عقدِ مؤاخات

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عقدِ مؤاخات
اللہ تعالیٰ کے محب اور محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قلبی قوت دور دور سے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ رہی تھی انہی میں مدینہ منورہ کے کچھ لوگ بیعت عقبہ کے موقع پر مسلمان ہوئے ، مکہ میں اہل اسلام پر مشرکین کے مظالم دیکھے تو ان کے دل بھر آئے چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو اپنے ہاں مدینہ آنے کی دعوت دی ۔
ہجرت کا حکم:
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ عرصہ بعد ہجرت کا حکم نازل ہوگیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے عازم مدینہ ہوئے۔عشق بلاخیز کےاس قافلہ سخت جاں میں وہ بھی تھے جو نادار و غربت کے مارے ہوئے تھے اور وہ بھی تھے جو مکہ میں صاحبِ ثروت، بڑے کاروبار اور جائیدادوں کے مالک تھے ، مگر اب ان کے مال و متاع ، باغات ، جائیداد اور سامان تجارت پر مشرکین مکہ نے قبضہ جمالیا تھا ، یہ لٹے پٹے لوگ اپنے جسم پر ایک لباس کے علاوہ کسی چیز کے مالک نہ تھے ۔
یثرب کی اندرونی صورتحال:
یثرب اس وقت سرزمین عرب کا وہ خطہ تھا جہاں پانچ بڑے بڑے قبیلے موجود تھےاَوس ، خزرج ، بنو نضیر ، بنو قریظہ ، بنوقینقاع ۔ پہلے دو مشرک جبکہ آخری تین یہودی تھے یہاں کے لوگ کاروبار کم اور کاشت کاری زیادہ کرتے تھے۔ مارکیٹوں پر تقریباً تقریباً یہودیوں کی اجارہ داری اور ساہوکاری تھی جبکہ اوس اور خزرج کی باہمی لڑائی میں کافی عرصہ تک مسلسل مصروف عمل رہے اس میں ان کی کئی نسلیں مر کھپ گئیں اس لیے یہودیوں کی نسبت ان کا اقتصادی اور معاشی ڈھانچہ بے روح ڈھانچے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
مسجد کی تعمیر :
ہجرت کے بعد سب سے پہلے مستقل اور ترجیحی بنیادوں پر مسجد تعمیر کی گئی تاکہ مسلمانوں کو عبادات کی ادائیگی میں مشکلات پیش نہ آئیں، اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مسائل میں سب سے اہم مسئلہ مسلمانوں کےلیے عبادات کی ادائیگی کا تھا۔
مہاجرین کی آباد کاری:
اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ مہاجرین مکہ کی آباد کاری کا تھا اس کی ممکنہ صورتوں میں ایک یہ بھی تھی کہ علیحدہ طور پر مہاجرین کی کالونی تعمیر کی جاتی۔ لیکن پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ فراست اور مردم شناس نگاہ نے اسے یکسر مسترد کر دیا ،اس کی کئی وجوہات ہو سکتی تھیں۔ مثلاً:
باہمی یگانگت:
پہلی وجہ یہ تھی علیحدہ آبادی سے مہاجرین و انصار کے درمیان باہمی یگانگت ، ایثار و اخلاص ، مساوات اور الفت پیدا نہ ہوتی ۔
مساوی سطح :
دوسری وجہ یہ تھی کہ تعلیم و تربیت ، باہمی احتساب اور دکھ سُکھ میں شرکت کے لحاظ سے جو مساوی سطح کی ضرورت تھی علیحدہ آبادی اس میں خلیج بن جاتی۔
قلبی جذبات کا مشاہدہ:
اور سب سے بڑھ کر انصار کا مثالی تعاون اور ان کے قلبی جذبات مشاہدہ بن کر سامنے نہ آسکتے اس لیے مہاجرین کی علیحدہ آباد کاری نہ کی گئی۔
عقدِ موالات:
عرب میں ایک طریقہ” عقدِ موالات“ کا رائج تھا یعنی غیر قبیلہ کا کوئی آدمی کسی اور قبیلہ میں پہنچتا اور معاہدہ کر کے اس قبیلہ میں داخل ہوجاتا اور اس کے بعد اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتا، اس کے بعد وہ شخص صلح اور جنگ میں اسی قبیلے کے ساتھ شریک رہتا مزید یہ کہ اس شخص کے مرنے کے بعد اس کا ترکہ بھی اسی قبیلہ میں تقسیم کیا جاتا ۔
عقد موالات کے معاشرتی نقصانات:
اس عقد موالات میں حق وانصاف کے بجائےخواہ قبیلہ والے غلط ، ناانصافی بلکہ ظلم بھی کر رہے ہوں بہر حال اسی قبیلہ کی طرف داری اور حمایت ضروری ہوتی تھی اسلام نے اسے بدبودار قرار دے کرحرام بتلایا اور یہ تعلیم دی کہ ہرحال میں حق اور انصاف کا ساتھ دو یہاں تک کہ اگروہ تمہارے والدین اور عزیز و اقارب کے خلاف ہی ہو ۔
