سورۃ الاحقاف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الاحقاف
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ حٰمٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۲﴾ مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَمَّاۤ اُنۡذِرُوۡا مُعۡرِضُوۡنَ ﴿۳﴾﴾
دلائل توحید کا بیان:
یہاں اللہ رب العزت نے توحید پر دلائل بیان فرمائے ہیں اور دلائل کی جتنی قسمیں ہیں ساری بیان فرمائی ہیں۔ دلائل کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:
1: دلیل عقلی 2 : دلیل نقلی
اور دلیل نقلی میں پھر دوقسم کی دلیلیں ہوتی ہیں؛ ایک دلیل وہ جو آسمانی کتاب میں ہو اور ایک دلیل وہ جو پیغمبر کی زبان سے ہو۔ تو یہاں تینوں قسم کے دلائل بیان فرمائے ہیں۔
﴿قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ﴾
اے پیغمبر! آپ ان سے فرمائیں کہ یہ جو تم اللہ کے علاوہ اوروں کی عبادت کرتے ہو تو یہ بتاؤ کہ جن کو تم خدا بناتے ہو کیا انہوں نے زمین کی کوئی چیز پیدا کی ہے؟ یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ یہ عقلی دلیل ہے۔
﴿اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ ہٰذَاۤ ﴾
تمہارے اس دعوے پر اگر اس سے پہلے کسی کتاب؛ تورات، انجیل، زبور یا کسی آسمانی صحیفےمیں کوئی بات درج ہے تو میرے پاس لاؤ! یہ دلیل نقلی ہے۔
﴿اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴾
یا کسی پیغمبر کی زبان سے کوئی بات نکلی ہو، کوئی علمی بات ہو تو بتاؤ اگر تم سچے ہو تو۔ یہ بھی دلیل نقلی ہے
۔
”اَثٰرَۃٍ “
یہ مصدر ہے سخاو ۃ کے وزن پر۔
تو اللہ نے تینوں قسم کے دلائل یہاں بیان فرمائے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن سلام کا اسلام:
﴿قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ وَ کَفَرۡتُمۡ بِہٖ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی مِثۡلِہٖ فَاٰمَنَ وَ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۰﴾﴾
یہاں یہ بات بنی اسرائیل کو سمجھائی ہے۔ فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہو- قرآن تو ہے ہی اللہ کی طرف سے، چونکہ وہ اس کا انکار کرتے تھے اس لیے ان کو سمجھانے کے لیے یہ بات کہی ہے- تو اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہو اور تم لوگوں نے اس کا انکار کر دیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک صاحب علم اس کے حق میں گوہی دے اور اس پر ایمان لے آئے اور تم تکبر میں پڑے رہو تو پھر تمہاری بات مانی جائے یا ان کی مانی جائے؟ اس پیغمبر پر ایمان تو بنی اسرائیل کے بڑے بڑے لوگ بھی لاچکے ہیں۔
اب
﴿شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ﴾
یہ عام ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے تھے تو وہ بھی شامل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت کے جو لوگ ہیں جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وہ بھی شامل ہیں کیونکہ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے لوگ بھی شامل ہیں جو آپ کی تصدیق کریں گے، آپ پر ایمان لائیں گے۔ تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے، حضور کی موجودگی میں اور حضور کے بعد کے لوگ سب شامل ہیں۔
بہت سارے مفسرین نے ”شاہد“ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو لیا ہے حالانکہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام لائے ہیں اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لیکن جب شاہد کو عام مان لیا جائے تو اگر آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی اسلام لے آئیں تو پھر بھی اشکال نہیں ہے۔
یہودیوں کا دوہرا معیار:
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ یہودی ان کو اپنا بڑا عالم سمجھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام نے جب اسلام قبول کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ لوگ مجھے اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں ابھی یہ نہیں پتا کہ میں نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ آپ ان سے میرے بارے میں رائے معلوم کریں تو پتا چل جائے گا کہ میرے بارے میں یہ کیا کہتے ہیں؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار چند یہود کو بلاکر پوچھا کہ عبد اللہ بن سلام تم میں کیسے آدمی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی بڑے آدمی ہیں، بڑے باپ کے بیٹے ہیں، اچھے آدمی ہیں، اچھے باپ کے بیٹے ہیں۔ فرمایا کہ اگر وہ کلمہ پڑھ لیں تو....؟ یہودیوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا! عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اس قت پردے میں چھپے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبد اللہ بن سلام ذرا سامنے آؤ! تو انہوں نے آ کر سب کے سامنے کلمہ پڑھا تو یہودیوں نے کہا کہ یہ بہت گندا آدمی ہے، گندے باپ کا بیٹا ہے۔ فوراً تبدیل ہو گئے۔ اسے کہتے ہیں ضد۔
سلام کو رواج دو!
اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سب سے پہلےمیں نے جو حدیث سنی تھی وہ یہ تھی:
أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.
سنن ابن ماجۃ، رقم: 3251
اے لوگو! السلام علیکم کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داری کا خیال کرو اور رات کو نماز پڑھو جب لوگ سوئے پڑے ہوں، تم امن کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
اب دیکھو! اس کھانے میں غریب امیر کا تذکر ہ نہیں کہ مالدار کو کھلاؤ یا غریب کو کھلاؤ بلکہ فرمایا کہ کھانا کھلاؤ، امیر غریب سب اس میں شامل ہیں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں چار باتیں ارشاد فرمائی ہیں؛ ایک دوسرے کو سلام کہنا۔ ہمیں اس چیز کا خیال کرنا چاہیے، اللہ آپ کو مقام عطا فرمائے، اللہ آپ کو عزت دے، اچھی مسند عطا فرمائے، آپ کسی جگہ پر جائیں اور بچے آپ کے استقبال میں کھڑے ہوں تو سلام آپ کو کرنا چاہیے، ایسا کبھی نہ کریں کہ جائیں اور بچے کہیں السلام علیکم، یہ خلافِ سنت ہے، جو جاتا ہے اس کا حق ہے کہ وہ سلام کرے اور بچے ”وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ“جواب دیں۔
حضرت عبد اللہ بن سلام کے تین سوالات:
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوال کیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں آپ سے ایسے تین سوال کرتا ہوں جن کے جوابات اللہ کے نبی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، آپ ان کے جوابات دیں تو میں اسلام قبول کروں گا!
