مخموم القلب صدوق اللسان

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مخموم القلب صدوق اللسان
اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن کو بہتر فرما دیں حقیقی کامیابی کا مدار اسی پر ہے ۔ پورے انسانی جسم میں دو چیزیں بطور خاص ایسی ہیں اگر وہ درست سمت پر چلتی رہیں تو انسان کامیابی کی منزل تک ضرور پہنچ جاتا ہے، ان میں ایک دل اور دوسری زبان ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:كُلُّ مَخْمُوْمِ الْقَلْبِ صَدُوْقِ اللِّسَانِ. قَالُوْا: صَدُوْقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ فَمَا مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ؟ قَالَ: هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ لَا إِثْمَ فِيهِ وَلَا بَغْيَ وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ۔
سنن ابن ماجہ ، باب الورع والتقویٰ ، الرقم: 4216
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا انسان سب سے زیادہ بہتر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخموم دل والا اور سچی زبان والا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!زبان کا سچا ہونا تو سمجھ میں آگیا یہ دل کا مخموم ہونا کیا ہوتا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں خدا خوفی ہو ، پاک صاف ہو ، گناہ )کی باتیں (نہ ہوں ، وہ حد اعتدال سے گزرنے والا نہ ہو ، کینہ نہ ہو اور حسد نہ ہو تو ایسا انسان مخموم القلب کہلاتا ہے ۔
مخموم القلب وہ انسان ہوتا ہے جس میں چھ باتیں پائی جاتی ہوں ۔
التقی:
مخموم القلب شخص کی پہلی علامت کہ اس کے دل میں خدا خوفی اور تقویٰ ہو، وہ جہاں کہیں بھی ہو خواہ گھر میں یا گھر سے باہر ، خلوت میں یا جلوت میں ، مجمع عام میں ہو مجمع خاص میں ہر جگہ ہر وقت اللہ کی عظمت والا خوف اس کے دل میں موجود ہو۔ یہی تقویٰ اس کو نیک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کے لیے سبب بنے گا ۔ عام طور پر انسان لوگوں کے سامنے تو نیک اعمال کرتا اور برے اعمال سے بچتا ہے لیکن جب تنہائی میسر آ جائے تو پھر نیک اعمال کی چھٹی جبکہ برے اعمال میں ملوث ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب فضل و کمال مخموم القلب انسان کی پہلی علامت کے طور پر تقویٰ کو ذکر فرمایا ہے ۔
النقی :
مخموم القلب شخص کی دوسری علامت یہ ہے کہ اس کا دل پاک صاف ہو اس میں گناہ کی باتیں نہ ہوں یعنی کسی کی عداوت، نفرت،بدگمانی، غرور، تکبر، فریب کاری اور جذبہ انتقام نہ ہو۔کسی کے بارے میں منفی خیالات کی غلاظت نہ ہو بلکہ مخلوق خدا سے محبت ، انس ، ہمدردی ، ایثار ، عفو و درگزر پائی جاتی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو مخموم القلب یعنی پاک باطن والا قرار دیا ہے ۔ بعض مرتبہ لوگوں کے سلوک اور گفتگو کی وجہ سے دل میں ان کی نفرت آ جاتی ہے لیکن اس کو فوراً ختم کرنا چاہیے اور اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ ایسے شخص کے بارے دعا کریں ۔
لَا بَغْیَ:
مخموم القلب شخص کی تیسری علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں ظلم نہ ہو یعنی حد اعتدال سے تجاوز نہ کرے اور اس کائنات میں سب سے بڑا ظلم شرک ہے ۔ مزید یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کسی نیک عمل کو لوگوں کے دکھلاوے اور ریا کاری کے طور پر کرنا بھی ظلم ہے ۔ کتنی بڑی بدبختی ہے کہ ساری زندگی انسان نیک اعمال بھی کرے لیکن آخرت میں اس کا کوئی اجر اسے نہ مل سکے۔
عَنْ أَبِيْ سَعِيْدِ بْنِ أَبِيْ فَضَالَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ- وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ - أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ نَادىٰ مُنَادٍ: مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِيْ عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلهِ أَحَدًا فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ۔
مسند احمد ، حدیث ابی سعید بن ابی فضالۃ ، الرقم: 17888
ترجمہ: حضرت ابو سعید بن ابو فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :جب اللہ رب العزت اولین و آخرین یعنی تمام لوگوں کو قیامت کے دن جمع فرمائیں گے تو ایک آواز دینے والا پکارے گا جس شخص نے اللہ کے لیے کیے جانے والے کسی عمل میں اللہ کے ماسوا کسی کو شریک کیا تھا تو وہ آج کے دن اسی سے نیک عمل کا اجر و ثواب لے اس لیے کہ اللہ رب العزت باطل شرکاء کے ساتھ شریک ہونے سے پاک اور بے نیاز ہے ۔
لا غل:
مخموم القلب شخص کی چوتھی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں کسی کے بارے میں برائی اور کینہ نہ ہو ۔ کینہ کہتے ہیں کہ کسی دوسرے کے بارے دل میں دشمنی اور عداوت کے جذبات پالتے رہنا ۔ یہ ایسی بری بیماری ہے جو دل کو سخت کر دیتی ہے کسی کے بارے نرم جذبات اور محبت پیدا نہیں ہونے دیتی ۔
