صدقہ ، صبر اور قناعت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
صدقہ ، صبر اور قناعت
اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ خیر و شر کی وہ باتیں جو محض عقل سے معلوم نہیں ہو سکتی تھیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں بتلا دیں تاکہ خیر و منفعت کی باتوں پر عمل کرسکیں اور شر ونقصان کی باتوں سے بچ سکیں ۔
عَنْ سَعِيدِنِالطَّائِيِّ أَبِي البَخْتَرِيِّ رَحِمَہُ اللہُ أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوْكَبْشَةَ الأَنَّمَارِيُّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: ثَلَاثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيْثًا فَاحْفَظُوْهُ قَالَ:مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلِمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيْثًا فَاحْفَظُوْهُ قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ عَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُوْلُ: لَوْ أَنَّ لِيْ مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيْهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيْهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ المَنَازِلِ وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَهُوَ يَقُوْلُ: لَوْ أَنَّ لِيْ مَالًا لَعَمِلْتُ فِيْهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ۔
جامع الترمذی ، باب ماجاء مثل الدنیا مثل اربعۃ نفر ، الرقم: 2325
ترجمہ: حضرت ابو البختری سعید الطائی رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے صحابی رسول حضرت ابو کبشہ الانماری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بیان فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین باتیں ایسی ہیں کہ جن )کی اہمیت کے پیش نظر میں اِن ( پر میں قسم اٹھاتا ہوں: اس کے علاوہ کچھ مزید باتیں بھی تمہیں بتاتا ہوں ان باتوں کو اچھی طرح یاد کرلیناچنانچہ وہ باتیں جن پر میں قسم اٹھاتا ہوں وہ )بالترتیب( اس طرح ہیں :
1: اللہ کی راہ میں مال خرچ کر نے سے بندہ کے مال میں کچھ کمی نہیں آتی ۔
2: جب کسی بندہ پرظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے )یعنی کوئی ظلم کے مقابلے میں شرعاً ناجائز کام نہیں کرتا (تو اللہ تعالیٰ اس صبر کے بدلے اس کو عزت و سربلندی سے نوازتا ہے ۔
3: جب کوئی بندہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر و تنگدستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں) اس پر مسلسل فقر و فاقہ آتا رہتا ہے (
باقی رہی وہ )مزید مفید (باتیں جو میں ابھی بیان کرنے لگا ہوں انہیں اچھی طرح یاد رکھنا کہ دنیا میں چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں :
1: وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم دونوں عطا کیے ہوں اور وہ علم کی وجہ سے اپنے رب )کے ناراض ہونے یا اس کے عذاب (سے ڈرتا ہو، صلہ رحمی کرتا ہو اور حقوق اللہ ادا کرنے میں لگا رہتا ہویہ شخص اعلیٰ مرتبہ و مقام والا ہے ۔
2: وہ شخص جسے اللہ نے علم کی دولت دی ہو لیکن مال والی دولت سے محروم رکھا ہو اور وہ سچی نیت کے ساتھ اس تمنا کا اظہار کرتا ہو کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی فلاں دیندار مالدار بندے کی طرح دینی کاموں پر اس کو خرچ کرتا ۔ یہ دونوں اجر وثواب میں برابر ہیں ۔
3: وہ شخص جس کو مال عطا کیا گیا ہو لیکن علم دین سے اس کو محروم کر دیا گیا ہو اور وہ بغیر علم کے اپنے مال کو غلط اور ناجائز طریقے سے خرچ کرتا ہو ، اپنے رب سے نہ ڈرتا ہو، صلہ رحمی نہ کرتا ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہو یہ شخص بدترین درجے کا انسان ہے ۔
4: وہ شخص جس کو اللہ نے نہ مال دیا ہو اور نہ ہی علم اور وہ اس عزم کا اظہار کرے کہ اگر مجھے بھی مال دیا جاتا تو میں فلاں)بدکار( شخص کی طرح )ناجائز اور گناہ کے کاموں میں( اس کو خرچ کرتا یہ اس شخص کی )ایسی ( غلط نیت ہے (جس کے کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہے محض وسوسہ نہیں (اس لیے یہ غلط نیت کرنے والا اور عملاً ناجائز امور میں مال کو خرچ کرنے والا گناہ میں دونوں برابر ہیں ۔
صدقہ کریں ، مال کم نہیں ہوگا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھا کر جو باتیں ارشاد فرمائی ہیں ان میں پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں لوگوں کی دینی و دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے سے یعنی صدقہ کرنے سے انسان کے مال میں ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور بھلا ہو بھی کیسے سکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ صدقات کومسلسل بڑھاتے رہتے ہیں ۔
صدقہ گناہوں کو مٹاتا ہے:
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ لِيْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ۔۔۔ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الخَطِيْئَةَ كَمَا يُطْفِئُ المَاءُ النَّارَ۔
جامع الترمذی ، باب ماذکر فی فضل الصلاۃ ، الرقم: 614
ترجمہ: حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا گناہوں کو ایسے ختم کرتا جیسے پانی آگ کو بجھا کر ختم کر دیتا ہے ۔
مخفی اور ا علانیہ صدقے کی خاصیات :
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَصَدَقَةُ الْعَلَانِيَةِ تَقِي مِيْتَةَ السُّوءِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، فصل فی طلاقۃ الوجہ ، الرقم: 7704
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چپکے سے صدقہ کرنا رب تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور علانیہ صدقہ کرنا بری موت سے بچاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ صفت انفعال سے پاک ہیں:
اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ جسم، جسمانیات اور جسمانی کیفیات و عوارضات )صفتِ انفعال( سے بالکلیہ پاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ترس اور غضب ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ ہمارا ترس اور غضب ہوتا ہے کہ ہم کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھیں تو دل میں ایک دکھ پیدا ہوتا ہے قلب کی کیفیت بدلتی ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ مصیبت زدہ شخص اس مصیبت سےنجات پا جائے یہ ہے ہمارے ترس کرنے کا معنیٰ۔ اللہ تعالیٰ اس کیفیت سے پاک ہیں کیونکہ یہ مخلوق کی صفت ہے خالق کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام اور قانون ہے کہ فلاں نیکی کا کام مثلاً دعا کرو میں تمہاری مدد کروں گا اور میں تم پر احسان کرتے ہوئے تمہارے حق میں اپنی صفت رحم کو اپنی صفت غضب پر غالب کر دوں گا۔ اور اگر تم نے فلاں نافرمانی والا کام کیا تو میں اپنی صفت رحم پر اپنی صفت غضب کو غالب کر دوں گا۔ جب بندہ کوئی کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کےلیے اپنی ایک صفت کو دوسری صفت پر غالب فرما دیتے ہیں اگر صفت رحم کو غالب فرمائیں تو کہا جاتا ہے کہ اللہ کو ترس آیا ہے اور اگر صفت غضب کو غالب فرما لیں تو کہا جاتا ہے کہ اللہ کو غصہ آیا ہے۔
اعلانیہ بہتر اور مخفی زیادہ بہتر:
إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيْر۔
سورۃ البقرۃ ، رقم الآیۃ: 271
ترجمہ: صدقات کو اگر تم ظاہر کرکے دو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر تم اسے چھپا کر فقراء کو دے دو تو یہ تمہارےلیے زیادہ بہتر ہے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے کچھ گناہ معاف فرمادیں گے اور تمہارے کاموں کی اللہ کو خوب خبر ہے ۔
کیا اعلانیہ صدقے پر ثواب نہیں؟
صدقہ دونوں طرح سے کرنا درست ہے ظاہر کر کے بھی کیا جائے تو اس میں حرج نہیں اور چھپا کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں ظاہر کر کے دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے تاکہ باقی لوگوں میں بھی اس کی ترغیب اور شوق پیدا ہو اور وہ بھی نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اللہ کی رضا کو فراموش کر کے اپنی بڑائی، برتری اور شہرت کی خاطر ایسا کرنا ”ریا“ کہلاتا ہے ۔ قرآن کریم نے کھلم کھلا صدقہ کرنے کی مذمت نہیں بلکہ تعریف فرمائی ہے اس لیے خشک طبیعت دینی اسرار و رموز سے ناواقف لوگوں کے اس دھوکے کا شکار ہرگز نہ ہوں کہ کھلم کھلا صدقہ کرنے سے ثواب نہیں ملتا،یہ سراسر دھوکہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص علی الاعلان صدقہ کرتا ہے اور اس کی جائز مقاصد کے پیش نظر تشہیر بھی کرتا ہے تو یہ عمل ہرگز شریعت کے خلاف نہیں ۔
مخفی صدقہ کیوں افضل ہے؟
ہاں لوگوں سے چھپا کر چپکے سے صدقہ دینا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ اس میں شیطان و نفس کے فریب یعنی ریا ، دکھلاوا،عُجب ، خود بینی اور شہرت پسندی کا احتمال نہیں ہوتا مزید یہ کہ حاسدوں ،چوروں اور بدخواہوں کے مکر وفریب اور نقصانات سے حفاظت بھی مخفی صدقہ میں ہوتی ہے ۔
حضرت ابوبکر و عمر کا واقعہ:
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ يَقُوْلُ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ يَوْمًاأَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِى فَقُلْتُ اَلْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِى فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ مَا أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ؟ قُلْتُ مِثْلَهُ. قَالَ وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللَّهِ مَا أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ؟ قَالَ أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. قُلْتُ لاَ أُسَابِقُكَ إِلَى شَىْءٍ أَبَدًا.