1: پہلا سوال یہ تھا:
”مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ“
کہ علاماتِ قیامت میں سب سے پہلی علامت کون سی ہے؟ اس سے مراد اس وقت کی علامت ہے جب قیامت بالکل قریب ہو گی۔
2: دوسرا سوال یہ تھا:
”وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ“
جنت میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے اہل جنت کون سا کھانا کھائیں؟
3: تیسرا سوال یہ تھا:
”وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ الْوَلَدُ إِلٰى أَبِيهِ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ إِلٰى أَخْوَالِهِ“
کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو کبھی وہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی اس کی شکل اپنے ماموں کی طرح ہوتی ہے یعنی کبھی وہ اپنی ماں کے مشابہ ہوتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں سوالوں کا جواب دیا:
• علاماتِ قیامت میں سب سے پہلی علامت کون سی ہے؟ فرمایا :
”أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنْ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ“
پہلی علامت ایک آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کرے گی۔
• اہلِ جنت کا پہلا کھانا کون سا ہو گا؟ فرمایا:
”وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ“
کہ اہلِ جنت کو جنت میں سب سے پہلے مچھلی کے جگر پیش کیے جائیں گے۔ دعا کریں اللہ ہم سب کو یہ نعمت عطا فرمائیں۔ آمین
• بچہ کبھی باپ کے مشابہ کبھی ماں کے مشابہ تو اس کی وجہ؟ فرمایا:
”وَأَمَّا الشَّبَهُ فِي الْوَلَدِ فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِيَ الْمَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا“
کہ کبھی ماں کا پانی سبقت لے جاتا ہے تو ماں کی طرح ہوتا ہے اور کبھی باپ کا پانی سبقت لے جاتا ہے تو باپ کی طرح ہوتا ہے۔
صحیح البخاری، رقم: 3329
اللہ سے عافیت مانگیے!:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚ۱۳﴾﴾
جو لوگ کہتے ہیں
”رَبُّنَا اللہُ “
کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر ڈٹ جاتے ہیں تو نہ ان پر خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
ڈٹ جانے کا معنی ہوتا ہے کہ ایک تو ایمان پر قائم رہتے ہیں اور دوسرا ایمان کے مقتضیات پر عمل کرتےہیں، یہ استقامت ہے۔ استقامت، شریعت کا اعلیٰ درجہ ہے جسے عزیمت کہتے ہیں، رخصت، ادنیٰ درجہ ہے۔ آدمی کو استقامت مانگنی نہیں چاہیے لیکن اگر آ جائے تو اختیار کرنی چاہیے، اللہ تعالی سے عافیت مانگیں اور رخصت پر عمل کرنے کا مزاج بنائیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارےمیں مروی ہے کہ جب بھی آپ کو دو چیزوں کے بارے میں اختیار دیا جاتا تو آپ جو چیز آسان ہوتی اس کو اختیار فرماتے، اس کی وجہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود تو صاحبِ استقامت اور صاحبِ عزیمت تھے لیکن امت کے لیے ایسا کیا تاکہ امت کے لیے آسانی پیدا ہو۔
حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں تھے اور جیل میں قیدی نے خواب دیکھا، آپ علیہ السلام نے تعبیر بتائی تو قیدی بری ہو گیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بادشاہ سے میرا تذکرہ کرنا یعنی بادشاہ سے ذکر کرنا کہ جیل میں ایک ایسا شریف بندہ بھی ہے۔ وہ تذکرہ کرنا بھول گیا۔ کچھ عرصے بعد بادشاہ کو خواب آیا، اس نے تعبیر پوچھی تو تعبیر دینے والوں نے معذرت کی کہ یہ خیالات ہیں، ان کی تعبیر نہیں ہوتی۔ وہ بندہ جو یوسف علیہ السلا م کے ساتھ قیدی رہ چکا تھا اس نے کہاکہ جی جیل میں ایک آدمی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اس سے پوچھوں۔ یہ وہاں گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے یوسف علیہ السلام سے پوچھا کہ میرے دوست! اس خواب کی تعبیر بتاؤ۔ آپ علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بتائی۔ جب بادشاہ نے خواب کی تعبیر سنی تو اس نے کہا کہ ان کو بلا کر لاؤ! جب بلانے کے لیے گئے تو انہوں نے فرمایا:
﴿فَسۡـَٔلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ﴾
یوسف12: 50
کہ میں بعد میں آؤں گا پہلے اس واقعے کی تحقیق تو کرو کہ جب ان عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، ان سے پوچھو کہ انہوں نے ہاتھ کیوں کاٹے تھے!تاکہ صفائی ہو تو پھر باہر جاؤں، میں الزام لے کر باہر نہیں جانا چاہتا۔
یوسف علیہ السلام نے جب یہ فرمایا تو بادشاہ نے عورتوں کو بلا کر پوچھا:
﴿قَالَ مَا خَطۡبُکُنَّ اِذۡ رَاوَدۡتُّنَّ یُوۡسُفَ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ قُلۡنَ حَاشَ لِلہِ مَا عَلِمۡنَا عَلَیۡہِ مِنۡ سُوۡٓءٍ ؕ﴾
یوسف12: 51
کہ تمہارا کیا معاملہ تھا جب تم نے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی تھی؟ تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ہمارا قصور ہے، یہ ہم نے کیا تھا، یوسف بالکل بری ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یوسف علیہ السلام کی جگہ میں ہوتا تو میں فوراً باہر آ جاتا۔
صحیح البخاری، رقم: 4694
اللہ کے نبی نے امت کو یہ تعلیم دی ہے۔ چونکہ پہلے صفائی ہو اور پھر باہر آئیں تو یہ عزیمت کا راستہ ہے اور جب بادشاہ نے رہائی دی ہے تو اس کو قبول کرو یہ رخصت کا راستہ ہے۔ تو یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کا مزاج بنایا ہے۔ اس لیے صاحبِ عزیمت دنیا میں بہت کم لوگ ہوا کرتے ہیں، یہ ہر آدمی کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے رخصت پہ گزارا کرو کہ اس میں آسانی بہت ہے۔ عزیمت اگر اختیار کرنی ہے تو سوچ سمجھ کر اختیار کرنی ہے، بس پھر واپس نہیں آنا چاہیے، آدمی جب عزیمت کے راستے سے واپس آتا ہے تو پھر ہزاروں لوگوں کا ایمان تباہ ہو جاتا ہے۔ میں بطورِ خاص طلبہ سے کہتا ہوں کہ فراغت کے بعد آپ نے راستہ اختیار کرنا ہے تو سوچ سمجھ کر کرنا!
