سورۃ الزخرف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الزخرف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾﴾
حٰم، قسم ہے اس کتاب کی جو بڑی واضح ہے۔ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں اتارا ہے تاکہ تم سمجھو!
یہاں پر واضح ہونے سے مراد ہے کہ بطورِ وعظ ونصیحت قرآن کریم بڑی واضح کتاب ہے۔ اس کا معنی یہ کرنا کہ قرآن کریم میں احکام بہت واضح ہیں، یہ معنی غلط ہے۔ اگر احکام بہت واضح ہوتے تو استنباط اور اجتہاد کی ضرورت نہ ہوتی لیکن احکام کے لیے استنباط اور اجتہاد کرنا پڑتا ہے۔
﴿وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ لَدَیۡنَا لَعَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ؕ﴿۴﴾﴾
اور یہ قرآن ہمارے پاس لوحِ محفوظ میں ہے اور یہ قرآن عظیم اور حکمت والی کتاب ہے۔
یہاں دیکھیں اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ اُمُّ الْکِتٰبِ میں ہے۔ میں صرف یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ اُم کا معنی ہمیشہ ماں نہیں ہوتا،اس کا معنی اصل بھی ہوتا ہے، بنیاد بھی ہوتا ہے، ماں بھی ہوتا ہے اور ٹھکانا بھی ہوتا ہے۔مختلف اس کے معانی ہوتے ہیں۔ قرآن میں
﴿فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۹﴾﴾
القارعۃ 102: 9
کا معنی ٹھکانا ہے،
﴿ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ﴾
آل عمران 3: 7
کا معنی اصل ہے اور
﴿وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ﴾
المائدۃ5: 75
میں اُم سے مراد ماں ہے۔ تو لفظ ام کے کئی معنی آتے ہیں، ہمیشہ ایک معنی کبھی نہ کریں۔
ثواب و عذاب قبر پر ایک دلچسپ واقعہ:
میرا ایک مرتبہ ملتان میں جمعہ تھا۔ تلمبہ مدرسہ جو رائیونڈ کی شاخ ہے وہاں کے صدر مدرس مولانا ریاض صاحب کا مجھے فون آیا کہ آپ ذرا جلدی آ جائیں، یہاں قادر پور میں کسی بندے سے بات کرنی ہے۔ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کون سے علاقے میں کون سا فتنہ ہے اور وہاں کون سی بات ہو گی۔ تو میں نے صحاحِ ستہ جو ایک جلد میں اکٹھی چھپی ہے وہ ساتھ رکھ لی اور رات کو ہی تلمبہ چلا گیا۔ رات وہیں سویا۔ طلبہ سوالات کرتے رہے، ہمارے جوابات چلتے رہے۔ صبح اس بندے کے پاس گئے جس سے ملاقات کرنی تھی۔ عمر اُس کی کافی تھی اور وہ تھا جماعۃ المسلمین کا کارکن جو عذابِ قبر کا منکر تھا۔
مولانا نے مجھے بتایا کہ مولانا طارق جمیل صاحب سے اس کی بات ہوئی ہےلیکن مولانا کا چونکہ مناظرانہ مزاج نہیں ہے تو یہ بندہ قابو نہیں آیا۔مولانا نے ان کو سمجھایا بھی کہ سارے مسائل قرآن میں نہیں ہوتے، تفصیلات احادیث میں ہوتی ہیں، نماز کا ذکر قرآن میں ہے لیکن اس کی تفصیلات احادیث میں ہیں، حج کا ذکر قرآن میں ہے لیکن تفصیلا ت احادیث میں ہیں اور مولانا کی یہ بات بڑی معقول تھی لیکن اس بندے نے کہا کہ نہیں جی! جو قرآن میں ہے ہم وہ مانیں گے اور جو نہیں ہے ہم نہیں مانیں گے۔
خیر ہم وہاں چلے گئے۔ اس نے کہا کہ یہ جو عذابِ قبر ہے اس کو ہم نہیں مانتےکیونکہ قرآن کریم میں نہیں ہے۔ میں پہلے سمجھتا ہوں کہ اس بندے کی اصل بیماری کیا ہے تاکہ اس کو وہاں سے پکڑوں۔ میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی:
﴿یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ﴾
ابراہیم 14: 27
کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھتے ہیں دنیا میں اورقبر میں۔
میں نے کہا کہ دیکھو! یہاں قبر کی بات آ گئی ہے۔ اس نے کہا کہ یہاں تو
”الۡاٰخِرَۃِ“
ہے، قبر تو نہیں ہے آپ نے
”الۡاٰخِرَۃِ“
کا معنی قبر کیسے کر دیا؟ چونکہ میں چاہتا تھا کہ وہ یہ سوال کرے، کیونکہ یہ سوال کرے گا تو آگے چلیں گے۔ تو میں نے کہا کہ پھر
”الۡاٰخِرَۃِ“
کا کیا معنی کریں؟ اس نے کہا کہ آخرت کا معنی آخرت کریں۔ میں نے کہا کہ آخرت کسے کہتے ہیں؟ یہ دنیا ہے، اس کے بعد آخرت ہے۔ آخرت تو موت کے فوراً بعد شروع ہو جاتی ہے تو یہاں آخرت سے کون سا معنی مراد ہو گا؟ کیونکہ موت کے فوراً بعد سے حشر تک یہ بھی آخرت ہے․․․ حشرسے لے کر دخولِ جنت اور دخولِ جہنم تک یہ بھی آخرت ہے․․․ دخولِ جنت اور دخولِ جہنم کے بعد کی زندگی یہ بھی آخرت ہے․․․ تو یہاں ہم آخرت کا کون سا معنی مراد لیں گے؟ میں نے کہا کہ دیکھو! جیسے قرآن کریم میں ہے :
﴿ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ﴾
اب اُم کا معنی ایک تو نہیں ہے کہ جہاں بھی اُم آئے گا تو اس کا معنی ماں ہی کریں گے۔
﴿وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ﴾
یہاں معنی ماں ہے،
﴿ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ﴾
یہاں اُم کا معنی اصل ہے،
﴿فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۹﴾﴾
یہاں اُم کا معنی ٹھکانا ہے۔ تو لفظ تو ایک ہی ہے لیکن معانی کئی ہیں۔ اسی طرح
”الۡاٰخِرَۃِ“
لفظ تو ایک ہے لیکن اس کا ایک مصداق ہے قبر سے حشر تک، ایک مصداق ہے حشر سے جنت تک اور ایک مصداق ہے جنت کے بعد ․․․تو یہاں کون سا مصداق ہو گا؟
میں نے کہا کہ اس کا مصداق نہ آپ متعین کر سکتے ہیں، نہ میں متعین کر سکتا ہوں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مصداق کیا متعین فرمایا ہے؟ اس پر میں نے پھر روایت پڑھ دی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب بندے کو قبر میں اتارا جاتا ہے، ملائکہ آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں، پھر تین سوال کرتےہیں:
”مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟“
بندہ ان تین سوالوں کا جواب دے دیتا ہے تو ایک فرشتہ آسمان سے اعلان کرتاہے کہ اللہ فرما رہے ہیں :
”أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِىْ “
کہ میرے بندے نے سوالوں کا صحیح جواب دیا ہے،
”فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ“
اس کو جنت کا بچھونا دو!
”وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ“
اس کو جنت کا لباس دے دو!،
”وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ“
جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو!
”فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا“
جنت کی ہوائیں اور جنت کی خوشبو اس قبر میں پہنچ جاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
”فَذٰلِكَ قَوْلُ اللّهِ تَعَالٰی ﴿یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ﴾
کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان
”یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ“
کا یہی مطلب ہے۔
سنن ابی داؤد، رقم: 4753
میں نے کہا: دیکھو! قبر کی پوری زندگی بیان کرتےہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ “آخرۃ“ کا معنی یہ ہے۔ آپ اللہ کے نبی سے ثابت کرو کہ آخرۃ کا معنی یہ نہیں ہے بلکہ یہاں آخرت سے مراد حشر ہے یا جنت اور جہنم ہے۔
اب دیکھو! میں نے اس پوری گفتگو میں حدیث کا نام نہیں لیا، کیونکہ وہ حدیث کے نام سے بدکتا تھا تو ہم نے حدیث کا نام نہیں لیا تو وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ حدیث ہم نہیں مانتے، قرآن پیش کرو۔ بات میں نے حدیث سے کی لیکن حدیث کا نام نہیں لیا۔ اب اِس کا اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ چونکہ ضد ہے اور ماننا نہیں ہوتا تو اس نے ایک دوباتیں اور کیں، پھر میں نے بات کی۔
اس دوران ایک سنجیدہ سمجھدار آدمی کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا کہ دیکھیں مولانا صاحب! آپ آئے ہیں تیاری کر کے اور ہم نے تیاری نہیں کی، آپ کے پاس کتابیں ہیں اور ہم تو ویسے بیٹھے ہیں، پھر کبھی کتابیں لے کر بیٹھیں گے تو بات حل ہو جائے گی۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ یہ بات اُس نے کیوں کی؟ در اصل وہ بندہ ہمارا ہم نوا تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ فساد نہ ہو اور بات سمجھ میں آ جائے، وہ بابا جی بڑی عمر کے ہیں اور ضد ی ہیں وہ تو مانیں گے نہیں لیکن آئندہ کوئی بندہ اس کے پاس بات کے لیے اس کے ڈیرے پر نہیں آئے گا، بس لوگوں کے سامنے بات کھل گئی جو ہمارا مقصد تھا وہ پورا ہو گیا۔ تو میں بتا رہا تھا کہ اُم کا معنی ہمیشہ ماں نہیں ہوتا۔
نصیحت کرتے رہنا چاہیے:
﴿اَفَنَضۡرِبُ عَنۡکُمُ الذِّکۡرَ صَفۡحًا اَنۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّسۡرِفِیۡنَ ﴿۵﴾﴾
کیا تمہاری ضد اور حد سے تجاوز کی وجہ سے ہم تم سے اس نصیحت اور ذکر کو پھیر لیں گے؟! تمہیں نصیحت نہیں کریں گے؟!
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو فاسق کو، کافر کو، ہرکسی کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔
سواری پر بیٹھنے اور سفر کی دعا:
﴿ سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
پاک ہے وہ ذات جس نے یہ سواری ہمارے تابع کر دی، اور ہم اس سواری کو اپنے قابو میں نہیں لا سکتے تھے، اور ہمیں اپنے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔
جب سواری پر پاؤ ں رکھیں تو پڑھیں: بسم اللہ، اور جب اس پر بیٹھ جائیں تو کہیں: الحمدللہ، پھر یہ دعا پڑھیں:
”سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ “
اور بھی دعائیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ دو دعائیں الگ ہیں؛ ایک ہے دعا سواری کی اور ایک ہے دعا سفر کی، یہ دعا سفر کی نہیں ہے یہ دعا سواری کی ہے، سفر کی دعا الگ ہے، سفر کی دعا یہ ہے:
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُكَ فِىْ سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَىٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰى.