سنن ابی داؤد ، باب فی الرخصۃ فی ذالک ، الرقم: 1680
ترجمہ: حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ سنا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا اس دن میرے پاس مال موجود تھا تو میں نے )دل ہی دل میں( کہا کہ آج میں ابوبکر سے نیکی کے کام میں آگے بڑھ سکتا ہوں میں اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا ۔ مجھ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ گھر والوں کےلیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کی کہ اتنا ہی )یعنی آدھا (گھر چھوڑ آیا ہوں ۔ اسی دوران ابو بکر صدیق بھی تشریف لائے اور اپنے گھر کا کل کا کل سامان خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی پوچھا کہ ابو بکر !گھر کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی: گھر والوں کےلیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا: میں نیکی کے کسی کام میں ابوبکر سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔
حضرت ابوالدحداح کا واقعہ:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا۔قَالَ أَبُو الدَّحْدَاحِ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُوْلَ اللهِ وَإِنَّ اللهَ لَيُرِيدُ مِنَّا الْقَرْضَ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا الدَّحْدَاحِ! قَالَ: أَرِنِي يَدَكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ: فَتَنَاوَلَ يَدَهُ قَالَ: فَإِنِّي قَدْ أَقْرَضْتُ رَبِّي حَائِطِي قَالَ: وَحَائِطُهُ فِيهَا سِتَّمِائَةِ نَخْلَةٍ وَأُمُّ الدَّحْدَاحِ فِيْهِ وَعِيَالُهَاقَالَ: فَجَاءَهَا أَبُو الدَّحْدَاحِ فَنَادَاهَا: يَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! فَقَالَتْ: لَبَّيْكَ. فَقَالَ: اُخْرُجِيْ فَقَدْ أَقْرَضْتُهُ رَبِّي۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب الاختیار فی صدقۃ التطوع، الرقم: 3178
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا تو حضرت ابوالدحداح انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول !اللہ تعالیٰ ہم سے )ازراہ محبت( قرض طلب فرماتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو الدحداح بے شک ایسے ہی ہے۔
حضرت ابو الدحداح نے عرض کی: اے اللہ کے رسول !اپنا ہاتھ مبارک مجھے تھمائیے )تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر عہد کروں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک آگے بڑھایا تو ابوالدحداح نے معاہدے کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ مبارک پکڑ کر عرض کی: اے اللہ کے رسول !میں نے اپنا باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ۔راوی کہتے ہیں کہ ان کے اس باغ میں چھ سو کھجوروں کے درخت تھے اور اسی باغ میں ہی ان کے گھر والوں کی رہائش تھی ۔ ابوالدحداح رضی اللہ عنہ یہاں سے یہ معاہدہ کر کے باغ میں گئے اور باغ کے باہر سے کھڑے ہو کر اپنی بیوی کو آواز دی اور فرمایا: چلو اس باغ سے نکل چلو میں نے یہ باغ اپنے رب کو دے دیا ہے۔
آخری وقت سے پہلے پہلے:
حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيْحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنٰى وَلَا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ۔
صحیح البخاری،باب ای الصدقۃ افضل، الرقم: 1419