ہدف کے انتخاب میں دو چیزوں کا خیال کریں!
بس خلاصہ ذہن میں رکھیں! آپ نے کام کیا کرنا ہے اسے ہدف کہتے ہیں۔ جب آپ ہدف کا تعین کر لیں تو پھر اس ہدف تک پہنچنے کے لیے بندے کا انتخاب کریں اور بندے کا انتخاب کرنے کے لیے دو چیزیں ہیں:
[1]: استشارہ
ایک تو اپنے ساتھ محبت کرنے والے سمجھدار آدمی سے مشورہ کریں کہ میں فلاں سے تعلق رکھوں یا نہیں؟ مشورہ جس سے کرناہے اس میں دوصفتیں ہونی چاہییں:
ایک یہ کہ وہ آپ کا خیر خواہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ عقلمند ہو، سمجھدار ہو۔
جبکہ ہماری حالت یہ ہوتی ہے کہ ہم اس سے مشورہ کرتے ہیں جو کبھی سمجھدار نہیں ہوتا اور جو سمجھدار ہوتا ہے تو کبھی وہ خیر خواہ نہیں ہوتا۔
[2] : استخارہ ... استخارہ کا معنی ہے اللہ تعالیٰ سے خیر کو طلب کرنا۔
استشارہ لوگوں سے ہوتا ہے اور استخارہ اللہ سے ہوتا ہے۔ استشارہ؛ استخارہ سے زیادہ مفید ہوتا ہے، کیونکہ جب ہم کسی سے مشورہ لیتے ہیں تو وہ جو بھی مشورہ دیتا ہے وہ ہمیں سمجھ آ جاتا ہے، اور ایک بندے نے استخارہ کیا، اللہ سے خیر طلب کی، اب اللہ نے کیا فیصلہ کیا ہے یہ ہمیں پتا نہیں چلتا، تو اصل استشارہ ہوتا ہے اور استخارہ کرنا ہے تو وہ کرے جس کا اپنا کام ہوتا ہے، لوگوں کی عجیب حالت ہوتی ہے کہ کام اپنا ہوتا ہے او استخارہ دوسروں سے کراتے ہیں۔
میرا ایک مرید ہے، میں اس کے گھر رات ٹھہرا تو مجھے وہ صبح کہنے لگا: مولانا صاحب! استخارہ کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ کرتا ہوں۔ اب مجھےپتا تھا کہ اس کے بعد اس نے کیا کہنا ہے؟ کہتا ہے کہ میں نے شادی کے لیے استخارہ کرانا ہے۔ میں نے کہا کہ میں استخارہ تو کرتا ہوں لیکن اپنے کام کے لیے، شادی تو نے کرنی ہے اور استخارہ میں کروں؟! اگر میں نے استخارہ کیا اور میرے خواب میں وہ آ گئی اور مجھے پسند آ گئی تو پھر اب میں تیرے لیے اللہ سے مانگوں گا یا اپنے لیے اللہ سے مانگوں گا؟ (مسکراہٹ از سامعین) اس لیے اپنا استخارہ خود کرتے ہیں۔
تو یہ باتیں طے کرو! نمبر 1 کہ ہدف کا تعین اور نمبر 2 کہ ہدف تک پہنچنے کے لیے فرد کا تعین... اور فرد کے تعین میں جلدی نہ کرو،استشارہ کرو... استخارہ کرو! جب فرد کا تعین ہو جائے تو پھر سب کچھ اس پہ لٹا دو۔ کبھی ہدف متعین نہیں کرتے اور کبھی فرد کے تعین میں جلد بازی کرتے ہیں، اس لیے پھر زندگی بھر الجھن رہتی ہے، کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر پھسل جاتے ہیں۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد:
﴿وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ؕ﴾
الاحقاف46: 15
یہاں اللہ رب العزت نے بطورِ خاص حقوق العباد کا ذکر کیا ہے۔ بنیادی حقوق دو ہیں؛ ایک حق اللہ اور دوسرا حق العبد۔ پہلے حقوق اللہ کا ذکر کیا ہے کہ توحید کا خیال کرو اور شرک سے بچو، اپنے اعمال کا خیال کرو اب اس کے بعد حق العبد آ رہا ہے اور حقوق العباد میں سب سے اہم حق والدین کا ہے، اس لیے اس کا تذکرہ فرمایا اور والدین میں سب سے اہم حق ماں کا ہے، اس لیے اس کا ذکر فرمایا۔
ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے یہ بتائیں کہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں، پھر فرمایا: تمہاری ماں، پھر فرمایا: تمہاری ماں، اور چوتھی مرتبہ فرمایا: تمہارا باپ۔
صحیح البخاری، رقم: 5971
تو ماں کا ذکر تین بار فرمایا اور پھر والد کا ذکر فرمایا۔ اس لیے ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔
تو اللہ نے فرمایا: ہم نے انسان کو حکم دیاہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، اس کی ماں اسے مشقت برداشت کرتے ہوئے اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے، اور مشقت برداشت کر کے اس بچے کو جنتی ہے، پھر بچے کو گود میں رکھتی ہے، دودھ پلاتی ہے اور پھر اس کا دودھ چھڑاتی ہے اور اس میں تیس ماہ لگا دیتی ہے۔
﴿حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۵﴾﴾
یہاں تک کہ جب یہ اپنی بھرپور جوانی کو پہنچا ہے اور بعد میں مزید بڑھتا ہوا چالیس سال کی عمر میں پہنچتا ہےتو اللہ سے دعائیں مانگتا ہے کہ اے اللہ! مجھے توفیق دیں کہ میں آپ کی ان نعمتوں کا جو آپ نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائی ہیں میں ان پر آپ کا شکر ادا کروں، میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے آپ راضی ہو جائیں اور آپ میری اولاد کو بھی نیک بنا دیں۔ اے اللہ! میں آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔
شانِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:
بہت سارے مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کے اول مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عمر اٹھارہ سال تھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بیس سال تھی۔ تو یہ اکٹھے تجارت کے لیے گئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبری ٰ رضی اللہ عنہا کے مال کا مضارب بن کر تجارت کی۔ مال اُن کا تھا اور محنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی اور پرافٹ آدھا آدھا تھا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس سفر میں حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت متاثر ہوئے۔ بس پھر آپ کی یاری لگ گئی اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معتقد بن گئے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس سال ہوئی تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عمر اڑتیس سال تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا، صدیق اکبر نے کلمہ پڑھ لیا۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ
”حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ “
کہ جب خوب جوانی کو پہنچے اٹھارہ سال کے ہو کر تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت قریب ہو گئے اور
”وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً“
کہ جب چالیس سال کے ہو گئے تو صدیق اکبر نے یہ دعا مانگی تھی۔یہ جو فرمایا:
”وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ“
کہ مجھے توفیق دے کہ میں نیک عمل کروں جس سے اللہ تو راضی ہو جائے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بارہ غلام آزاد فرمائے۔ اور فرمایا:
”وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ“
کہ میری اولاد کو بھی نیک کر۔ تو صدیق اکبر وہ واحد صحابی ہیں کہ جن کے والدین اور اولاد سب کو صحابیت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی چار پشتیں صحابی ہیں، صدیق اکبر کے والد ابوقحافہ اور والدہ ام رومان، خود صدیق اکبر، پھر آپ کی بیٹیاں اور بیٹے اور آگے آپ کے نواسے۔ رضی اللہ عنہم
وجوہِ فضیلت صدیق اکبر:
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ انبیاء علیہم السلام کے بعد امت میں سب سے افضل شخص ہیں۔ افضلیت کی وجہ صحابیت ہے، اعمال نہیں۔
[1]: اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وہ واحد شخص ہیں جن کو قرآن نے صحابی کہا ہے
﴿اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا﴾ ،
التوبۃ9: 40
اس لیے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ سے افضل ہیں۔
[2]: صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور صحابی کی وجہ فضیلت صحابیت ہے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جن کی چار پشتیں صحابی ہیں، اس لیے آپ تمام صحابہ سے افضل ہیں۔
[3]: صحابی کی وجہ فضیلت صحابیت ہے اور صحابیت صحبت سے ہے، اس کا مطلب جس کو صحبت جتنی زیادہ ملی ہے اتنا افضل ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سب سے زیادہ ملی ہے حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو اتنی صحبت نہیں ملی جتنی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ملی ہے۔ کیونکہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تو دس سال کے بعد انتقال فرما گئی تھیں، باقی ازواج مطہرات جو آئی ہیں سب ان کے بعد کی ہیں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو پہلے دن کے ساتھی ہیں، تئیس سالہ صحبت اور پھر سفر اور حضر کے ساتھی ہیں۔
[4]: میں چوتھی وجہ فضیلت پیش کرنے لگا ہوں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں کہ جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خلوت کی صحبت ملی ہے جو کسی اور کو میسر نہیں۔ غارِ ثور میں تین دن اور تین راتیں یہ واحد ابوبکر صدیق تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ تھے اور اس کا ذکر قرآن نے کیا ہے
﴿ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ﴾
التوبۃ9: 40
ایسا شخص دنیا میں کوئی نہیں جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی صحبت ملی ہو۔
صدیق اکبر کی پسند تین چیزیں:
اور بندہ حیران ہوتا ہے کہ اللہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کیسی صحبت عطا کی تھی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
حُبِّبَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا ثَلَاثٌ.