سنن ابی داؤد، رقم: 2599
یہ الگ دعاثابت ہے اور
”اَللّٰهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا “
سنن ابی داؤد، رقم: 2599
یہ دعا الگ ہے۔
دونوں میں فرق کیا ہے؟ جب آپ گھر سے نکلیں اور سفر پہ چلے جائیں تو دعائے سفر ایک مرتبہ پڑھنا کافی ہے اور سواری کی دعا جب بھی سوار ہوں گے پڑھتے رہیں گے، سفر کی دعا بار بار پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بیٹی کی پیدائش پر مشرک کے تاثرات:
﴿اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخۡلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصۡفٰکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ ﴿۱۶﴾ وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحۡمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿۱۷﴾﴾
اللہ نے مشرکین کی غلط فہمی دور کی ہے۔ مشرکین کہتے تھے کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنایا ہے۔ اللہ رب العزت نے بات سمجھائی ہے کہ تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ اگر تمہارے ہاں بیٹی پیدا ہو تو تمہارے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں تو جس چیز کو تم اپنے لیے نا پسند کرتے ہو وہ تم اللہ کے لیے کیسے ثابت کرتے ہو؟ ہاں اگر تمہارے ہاں بیٹی بہت فخر کی علامت ہوتی اور تم یہ کہتے کہ اللہ نے فرشتوں کو بیٹیاں بنایا ہے پھر بھی کوئی بات تھی! جو چیز تمہارے ہاں پسندیدہ نہیں ہے اس کو تم اللہ کے لیے کیسے ثابت کرتے ہو؟
زیورات میں رہنا عورت کی فطرت ہے:
﴿اَوَ مَنۡ یُّنَشَّؤُا فِی الۡحِلۡیَۃِ وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ ﴿۱۸﴾﴾
پھر آگے فرمایا کہ عورت کی تو فطرت اور طبیعت یہ ہے کہ وہ زیور میں کھیلتی ہے اور بات کھل کر سمجھا نہیں سکتی۔
یہاں زیور میں رہنا یہ عورت کی طبیعت بیان کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیور کا استعمال عورت کے لیے ہے، مرد کے لیے نہیں ہے، اور اگر عورت زیور کا مطالبہ کرے تو دینا چاہیے، مطالبہ نہ بھی کرے تب بھی بغیر مطالبہ کے دینا چاہیے، یہ اس کی فطرت ہے، یہ عورت کی طبیعت ہے۔ لیکن یہ یاد رکھ لیں کہ عورت کے لیے سونے اور چاندی کی انگوٹھی اور سونے اور چاندی کے دیگر زیورات جائز ہیں لیکن انگوٹھی سونے اور چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی جائز نہیں ہے۔ آج کل ہمارے ہاں نقلی زیور چلتے ہیں، اس کی چوڑیا ں تو جائز ہیں لیکن انگوٹھی جائز نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ ذہن میں رکھیں اور اپنے گھروں میں بتائیں کہ گھروں میں عورتیں دھاتی انگوٹھیاں پہنتی ہیں جو سونے یا چاندی کی نہیں ہوتیں، یہ جائز نہیں ہے۔
﴿وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ﴾․․․
یہ جنسِ عورت کی بات کی ہے ورنہ بہت سی عورتیں فصاحت میں ایسی ہوتی ہیں کہ مرد بھی ان کامقابلہ نہیں کر سکتے۔
غلط عقائد و اعمال سے براءت ضروری ہے:
﴿وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖۤ اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾﴾
ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اورقوم سے فرمایا کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان سے بری الذمہ ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جب ماحول غلط قسم کا ہو تو آدمی ماحول کی وجہ سے ان غلط قسم کی رسومات میں شرکت نہ کرے اور صرف شرکت نہ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ براءت کا اعلان کرنا بھی ضروری ہے کہ میرا کام یہ نہیں ہے جو تم کرتے ہو․․․ اگر آدمی بدعتی ماحول میں رہتا ہو اگرچہ وہ بدعات کا ارتکاب نہ کرے لیکن چونکہ ایسے ماحول میں رہتا ہے تو لوگ بدعتی سمجھیں گے اس لیے اس کے لیے ضروری ہے کہ بدعات کا ارتکاب بھی نہ کرے اور بدعات کا رد نہیں کر سکتا تو کم از کم بدعات سے براءت کا اعلان ضرور کر دے کہ میں یہ کام نہیں کرتا جو تم کرتے ہو۔
﴿وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ ﴿۳۱﴾﴾
مشرکین کہتے کہ اگر یہ قرآن اللہ نے اتارنا تھا تو یہ مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر اتارا جاتا جس کے پاس مال اور دولت خوب ہوتا، قرآن کو اتارا ہے تو ایک غریب آدمی پر جس کے پا س مال ودولت نہیں ہے، جس کے پاس طاقت نہیں ہے۔
اب ان کی خواہش یہ تھی کہ اللہ کی رحمتِ خاصہ جو نبوت ہے یہ غریب آدمی کو نہیں بلکہ امیر آدمی کو ملنی چاہیے تھی۔ اللہ ان کے جواب میں فرماتے ہیں:
﴿اَہُمۡ یَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا﴾
کیا یہ لوگ آپ کے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟! یہ رحمتِ عامہ جو دنیا کی روزی ہے یہ بھی ہم خود تقسیم کرتے ہیں تو رحمتِ خاصہ جو نبوت ہے کیا وہ تم تقسیم کرو گےکہ اس کو دے دو اور اس کو نہ دو؟
﴿وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ؕ﴾
ہم نے معیشت میں تقسیم اس لیے کی ہے تاکہ ایک آدمی کا دوسرے سے کام لینا آسان ہو جائے، آسانی سے کام لے سکے۔ اگر سارے ہی مالدار ہوتے تو مزدوری کون کرتا؟ سارے ہی مزدور ہوتے تو پیسے کون دیتا؟ تو اللہ نے کچھ غریب بنائے اور کچھ امیر بنائے۔
﴿وَ رَحۡمَتُ رَبِّکَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۳۲﴾﴾
اور اللہ کی رحمتِ خاصہ جو نبوت ہے یہ ان چیزوں سے بہترہے جس کو تم جمع کرتے پھرتے ہو!
مطلب یہ کہ تم نبوت کو تقسیم کرتے ہو کہ نبوت اس کو ملنی چاہیے اس کو نہیں ملنی چاہیے۔ نبوت رحمتِ خاصہ ہے۔ دنیا کی روزی رحمتِ عامہ ہے جس کی اللہ کے ہاں کوئی وقعت ہی نہیں ہے اللہ نے اس کی تقسیم کا اختیار تمہیں نہیں دیا تو نبوت کی تقسیم کا اختیار تمہیں کیسے دیں گے؟!