عقد مؤاخات:
پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد موالات کو ترک فرما کر عقد مواخات قائم کیا اور فطری طور پر ہم مزاجی کا خیال فرماتے ہوئے ایک مہاجر کو ایک انصاری کانام بنام بھائی قرار دیا ۔ فتح الباری اور سیرت ابن ہشام میں اس کی تفصیل اس طرح درج ہے ۔
کون کس کا بھائی بنا؟
مہاجرین مکہ
انصارِ مدینہ
مہاجرین مکہ
انصار ِمدینہ
ابو بکر صدیق
خارجہ بن زید
ابو مرثد
عبادہ بن صامت
عمر فاروق
عتبان بن مالک
عبداللہ بن جحش
عاصم بن ثابت
عثمان غنی
اوس بن ثابت
عتبہ بن غزوان
ابو دجانہ
عبدالرحمٰن بن عوف
سعد بن ربیع
ابو سلمہ بن عبدالاسد
سعد بن خیثمہ
ابو عبیدہ بن جراح
سعد بن معاذ
عثمان بن مظعون
ابو الہیثم بن تیہان
زبیر بن عوام
سلامہ بن سلام
عبیدہ بن حارث
عمیر بن الحمام
طلحہ بن عبیداللہ
کعب بن مالک
طفیل بن الحارث
سفیان نسر خزرجی
سعید بن زید
ابی بن کعب
صفوان بن بیضاء
رافع بن معلیٰ
مصعب بن عمیر
ابو ایوب خالد
مقداد
عبداللہ بن رواحہ
ابو حذیفہ بن عتبہ
عباد بن بشیر
ذوالشمالین
یزید بن الحارث
عمار بن یاسر
حذیفہ بن یمان
ارقم
طلحہ بن زید
سلمان فارسی
ابوالدرداء عویمر
زید بن الخطاب
معن بن عدی
ابو ذر غِفاری
منذر بن عمرو
عمرو بن سراقہ
سعد بن زید
بلال حبشی
ابو رویحہ عبداللہ
عکاشہ بن محصن
مجذر بن وماء
حاطب بن ابی بلتعہ
عویم بن ساعدہ
عامر بن فہیرہ
حارث بن صمہ
عاقل بن بکیر
مبشر بن عبدالمنذر
مہجع مولیٰ عمر
سراقہ بن عمرو
خنیس بن حذاقہ
منذر بن محمد
مسطح بن اثاثہ
زید بن المزین
سرہ بن ابی رہم
عبادہ بن الخشخاشن
انصار کی خواہش:
عقدِمؤاخات کے قیام کے بعد انصارِمدینہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہمارے اور ہمارے مہاجربھائیوں کے درمیان کھجوروں کے باغات تقسیم فرمائیے!انصار مدینہ یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کا حصہ زمین اور باغات ان کے قبضے میں دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار کے ساتھ اس میں جو کچھ تصرف کرنا چاہیں تو کر سکیں۔
فراست نبوی کی ایک جھلک:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ایثار و اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا لیکن اپنی نگاہ بصیرت وفراست کے پیش نظر اسے منظور نہیں فرمایاکیونکہ اس سے مہاجرین کا معاشی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا جائیداد کی تقسیم سے مہاجرین” صاحبِ جائیداد“ تو ضرور بن جاتے لیکن تاجر پیشہ ہونے اور زراعت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر مضبوط نہ ہو سکتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:باغات دینے کے بجائے باغات کی پیداوار کا حصہ مہاجرین کو دیا جائے ۔
انصار کی اطاعت گزاری:
انصار مدینہ نے کہا جو حکم ہو تعمیل کریں گے، چشم فلک نے انقلابات زمانہ تو کئی دیکھے لیکن پیغمبر انقلاب جیسا انقلاب نہیں دیکھا کہ بغیر جبر واکراہ زمیندار خود کاشت کاری کر کے پردیسی و اجنبی لوگوں کو پیداوار کا مقرر حصہ دیتے رہے ۔
انصارِ مدینہ اگرچہ یہی چاہتے تھے کہ زمینیں بھی مہاجرین کو دے دی جائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ فرمایا بلکہ مہاجرین کو عارضی ملکیت دی جب حالات سازگار ہوئے اور مہاجرین خود صاحب جائیداد ہو گئے تو انصار کو زمینیں واپس کر دی گئیں۔
