نوازشاتِ خداوندی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نوازشاتِ خداوندی
اللہ تعالیٰ کی نوازشات ہم پر ہر آن برس رہی ہیں وہ ایسا کریم ہے کہ نیکی کی نیت پر اجر، کرنے پر دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھا دیتے ہیں جبکہ برائی کی نیت پر نامہ اعمال میں برائی درج نہیں فرماتے بلکہ اگر کوئی برائی کی نیت کرنے کے بعد برائی نہ کرے تو اس پر بھی اسے نیکی عطا فرماتے ہیں اور اگر کوئی قسمت کا مارا اللہ کی نافرمانی کر بھی لے تو اللہ اپنے قانون عدل پر قانون کرم کو غالب فرماتے ہوئے اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک ہی برائی لکھتے ہیں۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اس گناہ پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے معافی مانگ لی جائے تو اس گناہ کے عذاب کو نیکی کے اجر میں تبدیل فرما دیتے ہیں ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ قَالَ إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً۔
صحیح البخاری ، باب من ھم بحسنۃ او سیئۃ، الرقم: 6491
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث قدسی نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کو بھی لکھتے ہیں اور برائیوں کو بھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس نے ابھی تک اس پر عمل بھی نہ کیا ہو تو بھی اللہ تعالیٰ محض اس کے ارادے پر ہی مکمل اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں ۔ اگر اس نے اس ارادے کے مطابق نیک کام کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اجر و ثواب سے نوازتے ہیں اور اس سات سو گنا پر بھی مزید اضافہ کردیتے ہیں۔ )دوسری طرف ( جس شخص نے دل میں برائی کا ارادہ کیا اور خوف خدا کی وجہ سے برائی کی نہیں تو اس برائی نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیتے ہیں اور اگر اس نے برائی کر بھی لی تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک ہی برائی لکھی جائے گی ۔
نیت اور عمل ، بہتر کیا ہے؟
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ وَعَمَلُ الْمُنَافِقِ خَيْرٌ مِنْ نِيَّتِهِ وَكُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى نِيَّتِهِ فَإِذَا عَمِلَ الْمُؤْمِنُ عَمَلًا نَارَ فِي قَلْبِهِ نُوْرٌ۔
المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 5942
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے ۔ ہر شخص اپنی اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے جب مومن) نیک( عمل کرتا ہے تو اس کے دل میں نور )فراست(پیدا ہوجاتا ہے ۔
جنت کا سبب عمل یا نیت؟
یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اس کے اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی نیک نیت کی وجہ سے ملے گی ۔ چنانچہ مذکورہ بالا حدیث نیۃ المومن خیر من عملہ کی تشریح میں امام عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَذَلِكَ أَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُخَلِّدُ الْمُؤْمِنَ فِي جَنَّتِهِ بِنِيَّتِهِ لا بِعَمَلِهِ وَلَوْ جُزِيَ بِعَمَلِهِ لَمْ يَسْتَوْجِبِ التَّخْلِيدَ لِأَنَّهُ عَمَلٌ فِي سِنِينَ مَعْدُودَةٍ، وَالْجَزَاءُ يَقَعُ بِمِثْلِهَا وَأَضْعَافِهَاوَإِنَّمَا يُخَلِّدُهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِنِيَّتِهِ لِأَنَّهُ كَانَ نَاوِيًا أَنْ يُطِيْعَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَبَدًا لَوْ أَبْقَاهُ أَبَدًا۔۔۔ الخ
المجالسۃ وجواہر العلم لابی بکر احمد بن مروان الدینوری ، الرقم: 1357
ترجمہ: حدیث نبوی کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کی جنت میں جو ہمیشگی عطا فرمائیں گے وہ اس کی نیت کی وجہ سے ہوگی اس کے عمل کی وجہ سے نہیں اور اگر اس کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دیا جاتا تو پھر جنت میں کچھ وقت کے لیے تو جا سکتا تھا ہمیشہ وہاں نہیں رہ سکتا تھا اس لیے کہ اس کے عمل کی مدت چند سال ہے تو اس کا بدلہ بھی چند سالوں کی صورت میں ملنا چاہیے یا پھر اس کے دوگنا ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو جنت میں ہمیشگی اس کی نیت کی وجہ سے عطا فرمائیں گے اس لیے کہ مومن نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی اطاعت کی نیت کر رکھی ہوتی ہے اگر اللہ کریم اس کی زندگی کو ہمیشہ باقی رکھتے تو وہ ہمیشہ ہی اللہ کی اطاعت ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعے کرتا رہتا اور یہی معاملہ کافر کی نیت کا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی نافرمانی کی نیت کر چکا ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کی زندگی کو ہمیشہ باقی رکھتے تو وہ ہمیشہ ہی اللہ کی نافرمانی کفر اور اعمال سئیہ کے ذریعے کرتا رہتا ۔ اس لیے اس کو ہمیشہ کا عذاب بصورت جہنم دیا جائے گا ۔