اللہ کے ہاں دنیا کی زینت کی کوئی قیمت نہیں:
﴿وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلۡنَا لِمَنۡ یَّکۡفُرُ بِالرَّحۡمٰنِ لِبُیُوۡتِہِمۡ سُقُفًا مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیۡہَا یَظۡہَرُوۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾ وَ لِبُیُوۡتِہِمۡ اَبۡوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیۡہَا یَتَّکِـُٔوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾ وَ زُخۡرُفًا ؕ﴾
اللہ کا تکوینی نظام ہے کہ دنیا میں کچھ کافر اور کچھ مسلمان رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اس بات کا اندیشہ نہ ہو کہ سارے لو گ ہی کافر ہو جائیں گے تو ہم کافروں کو اتنا دیتے کہ ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی ہوتیں،سیڑھیاں چاندی کی ہوتیں، دروازے چاندی کے ہوتے، تکیے چاندی کے ہوتے،
”وَ زُخۡرُفًا“
اور سونے کے۔
اس کا معنی یہ نہیں کہ سارے چاندی یا سارے سونے کے، مطلب کہ کچھ سونے کے کچھ چاندی کے۔ جیسے ہمارے عرف میں کہتے ہیں سونے اور چاندی کے برتن․․․ تو اس کامعنی یہ نہیں ہوتا کہ سارے سونے کے ہیں یا صرف پلیٹیں سونے کی ہیں۔
تو اللہ فرما رہے ہیں کہ ہمارا نظام ایسا ہے کہ کچھ مسلمان ہوں گے اور کچھ کافر۔ اگر یہ نظام نہ ہونا ہوتا تو ہم کافروں کو اتنا مال دیتے کہ دنیا میں سارے لوگ کافر ہو جاتے لیکن مال کی کثرت ہم ہر کافر کو نہیں دیتے کہ جو بھی کافر ہو گا تو اس کو مال خوب دیں گے ورنہ اس طرح تو ہر بندہ کافر ہو جائے گا۔ اس لیے ایسا نہیں ہوتا۔
﴿ وَ اِنۡ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ رَبِّکَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۳۵﴾﴾
یہ سب دنیا کے فائدے کی چیزیں ہیں اور اصل آخرت ہے جو اللہ متقین کو عطا فرمائیں گے۔
دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں:
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ“ کہ اگر اللہ کے ہاں دنیا کی قیمت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو”مَا سَقٰى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ“اللہ کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔
سنن الترمذی، رقم: 2320
چونکہ خدا کے ہاں دنیا کی قیمت نہیں ہے اس لیے کفار کو دے دیتے ہیں۔ لیکن جو کافر ہو اس کو خوب مال دیں یہ بھی نہیں ورنہ تو سارے لوگ کا فر ہو جاتے۔
﴿وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ ﴿۳۶﴾ وَ اِنَّہُمۡ لَیَصُدُّوۡنَہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿۳۷﴾﴾
جو ضد کی وجہ سے اللہ کے ذکر کو چھوڑ دیتا ہے، اللہ کی بات کو نہیں مانتا تو اللہ اس پر شیطان مسلط فرما دیتے ہیں۔ وہ شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور شیطان اس کو سیدھے راستے سے ہٹاتا ہے اور یہ بندہ سمجھتا ہے کہ وہ ہدایت پر ہے حالانکہ ہدایت پر نہیں ہوتا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
﴿حَتّٰۤی اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیۡتَ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکَ بُعۡدَ الۡمَشۡرِقَیۡنِ فَبِئۡسَ الۡقَرِیۡنُ ﴿۳۸﴾ وَ لَنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡیَوۡمَ اِذۡ ظَّلَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ فِی الۡعَذَابِ مُشۡتَرِکُوۡنَ ﴿۳۹﴾﴾
جب قیامت کا دن ہو گا تو یہ اپنے اس شیطان ساتھی سے کہے گا کہ کا ش! میرے اور تمہارے درمیان مشرق اورمغرب کا فاصلہ ہوتا کیونکہ تو بہت برا ساتھی ہے․․․ لیکن تم لوگ اپنے آپ پر ظلم و ستم کر چکے ہو آج تمہاری اس حسرت سے کوئی فرق نہیں پڑےگا، آج تم اس عذاب میں اکٹھے شریک ہو گے۔
﴿اَفَاَنۡتَ تُسۡمِعُ الصُّمَّ اَوۡ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۴۰﴾﴾
اے نبی! کیا آپ بہروں کو سنائیں گے؟ کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھائیں گے؟ کیا آپ ان لوگوں کو راہِ راست پر لائیں گے جو کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں؟
برے دوست سے اجتناب:
دوستی بری چیز نہیں ہے لیکن دوست ایسا بناؤ جو اچھا ہو اور کسی بندے کو پرکھنا ہو کہ بندہ کیسا ہے، اس کا معیار کیسا ہے تو آپ اس کے دوستوں کو دیکھ لو۔ کسی شاعر کا شعر ہے:
عَنِ الْمَرْءِ لَا تَسْأَلْ وَ أَبْصِرْ قَرِيْنَهٗ
وَ كُلُّ قَرِيْنٍ بِالْمُقَارَنِ مُهْتَدِيْ
اگر دیکھنا ہو کہ بندہ کیسا ہے تو اس کے دوست دیکھو، اس لیے کہ بندہ اپنے دوستوں کے نقشِ قدم پر چلتا ہے۔
ایسا ممکن نہیں ہے کہ بندہ خود اچھا ہو اور دوست اس کے برے ہوں، اس کے دوست اچھے ہی ہوں گے اور جو دوستی کے لیے برے کو پسند کرتا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ یہ نام کا اچھا ہے، اس کی فطرت میں اچھائی نہیں ہے، ورنہ اپنے دوست ہمیشہ اچھے رکھتا۔
وفات کے بعد اچھا تذکرہ:
﴿وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ وَ سَوۡفَ تُسۡـَٔلُوۡنَ ﴿۴۴﴾﴾
میرے پیغمبر! یہ جو قرآن کریم ہے یہ آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے نیک نامی کا ذریعہ ہے، ایک شرف کی چیز ہے۔ یعنی لوگ قرآن پڑھتے رہیں گے تو آپ کا تذکرہ ہوتا رہے گا، یہ آپ کے لیے شرف کا باعث ہے اور آپ کی قوم کے لیے شرف کا باعث ہے۔
اس آیت سے بعض مفسرین نے استدلال فرمایا ہےکہ کسی بندے کی اچھی شہرت ہونا اور اس کی موت کے بعد اچھے لفظوں سے اس کا تذکرہ ہونا یہ بری بات نہیں ہے، یہ اچھی بات ہے۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی:
﴿وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾﴾
کہ اے اللہ! میں وفات پا جاؤ ں تو اس کے بعد لوگ مجھے اچھے لفظوں میں یاد کریں۔
اللہ! لوگوں کی نظروں میں مجھے بڑا بنا دے
یہ بات یاد رکھنا! نیک عمل کرنا تاکہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں یہ تو رِیا ہے لیکن نیک عمل کرنا تاکہ اللہ راضی ہو جائے اور یہ خواہش ہو کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں یہ رِیا نہیں ہے، یہ پسندیدہ امر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہتمام کیا ہے، اسباب جمع کیے ہیں کہ میری دعوت لوگ قبول کریں، اسباب میں سے ایک سبب دعا ہے اور ایک دعا یہ ہے:
وَاجْعَلْنِىْ فِىْ عَيْنِىْ صَغِيْرًا وَفِىْ أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيْرًا.