کہ میری محبوب ترین چیزیں تین ہیں۔
[۱]: ان میں پہلی چیز
”اَلنَّظْرُ اِلٰی وَجْہِ رَسُوْلِ اللہِ“
تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھنا۔ اللہ نے صدیق کی یہ خواہش کیسے پوری کی کہ تین دن غار میں ہیں اور سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے اور کام بھی کوئی نہیں ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار میں صدیق اکبر ایسے مگن تھے کہ سانپ نے ڈس لیا، شدت سے تکلیف ہوئی، آنکھ سے آنسو نکلا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر گرا۔ اس کا معنی یہ تھا کہ صدیق اکبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت میں اس قدر محو تھے کہ آپ کو احساس ہی نہیں ہوا کہ میری آنکھ کا آنسو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر گر رہا ہے۔ احساس ہوتا تو صدیق اکبر کبھی نہیں گرنے دیتے۔ جو شخص سانپ کا زہر برداشت کر رہا ہے اور ران کو حرکت نہیں دے رہا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر آنسو کیسے گرائے گا؟! کیسی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی۔
[۲]: اور فرمایا:
”اُنْفِقُ مَالِیْ عَلٰی اَمْرِ رَسُوْلِ اللہِ“
کہ حضور کی خواہش ہو اور مال میرا ہو۔ آپ نے خرچ کیا اورمثال قائم کر دی۔
[۳]:
”اَنْ تَکُوْنَ بِنْتِیْ تَحْتَ رَسُوْلِ اللہِ“
کیسے الفاظ ہیں! فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ میری بیٹی ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بنے۔
نکاحِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:
پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی نو سال کی بیٹی حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح میں دی ہے۔
میں کئی بار یہ باتیں عرض کرتا ہوں کہ ہم چونکہ شادی کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لیے کوئی شاگرد اپنے استاد کو کبھی اپنی بہن نکاح میں نہیں دے گا، کوئی مرید اپنے پیر کو کبھی اپنی بیٹی کا نکاح نہیں دے گا۔ اس کی وجہ کہ دماغ میں شہوت ہے، اور اگر یہ بات ہو کہ اللہ نے قرآن میں بیوی کو سکون کا ذریعہ فرمایا ہے:
﴿وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا﴾
الروم 30: 21
کہ اللہ نے تمہی میں سے یعنی تمہاری جنس انسان میں سے تمہاری بیویوں کو پیدا ہے تاکہ تم کو ان سے سکون ملے۔
﴿ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا﴾
الاعراف7: 189
کہ اللہ نے تمہیں ایک جان یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا فرمایا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے!
اب آپ دیکھ لیں کہ اللہ نے جب بیوی کا ذکر کیا تو فرمایا کہ میں نے عورت کو پیدا فرمایا تاکہ مرد کو سکون ملے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر مرید کے دل میں ہو کہ اس سے میرے شیخ کو سکون ملے گا، شاگرد کے دل میں ہو کہ میرے استاذ کو سکون ملے گا تو پھر مزاج الگ ہوتا ہے۔ یہ چونکہ ہمارے ذہن میں تصور ہی نہیں ہے اس لیے یہ مزاج پھر نہیں بن پاتا۔ میں بار ہا عرض کر چکا ہوں کہ ہم دوسری شادی اور تعددِ نکاح کے بارے میں اس لیے صحیح رخ پر نہیں آ رہے کہ ہمارے ہاں نکاح کا معنی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ہم نکاح کو شہو ت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ شریعت نکاح کو سکون کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خواہش کیا تھی کہ بیٹی میری ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت ملے اور بیوی سے بڑھ کر کوئی کسی کو راحت نہیں دے سکتا اگر بیوی اچھی مل جائے تو... اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ راحت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ اپنی نو سال کی بیٹی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دی اور اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر باون سال تھی۔
مجھے ایک سفر میں ایک ساتھی نے کہا کہ مولانا صاحب! باقی تو ٹھیک ہے لیکن اتنی چھوٹی عمر اور اتنا بڑا شوہر... بات دل کو نہیں لگ رہی۔ میں نے کہا کہ آپ کے دل کو نہیں لگ رہی کیونکہ آپ صرف پڑھتے ہیں اور میرے دل کو لگتی ہے کیونکہ میں نے اس عمر میں چھوٹی لڑکی سے شادی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح نکاح کامیاب ہوتا ہے اور یہ نکاح کتنا اچھا ہوتاہے! آپ لوگوں کی محض تھیوریاں ہوتی ہیں اور ہمارا پریکٹیکل ہے۔ اس لیے صوفیاء ذوقی لوگ ہوتے ہیں، وہ اپنے ذوق اور وجدان سے چیزوں کو محسوس کرتے ہیں، اس لیے دلائل ان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔
حضرت رائے پوری رحمہ اللہ اپنے خلیفہ سے فرمانے لگے کہ ذکر کبھی نہ چھوڑنا، مولوی فتویٰ دیں پھر بھی نہ چھوڑنا۔ اب جس بندے نے ذکر کی حلاوت کو چکھا ہی نہیں ہے، ذکر کے فوائد کو دیکھا ہی نہیں ہے، ذکر کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ہے وہ تو پریشان ہو گا کہ لوگ کیا کہیں گے! اس لیے حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ کامیاب مناظر وہ ہوتا ہے کہ جو دلائل کے ساتھ ساتھ طریقت کو بھی جانتا ہو، جو طریقت کو نہیں سمجھتا وہ کامیاب مناظر نہیں ہو سکتا۔
