سورۃ محمد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ محمد
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۱﴾ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ ﴿۲﴾﴾
سورت محمد کا ایک نام سورت قتال بھی ہے کیونکہ اس میں جہاد کا تذکرہ بہت زیادہ ہے۔
کفار اور مؤمنین کا انجام:
فرمایا: جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور اللہ کے راستے سے دوسروں کو روکا تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے ہیں۔ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل ہوا اس پر ایمان لائے،
﴿وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ﴾
اور جو کچھ رب کی طرف سے نازل ہوتا ہے وہ بر حق ہے۔ تو ان ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والوں کے اللہ گناہ معاف فرما دیتا ہے اور ان کے احوال کو بھی ٹھیک کر دیتا ہے۔
﴿وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ﴾....
محاوراتِ عرب میں بال حالت کو بھی کہتے ہیں اور دل کو بھی کہتے ہیں۔ اگر بال سے مراد دل ہو تو معنی یہ ہو گا کہ اللہ ان کے دلوں کی اصلاح فرماتے ہیں اور اگر بال سے مراد احوال ہوں تو پھر معنی ہو گا کہ اللہ ان کے حالات کو درست فرما دیتے ہیں۔
جنگی قیدیوں کا حکم (ایک تعارض کا حل:)
﴿ فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ﴾
یہاں اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ جب جنگ ختم ہو جائے اور لوگ قید ہو جائیں تو پھر ان کے بارے میں دو اختیار ہیں؛ چاہیں تو ان قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کر دیں اور اگر چاہیں تو بغیر فدیہ لیے آزاد کر دیں۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے لیکن سورۃ الانفال کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی نہیں بلکہ ان کو قتل کرنا ہے۔
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ﴾
جب بدر کے قیدی گرفتار ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا کہ ان کا کیا کریں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے رشتہ دار میرے حوالے کریں، صدیق کے رشتہ دار ان کے حوالے کریں، عثمان کے رشتہ دار ان کے حوالے کریں کہ اپنے اپنے رشتہ دار کو لیں اور ان کی گردنیں کاٹ دیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان کو آزاد کر دینا چاہیے شاید یہ کلمہ پڑھ لیں اور ان کی نسلیں آگے اسلام قبول کر لیں۔ باقی جو شہید ہو گئے ہیں تو وہ جنت میں جائیں گے، یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مزاج تھا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر کی رائے کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ اس پر قرآن کریم کی یہ آیات اتریں
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ٭ۖ وَ اللہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَ اللہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۶۷﴾ لَوۡ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمۡ فِیۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۶۸﴾﴾
اور تنبیہ کی گئی کہ پیغمبر کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کا عذاب آ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ کے علاوہ کوئی نہ بچتا۔ اللہ نے کرم کیا کہ خدا کا عذاب نازل نہیں ہوا۔
تو ا س سے معلوم ہو ا کہ قیدی کو آزاد کرنا جائز نہیں بلکہ اسے قتل کیا جائے۔ تو بظاہر ان دونوں آیت میں تعارض معلوم ہوتا ہے۔
جواب یہ ہے کہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ حاکم وقت کو چار اختیار ہیں :
1: جب لوگ قیدی ہو جائیں چاہے تو ان کو قتل کر دے۔
2: ان کو غلام بنا دے۔
3: فدیہ لے کر ان کو آزاد کر دے، اورفدیہ میں پیسے بھی ہیں اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہے یا فدیہ میں کوئی بھی چیز رکھ لیں۔
4: فدیہ کے بغیرآزاد کریں اور کچھ بھی نہ لیں۔
حاکم کو یہ چار اختیار ہیں۔ جنگِ بدر کے موقع پر یہ بات سخت اس لیے تھی کہ ابھی مسلمان کمزور تھے، طاقت میں نہیں تھے اور طاقت ور کفر گرفتارہوا تھا۔ منشا یہ تھی کہ ان کو قتل کریں تاکہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے اور جب اسلام طاقت میں ہو تو پھراہلِ اسلام کو پورا اختیار ہے کہ جو بھی صورت اختیار کریں جائز ہے۔ تو حاکمِ وقت کو چاروں اختیار ہیں۔ دو وہاں سے ثابت ہیں اور دو یہاں سے ثابت ہیں۔
مشروعیتِ جہاد کی حکمت:
﴿وَ لَوۡ یَشَآءُ اللہُ لَانۡتَصَرَ مِنۡہُمۡ وَ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَا۠ بَعۡضَکُمۡ بِبَعۡضٍ﴾
یہاں اللہ رب العزت نے جہاد کی ایک حکمت بیان فرمائی ہے۔ پہلی قوموں پر عذاب آ جاتا تو وہ قومیں تباہ ہو جاتیں۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم آج بھی چاہیں تو عذاب دے کر تباہ کر سکتے ہیں لیکن ان کو عذاب دے کر تباہ کرنے کے بجائے ہم نے جہاد کا حکم دے دیا ہے
﴿قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ﴾
یہ بھی عذاب کی ایک شکل ہے لیکن اس میں حکمت کیا ہے؟ اس میں حکمت یہ ہے