جامع الاحادیث: جزء 6 ص103 رقم الحدیث 4801
اے اللہ! مجھے اپنی نگاہ میں چھوٹا بنا دے اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنا دے۔
لوگ بڑاسمجھیں گے تو بات قبول کریں گے، اگر بڑا نہیں سمجھیں گے تو بات قبول کیسے کریں گے؟! لیکن ”فِىْ أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيْرًا“ کے لیے ضروری ہے کہ
”فِىْ عَيْنِىْ صَغِيْرًا“
ہو۔ جو
”فِىْ عَيْنِىْ صَغِيْرًا“
ہوتا ہے وہ
”فِىْ أَعْيُنِ النَّاسِ كَبِيْرًا“
ہوتا ہے، جو بندہ اپنی نگاہ میں چھوٹا ہوتا ہے اللہ اس کو دوسروں کی نگاہ میں بڑا کر دیتےہیں اور جو اپنی نگاہ میں خود کو بڑا سمجھے اللہ اس کو دوسروں کی نگاہ میں چھوٹا اور ذلیل کر دیتے ہیں۔
نوافل مسجد میں پڑھنے کی نصیحت:
حضرت امام صاحب نے اپنے ایک شاگرد کو وصیت فرمائی کہ واپس جاؤ تو نوافل مسجد میں پڑھنا، تو لوگ نوافل کی وجہ سے تمہیں نیک سمجھیں گے اور پھر تجھ سے مسائل پوچھیں گے۔ اب دیکھیں اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے نیک سمجھ کر مجھے ہدیے دیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ مجھے اچھا سمجھیں گے تو مجھ سے مسائل پوچھیں گے۔ شریعت میں یہ مطلوب ہے۔
حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی رحمہ اللہ کے ایک مرید نے کہا کہ حضرت! میں دکان پر بیٹھا ہوتا ہوں، جب گاہک نہیں ہوتے تو بسا اوقات وقت لغویات اور فضولیات میں گزر جاتا ہے، حضرت میں کیا کروں؟! فرمایا : تسبیح ہاتھ میں رکھ لو، جب گاہک نہ ہوں تو تسبیح پڑھ لیا کرو۔ اس نے پھر خط لکھا کہ حضرت! میں تسبیح تو پڑھتا ہوں لیکن میرے دل میں وسوسہ آتا ہے کہ لوگ مجھے بہت اچھا سمجھتے ہیں۔ تو اس پر حضرت نے فرمایا کہ پھر تم کیا چاہتے ہو کہ لوگ تمہیں برا سمجھیں؟! بھائی اس پر تو تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ تم تسبیح اللہ کے لیے کرتے ہو لوگوں کے لیے نہیں کرتے لیکن اس کا اللہ نے دنیامیں نفع تمہیں یہ دیا کہ لوگ اچھا سمجھنے لگے، تو اس میں حرج کی بات کیا ہے؟
ہم علم پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں کہ اللہ راضی ہو جائیں، ہماری آخرت ٹھیک ہوجائے، شریعت پر عمل کی توفیق مل جائے اور اس کا دنیا میں فائدہ یہ ہے کہ لوگ بھی اچھا سمجھتے ہیں تو اس میں حرج کی بات کیا ہے؟ ایک ہوتا ہے پڑھنا پڑھانا تاکہ لوگ اچھا سمجھیں، ایک ہوتا ہے پڑھنا پڑھانا تاکہ اللہ راضی ہو اور اللہ اس کا نتیجہ دیتے ہیں کہ لوگ بھی اچھا سمجھتے ہیں۔ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا ﴿۹۶﴾﴾
مریم 19: 96
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اللہ ان کے لیے محبت کی فضا بنا دیتے ہیں۔
اللہ اعلان فرماتے ہیں کہ اے ملائکہ! میں فلاں بندے سے پیار کرتا ہوں تم بھی کرو، پھر ملائکہ دیگر مخلوق میں اعلان کرتے ہیں کہ اس سے خدا پیار کرتے ہیں تم بھی کرو، وہ آواز اتنی پھیلتی ہے کہ لوگ اس کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔
دونوں میں فرق اچھی طرح سمجھ لو! اس وجہ سے عمل کرنا کہ لوگ اچھا سمجھ لیں یہ تو رِیا ہے لیکن عمل کرنا اللہ کے لیے اور لوگ بھی اچھا سمجھ لیں تو یہ محمود ہے․․․ یہ مذموم نہیں ہے۔ اور حدیث پاک میں بھی ہے:
لَا يَنْبَغِيْ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ.
سنن الترمذی، رقم: 2254
کہ مؤمن کے لیے اپنے نفس کو ذلیل کرنا جائز نہیں ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ کاابتلاء:
ایک یہ ہے کہ آپ دین کا کام کرتے ہیں اور اس کا م میں ذلت آتی ہے تو پھر پیچھے نہ ہٹیں، اس کو پھر برداشت کریں۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ طلاق مکرہ یعنی جبراً طلاق واقع نہیں ہوتی۔ احناف کے ہاں جبری طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا :
”طَلَاقُ الْمُکْرَہِ لَیْسَ بِشَیٍءْ “
حاکمِ مدینہ نے کہا کہ تمہارا فتویٰ غلط ہے۔ حضرت نے کہا کہ جو فتویٰ دیا ہے میں اس پر قائم ہوں۔ ایک وقت تھا کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ روزانہ نیا سوٹ پہنتے تھے اور جو جوڑا ایک بار پہنتے وہ زندگی میں دوبارہ نہیں پہنتے تھے۔ اپنے شاگردوں کے جھرمٹ میں باہر نکلتے عجیب شاہانہ انداز میں آ کر مسندِ حدیث پر بیٹھتے اور درس دیتے اور ہزاروں لوگ ان کا درس سننے کے لیے آتے۔ لیکن ایک وقت یہ بھی آیا حضرت امام مالک رحمہ اللہ کو سزا کے طور پر اونٹ پر بٹھا کر مدینے کی گلیوں میں پھرایا گیاامام مالک رحمہ اللہ گرج برس کر بولنے لگے:
” أَلَا مَنْ عَرَفَنِيْ فَقَدْ عَرَفَنِيْ“
جو مجھے جانتا ہے وہ تو مجھے جانتاہے
”وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِيْ فَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ“
اور جو نہیں جانتے وہ سن لیں کہ میں مالک ابن انس ہوں،
”وَأَنَا أَقُوْلُ طَلَاقُ الْمُکْرَہِ لَیْسَ بِشَیٍءْ “
میں کہتا ہوں کہ طلاق مکرہ واقعی نہیں ہوتی۔
حلیۃ الاولیاء: ج6 ص345 ترجمہ مالک بن انس
یہ ہوتا ہے امام ربانی۔ بظاہر تھوڑی سی ذلت آئی اور دین کو چھوڑ دیا تو یہ کون سا عالم ہے؟ تھوڑی سی گرفتاری آئی تو دین کو بدل دیا یہ کون سا عالم ہے؟ یہ لعنت کا مستحق ہے یہ مولوی تھوڑا ہو سکتا ہے! ہمیشہ اللہ کی نعمتیں کھاتے ہو، کبھی تھوڑی سی مصیبت آئے تو برداشت کرو، بچپن سے لے کر ڈاڑھی سفید ہو گئی اللہ کے نام پر صدقات کھاتے ہیں، بکرے چھترے کیا کچھ ہم نے نہیں کھایا ․․․ اس لیے خدا کے نام پر تھوڑی سی جیل آ جائے تو پیچھے مت ہٹو! ذلت آئے تو برداشت کرو! ڈٹ جاؤ دین پر!