انصار کا جذبہ ایثار:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ أَتَى رَجُلٌ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ أَصَابَنِي الْجَهْدُ فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُنَّ شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا رَجُلٌ يُضَيِّفُهُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ يَرْحَمُهُ اللهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ ضَيْفُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدَّخِرِيهِ شَيْئًا قَالَتْ وَاللهِ مَا عِنْدِي إِلَّا قُوتُ الصِّبْيَةِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْيَةُ الْعَشَاءَ فَنَوِّمِيهِمْ وَتَعَالَيْ فَأَطْفِئِي السِّرَاجَ وَنَطْوِي بُطُونَنَا اللَّيْلَةَ فَفَعَلَتْ ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ عَجِبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةَ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ۔
صحیح البخاری ، باب قولہ ویوثرون علی انفسہم ، الرقم: 4889
ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ !مجھے بھوک نے ستایا ہوا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام گھروں سے معلوم کرایا ،وہاں سے کچھ نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے سے فرمایا کہ کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔ ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ میں مہمانی کروں گا۔ ان کو گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں ان کی مہمان نوازی میں کمی نہ ہونے پائے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لیے کچھ تھوڑا سا رکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔ فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور جب وہ سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تو چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اس کو بجھا دینا۔ چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقہ سے رات گذاری۔ اللہ نے قرآن کریم کی آیت یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ نازل فرمائی ۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ قَالَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَة۔
صحیح مسلم ، باب ما سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیئا، الرقم: 4275
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ جو کہ دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا تھا ، اسے عنایت فرمایا، وہ شخص آپ کی اس دریا دلی فیاضی سخاوت اور ایثار وہمدردی سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا :” اے لوگو ! اسلام لے آؤ کیونکہ )اس دین کی طرف بلانے والا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)اس قدر سخی ہیں اور ( اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے فقیر ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ المَدِينَةَ آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ فَقَالَ لَهُ هَلُمَّ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ وَلِيَ امْرَأَتَانِ فَأُطَلِّقُ إِحْدَاهُمَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ فَدَلُّوهُ عَلَى السُّوقِ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی مواساۃ الاخ، الرقم: 1933
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی بندی قائم فرمائی ۔ ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایک بھائی ہونے کے ناتے اپنا آدھا مال تمہیں پیش کرتا ہوں اس کے علاوہ میری دوبیویاں ہیں۔ تم انہیں دیکھ لو)ابھی پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے( اور جو تمہیں اچھی لگے میں اسے طلاق دے دوں گا اور عدت کے بعد تم اس سے نکاح کرلینا ۔ آپ نے جواب میں کہا کہ خدا تمہارے گھر والوں اور تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے مجھے کوئی بازار بتادو کہ میں وہاں جاکر تجارت کروں چنانچہ انہیں) بنو قینقاع کا( بازار بتا دیا گیا۔
