سورۃ الجاثیۃ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سورۃ الجاثیۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿حٰمٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۲﴾ اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ﴿۳﴾﴾
دلائل توحید:
یہاں شروع میں اللہ تعالیٰ نے دلائلِ توحید بیان فرمائے ہیں اور طرز میں تنوع رکھا ہے، الگ الگ طرز اختیار ہے۔ فرمایا: حٰم، یہ کتاب اس اللہ کی جانب سے نازل کردہ ہے جو غالب حکمت والا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے دلائل ہیں۔
﴿وَ فِیۡ خَلۡقِکُمۡ وَ مَا یَبُثُّ مِنۡ دَآبَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾﴾
اور تمہیں پیدا کرنے میں اور جانوروں کے پیدا کرنے میں دلائل ہیں ان کے لیے جو یقین رکھتے ہیں۔
﴿وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ رِّزۡقٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۵﴾﴾
دن اور رات کے آنے جانےمیں اور جو رزق خدا نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا، اور ہواؤں کے چلنے میں دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔
یہاں یہ سمجھیں کہ تین لفظ الگ الگ لائے ہیں:
﴿لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ .... اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ... اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴾
اس کی وجہ یہ ہے کہ طبقات تین ہیں:
پہلا طبقہ: بعض وہ لوگ ہیں جو ایمان لا چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ دلائل تو ان کے لیے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں، یعنی اصل فائدہ ان کو ہے۔
دوسرا طبقہ: جو ایمان تو نہیں لایا لیکن اس کو یقین ہے کہ یہ دلائلِ توحید ہیں، اس کو بھی نفع ہو گا کہ وہ ایمان لے آئے گا۔
تیسراطبقہ: وہ ایمان بھی نہیں لایا اور یہ دلائل توحید ہیں اس پر یقین بھی نہیں رکھتا لیکن اس کے پاس عقلِ سلیم موجود ہے، ایک وقت آئے گا کہ وہ یقین بھی کرے گا اور ایمان بھی لائے گا۔
اور وہ بندہ جو ایمان بھی نہیں لایا، جس کو یقین بھی نہیں ہے اور جس کے پاس عقلِ سلیم بھی نہیں ہے تو یہ شخص گمراہ ہے۔ آگے اس کا ذکر فرمایا:
﴿فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴾
کہ اس کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔
قرآن کریم سے فائدہ کب ہو گا؟
تو اس قرآن کریم سے فائدہ کب ہے؟ جب اس پر ایمان لائے یا ایمان تو نہیں لایا لیکن اس کو یقین ہے کہ دلائلِ توحیدہیں، یہ یقین اس کو ایمان پر لے آئے گا، اور اگر ایمان بھی نہیں اور یقین بھی نہیں ہے لیکن عقل سلیم ہے، وہ سمجھتا ہے اور غور کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا کہ وہ یقین بھی کرے گا اور ایمان بھی لائے گا۔
ایام اللہ کا معنی:
﴿قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَغۡفِرُوۡا لِلَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ اَیَّامَ اللہِ لِیَجۡزِیَ قَوۡمًۢا بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
فرمایا: ان ایمان والوں سے کہہ دو کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو ایام اللہ کی امید نہیں رکھتے یعنی قیامت کے دن کو نہیں مانتے۔
یہاں لفظ ہے
”اَیَّامَ اللہِ“...