اکابر کا ابتلاء اور ثابت قدمی:
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ -جن کے ہم مقلد ہیں- چار سال آخری عمر کے آپ نے جیل کاٹی ہے اور جیل سے ہی جنازہ اٹھا ہے لیکن ہمارے امام موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کوڑے کھائے لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ میں اس لیے کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن جب اللہ کے دین کے لیے ذلت اٹھانی پڑے تو اسی ذلت میں ہمارے لیے عزت ہے، یہ موت کے بعد فیصلے ہوں گے، دنیا میں فیصلے نہیں ہوا کرتے، دنیا امتحان کی جگہ ہے۔
ما معذورم کہ ما را ننگ است!
علامہ سعد الدین تفتازانی علم الکلام، معانی، بیان، بدیع، صرف، نحو، منطق کے ایک جید عالم تھے۔ ان کو تیمور لنگ بادشاہ نے بلایا ملاقات کے لیے۔ تیمور لنگ بادشاہ کی ٹانگ میں عذر تھا، زخم آیا تو ٹانگ ایسی ہو گئی کہ فولڈ نہیں ہوتی تھی بلکہ سیدھی رہتی تھی۔ لنگ کا معنی کہ تھوڑے سے لنگڑے تھے۔ بادشاہ تخت پر بیٹھے اور ٹانگ سیدھی کر کے بیٹھے۔ جب علامہ تفتازانی آئے تو بادشاہ کی طرف سیدھی ٹانگ کر کے بیٹھے۔ تیمور لنگ نے کہا: ما معذورم کہ ما را لنگ است، میرا تو عذر ہے کہ میں لنگڑا ہوں۔ علامہ فرمانے لگے: ما معذورم کہ ما را ننگ است، میری مجبوری ہے کہ غیرت مند ہوں۔ یہ ہوتے تھے علماء․․․ جب تک علماء ایسے تھے دین تباہ نہیں ہوا اور جب ہم جیسے ہوئے تو دین تباہ ہو گیا۔ اس لیے اللہ کے لیے اٹھ جاؤ! اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ! کچھ نہیں ہوتا، ذلت اور عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے، رزق کے دروازے اللہ کے ہاتھ میں ہیں، سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
مسئلہ ٹھیک بیان کرو!
مسئلہ ٹھیک بیان کرو اور میں آپ کی خدمت میں بار ہا عرض کر چکا ہوں کہ مسئلہ غلط کبھی بیان نہ کرنا! اگر ایمان اتنا کمزور ہے کہ طاقت اور مخالفت برداشت نہیں کر سکتے تو خاموش ہو جاؤ لیکن غلط مسئلہ بیان نہیں کرنا۔ دیکھو! ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت بعد کے لوگ ہیں، ہمارے تھوڑے سے ڈٹ جانے پر بہت مدد آنی ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے کئی نبی ایسے گزرے ہیں کہ جن کا کلمہ گو ایک بندہ بھی نہیں ملتا اور آج علماء میں سے ایسے نہیں ہیں کہ جن کا ماننے والا کوئی نہ ہو، اس کے ماننے والے پیدا ہو جاتے ہیں۔
آخر وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ نبی کا ایمان اس مقام پر ہوتا ہے کہ ایک بھی اس کا ماننے والا نہ ہو تو اس کے ایمان میں تزلزل نہیں آتااور امتی کا ایمان کمزور ہوتا ہے، اس کی محنت پر لوگ نہ جڑیں تو بیچارہ پریشان ہو جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اس کی تھوڑی سی محنت پر ظاہری نتیجہ بہت عطا فرما دیتے ہیں اور نبی بسا اوقات بہت محنت کرتا ہے لیکن ظاہری نتیجہ نہیں نکلتا چونکہ پیغمبر کے ایمان میں تزلزل نہیں آتا،پاؤں نہیں ڈگمگاتے اور ہماری محنت پر نتیجہ نہ ہو تو پھر پریشانی ہو جاتی ہے تو اللہ اس پریشانی سے بچانے کے لیے تھوڑی محنت پر نتیجہ بہت عطا فرما دیتے ہیں۔پھر بے وقوف وہ ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ میری محنت ہے میں نے ایسا کیا ہے، اس نے ایسا نہیں کیا ہوتا بلکہ اللہ کا خاص کرم متوجہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک اس سے کام لے لیتے ہیں۔ تو کام بھی کریں اور دعائیں بھی مانگیں، اللہ تعالیٰ بہت عطا فرمائیں گے۔
نبی کی وحی اپنی قوم کی زبان میں ہوتی ہے:
﴿وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ﴾․․․
فرمایا اے میرے پیغمبر! یہ قرآن کریم آپ کے ذکر کا ذریعہ ہے اور آپ کی قوم کے ذکر کا ذریعہ بھی ہے۔ یہاں
”وَ لِقَوۡمِکَ“
سے مراد بعض کہتے ہیں کہ آپ کی قوم قریش ہے، بعض کہتے ہیں کہ مراد پوری امت ہے، صحیح بات یہی ہے کہ مراد قریش ہی ہونے چاہییں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لفظ ”قوم“ آیا ہے اور پیغمبر اپنی قوم کی زبان میں بات کرتا ہے، تو اگر مراد پوری امت ہوتی تو کئی زبانوں میں بات کرتے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو ہمیشہ عربی میں فرمائی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ ﴾
ابراہیم 14: 4
نبی کی وہی زبان ہوتی ہے جو نبی کی قوم کی زبان ہے، نبی پر وحی اسی زبان میں آتی ہے جو نبی کی قوم کی زبان ہوتی ہے۔
ایک مرزا قادیانی بدبخت ایسا ہے کہ جس کی وحی کی زبانیں کم از کم سات ہیں۔ اس کا معنی کہ اس کی پھر قومیں بھی سات ہوں گی اور جس بندے کی قوم ایک نہیں بلکہ سات ہوں وہ حلال زادہ نہیں بلکہ حرام زادہ ہوتا ہے۔ اگر قوم ایک ہو تو وحی کی زبان بھی ایک ہوتی ہے اور وحی کی زبانیں کئی ہوں تو پھر قومیں بھی کئی ہوتی ہیں اور حرام زادہ کبھی نبی نہیں ہو سکتا۔
حضور علیہ السلام کا پہلے انبیاء سے سوال:
﴿وَ سۡـَٔلۡ مَنۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلۡنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعۡبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾﴾
اے پیغمبر! آپ پہلے انبیاء علیہم السلام سے پوچھیں کہ ہم نے اپنے علاوہ کسی اور کو خدا بنایا ہے کہ جس کی عبادت کی جائے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے انبیاء علیہم السلام سے کیسے پوچھیں؟ لیلۃ المعراج میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء علیہم السلام کے امام بنے ہیں اس وقت آپ نے پوچھا، یا انبیاء علیہم السلام سے پوچھنے سے مراد یہ ہے انبیاء علیہم السلام کے جو صحیفے اور کتابیں ہیں اس میں آپ دیکھیں کہ کسی غیر خدا کو کبھی خدا بنایا ہے؟