لطف وعنایات کی بارش:
اول الذکر حدیث مبارک میں چار طرح کے اعمال کا ذکر موجود ہے جن میں سے دو کا تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے یعنی نیکی کاارادہ اور برائی کا ارادہ جبکہ باقی دو کا تعلق انسان کے دیگر اعضاء کے ساتھ ہے ۔
نیک نیت :
عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ رَحِمَہُ اللہُ قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا تَحَدَّثَ عَبْدِي بِأَنْ يَعْمَلَ حَسَنَةً فَأَنَا أَكْتُبُهَا لَهُ حَسَنَةً مَا لَمْ يَعْمَلْ۔
صحیح مسلم ، باب اذا ھم العبد.. الخ ، الرقم: 185
ترجمہ: ہمام بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ بیان فرمائے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب میرا کوئی بندہ اپنے دل میں نیک عمل کا پختہ ارادہ )سچی اور پکی نیت( کر لے تو میں اس کے لیے اس کے عمل کرنے سے بھی پہلے نیکی اور اجر لکھ دیتا ہوں ۔
نیت ایک مخفی عمل:
نیت بھی چونکہ خود ایک عمل ہے جس کا تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے انسان کے دل کا محض ارادہ لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوتا ہے اس لیے اس میں ریا ، شہرت اور دکھلاوا نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس مخفی عمل کو اپنے ظاہری عمل کے ذریعے ریا اور دکھلاوے کی بھینٹ چڑھا دے۔
سچی اور پکی نیت کا اجر و ثواب:
امام بدرالدین عینی حنفی رحمہ اللہ حدیث مبارک نقل فرماتے ہیں:
عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّه قَالَ يَقُوْلُ اللهُ تَعَالَى لِلْحَفَظَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اُكْتُبُوْا لِعَبْدِيْ كَذَا وَكَذَا مِنَ الْأجْرِ فَيَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا لَمْ نَحْفَظْ ذَلِك عَنْهُ وَلَا هُوَ فِيْ صُحُفِنَا فَيَقُوْلُ إِنَّه نَوَاه۔
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، تحت حدیث اول
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نامہ اعمال لکھنے والے ملائکہ سے فرمائیں گے کہ میرے بندے کے نامہ اعمال میں اتنا اتنا اجر لکھ دو ۔ وہ عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں تو اس بندے کا ایسا کوئی عمل یاد نہیں جس کی وجہ سے اس کو یہ اجر دیا جا رہا ہو اور نہ ہی ہمارے تحریر شدہ اعمال ناموں میں ایسا عمل درج ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائیں گے کہ اس نے اس نیک عمل کی پختہ نیت کر لی تھی ۔
خیر القرون کے ایک شخص کا واقعہ:
قَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ رَحِمَہُ اللہُ كَانَ رَجُلٌ يَطُوفُ عَلَى الْعُلَمَاءِ يَقُولُ: مَنْ يَدُلُّنِي عَلَى عَمَلٍ لَا أَزَالُ مِنْهُ لِلَّهِ عَامِلًا فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَ عَلَيَّ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِلَّا وَأَنَا عَامِلٌ لِلَّهِ تَعَالَى۔ فَقِيلَ لَهُ: قَدْ وَجَدْتَ حَاجَتَكَ فَاعْمَلِ الْخَيْرَ مَا اسْتَطَعْتَ فَإِذَا فَتَرْتَ أَوْ تَرَكْتَهُ فَهِمَّ بِعَمَلِهِ فَإِنَّ الْهَامَّ بِعَمَلِ الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ.
جامع العلوم و الحکم ، الحدیث السابع و الثلاثون
ترجمہ: زید بن اسلم تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مختلف علماء کرام کی خدمت میں سوال لے کر حاضر ہوا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی وجہ سے میں ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہوں میں چاہتا ہوں کہ دن رات کا کوئی لمحہ اللہ کی عبادت کے بغیر نہ گزرے ۔ علماء کرام نے جواب دیا کہ تم دو کام کر لو ہر وقت اللہ کی عبادت کرنے والے بن جاؤ گے جب تک ممکن ہو اعمال صالحہ کرتے رہو اور جب اس کو چھوڑنا پڑ جائے تو چھوڑتے وقت اس نیک عمل کی پکی اور سچی نیت کر لو کیونکہ اللہ کی بارگاہ کرم میں نیک کام کا پختہ ارادہ کرنے والا بھی ایسا ہوتا ہے جیسا کہ خود نیک کام کرنے والا ۔
نیک اعمال:
شریعت جب کسی کو احکام کا مکلف بنا دے تو اکیلی نیت کافی نہیں ہوگی مثلاً نماز کا وقت آیا تو نماز کی ادائیگی کا مکلف بنا دیا جاتا ہے، رمضان المبارک آتا ہے تو روزوں کا مکلف ،شریعت میں مقرر کردہ نصاب کا مالک ہوزکوٰۃ کا مکلف اسی طرح حج کی استطاعت کی وجہ سے حج کرنے کا مکلف بنا دیا جاتا ہے اب پہلے پہل تو ان کی پکی اور سچی نیت کی جائے کہ میں یہ عمل اللہ کو راضی کرنے کے لیے کروں گا لیکن یاد رکھیں محض نیت کرنا اور عملا وہ نیک اعمال نہ کرنا جن کا اسے مکلف بنایا گیا ہے باعث ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔ گناہ اس وجہ سے ہے کہ اس نے اولاً سچی اور پکی نیت ہی نہیں کی جس کا پتہ اس کے عمل سے چلتا ہے اور دوسرا اس نے مکلف ہونے کے باوجود عمل نہیں کیا جس پر اس کو گناہ ہو گا ۔
