددگار ہے اُس بات کی حقیقت ظاہر فرمانے پر جو تم بیان کرتے ہو۔
(اس موقع پر آپ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام نہیں لیا اس کی وجہ خود بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کیا تو نام یاد نہ آیا تو اِس لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کہا)آپ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں: اُس وقت میرے دل کو کامل یقین ہو گیا کہ ضرور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بری ثابت فرمائیں گے، لیکن یہ تو میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے گی، میرا خیال یہ تھاکہ اللہ تعالیٰ میری برأت اپنے رسول کو خواب دکھا دیں گے ۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں پر تشریف فرما تھے کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور ایک چادر اوڑھا دی گئی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: باوجود شدید سردی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا، لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان ہی نہ نکل جائے۔
وحی الہٰی کا نزول ختم ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی مبارک سے پسینہ صاف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پرخوشی کے آثار نمودار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا :
يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللّهُ فَقَدْ بَرَّأَکِ۔
اے عائشہ!اللہ نے تمہاری پاکدامنی بیان فرما دی ہے۔چنانچہ سورۃ نور کی 11 سے لے کر 20 تک دس آیات مبارکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازل ہوئیں۔
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میری والدہ نے مجھے کہاکہ عائشہ اٹھو !اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! سوائے اللہ تعالیٰ کے جس نے میری برأت نازل فرمائی، کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔
نوٹ : ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوہری حیثیت کی مالکہ ہیں۔ پہلی حیثیت یہ کہ آپ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہیں اور دوسری حیثیت کہ آپ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں بلکہ محبوب ترین بیوی ہیں۔ اب سمجھیے کہ آپ رضی اللہ عنہا والدہ کے کہنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ کیوں نہیں ادا کیا یہ شوہر اور بیوی میں لاڈ و محبت کا وہ درجہ ہے جسے نافرمانی کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ ”نازِ محبوبی“ کہا جاتا ہے ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ النور کی اِن آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور لخت جگر کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی تشریف لائے اور صحابہ کرام کے سامنے مذکورہ آیات تلاوت فرمائیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول اس فتنے کی اصل بنیاد عبداللہ ابن اُبی بن سلول منافق تھا اور اُس کے ساتھ منافقین کا گروہ سرگرم تھا۔ مسلمانوں میں سےمسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اورحمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ان کے مکر و فریب کے جال میں پھنس گئے۔اِن تینوں افراد پر حدِ قذف )جھوٹی تہمت لگانے کی شرعی سزا(جاری کرتے ہوئے 80، 80 کوڑے مارے گئے اور وہ اپنی غلطی سے تائب ہوگئے۔ رضی اللہ عنہم
واقعہ سے حاصل ہونے والے سبق:

دشمنان اسلام شروع دن سے خاندان نبوت بالخصوص ازواج مطہرات کے کردار پر کیچڑ اچھالتے آ رہے ہیں ۔

پروپیگنڈہ خواہ مثبت ہو یا منفی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے ۔ جیسا کہ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے منفی پروپیگنڈے کے برے اثرات مرتب ہوئے۔

منفی پروپیگنڈے کے وقت جذباتی فیصلے کے بجائے صبراور مشاورت سے کام لینا اسوہ پیغمبری ہے ۔ جیسا کہ اس واقعہ میں یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذبات میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں فرمایا جس سے خاندان جدا ہو جائیں۔

یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف غلط باتوں یا غلط کاموں کی نسبت کی جائے وہ حقیقت میں درست ہوں ۔ جیسا کہ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ منافقین نے سیدہ عائشہ صدیقہ اور حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہما پر تہمت لگائی۔

غیب کا کلی اور محیط علم صرف اللہ کے پاس ہے اللہ کے ماسوا کسی کے پاس نہیں اگر کسی کے پاس ہوتا تو وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی اور محبوبہ زوجہ پر ناحق تہمت لگتی ہے اس کے باوجود آپ وحی کا انتظار فرماتے ہیں معلوم ہوا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا کلی اور محیط علم نہیں تھا ورنہ تو پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔

پریشانی کے وقت ہائے ہائے اور دلبرداشتہ ہو کر مایوس ہونا مومن کی شان نہیں بلکہ نماز اور صبر کر کے اللہ کی مدد مانگنی چاہیے جیسا کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جب پریشانی آئی تو آپ نے فورا اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئیں اور صبر کر کے اللہ سے مدد مانگی۔

دعا کامل یقین کے ساتھ مانگی جائے تو اللہ قبول فرماتے ہیں جیسا کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کامل یقین کے ساتھ دعا مانگی۔

ضروری نہیں کہ جونہی دعا مانگیں اسی وقت وہ چیز مل جائے۔ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے اس کی حکمتیں اللہ ہی کے علم میں ہیں ۔ جیسا کہ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جس وقت دعا مانگی اسی وقت آپ کی براءت نازل نہیں ہوئی بلکہ آزمائش کا کچھ وقت گزرا ہے ۔

اگر گھر والوں اور اہل ایمان میں سے کسی پر آزمائش آئے تو اس کے حق میں فکر مند ی اور اس کے حق میں دعا کرنی چاہیے جیسا کہ اس واقعہ میں تمام صحابہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے عمل سے اس کی عکاسی ہوتی ہے ۔

اہل ایمان میں سے شیطان اپنا سب سے بڑا دشمن اسے سمجھتا ہے جو دین کی تفقہ رکھتا ہو یہی وجہ ہے کہ امہات المومنین میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چونکہ فقاہت کی مالک تھیں اس لیے شیطان اور اس کے حواری آپ کے دشمن بن گئے ۔ اسلام کی پوری چودہ صدیاں اس بات پر گواہ ہیں کہ اسلام کی فقاہت رکھنے والوں پر اس طرح کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔

جب اللہ تعالیٰ پریشانی کو دور فرما دیں تب بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے جیسا کہ اس واقعے میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عمل سے اس کا ثبوت دیا ہے ۔

اگر منفی پروپیگنڈہ زیادہ بھی ہونے لگے تب بھی کسی کی باتوں میں آکر ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جیسا اس واقعہ میں چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باتیں کہہ بیٹھے ۔

اسلام کا قانون سب کے لیے برابر ہے اگر کوئی اپنا بھی اس قانون کی زد میں آتا ہےتو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیےجیسا کہ اس واقعے میں چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حد قذف لگائی گئی۔

حد قذف کے صحابہ پر جاری ہونے کے باوجود ان کے قابل احترام ، معیار حق اور جنتی ہونے کے منافی نہیں ۔ اللہ نےتکوینی طور پر کچھ ایسے کام ان سے کرا دیے جن سےمقصد امت کو تعلیم دینا تھا ۔

جس پر ناحق تہمت لگائی جائے اللہ اس کو عزتیں عطا فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت اورعقیدت نصیب فرمائے ۔ اور ان کے ساتھ ہمارا حشر فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
حسن ابدال
جمعرات ،25 اپریل، 2019ء