قومِ فرعون کی سرکشی:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَقَالَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۶﴾ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا ہُمۡ مِّنۡہَا یَضۡحَکُوۡنَ ﴿۴۷﴾ وَ مَا نُرِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکۡبَرُ مِنۡ اُخۡتِہَا ۫ وَ اَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡعَذَابِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۴۸﴾﴾
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو دعوت دی کہا کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں۔ جب موسیٰ علیہ السلام یہ دلائل لے کر آئے تو ان لوگوں نے مذاق اڑایا، ہم ان کو اپنی جو بھی نشانی دکھاتے تو وہ پہلی نشانی سے بڑھ کر ہوتی تھی، پھر ہم نے ان کو عذاب دیا تاکہ یہ باز آجائیں․․․ پھر بھی باز نہیں آئے۔
﴿وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۴۹﴾﴾
وہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے: اے جادوگر! جو آپ کے خدا نے آپ کے ساتھ وعدہ کیا ہے وہ اللہ سے مانگیں! وہ وعدہ یہ ہے کہ اگر ہم باز آ جائیں تو عذاب ٹل جائے گا۔
﴿اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ﴾
اگر آپ نے دعا کی اور عذاب دور ہو گیا تو ہم سیدھی راہ پر آ جائیں گے۔
یہ جوان لوگوں نے
﴿یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ﴾
کہا تھا اس کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بظاہر لگتا ہے کہ انہوں نے قصداً نہیں کہا تھا، بس ان کو عادت پڑی ہوئی تھی اس عادت کی وجہ سے اس کے منہ سے نکلا کیونکہ بندہ ایسے موقع پر ایسا جملہ نہیں کہتا، وہ تو عذاب ٹلنے کی دعا کرا رہے تھے
﴿ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ﴾
کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ جو اللہ کا آپ کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم باز آ جائیں گے تو عذاب ٹل جائے گا، ہم باز آتے ہیں آپ اللہ سے عذاب ٹلوا دیں۔ تو ایسے موقع پر تو بندہ ایسا لفظ استعمال نہیں کرتا لیکن بسا اوقات بعض لفظ زبان پر چل رہے ہوتے ہیں تو وہ خود بخود نکل جاتے ہیں، مقصد انہیں ادا کرنا نہیں ہوتا۔
﴿فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُمُ الۡعَذَابَ اِذَا ہُمۡ یَنۡکُثُوۡنَ ﴿۵۰﴾﴾
جب ہم ان سے عذاب کو دور کر دیتے تو وہ اپنا کیا ہوا وعدہ توڑ ڈالتے۔
فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ دیکھو! میں بادشاہ ہوں، میرے محل کے نیچے سے نہریں نکلتی ہیں، تم دیکھتے نہیں ہو! میں بہتر ہوں یا یہ بندہ بہتر ہے جس کی معاشرے میں کوئی عزت بھی نہیں ہے،
﴿وَّ لَا یَکَادُ یُبِیۡنُ﴾
اور قوتِ بیان اس میں نہیں ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام فصیح اللسان تھے تو پھر اس نے یہ کیوں کہا؟․․․ یا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ جو پرانی بچپن کی باتیں تھیں فرعون نے انہی کو دہرایا․․․ یا اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ مجھے متاثر کر سکے۔ یہ بات فرعون نے ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے کہی تھی۔
﴿فَلَوۡ لَاۤ اُلۡقِیَ عَلَیۡہِ اَسۡوِرَۃٌ مِّنۡ ذَہَبٍ اَوۡ جَآءَ مَعَہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ مُقۡتَرِنِیۡنَ ﴿۵۳﴾﴾
فرعون کہتا ہے کہ جب بادشاہ کسی سے خوش ہوتا ہے تو اس کو کنگن پہناتا ہے، اگر اس کا خدا اس سے خوش ہے تو اس کو تو کوئی کنگن نہیں پہنائے! خدا اس سے کیسے راضی ہے؟ اور اگر یہ خدا کا نمائندہ ہے تو بادشاہ کے نمائندے کے ساتھ فوج ہوتی ہے، یہ کیسانمائندہ ہے کہ ا س کے ساتھ ملائکہ کی فوج ہمیں نظر نہیں آتی! فرعون یہ ساری باتیں اپنی قوم کو دھوکہ دینے کے لیے کہہ رہا تھا۔
﴿فَاسۡتَخَفَّ قَوۡمَہٗ فَاَطَاعُوۡہُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ ﴿۵۴﴾﴾
فرعون نے اپنی قوم کو بے وقوف بنایا اور قوم نے اس کی بات کو مان لیا۔
﴿فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾ فَجَعَلۡنٰہُمۡ سَلَفًا وَّ مَثَلًا لِّلۡاٰخِرِیۡنَ ﴿٪۵۶﴾﴾
﴿فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا﴾ ”
جب انہوں نے ہمیں مایوس کر دیا“ اللہ رب العزت مایوس نہیں ہوتے کیونکہ اللہ صفتِ انفعال سے پاک ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول ایسا ہو گیا کہ چھوٹا ایسی حرکتیں کرے کہ جس سے بڑا مایوس ہو جائے، جب ایسا ماحول پیدا ہو گیا، تو پھر ہم نے ان سے انتقام لیا اور ہم نے تمام کو ختم کر دیا۔ اب یہ پہلے اور بعد والوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئے۔
عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اور قوم کا شور شرابا:
﴿وَ لَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوۡمُکَ مِنۡہُ یَصِدُّوۡنَ ﴿۵۷﴾﴾
جب حضرت عیسیٰ بن مریم کی مثال دی گئی تو آپ کی قوم کے لوگ شور کرنے لگے۔
حدیث مبارک میں ہے کہ ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَا خَيْرَ مَعَ أَحَدٍ يُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ.