اس لیے کہ وجدان طریقت سے آتا ہے اور یہ آتا ہے صحبت سے۔ تو جب ایک شخص کا ذوق صحیح نہیں ہے، وجدان کی کیفیت اس کے پاس نہیں ہے، کیفیات اس پر نہیں آتیں تو وہ کیا سمجھے گا کہ شیخ کی توجہ کا مرید کی توجہ میں کیا دخل ہوتا ہے اور شیخ کے خیال کو مرید کے خیال میں کیادخل ہوتا ہے۔ جو ان مراحل سے گزرا نہیں ہے وہ تو اس کو شرک کہہ کر ٹال دے گا، کبھی اس کو ہندوانہ چیزیں کہہ دےگا۔ وہ شخص جو کسی خانقاہ میں رہا ہو،کسی شیخ کے پاس بیٹھا ہو،شیخ کی مجلس سے مستفید ہوا ہو، شیخ کا عکس اس کے قلب پر آیا ہو تو اس کو یہ بات سمجھ آئے گی۔
اس لیے کہتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عکسِ رسول ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں اور عجیب بات ہے کہ جتنی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اتنی عمر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ بس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال چھوٹے تھے اور دو سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملے۔
صحابہ میں آئیڈیل شخصیت:
سارے صحابہ رضی اللہ عنہم ہمارے لیے آئیڈیل ہیں۔ مجھ سے کوئی پوچھے تو حضرات صحابہ میں سے میرے آئیڈیل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ صدیق اکبر سے زیادہ جری اور شجاع کوئی نہیں ہے اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے۔ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا:
أَخْبِرُوْنِيْ مَنْ أَشْجَعُ النَّاسِ؟
بتاؤ! لوگوں میں سب سے زیادہ دلیر شخص کون ہیں؟ لوگوں نے کہا : امیر المؤمنین آپ ہیں۔ فرمایا: نہیں بلکہ دلیر آدمی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔
کنز العمال: ج12 ص235 رقم الحدیث 35685
پہلا مسئلہ: حمل کی کم از کم مدت
یہاں ایک بات سمجھیں۔ یہاں فرمایا:
﴿وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا﴾
ایک مسئلہ چلتا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت کیا ہے؟ تو حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی آیت سے استدلال فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اللہ نے یہاں فرمایا : 8 کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ﴾
البقرۃ 2: 233
کہ دودھ پلانے کی مدت تو دو سال ہے۔
اور یہاں کل مدت بتائی ہے اڑھائی سال۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ اکثر مدت رضاعت تو ہوتی ہے دو سال، باقی بچیں گے چھ ماہ، تو حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا چھ ماہ کے بعد۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس پر حد جاری کرو! کیونکہ عام عادت یہ ہوتی ہے کہ بچہ نو ماہ کے بعد پیدا ہوتا ہے اور کم از کم سات ماہ بعد پیدا ہوتا ہے، عام عادت یہی ہوتی ہے۔ تو یہ چھ ماہ بعد کیسے پیدا ہوا؟ اس پر حد جاری کرو! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں، اس پر حد جاری نہ کرو، اس لیے کہ قرآن مجید میں حمل اور رضاعت کی مدت ملا کر تیس ماہ بتائے گئے ہیں اور دوسری آیت میں رضاعت کی مدت چوبیس ماہ ہے۔ تیس سے چوبیس نکالیں تو باقی چھ ماہ بچتے ہیں۔ اس لیے اقل مدت حمل چھ ماہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی: ج2 ص 2816
تو حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت کتنی ہو سکتی ہے؟ تو بعض کے ہاں یہ دو سال ہے، بعض کے ہاں چار سال ہے۔ حنفیہ کے ہاں حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال ہے۔
دوسرا مسئلہ: مدتِ رضاعت
دوسرا مسئلہ ہے مدتِ رضاعت کہ ماں بچے کو کتنے سال تک دودھ پلا سکتی ہے؟ تو قرآن کریم میں ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے۔
باقی حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر یہ ایک الزام ہے کہ آپ اکثر مدت رضاعت اڑھائی سال مانتے ہیں اور یہ قرآن کریم کی آیت
﴿وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ﴾
کے خلاف ہے۔
اس کا جواب اچھی طرح سمجھیں۔ حضرت امام صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ جو آیت کریمہ ہے
﴿وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ﴾
جس سے آپ استدلال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اکثر مدت رضاعت دو سال ہے اگر اس آیت میں غور کیا جائے تو اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ مدتِ رضاعت اس کے بعد بھی ہے، کیونکہ اللہ رب العزت نے آگے اسی آیت میں فرمایا ہے:
﴿فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡہُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا﴾