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول !اجر وثواب کے اعتبار سے کون سا صدقہ زیادہ عظیم الشان ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ صدقہ جو تم صحت و تندرستی کی حالت میں دو جبکہ تم میں دولت کی حرص ہو، تنگدستی کا خوف ہو اور سرمایہ کاری کی خواہش ہو۔ اور ہاں صدقہ دینے میں اتنی تاخیر نہ کرو کہ روح نکلنے کے قریب آپہنچے اور تم اس آخری وقت میں یوں کہو کہ فلاں فلاں کو اتنا اتنا صدقہ دے دو حالانکہ اب وہ مال ورثاء کا ہوچکا ہے۔
مسئلہ: انسان اپنے کل مال میں سے ایک تہائی کی وصیت کر سکتا ہے لیکن جب سکرات طاری ہو جائے اور موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو اب مال اس کی ملکیت سے نکل کر ورثاء کا بن جاتا ہے اب یہ شخص اس میں وصیت نہیں کرسکتا۔
صدقہ کرتے وقت ملحوظ رکھیں:

اللہ کو راضی کرنے کےلیے صدقہ کریں ۔

مال زیادہ ہو یا تھوڑا بہرحال صدقہ کریں ۔

اچھے اور پاکیزہ مال کا صدقہ کریں۔

نیک صالح لوگوں پر صدقہ کریں۔

مستحق قریبی رشتہ داروں پر صدقہ کریں۔

دینی اداروں کے طلباء پر صدقہ کریں ۔

اپنے بچوں کو صدقہ دینے کا عادی بنائیں ۔

بچوں کے ہاتھ سے صدقہ دلوائیں ۔

صدقہ دینے کے بعد احسان نہ جتلائیں۔

مشکوک یا حرام مال اور مشکوک جگہوں پرزکوٰۃ اور صدقات ادا نہ کریں ۔
ظلم پر صبر کریں:
حدیث مبارک میں دوسری بات یہ ذکر فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی انسان پر ناحق ظلم کیا گیا اور اس نےانتقامی طور پر بدلہ لینے کے بجائے اس پر صبر کا کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو عزت عطا فرمائے گا۔ اگرچہ ظلم اور زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی شریعت میں اجازت موجود ہے لیکن صبر کر کے معاف کر دینا زیادہ اجر وثواب والا کام ہے۔ عین ممکن ہے کہ بدلہ لیتے وقت یہ شخص برابری نہ کر سکے اور جرم و زیادتی سے زیادہ بدلہ لےلے۔ اس لیے بدلہ کی اجازت کے باوجود صبر کو افضل قرار دیا گیا ہے تاکہ معاف کرنے سے دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا ہو اور وہ ساری زندگی اس کا احسان مند رہے اور دونوں طرفوں سے ہمیشہ پیار و محبت بڑھتا ہی رہے ۔
نوٹ: صبر کے متعلق وعظ و نصیحت جلد اول صفحہ 200 تا 207 ملاحظہ فرمائیں
قناعت اختیار کریں:
تیسری بات یہ ذکر کی گئی ہے جب بندہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر و فاقہ اور تنگدستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں یعنی ذلت اور دربدر کی ٹھوکروں کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔خیر وبرکت ، چین و سکون اور عزت و شرافت سے اسے محروم کر دیا جاتا ہے ۔
خیر وشر کے پہلو:
یوں تو مال اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کو جائز طریقوں سے حاصل کرنے کا حکم بھی شریعت میں موجود ہے بہت ساری عبادات اسی سے وابستہ ہیں لیکن اس کے زہریلے اثرات بھی بہت زیادہ ہیں اسی کی وجہ سے بخل ، تفاخر، کینہ، حسد، ریا اور تکبر وغیرہ جیسے کبیرہ گناہ وجود میں آتے ہیں اور انسان کو چوری ، ڈکیتی، سود خوری ، شراب خوری ،جوئے بازی ،رشوت ستانی ، ملاوٹ اور فراڈ وغیرہ جیسی معاشرتی قباحتوں میں مبتلا کرتا ہے ۔
مانگنے کے نت نئے انداز:
آج کل غریب ، مفلوک الحال اور پیشہ ور بھکاری تو رہے ایک طرف ۔ اچھے خاصے صاحب ِثروت ، مال و دولت والے امراء اور رئیس زادوں کا یہ حال ہے کہ وہ بھی مانگتے ہیں لیکن مانگنے کا انداز الگ اختیار کرتے ہیں اور اسے زمانے کی ضرورت کہہ کر اپنانے میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں ۔
چائے بوتل:
سرکاری ، نیم سرکاری اور پرائیوٹ دفاتر میں رشوت مانگی جاتی ہے اور اس قبیح کام کو خوبصورت نام” چائے بوتل“ کا دیا جاتا ہے جو سراسر حرام ہے ۔ بھلا خنزیر کو بکرا کہہ دینے سے وہ کیسے حلال ہو سکتا ہے؟ اسی طرح رشوت کو چائے بوتل کا نام دیں یا اپنے انعام کا بہر حال رشوت حرام ہے لینے والا اور )بلا استحقاق (دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
جہیز کا مطالبہ :
شادی بیاہ کے موقعوں پر بھاری بھاری جہیز کے نام پر جو بھیک مانگی جاتی ہے اور رشتوں کے تقدس کو پامال کر کے باہمی دوریاں پیدا کی جاتیں ہیں، گھروں کا سکون غارت ہوتا ہے جس کے برے اثرات نسلوں میں سفر کرتے ہیں اور بالآخر بات طلاقوں تک جا پہنچتی ہے ۔ یہ بھی بھیک ہی کہلاتی ہے ۔
غریب بھکاری دس بیس روپے کا سوال کرے تو اس کو معاشرتی طور پر حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور امیر بھکاری دس بیس لاکھ کا سوال کرے تو اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ اصولوں سے بے رخی کی ایسی دورخی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
حدیث کا دوسرا حصہ:
حدیث مبارک کے دوسرے حصے میں چار انسانوں کی صفات کا تذکرہ ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو اچھی طرح یاد رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ ان میں سے پہلے دو کامیاب انسانوں کا تذکرہ فرمایا تاکہ ان جیسی اچھی صفات اپنا کر ان کی اقتداء کی جائے اور بعد میں دو ناکام انسانوں کا تذکرہ فرمایا تاکہ ان کی گندی صفات سے بچ کر ان سے دور رہنے کی کوشش کی جائے ۔
پہلا کامیاب انسان:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ سب سے افضل انسان وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال جیسی دولت عطا فرمائی ہو اور علم جیسی لازوال دولت بھی عطا کی ہو اور اس میں مندرجہ ذیل تین خوبیاں بھی موجود ہوں۔
خداخوفی:
مال کے باوجود اس میں تکبر ، گھمنڈ اور غرور کے بجائے علم کی وجہ سے فکر آخرت اور خدا خوفی ہو۔ ناجائز ، حرام بلکہ مشتبہ کاموں اور باتوں سے خود کو بچاتا ہو ۔
صلہ رحمی:
خداخوفی کےساتھ ساتھ اس میں صلہ رحمی والی صفت بھی موجود ہو اپنے عزیز و اقارب ، ہمسایوں اور بالخصوص رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہو ان کے حقوق ادا کرتا ہو ،ضرورت مند لوگوں کے ساتھ تعاون کرتا ہو، خندہ پیشانی سے ملتا ہو اور اخلاقی و معاشرتی مروت اس میں پائی جاتی ہو۔
حقوق اللہ کی ادائیگی:
صلہ رحمی حقوق العباد میں سے ہے اس کی ادائیگی میں اس قدر منہمک نہ ہو جائے کہ حقوق اللہ یاد ہی نہ رہیں بلکہ فرمایا کہ وہ حقوق اللہ کی ادائیگی بھی خوب کرتا ہو۔ اللہ کی دی ہوئی دولت مال سے اس کا حق صدقہ ، خیرات اور بشرط وجوب زکوٰۃ اور قربانی ادا کرتا ہو اور اللہ کی دی ہوئی دولت علم سے تمام فرائض و واجبات کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کرتا ہو ۔
مذکورہ بالا صفات کے حامل شخص کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کریم کے ہاں بلند و بالا عزت و مرتبے سے نوازا جائے گا ۔
دوسرا کامیاب انسان:
جس کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو فضیلت اور بلند مقام کا مستحق ہے وہ شخص ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے الگ رکھ کر صرف علم دین جیسی دولت سے خوب نوازا ہو۔ وہ اپنے علم پر عمل کرتا ہو اور سچے دل سے یہ تمنا اور آرزو بھی کرتا ہو کہ اگر مجھے اللہ مال بھی عطا کرتا تو میں بھی فلاں دیندار مال دار شخص کی طرح صلی رحمی، صدقہ و خیرات اور نیکی کے دیگر کاموں میں اسے خوب خرچ کروں گا اس شخص کی سچی نیت اللہ کے ہاں اس قدر ؛ قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کہ مال و دولت خرچ نہ کرسکنے کے باوجود اجر و ثواب کے اعتبار سے اس کو پہلے والے شخص کے برابر قرار دے دیا جاتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ پکی اور سچی نیت اجر میں عمل کے برابر ہے۔ یہی معنیٰ ہے فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ کا ۔