ایام کا معنی ہمیشہ دن نہیں ہوتا بلکہ محاورات میں ایام، معاملات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہاں اس سے وہ معاملات مراد ہیں جو قیامت کے دن اللہ اپنے بندوں سے فرمائیں گے۔ مؤمنین کے ساتھ ایک معاملہ اور کفارکے ساتھ دوسرا معاملہ، مؤمنین کے ساتھ رحمت والا معاملہ اور کفارکے ساتھ عذب والا معاملہ۔
یہاں یہ بات بھی فرمائی جا سکتی تھی کہ ایمان والے ان لوگوں سے درگزر کریں جو ایمان نہیں لائے، لیکن اس طرز کے بجائے یہ طر ز اختیار کیا کہ ایمان والے ان لوگوں سے درگزر کریں جو آخرت کی امید نہیں رکھتے، جو قیامت کے دن کو نہیں مانتے ... اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص امید نہ رکھتا ہو اور اچانک اس پر تکلیف آئے تو تکلیف بہت سخت ہوتی ہے اور اگر کسی تکلیف کے لیے بندہ پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہو تو وہ اتنی سخت نہیں ہوتی۔ تو یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کے لیے عذاب بہت سخت ہو گا جس کی ان کو توقع بھی نہیں ہے، ان کو امید بھی نہیں ہے، جب اچانک پکڑے جائیں گے تو پھر یہ کہیں گے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہوا؟
کسی بندے سے آپ کو توقع ہو کہ میں اس کے پاس جاؤں گا اور وہ مجھے برا بھلا کہے گا تو آپ ذہنی طور پر تیا رہو کر جائیں گے۔ اب اگر وہ برا بھلا بھی کہے گا تو آپ کو تکلیف تو ہو گی لیکن کم ہو گی کیونکہ آپ پہلے سے ذہنی طور پر تیار گئے ہیں اور اگر یہ ذہن میں ہو کہ میں جاؤں گا تو جاتے ہی وہ کھانا کھلائے گا لیکن آپ گئے تو اس نے گالی دے کر آپ کو باہر پھینک دیاتو بتائیں کتنی تکلیف ہو گی کہ یار ہم نے کیا سوچا تھا اور یہ کیا ہوا؟ اس لیے یہاں فرمایا:
”لَا یَرۡجُوۡنَ“
آیت کا شانِ نزول:
یہ آیت
﴿قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَغۡفِرُوۡا لِلَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ﴾
کب نازل ہوئی؟ اس بارے میں بعض کہتے ہیں کہ مکہ میں نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ مدینہ میں نازل ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مکہ میں کسی نے بہت سخت باتیں کیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جی چاہا کہ میں اس سے انتقام لوں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم انتقام نہ لو بلکہ تم درگزر کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس واقعے کے مطابق یہ آیت مکی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔غزوہ بنی مصطلق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ایک کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالا جس کا نام مریسیع تھا۔ عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق بھی اس لشکر کے ساتھ تھا۔ اس نے اپنے غلام کو بھیجا کنویں پر پانی لینے کے لیے، وہ دیر سے آیا تو ا س نے پوچھا کہ دیر سے کیوں آیا ہے؟اس نے کہا کہ وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام موجود تھا اور اس نے کسی کو بھی پانی بھرنے نہیں دیا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مشکیزے نہیں بھرے گئے۔ مجھے اس وجہ سے دیر ہو گئی۔
اس پر عبد اللہ بن ابی ابن سلول بدبخت نے بہت سخت جملہ کہا تھا، اس نے کہا کہ ہم پر اور ان پر یہ مثال سچی آتی ہے
”سَمِّنْ کَلْبَکَ یَاْکُلْکَ“
العیاذ باللہ، العیاذ باللہ، ہمیں تو اس کا ترجمہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، اس نے کہا کہ اپنے کتے کو خوب موٹا کرو کیونکہ یہ کل تجھے ہی کھائے گا۔ اس نے کتنا غلط یہ محاورہ استعمال کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پتا چلا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس کی گردن اڑاتا ہوں۔ جبرائیل امین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے یہ آیت لے کر
﴿قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَغۡفِرُوۡا لِلَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ﴾
بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے؛ ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں۔
نزولِ مکرر کا معنی:
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھیں؛ اسے کہتے ہیں نزول مکرر کہ آیت مکہ میں بھی نازل ہوئی اور مدینہ میں بھی نازل ہوئی۔سوال یہ ہے کہ آیت تو ایک بار نازل ہو گئی، دو بار نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دومرتبہ نزول کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آیت نازل تو ہوتی ہے ایک مرتبہ، دوسری مرتبہ نازل نہیں ہوتی البتہ دوسری مرتبہ ایک موقع ایسا آتا ہے کہ جو اس آیت کے عمل کا ہوتا ہے تو جبرائیل امین علیہ السلام اس نازل شدہ آیت کو لے کر آتے ہیں کہ اس آیت پر عمل کرنے کا یہ موقع ہے اور مفسرین اسی کو نزولِ مکرر سے تعبیر فرما دیتے ہیں کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔
یہ اصول ذہن میں رکھیں گے تو بہت سارے مقامات پر الجھن ختم ہو جائے گی۔ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا تھا کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں تو جبرائیل امین آ گئے یہ آیت لے کر۔ اب یہ آیت نازل تو مکہ میں ہوئی تھی لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام مدینہ میں اس وقت لے کر آ گئے کہ حضور! حضرت عمر کو بتائیں کہ اس آیت پر عمل کا یہی موقع ہے .. . اور مفسرین اس کو تعبیر کرتے ہیں نزول مکرر سے کہ آیت دوسری مرتبہ نازل ہوئی ہے۔
﴿ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸﴾﴾
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سمجھائی ہے کہ بنی اسرائیل تھے ہم نے ان کو کتاب بھی دی، احکام کا علم بھی دیا، ان میں نبی بھی بھیجے، ان کو نفیس قسم کے رزق بھی دیے خاص رزق من اور سلویٰ جو بنی اسرائیل کو ملا ہے وہ کسی اور کو نہیں ملا، یہ آسمانی دستر خوان ان کی خصوصیت ہے، اور بعض معاملات میں ہم نے ان کو جہاں والوں پر فضیلت دی ہے، پھر دلائل بھی دیے ہیں لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے پھر بھی اختلاف کیا ہے ضد کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے۔تو یہ بنی اسرائیل کا معاملہ تھا۔
اب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
﴿ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴾
اے پیغمبر! ہم نے آپ کو خاص شریعت دی ہے، آپ اسی کی اتباع کریں اور جو جاہل ہیں ان کی باتوں کی پروا نہ کریں۔
اس سے اب صاف پتا چلتا ہے کہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی شرائع اورتھیں اور ہمارے پیغمبر کی شریعت اور ہے۔
شریعت؛ عقائد اور مسائل کا نام
شریعت میں دو چیزیں ہوتی ہیں: ایک ہیں عقائد اور ایک ہیں مسائل۔
عقائد میں گزشتہ انبیاء علیہم السلام اور ہمارے نبی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہاں البتہ مسائلِ شریعت ان کے الگ تھے اور ہمارے الگ ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان کی شریعت کا جو مسئلہ ہوتا ہے وہی مسئلہ ہماری شریعت کا بھی ہوتا ہے۔ تو اس کے لیے تو ضابطہ موجود ہے؛
” شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا شَرِیْعَتُنَا مَا لَمْ تُنْسَخْ“
کہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی شریعت ہماری بھی شریعت ہے، ان کے مسائل ہمارے بھی مسائل ہیں، ہاں اگر ان کو منسوخ کر دیا جائے تو پھر ان کے مسائل ہمارے مسائل نہیں رہتے، اور نسخ مسائل میں ہوتا ہے، نسخ عقائد میں نہیں ہوتا۔ کل عقیدہ اور ہو اور آج عقیدہ اور ہو ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے عقائد میں اختلاف نہیں ہے، صرف مسائل میں ہے۔
سبب بندہ اختیار کرتا ہے:
﴿اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۳﴾﴾
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو خدا بنا لیا اور خدا نے اس کو گمراہ کیا اور اللہ کے علم میں ہے کہ اس شخص نے اپنی خواہشات کو خدا بنا لیا تھا۔
اب یہاں دیکھو!