کہ مدتِ رضاعت دو سال ہے۔ پھر یہ ”فا“ تعقیب مع الوصل کے لیے ہے۔ اب یہاں”فا“ کا معنی ”پس“ نہیں کرنا۔ ہر جگہ اس کا معنی ”پس“ نہیں کرتے۔ کبھی ”فا“ تعلیلیہ ہوتا ہے تو وہاں معنی ہوتاہے ”اس لیے“... اور کبھی ”فا“ تعقیب مع الوصل کے لیے ہوتا ہے تو وہاں اس کا معنی ہوتا ہے ”بعد میں“ ...اب یہاں چونکہ ”فا“ ہے اس لیے اس آیت کا معنی ہو گا کہ ”اس کے بعد اگر وہ دودھ چھڑانا چاہیں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشاورت سے تو کوئی حرج نہیں ہے۔“
تو اگر مدتِ رضاعت ہے ہی دو سال تو اب دو سال کے بعد مشورے کی کیا ضرورت ہے؟ مشورہ تب ہی ہو گا کہ جب اس کے بعد دودھ پلانے کی گنجائش ہو گی۔ تو اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ مدتِ رضاعت دو سال سے زائد بھی ہو سکتی ہے۔
اس کی مثال دوں گا تو بات زیادہ سمجھ آئے گی۔ مثلاً ہمارے ہاں نمازِ ظہر ہوتی ہے پونے دو بجے اور عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے ساڑھے تین بجے۔ اب ہم پونے دو بجے نماز نہیں پڑھتے کیونکہ سبق ہو رہا ہے یا بیان ہو رہا ہے اور کہتے ہیں کہ مؤخر کرو! ہم کہتے ہیں کہ ہماری نماز تو ہے پونے دو بجے لیکن اگر مشورے کے ساتھ اڑھائی بجے پڑھ لو تو بھی ٹھیک ہے۔ لیکن یہ کب ہو گاکہ جب پونے دو بجے کے بعد نماز کا وقت باقی ہو گا۔اگر نماز کا وقت ہے تو پونے دو بجے لیکن مشورے کے ساتھ اڑھائی بجے بھی کرانا چاہیں تو صحیح تب ہی ہو گا جب پونے دو بجے کے بعد نماز کی گنجائش ہوگی، گنجائش نہ تو پھر کیسے کہیں گے کہ مشورے سے اڑھائی بجے کر دو؟! اب ہمارے ہاں ساڑھے تین بجے نماز کا وقت ختم ہو رہا ہے تو اگر ساڑھے تین کے بعد مشورے کے ساتھ پونے چار بجے ظہر کی نماز پڑھیں تو کیا ٹھیک ہے؟ نہیں، کیونکہ اب وقت ختم ہو گیا ہے۔تو اس آیت میں”فا“ بتا رہا ہے کہ دو سال کے بعد بھی گنجائش ہے۔
اور دوسری یہی آیت ہے:
﴿حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا﴾
”حَمَلَتۡہُ “
سے مراد ہے بچے کا ماں کے پیٹ میں ہونا۔
”وَضَعَتۡہُ “
سے مراد ہے بچے کو جننا۔آگے
”حَمۡلُہٗ “
ہے۔ اب اس حمل سے کیا مراد ہے؟ یا تو حمل کا معنی ہے کہ بچے کا ماں کے پیٹ میں ہونا۔ ماں کے پیٹ میں بچہ ہو تو اسے بھی حمل کہتے ہیں اور اگر ماں کی گود میں بچہ ہو تو اسے بھی حمل کہتے ہیں۔قرآن کریم میں ہے:
﴿مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا﴾
الجمعۃ62: 5
اب ان بنی اسرائیل کے پیٹ میں تو کتابیں نہیں ہیں بلکہ باہر ہیں تو اس کو بھی حمل کہتے ہیں۔
اب حمل کے دو معنی ہو گئے۔ یہاں حمل کا معنی کون سا ہو گا؟ تو اگر یہاں حمل کا معنی یہ ہو کہ ماں کا بچے کو پیٹ میں رکھنا۔ تو اب اس کا معنی ہو گا کہ بچے کا پیٹ میں رکھنا، پھر جننا اور پھر گود میں رکھنا ان سب کی مدت ہے اڑھائی سال۔ اب یہاں مدت رضاعت دو سال ہی ہو گی، کیونکہ اقل مدت حمل چھ ماہ ہے تو اکثر مدت رضاعت دو سا ل ہو گی... اور اگر حمل سے مراد ہو ماں کا بچے کو گود میں اٹھانا تو اب اس کا معنی ہو گا کہ ماں نے بچے کو پیٹ میں رکھا، پھر ماں نے بچے کو جنا، پھر اپنی گود میں اٹھایا اور دودھ پلاتی رہی تیس ماہ۔ اب اکثر مدت رضاعت اڑھائی سال ہو گی۔
اب یہاں معنی کون سا لیں۔ تو امام صاحب کا موقف یہ ہے کہ قرینہ یہاں اس بات پر ہے کہ یہاں حمل سے مراد گود اٹھانا ہو کیونکہ یہاں پر ماں کی تین مشقتیں بیان کی جا رہی ہیں۔ اگر حمل سے مراد ہو ماں کا بچے کو پیٹ میں رکھنا وہ تو پہلے آ چکا ہے
”حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ “
میں تو اب یہاں حمل سے مراد بچے کا پیٹ میں ہونا نہیں ہے بلکہ گود میں ہونا ہے۔
اب اس آیت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مدتِ رضاعت اڑھائی سال ہے لیکن وہ جو آیت ہے:
﴿وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ﴾
اس میں
”کَامِلَیۡنِ“
اور
”اَنۡ یُّتِمَّ“
یہ دو لفظ ایسے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مدت رضاعت صرف دو سال ہے۔اب اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو سال ہے۔ اس لیے امام صاحب کا موقف یہ ہے کہ اکثر مدت رضاعت تو ہے دو سال لیکن اگر کوئی بچہ دو سال کے بعد اور اڑھائی سال میں دودھ پی لے تو ہم رضاعت کی مدت تو اسے نہیں کہتے لیکن چونکہ اس کی طرف اشارہ نکلتاہے اس لیے جب مسئلہ حرمت رضاعت کا آ جائے گا تو وہاں مدت اڑھائی سال بتائی جائے یعنی اگر کوئی پوچھے کہ فلاں لڑکی ہے اس نے فلاں عورت کا دودھ پیا ہے اور میں نے بھی اس عورت کا دودھ پیا ہے تو حرمتِ رضاعت کب تک ہو گی؟ تو اس سے پوچھا جائے کہ اس وقت تمہاری عمر کتنی تھی؟ کہا کہ جی! سوا دو سال، تو امام صاحب فرماتے ہیں کہ مدت رضاعت تو گزر گئی ہے لہذا نکاح حلال ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ اڑھائی سال کی ایک شق بھی نکلتی ہے اس لیے احتیاط یہی ہے کہ وہاں مدتِ رضاعت اڑھائی سال مان لو تاکہ حرمتِ رضاعت میں احتیاط ہو جائے۔ تو امام صاحب اکثر مدت رضاعت دو سال ہی مانتےہیں اور اڑھائی سال یہ مدتِ رضاعت کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ حرمتِ رضاعت کے مسئلہ میں اڑھائی سال کو احتیاطاً استعما ل فرماتے ہیں۔