پہلا ناکام انسان:
جس کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ وہ ناکام ترین شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو لیکن دین کی سمجھ بوجھ سے محروم رکھا ہو۔ شریعت کے احکام اور ممنوعات سے ناواقف اور جاہل ہونے کی وجہ سے وہ اپنے مال کو اللہ کی نافرمانیوں پر خرچ کرتا ہو۔ جائز ، ناجائز ، حلال ، حرام اور صحیح غلط کا فرق نہ کرتا ہو اس پر برابر مال کو کسی بھی طریقے سے اکٹھا کرنے کی دھن سوار رہتی ہو۔ نہ تو مال سے خالق کا حق صدقہ ، خیرات ، زکوٰۃ اور دیگر مالی عبادات ادا کرتا ہو اور نہ ہی مال سےمخلوق کا حق صلہ رحمی ، قریبی رشتہ داروں کی ممکنہ مالی معاونت کرتا ہو ۔ایسا شخص دنیا میں مگن ہو کر اپنی آخرت کو تباہ کرنے والا ہے اس لیے ناکام اور بدترین انسان قرار دیا گیا ہے ۔
دوسرا ناکام انسان:
جس کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ وہ دوسرے درجے کا ناکام ترین شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ ہی مال عطا فرمایا ہو اور نہ ہی دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائی ہو۔ اس کے باوجود اسےآخرت کی فکر کے بجائے دنیاداری کی فکر ہو اور گناہوں والے کام کرنے کا جذبہ اس کو گھیرے رکھتا ہو اور اسی جذبے کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ اس عزم کا اظہار کرنے لگے کہ کاش مجھے بھی فلاں بے دین مال دار شخص کی طرح مال ملتا تو میں بھی خواہشات نفس اور فلاں فلاں) گناہ والے(کاموں میں اس کو خرچ کرتا ۔ مال و دولت کو گناہوں میں خرچ نہ کرنے کے باوجود اس کا پختہ عزم کرنے کی وجہ سے یہ شخص بھی سزا و عذاب میں پہلے ناکام شخص کے برابر قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ معنیٰ ہے فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ کا۔
مقام شکر یا مقام فکر؟
آئیے حدیث مبارک میں غور کرتے ہیں اور خود کو تلاش کرتے ہیں کہ ہماری حالت اور صفات ان میں سے کس سے ملتی جلتی ہے اگر کامیاب انسانوں سے ملتی جلتی ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس پر ثابت قدم بلکہ مزید بہتری کی دعا مانگنی چاہیے اور اگر معاملہ برعکس ہے تو پھر اپنی فکر کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائیں ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
مدینہ منورہ، سعودی عرب
جمعرات ،26 دسمبر ، 2019ء
مآخذ ومراجع
)کتاب کی تیاری میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے(
نمبر شمار
نام کتاب
مصنف
وفات
1
موطا امام مالک
امام مالک بن انس رحمہ اللہ
179ھ
2
کتاب الزہد
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ
181 ھ
3
مسند الطیالسی
امام سلیمان بن داؤد الطیالسی رحمہ اللہ
204 ھ
4
المصنف
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ
211ھ
5
المصنف
امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ
235ھ
6
مسند احمد
امام احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ
241ھ
7
مسند عبد بن حمید
امام عبدالحمید بن حمید رحمہ اللہ
249ھ
8
سنن الدارمی