شرح مشکل الآثار: ج3 ص17 رقم الحدیث987
کہ اللہ کے علاوہ جس کی پوجا ہوتی ہے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔
اس پر مشرکین نے کہا کہ عیسائی تو عیسیٰ علیہ السلام کی پوجا کرتے ہیں تو کیا عیسیٰ علیہ السلام میں بھی خیر نہیں ہے حالانکہ مسلمان خود مانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی اور نیک بندے تھے۔ تو ان کے اس اعتراض پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جب قرآن کریم کی آیت اتری
﴿اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ﴾
الانبیاء21: 98
کہ تم لوگ اور جس کی پوجا تم کرتے ہو، سب جہنم کا ایندھن بنو گے۔
تو ایک شخص تھا عبداللہ بن الزِّبعری جو اس وقت کافر تھا، اس نےکہا کہ میرے پاس اس آیت کا جواب ہے، وہ یہ کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی پوجا کرتے ہیں، یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کی پوجا کرتے ہیں تو کیا وہ بھی جہنم میں جائیں گے؟ اس پر مشرکین بہت خوش ہوئے۔ اس وقت قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤی ۙ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ﴾
الانبیاء21: 101
کہ جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی لکھی جا چکی ہے وہ اس جہنم سے دور ہوں گے، اور سورۃ الزخرف کی یہ آیت بھی نازل ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ․․․
نمبر1 : وہ پتھر جن کی تم پوجا کرتے ہو یہ جہنم کا ایندھن ہیں، وہ بے جان مورتیاں جن کی تم عبادت کرتےہو یہ جہنم کا ایندھن ہیں، ان میں کوئی خیر نہیں ہے۔
نمبر2 : وہ لوگ جو اپنی عبادت خود کروائیں ان میں بھی خیر نہیں ہے۔ عیسیٰ السلام نے اپنی عبادت کا کبھی نہیں فرمایا، عزیر علیہ السلام نے کبھی نہیں فرمایا، بلکہ وہ تو کہتے تھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے خدا نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔
تو
”لَا خَيْرَ مَعَ أَحَدٍ يُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللهِ“
سے مراد وہ پتھر ہیں جن کی پوجا کی جائے یا وہ لوگ جو اپنی عبادت خود کروائیں جیسے فرعون کرواتا تھا، اس لیے اس کا حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر علیہما السلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
﴿وَ قَالُوۡۤاءَ اٰلِہَتُنَا خَیۡرٌ اَمۡ ہُوَ ؕ مَا ضَرَبُوۡہُ لَکَ اِلَّا جَدَلًا ؕ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ خَصِمُوۡنَ ﴿۵۸﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا عَبۡدٌ اَنۡعَمۡنَا عَلَیۡہِ وَ جَعَلۡنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۵۹﴾ وَ لَوۡ نَشَآءُ لَجَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ مَّلٰٓئِکَۃً فِی الۡاَرۡضِ یَخۡلُفُوۡنَ ﴿۶۰﴾﴾
وہ کہنے لگے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ایک خدا بہتر ہے؟ یہ لوگ سب مثالیں جھگڑے کی ہی دے رہے ہیں کیونکہ یہ ہیں ہی مزاج کے جھگڑالو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو ایک بندہ تھا، جس پر ہم نے انعام کیا اوربنی اسرائیل کے لیے اس کو بہترین نمونہ بنا دیا۔ تم عیسیٰ علیہ السلام کی بات کرتے ہو کہ بغیر باپ کے کیسے پیدا ہوئے؟ ہم اگر چاہیں تو تم سے فرشتوں کو پیداکر دیں۔ جو زمین میں ایک دوسرے کے جانشین بن کر رہیں گے۔لیکن یہ ہم کرتے نہیں ہیں اور نہ ہی ہماری یہ ترتیب ہے۔
سلام متارکت کا معنی:
﴿وَ قِیۡلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمٌ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۘ۸۸﴾ فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ؕ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿٪۸۹﴾﴾
﴿وَ قِیۡلِہٖ﴾
کی کئی تفسیریں ہیں۔ ایک تفسیر کے مطابق اس میں واؤعاطفہ ہے اور اس کا عطف ہے
﴿السَّاعَۃِ﴾
پر۔ معنی یہ ہو گا
﴿وَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ﴾
کہ قیامت کا علم بھی اللہ کےپاس ہے اور اپنے پیغمبر کی اس بات کا علم بھی اللہ کے پاس ہے کہ جب پیغمبر نے کہا:
﴿یٰرَبِّ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمٌ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ﴾
کہ میرے رب! یہ قوم ایسی ہے مجھ پر ایمان نہیں لاتی۔ اللہ نے فرمایا:
﴿فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ﴾
ان سے درگزر کریں،
﴿وَ قُلۡ سَلٰمٌ﴾
اور ان لوگوں سے کہیں کہ تمہارا راستہ اپنا ہے میرا راستہ اپنا ہے۔
جب آپ کا مد مقابل ضدی ہو اور آپ کی بات نہ مانے تو اس کو ”سلام“ کہہ دیں۔ اس سلام کا معنی یہ نہیں ہے کہ کافر کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں، اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا۔ سورۃ الفرقان میں ہے:
﴿وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا﴿۶۳﴾ ﴾
یہ جو سلام اور سلاما فرمایا یہ ایک محاورہ ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں ”اوبابا! معاف کر“ اب اس کا معنی کیا ہوتا ہے کہ آپ اس سے معافیاں مانگ رہے ہیں؟ نہیں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ہم تجھ سے بات نہیں کر سکتے۔ یہ کلام عرب کا محاورہ ہے کہ جب کسی سے بات نہ کرنی ہو کہا سلام، سلام، سلام․․․ بس جان چھوڑو ہماری!
یہ سلام محاورہ ہے۔ اگر کوئی بندہ اس سے استدلال کرتا ہے کہ کافر کو سلام کرنا جائز ہے تو ایسا بندہ عربی زبان تو سمجھتا ہے لیکن عربی زبان کے محاورے نہیں سمجھتا۔قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان اور عربی زبان کے محاوروں کا سمجھنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․