جنتی شخص کا واقعہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ہے ایک مرتبہ مسلسل تین دن تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں یہ فرماتے رہے کہ تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آئے گا جو جنتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے بعد ہر روز ایک انصاری صحابی تشریف لاتے ۔ بالآخر حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو اس شخص کے اس عمل کو دیکھنے کی جستجو پیدا ہوئی کہ جس عمل کی وجہ سے اللہ کے رسول ان کے باربار جنتی ہونے کی بشارت دے رہے ہیں اس انصاری صحابی کے پاس حضرت عبداللہ بن عمرو جا پہنچے اور مسلسل تین راتیں ان کے ہاں قیام کیا تاکہ ان کا وہ عمل اور عبادات کو دیکھ سکیں لیکن ان کے معمولات کوئی ایسے نہ تھے کہ جو باقی لوگ نہ کرتے ہوں یعنی عبادات معمول کے تھے چنانچہ انہوں نے اس صحابی سے اس بارے سوال کر ڈالا اور اپنے وہاں رہنے کی وجہ بھی بتلا ڈالی:
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ۔۔۔۔اِلیٰ اَنْ قَالَ ۔۔۔ فَأَرَدْتُ أَنْ آوِيَ إِلَيْكَ؛ فَأَنْظُرَ مَا عَمَلُكَ؟ فَأَقْتَدِيَ بِكَ، فَلَمْ أَرَكَ تَعْمَلُ كَبِيرَ عَمَلٍ فَمَا الَّذِي بَلَغَ بِكَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ فَانْصَرَفْتُ عَنْهُ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ، دَعَانِي وَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا مَا رَأَيْتَ غَيْرَ أَنِّي لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي غِلًّا لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَحْسِدُهُ عَلَى خَيْرٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ۔
کتاب الزھد لابن المبارک ، باب ما جاء فی الشح ، الرقم: 694
ترجمہ: کہ آپ کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار جنتی ہونے کی بشارت دی تو میں نے آپ کے پاس رہنے کا ارادہ کر لیا تاکہ آپ کا وہ عمل دیکھ سکوں جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے جنتی ہونے کا بارہا اعلان فرمایا ہے لیکن میں نے کوئی ایسا خاص عمل آپ کے ہاں نہیں دیکھا جو باقی لوگوں میں نہ ہوتا ہو۔ذرا بتلائیے وہ کون سا ایسا عمل ہے جس نے آپ کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے؟جس کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو آپ نے دیکھا وہی میرے معمولات ہیں ہاں ایک چیز ہے کہ میں کسی مسلمان کے بارے اپنے دل میں کینہ نہیں رکھتا اور کسی کو ملنے والی نعمت پر حسد نہیں کرتا۔
لا حسد:
مخموم القلب شخص کی پانچویں علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں کسی کے بارے میں حسد نہ ہو ۔حسد کہتے ہیں کہ کسی کے پاس کوئی دینی یا دنیاوی نعمت مثلاً مال و دولت ، حسن و جمال ، شہرت و مقبولیت ، صلاحیت و استعداد یا علم و دیانت وغیرہ دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ کاش وہ نعمت اس کے بجائے مجھے مل جائے یا کم از کم اُس کے پاس بھی نہ رہے ۔ حسد کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ جیسے میں اس نعمت سے محروم ہوں دوسرا شخص بھی محروم ہو جائے ۔اس گندے جذبے اور بری تمنا کا نام حسد ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ أَوْ قَالَ الْعُشْبَ۔
سنن ابی داؤد ، باب فی الحسد ، الرقم: 4257
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اپنے آپ کو حسد سے خوب اچھی طرح بچاؤ کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے ختم کردیتا ہے جیسے خشک لکڑیوں کو آگ ختم کر دیتی ہے ۔
صدوق اللسان:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب فضل و کمال انسان کی علامت یہ ذکر فرمائی ہے کہ وہ زبان کا سچا ہو ۔ اسے اپنی زبان پر مکمل کنڑول حاصل ہو ، زبان سے سرزد ہونے والی تمام برائیوں سے خود کو بچاتا ہوجیسے جھوٹ ، غیبت ، بدکلامی ، گالی ، تہمت ، وعدہ خلافی وغیرہ ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ۔۔۔ ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟ قُلْتُ: بَلٰى يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ:كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا۔فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ۔
جامع الترمذی ، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ ، الرقم: 2616
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث کے آخر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمام نیکیوں کی بنیاد جاننا چاہتے ہو ؟ حضرت معاذ نے عرض کی : جی ضرور ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان کو پکڑ کر فرمایا: اپنی زبان قابو میں رکھو ۔ اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ازراہ تعجب عرض کی : اے اللہ کے نبی! ہماری گفتگو کی وجہ سے ہماری پکڑ ہو گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعجب کو دور کرتے ہوئے فرمایا: ارے معاذ !اللہ آپ کا بھلا کرے زیادہ تر لوگ اپنی بدگوئی کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ ڈالے جائیں گے ۔
اللہ کریم ہمارے دل ، زبان اور ظاہر و باطن کو پاک و صاف فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
مدینہ منورہ ، سعودی عرب
جمعرات ،18 جولائی ، 2019ء