امام عبداللہ الدارمی رحمہ اللہ
255 ھ
9
صحیح البخاری
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ
256ھ
10
صحیح مسلم
امام مسلم بن حجاج نیشاپوری رحمہ اللہ
261 ھ
11
سنن ابن ماجہ
امام محمد بن یزید قزوینی رحمہ اللہ
273ھ
12
سنن ابی داؤد
امام سلیمان بن اشعث رحمہ اللہ
275 ھ
13
جامع الترمذی
امام محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ
279ھ
14
مسند بزار
امام احمد بن عمرو بزار رحمہ اللہ
292ھ
15
سنن نسائی
امام احمد بن شعیب نسائی رحمہ اللہ
303ھ
16
صحیح ابن خزیمہ
امام محمد بن اسحاق خزیمہ رحمہ اللہ
311ھ
17
شرح معانی الآثار
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ
321ھ
18
المجالسۃ وجواہر العلم
امام ابوبکر احمد بن مروان رحمہ اللہ
333ھ
مآخذ ومراجع
)کتاب کی تیاری میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے(
نمبر شمار
نام کتاب
مصنف
وفات
19
صحیح ابن حبان
امام ابن حبان رحمہ اللہ
354ھ
20
المعجم الکبیر
امام سلیمان بن احمد طبرانی رحمہ اللہ
360ھ
21
المعجم الاوسط
امام سلیمان بن احمد طبرانی رحمہ اللہ
360ھ
22
المعجم الصغیر
امام سلیمان بن احمد طبرانی رحمہ اللہ
360ھ
23
کتاب الدعاء
امام سلیمان بن احمد طبرانی رحمہ اللہ
360ھ
24
من الفوائد الغرائب
امام ابو بکر الابھری رحمہ اللہ
375ھ
25
السنن دار قطنی
امام علی بن عمر دارقطنی رحمہ اللہ
385ھ
26
الترغیب فی فضائل الاعمال
امام ابن شاہین رحمہ اللہ
385ھ
27
مستدرک علی الصحیحین
امام ابو عبداللہ حاکم رحمہ اللہ
405ھ
28
امالی ابن بشران
امام عبدالملک رحمہ اللہ
430
29
الدلائل النبوۃ
امام احمد بن عبداللہ الاصبہانی رحمہ اللہ
430ھ
30
مسند الشہاب القضاعی
امام ابو عبداللہ رحمہ اللہ
454ھ
31
فضائل الاوقات
امام احمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ
458ھ
32
السنن الکبریٰ
امام احمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ
458ھ
33
دلائل النبوۃ
امام احمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ
458ھ
34
شعب الایمان
امام احمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ
458ھ
35
جامع بیان العلم وفضلہ
امام یوسف بن عبدالبر رحمہ اللہ
463ھ
مآخذ ومراجع
)کتاب کی تیاری میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے(
نمبر شمار
نام کتاب
مصنف
وفات
36
البدائع الصنائع
امام ابو بکر الکاسانی رحمہ اللہ
587 ھ
37
الجامع لاحکام القرآن
امام محمد بن احمدقرطبی رحمہ اللہ
671ھ
38
سیر اعلام النبلاء
امام محمد بن احمد الذھبی رحمہ اللہ
748 ھ
39
السیرۃ النبویۃ
امام ابن کثیر رحمہ اللہ
774ھ
40
تفسیر ابن کثیر
امام ابن کثیر رحمہ اللہ
774ھ
41
جامع العلوم والحکم
امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ
795ھ
42
بغیۃ الباحث
امام علی بن ابی بکر ہیثمی رحمہ اللہ
807 ھ
43
فتح الباری
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ
852ھ
44
عمدۃ القاری
امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ
855ھ
45
المقاصد الحسنۃ
امام سخاوی رحمہ اللہ
902ھ
46
کنز العمال
امام علی بن حسام الدین رحمہ اللہ
975 ھ
47
جمع الوسائل
امام ملا علی قاری رحمہ اللہ
1014ھ
48
المرقاۃ المفاتیح
امام ملا علی قاری رحمہ اللہ
1014ھ
49
تفسیر بیان القرآن
امام اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
1362ھ
50
مفردات القرآن
احمد بن مصطفیٰ مراغی رحمہ اللہ
1371ھ
51
امداد المفتیین
مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ
1396ھ