كَانَ الْمُهَاجِرُونَ فِي دُورِ الْأَنْصَارِ فَلَمَّا غَنِمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ دَعَا الْأَنْصَارَ وَشَكَرَهُمْ فِيمَا صَنَعُوا مَعَ الْمُهَاجِرِينَ فِي إِنْزَالِهِمْ إِيَّاهُمْ فِي مَنَازِلِهِمْ وَإِشْرَاكِهِمْ فِي أَمْوَالِهِمْ ثُمَّ قَالَ: إِنْ أَحْبَبْتُمْ قَسَمْتُ مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ عَلَى مَا هُمْ عَلَيْهِ مِنَ السُّكْنَى فِي مَسَاكِنِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَعْطَيْتُهُمْ وَخَرَجُوا مِنْ دُورِكُمْ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَسَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ: بَلْ نَقْسِمُهُ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَيَكُونُونَ فِي دُورِنَا كَمَا كَانُوا وَنَادَتِ الْأَنْصَارُ: رَضِينَا وَسَلَّمْنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَأَبْنَاءَ الْأَنْصَارِ وَأَعْطَى رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا۔
تفسیر القرطبی، تحت آیت ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوا
ترجمہ: )4ہجری میں قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ، وہ کامیاب نہ ہوئے 1 ہجری میں ان سے جو معاہدہ تھا انہوں نے خود اس کی خلاف ورزی کرکے توڑ دیا، اس لیے ان کا علاقہ بغیر جنگ کے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آیا چونکہ یہ بغیر جنگ کے اہل اسلام کے قبضہ میں آیا اس لیے مجاہدین اسلام میں تقسیم نہ ہوا بلکہ اسے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق قرار دیا گیا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام کی مشکلات تھیں ،آپ علیہ السلام نے انصار کو جمع فرما کر ان کی رائے معلوم کرنا چاہی کہ یہ زمین انصار و مہاجرین دونوں میں تقسیم کی جائے یا صرف مہاجرین کو دے دی جائے تاکہ وہ انصار کی زمینیں واپس کریں اور ان کے مکانات خالی کر دیں؟ اوس و خزرج کے دونوں سردار سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی: آپ یہ سب کچھ مہاجرین میں تقسیم فرما دیں ہم اپنے مکانات و باغات اور زمینیں واپس نہیں لیتے بلکہ ہمیں خوشی ہو گی کہ ہماری کچھ اور زمینوں کا حصہ مہاجرین کو عنایت فرمایا جائے یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو یوں دعا دی : اے اللہ !انصار اور ان کی اولادوں پر اپنی خاص رحمت نازل فرما۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمین کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم فرمایا اور انصار میں سے دو ضرورت مند انصاری حضرت ابو دجانہ اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما کو بھی دیا باقی اپنے پاس رکھا اور اس پر کاشت ہوتی تھی جس کی پیدوار سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا نان و نفقہ ادا فرماتے ۔
بحرین فتح ہوا:
کچھ عرصہ بعد بحرین کا علاقہ بھی اسلامی سلطنت کا حصہ بنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بھی انصار کو کچھ دینے کا ارادہ فرمایا لیکن انہوں نے بصد ادب یہ عرض کی کہ ہمیں دینے کے بجائے مہاجرین کو عنایت فرمائیں ۔
یہ تھا وہ بے لوث ایثار جس نے اخلاص کی کوکھ سے جنم لیاتھا باوجودیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ پر واضح فرما دیا تھا کہ سیاسی اقتدار میں انصار کا حصہ نہیں ہوگا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں مواخات کا درس ملتا ہے ۔ اگرچہ اس کے بعض احکام کہ ترکہ میں وراثت وغیرہ تو شرعاً منسوخ ہو گئے لیکن باہمی یگانگت، ایثار واخلاص، ہمدردی و اخوت، الفت و محبت اور مساوات سے معاشرتی و اقتصادی تعلقات کو مربوط و مضبوط کرنے کا حکم اب بھی باقی ہے ۔اللہ ہمیں باہمی محبت اور جذبہ ایثار عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ چشتیہ ، شاہ عالم سلنگور ، ملائیشیا
جمعرات ،5 دسمبر ، 2019ء