كُرْهًااور كَرْهًا میں فرق:
یہاں لفظ ہے
”كُرْهًا “،
جو شخص از خود مشقت برداشت کرے اسے
كُرْهًا
کہتے ہیں۔ماں جو مشقت برداشت کرتی ہے وہ کسی کے مجبور کرنے سے نہیں بلکہ بذات خود برداشت کرتی ہے، اور جو شخص کسی کے مجبور کرنے کی وجہ سے مشقت برداشت کرے تو اسے كَرْهًا کہتے ہیں۔ جیسے
”لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ“
البقرۃ 2: 256
یہ
كَرْهًا
سے ہے۔
جنات کا مسلمان ہونا:
﴿وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ ﴿۲۹﴾﴾
اور جب ہم نے جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا تھا تاکہ وہ آپ سے قرآن سنیں۔ جب جنات آپ کے پاس آئے تھے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموش رہو۔ جب تلاوت مکمل ہو چکی تو یہ جنات اپنی قوم کے پاس چلے گئے انہیں ڈراتے ہوئے۔
نزولِ قرآن سے پہلے جنات اوپر جاتے تھے اور کچھ خبریں سنتے تھے۔ پھر اس میں جھوٹ ملا کر کاہنوں کو بتاتے تھے۔ نزولِ قرآن کے بعد جب وہ اوپر جاتے تو ان کو شہاب ثاقب لگے اور خبریں آنا بند ہو گئیں۔ انہوں نے بیٹھ کر مشورہ کیا کہ وجہ کیا بنی ہے؟ تو مشرق، مغرب، شمال، جنوب تمام اطراف میں جنات دوڑے کہ پتا تو چلے اس کا سبب کیا ہے؟! اسی تلاش میں تھے کہ ان کی ایک جماعت بطنِ نخلہ میں تلاش کرتے کرتے آ پہنچی۔ اس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چند صحابہ کو بطن نخلہ میں فجر کی نماز پڑھائی۔ بطن نخلہ سے آگے مقام عکاظ میں ایک میلہ لگتا تھا جس میں دکانیں بھی تھیں اور لوگ دور دراز سے اس بازار میں آتے اور خرید وفروخت کرتے تھے۔ غالبا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کے اس بازار میں دعوت دینے کے لیے جانا چاہتے ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو جنات کی جو جماعت شہابِ ثاقب لگنے کی وجہ تلاش کر رہی تھی اس نے قرآن سن لیا۔ اس وقت ان کو سمجھ آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن اتر رہا ہے، جو وحی آ رہی ہے اسی وجہ سے ہمیں اوپر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ جنات قرآن سننے کے بعد واپس چلے گئے۔ جا کر اطلاع دی اور یہ مسلمان ہو گئے۔ ابھی تک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں نہیں تھا۔ جب سورۃ الجن نازل ہوئی تو پھر پتا چلا کہ میرے قرآن سننے کی وجہ سے بہت سارے جنات مسلمان ہو چکے ہیں۔
جنات کی دعوت:
ان جنات نے واپس جا کر اپنے لوگوں کو دعوت دی، کہا:
﴿یٰقَوۡمَنَاۤ اَجِیۡبُوۡا دَاعِیَ اللہِ وَ اٰمِنُوۡا بِہٖ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُجِرۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۳۱﴾﴾
اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی بات کو مان لو، اس پر ایمان لے آؤ،اللہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ دے گا۔
یہاں
”یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ“
نہیں فرمایا بلکہ
”یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ “
فرمایا ہے۔ یہ
”مِنْ“
تبعیضیہ ہے، یہ بتانے کے لیے کہ سارے گناہ ایمان لانے سے معاف نہیں ہوتے، حقوق العباد باقی رہ جاتے ہیں، حقوق اللہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد ایمان لانے سے بھی معاف نہیں ہوتے بلکہ ان کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ ہاں صرف شہید کے بارے میں ایک حدیث میں ہے کہ اگر بندہ شہید ہو جائے اور اس پر کوئی حق ہو تو اللہ اپنے خزانے سے وہ حق ادا فرمائیں گے اور شہید کی خلاصی ہو جائے گی۔ یہ ایک روایت میں موجودہے۔
اولو العزم انبیاء علیہم السلام کی طرح صبر کیجیے!
﴿فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ۙ لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنۡ نَّہَارٍ ؕ بَلٰغٌ ۚ فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿٪۳۵﴾﴾
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے فرمایا: آپ ان کی تکلیفوں پر صبر کریں اور ایسے صبر کریں جیسے اولو العزم انبیاء علیہم السلام نے صبر کیا تھا۔
یہاں
”مِنَ الرُّسُلِ“
میں مِنْ تبعیضیہ نہیں بلکہ بیانیہ ہے کیونکہ جتنے انبیاء علیہم السلام ہیں سارے اولو العزم ہیں، کوئی نبی ایسا نہیں جو صاحبِ عزیمت نہ ہو۔ ہاں عزیمت کے درجات ہیں، اس لیے انبیاء کے بھی درجات ہیں۔ عام طور پر جب فن تفسیر میں ا ولو العزم انبیاء علیہم السلام کہا جائے تو ان سے مراد وہ پانچ نبی ہوتے ہیں جس کا تذکرہ اس آیت میں ہے:
﴿وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ﴾
الاحزاب 33: 7
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت نوح،حضر ت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام۔ تو یہاں بھی اس کا معنی یہی ہے کہ جیسے یہ انبیاءعلیہم السلام صاحبِ عزیمت تھے تو آپ بھی اسی طرح رہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․