دس گنا اجر :
ہاں پکی اور سچی نیت کے بعد جب عمل کرے گا تو اللہ کریم اس کو عمل کے مطابق نہیں بلکہ عمل سے بڑھ کر جزا دیں گے ۔ قرآن کریم میں ہے :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا۔
سورۃ الانعام، رقم الآیۃ: 160
ترجمہ : جو ایک نیکی لے کر حاضر ہوگا اس کو دس گنا بڑھا کر اجر دیا جائے گا ۔
سات سو گنا اجر:
کچھ نیک اعمال ایسے ہیں کہ جن کے بدلے میں ثواب اور اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہےجیسا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ و خیرات کرنے کا اجر و ثواب کے بارے قرآن کریم میں ہے :
مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔
سورۃ البقرۃ ، رقم الآیۃ: 261
ترجمہ: جو لوگ اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیاں اگتی ہوں ہر بالی کے اندر سو سو دانے ہوں ۔
یارب تو کریمی ورسول تو کریم:
مذکورہ بالا آیت نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ:مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيْلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعَفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَبِّ زِدْ أُمَّتِي! فَنَزَلَتْ: مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً. قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَبِّ زِدْ أُمَّتِي! فَنَزَلَتْ: إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ.
صحیح ابن حبان ، باب ذکر الخبرا لدال ..الخ ، الرقم: 4648
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ جو لوگ اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیاں اگتی ہوں اور ہر بالی کے اندر سو سو دانے ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے میرے رب !میری امت کے اجر و ثواب میں مزید بھی اضافہ فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی کہ وہ لوگ جو اللہ کو بہترین قرض دیتے ہیں یعنی صدقہ اور خیرات کرتے ہیں ان کے اجر میں کئی گنا اضافہ کر دیا جائے گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے میرے رب !میری امت کے اجر و ثواب میں مزید بھی اضافہ فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی کہ صبر کرنے والوں کو یعنی اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر نیک اعمال کرنے والوں اور برائیوں سےبچنے والوں کو بے حساب اجر و ثواب دیا جائے گا ۔
یا ربِ تو کریمی و رسولِ تو کریم
صد شکر کہ ہستیم میانِ دو کریم
عفو ودرگزر کی برسات:
اب حدیث مبارک کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں کہ جس شخص نے دل میں برائی کا ارادہ کیا اور خوف خدا کی وجہ سے برائی کی نہیں تو اس برائی نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیتے ہیں اور اگر اس نے برائی کر بھی لی تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک ہی برائی لکھی جائے گی ۔
بری نیت:
برائی کا ارادہ کر لینے کے بعد بھی انسان کے نامہ اعمال میں برائی نہیں لکھی جاتی بلکہ ایسے شخص کو توبہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ اپنے اس ارادے پر عمل کرنے سے باز آجاؤ اور اللہ سے اس کی معافی مانگو اگر کوئی شخص برائی کا ارادہ کر لینے کے بعدخوفِ خدا کی وجہ سے گناہ والا کام نہیں کرتا تو اس پر بھی اس کو اجر عطا کیا جاتا ہے ۔
برے وساوس معاف ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِهِ أَوْ تَعْمَلْ بِهِ۔
مسند ابی داود الطیالسی ، الرقم: 2581
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے امتیوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے وساوس کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں ہاں اگر کوئی بری بات منہ سے نکالے یا پھر برا عمل کر لے تب گناہ ہو گا ۔
برے اعمال:
ہم پر کتنا اللہ کا کرم ہے کہ جب نیک عمل کریں تو اسی کے مطابق ثواب نہیں ملتا بلکہ نیک عمل سے بڑھ کراللہ جزا دیتے ہیں لیکن اگر کوئی برا عمل کر لے تو صرف ایک گناہ لکھا جاتا ہے ، قرآن کریم میں ہے :
وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُون۔
سورۃ الانعام، رقم الآیۃ: 160
ترجمہ : جو شخص ایک برائی لے کر ہماری بارگاہ میں حاضر ہوگا اس کو اسی گناہ کے برابر بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے خیالات کو پاک رکھیں، ہمیشہ نیک کاموں کی نیت کریں برے عزائم سے اپنی حفاظت کریں اور برے اعمال سے بچیں اگر برے اعمال سرزد ہو جائیں تو فوراً توبہ کریں۔اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ ، چشتیہ شاہ عالم سلنگور ، ملائیشیا
جمعرات ،12 دسمبر ، 2019ء