﴿اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ﴾
پہلے ہے اور
﴿وَ اَضَلَّہُ اللہُ عَلٰی عِلۡمٍ ﴾
بعد میں ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے گمراہی کا فیصلہ اس وقت کرتے ہیں جب بندہ گمراہی کا راستہ پسند کرتا ہے۔ اس سے تقدیر کا اہم مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ اللہ رب العزت بندے کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ جس راستہ کا انتخاب کرتا ہے اللہ اس میں اس کواسباب دے دیتے ہیں۔ تو لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا نے اس کو گمراہ کیا ہے، حالانکہ خدا نے گمراہ نہیں کیا ہوتا بلکہ خدا نے بندے کے کسب کے مطابق فیصلہ کیا ہوتا ہے۔
میں اس کی مثال دوں گا تو بات جلدی سمجھ آئے گی۔ ہم کہتے ہیں: بھائی! آپ کا جو تخصص ہے یہ شعبان تک ہے، یہ ہماری طرف سے فیصلہ ہے۔ ایک بندہ رجب میں آ کر ہمیں کہتا ہے کہ میں نے گھر جانا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ چلے جاؤ۔ اس کے گھر والے پوچھیں کہ تو واپس کیوں آیا ہے؟ وہ کہے کہ مجھے استاد جی نے خود بھیجا ہے۔ بھائی ہم نے تو کہا تھا کہ آپ کا تخصص شعبان تک ہے لیکن ہم نے بیڑیاں نہیں لگائیں، زنجیر نہیں لگائی، تالا نہیں لگایا کہ آپ جانا چاہیں تو جا ہی نہیں سکتے، نکلنا چاہیں تو نکل ہی نہیں سکتے بلکہ آپ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ خیر اور شر کے دو راستے دکھاتے ہیں اور بندے کو اختیار دیتے ہیں کہ یہ راستہ لو یا یہ راستہ لو! چاہو تو خیر کا راستہ لواور چاہو تو شر کا راستہ لو، خیر کا لو گے تو جنت ملی گی اور شر کا لو گے تو جہنم ملے گی۔ اب پسند بندہ اپنی مرضی سے کرتا ہے شر کا راستہ تو اللہ اس کو شر کے راستے کی طاقت دے دیتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ نہ چاہیں تو بندہ شر کے راستے کی طرف نہیں جا سکتا! نہ چاہیں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ طاقت نہ دیں تو نہیں جا سکتا لیکن اللہ طاقت ہی نہ دیں تو امتحان کیسے ہو گا؟ اب اس راستے کو چاہتا بندہ ہے اور طاقت خدا دے دیتے ہیں۔
﴿وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾﴾
التکویر 81: 29
تومشیتِ عبد پر مشیتِ معبود غالب ہوتی ہے۔ اس کامعنی یہ نہیں ہوتا کہ آدمی گناہ اللہ کی رضا سے کر رہا ہے، اللہ کی مشیت کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اللہ ارادہ فرما دیتے ہیں لیکن اللہ اس پہ راضی نہیں ہوتے۔ توخدا کا ارادہ اور بات ہے اور رضا اور بات ہے۔
﴿وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ۚ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ ﴿۲۴﴾﴾
کفاریہ کہتے تھے کہ ہماری زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، یہی مرنا اور جینا ہے، اور یہ جو ہم پر موت آتی ہے تو اللہ نہیں مارتے بلکہ ہمیں زمانہ مارتا ہے۔ زمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جو طبعی اعضاء ہیں ان اعضاء میں قوت ہے وہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتے رہتے ہیں اور جب بالکل کمزور ہو جاتے ہیں تو بندہ مر جاتا ہے۔
دنیا میں کوئی بھی چیز ہے مثلاً اب یہ سپیکر ہے تو یہ چلتے چلتے گھس جائے گا اور ختم ہو جائے گا، تو وہ بھی یہی کہتے کہ اسی طرح ہمارے جسم کے اعضاء ہیں، اس میں بچپن ہے، جوانی ہے، بڑھاپا ہے، مدت پوری ہوتی ہے تو ختم ہو جاتے ہیں، یہ تھوڑا ہے کہ اللہ مارتا ہے۔
زمانے کو گالی مت دو!
﴿قُلِ اللہُ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یَجۡمَعُکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿٪۲۶﴾﴾
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بالکل جھوٹ بولتے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ فرمایا: آپ فرما دیں کہ اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور اللہ ہی مارتاہے۔اصل میں دہر کہتے ہیں ازل تا ابد کے زمانے کو۔ پورے وقت کا نام دہر ہے لیکن مجازاً دہر کا اطلاق مخصوص وقت پر بھی ہوتا ہے۔ تھوڑے وقت کو بھی دہر کہہ دیتے ہیں۔
اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ.
صحیح مسلم، رقم: 2246
دہر یعنی زمانے کو گالی مت دو اس لیے کہ اللہ ہی دہر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا؟ دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سمجھائی ہے کہ یہ جاہل لوگ جس کام کو دہر کا کام کہتے ہیں تو وہ حقیقت میں اللہ ہی کی قدرت اور طاقت کا نام ہے۔اصل طاقت تو اللہ کی ہے کہ مارتے بھی اللہ ہیں، زندہ بھی اللہ کرتے ہیں۔ جو لوگ دہر کو برا کہتے ہیں تو اس کا نتیجہ تو اللہ تعالیٰ تک جا پہنچتا ہے۔ اس لیے سمجھایا کہ زمانے کو گالی کبھی نہ دینا۔
جاثیہ سے کیا مراد ہے؟
﴿وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۟ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہَا ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۸﴾ ہٰذَا کِتٰبُنَا یَنۡطِقُ عَلَیۡکُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّا کُنَّا نَسۡتَنۡسِخُ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۹﴾ ﴾
قیامت کے دن آپ ہر جماعت کو دیکھیں گے کہ وہ گھٹنوں کے بل پڑے ہوں گے اور ہر جماعت کو ان کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا اور یہ کہا جائے گا: آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ یہ ہماری لکھوائی ہوئی کتاب ہے جو تمہارے بارے میں حق سچ بولے گی۔ ہم دنیا میں لکھواتے تھے جو کام تم کرتے تھے۔
”جَاثِیَۃً“ جُثْوٌ
سے ہے جس کا معنی ہوتا ہے گھٹنے ٹیکنا یعنی اس طرح بیٹھنا کہ آدمی کے گھٹنے اور پاؤں کے پنجے زمین پر لگیں۔ قیامت کے دن ہر بندہ اس طرح ہو گا۔
اس پر اشکال یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور بہت سارے صلحاء رحمہم اللہ ایسے ہیں جن کو قیامت کے دن خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اللہ ان کو محفوظ رکھیں گے۔ پھر اس کا مطلب کیا ہوا؟ جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ معاملہ سب کے ساتھ ہو گا لیکن ان کے ساتھ یہ معاملہ اتنی کم مدت کے لیے ہو گا کہ اس کو اگر شمار کریں تو گویا ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہی نہیں ہے۔
اور بعض کہتے ہیں کہ جاثیہ سے مراد گھٹنے کے بل نہیں ہے بلکہ جاثیہ کا معنی کہ جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں یوں سب بیٹھے ہوں گے اور یہ بیٹھنا خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ عظمت کی وجہ سے ہو گا۔ اب اس پر کوئی اشکال ہی نہیں۔
قیامت کے دن اللہ بھلا دیں گے کا معنی:
﴿وَ قِیۡلَ الۡیَوۡمَ نَنۡسٰکُمۡ کَمَا نَسِیۡتُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا وَ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿۳۴﴾﴾
قیامت کے دن ان سے کہا جائے گا کہ آج ہم تمہیں اپنی رحمت سے دور کر دیں گے، کیونکہ دنیا میں تم نے اس سے ملاقات کو بھلا دیا تھا، تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔
تو یہاں
”نَنۡسٰکُمۡ“
کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ ان کو بھول جائیں گے بلکہ معنی یہ ہے کہ ان کو نظر انداز کر دیں گے یعنی ان کی طرف دھیان نہیں فرمائیں گے۔جیسے دنیا میں کوئی بندہ کسی کو سزا دیتا ہے اور بھول جاتا ہے اور بعد میں یاد ہی نہیں رہتا کہ اس کو چھوڑنا بھی تھا۔ تو اللہ تعالیٰ ایسا کریں گے تو نہیں لیکن معاملہ ایسا ہو گا جیسا اللہ کسی کو سزا دے کر بھول جائیں۔
﴿ذٰلِکُمۡ بِاَنَّکُمُ اتَّخَذۡتُمۡ اٰیٰتِ اللہِ ہُزُوًا وَّ غَرَّتۡکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ۚ فَالۡیَوۡمَ لَا یُخۡرَجُوۡنَ مِنۡہَا وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ ﴿۳۵﴾﴾
اس وجہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق بناتے تھے، دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکہ دیا ہوا تھا۔ آج قیامت کے بعد نہ تو ان کو جہنم سے نکالا جائے گا اور نہ ہی ان کو کوئی موقع دیا جائے گا۔تدارک کی ان کے پاس کوئی صورت نہیں ہو گی۔
اللہ رب العزت ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․