﴿وَ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَا۠ بَعۡضَکُمۡ بِبَعۡضٍ﴾
کہ اللہ امتحان لیتا ہے مسلمانوں کا کہ یہ اپنا مال اور جان اللہ کے راستہ میں پیش کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر مجرمین پر خدا کا عذاب آسمان سے آتا اور وہ تباہ ہو جاتے تو مسلمانوں کا یہ امتحان نہ ہوتا۔ ایک مقصد تو مسلمانوں کا امتحان ہے۔
دوسرا فائدہ کہ اس میں کافر کا امتحان ہے کہ کافر میدانِ جنگ میں فتوحات کو دیکھ رہا ہے، اللہ کی مدد مسلمانوں کے ساتھ دیکھ رہا ہے، اب اس مدد کو دیکھ کر وہ کلمہ پڑھتا ہے یا نہیں؟ تو اس میں ہم نے دونوں کا امتحان رکھنا تھا۔
شہداء کے انعامات:
﴿وَ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ فَلَنۡ یُّضِلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۴﴾﴾
پھر وہ مسلمان جو میدانِ جنگ میں قتل ہو جائیں تو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے یہاں پر ان کے انعامات کا ذکر کیا ہے :
[1]:
﴿فَلَنۡ یُّضِلَّ اَعۡمَالَہُمۡ﴾
لوگ یہ نہ سمجھیں کہ فاتح بننا اور قاتل بننا اصل ہے اور مقتول ہو جائے تو بندہ ختم ہو گیا۔ فرمایا: اس نے جہادکیا ہے اور مقتول ہوا ہے تو ہم اس کا اجر اس کو دیں گے اور ان کے اعما ل کو ضایع نہیں کریں گے۔
[2]:
﴿سَیَہۡدِیۡہِمۡ﴾
اور ان کی رہنمائی جنت کی طرف کریں گے کہ یہ بندہ جنت میں جائے گا۔
[3]:
﴿وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ﴾
کہ ان کے دل یا ان کے احوال کی اصلاح کر دیں گے۔
[4]:
﴿وَ یُدۡخِلُہُمُ الۡجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمۡ﴾
کہ اللہ انہیں جنت میں داخل فرمائیں گے۔
پہلے جو گزرا
﴿سَیَہۡدِیۡہِمۡ﴾
تو اس کا معنی بھی جنت کا راستہ ہے اور یہاں
﴿وَ یُدۡخِلُہُمُ الۡجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمۡ﴾
کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جنت میں داخل کرنے کے بعد مزید انعام بھی عطا فرمائیں گے۔ اور فرمایا:
﴿عَرَّفَہَا لَہُمۡ﴾
کہ جنت میں جانے والا ہر چیز کو ایسے پہچانے گا جیسے دنیا میں رہ کر اپنے گھر کو پہچانتا ہے۔
اب دیکھو! ایک آدمی کی سو حوریں ہیں اور اچانک اسے دی جائیں تو اس کو تو نام ہی نہیں آتے لیکن اللہ ماحول ایسا بنا دیں گے کہ وہ سمجھے گا کہ یہ میرا مکان ہے، یہ میرا گھر ہے جس طرح آدمی دنیا میں رہتے ہوئے اپنی بیوی کو پہچانتا ہے، اپنے گھر کو پہچانتا ہے، اپنا مقام سمجھتاہے، اسی طرح جب جنت میں جائے گا تو اپنا گھر، اپنا مکان اور اپنی بیوی ہر چیز کو پہچانتا ہو گا۔
﴿وَ یُدۡخِلُہُمُ الۡجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمۡ﴾ کا معنی یہی ہے۔
اللہ ایمان والوں کا دوست ہے:
﴿اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ دَمَّرَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ ۫ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡثَالُہَا ﴿۱۰﴾ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اَنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ لَا مَوۡلٰی لَہُمۡ ﴿٪۱۱﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ کیا یہ لوگ زمین میں نہیں چلے پھرے کہ یہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان کا انجام کیسا ہوا؟! اللہ نے ان کو تباہ کر دیا اور ان کافروں کے لیے بھی اسی طرح کا عذاب ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت ایمان والوں کے مولیٰ ہیں اور کفار کا کوئی مولیٰ نہیں ہے۔
یہاں یہ فرمایا کہ اللہ ایمان والوں کا مولیٰ ہے، کفار کا مولی ٰ نہیں ہے حالانکہ دنیا میں کفار کے بھی مولیٰ ہوتےہیں۔ دراصل یہاں مولیٰ حقیقی مراد ہے کہ حقیقی مالک اور مولیٰ مسلمان کو ملا ہے اور حقیقی مالک اور مولیٰ کفار نے چھوڑ دیا ہے، اس لیے اللہ کو چھوڑ کر ان کفار کے پاس کوئی مولیٰ نہیں ہے۔
عالم کو ”مولانا“ کہنا درست ہے:
یہاں جو بات سمجھنی ہے وہ صرف یہ کہ ابھی ایک نیا فتنہ رونما ہوا ہے، بات چل رہی ہے کہ کسی عالم کو ”مولانا“ کہنا ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ ”مولا“ تو کہتے ہیں اللہ کو جیسے یہاں فرمایا:
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا﴾
تو عالم کیسے ”مولانا“ ہو گیا؟ اس لیے عالم کو مولانا نہیں کہنا چاہیے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ”مولا“ کا معنی ایک نہیں ہے، مولا کے چھبیس کے لگ بھگ معانی ہیں اور خود قرآن کریم نے مولا کے لفظ کو کئی معنوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ جس قرآن کی آیت آپ پیش کرتے ہیں کہ اس میں ”مولا“ اللہ کو فرمایا گیا ہے اسی قرآن کریم میں ”مولا“ کا لفظ اللہ کے علاوہ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔
• آپ دیکھیں کہ سورۃ التحریم میں ہے:
﴿وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ﴾
التحریم 66: 4
کہ پیغمبر کا مولا اللہ ہے
،”وَ جِبۡرِیۡلُ“
اور جبرائیل بھی نبی کا مولا ہے،
”وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ“
اور نیک صالح مومنین بھی نبی کے مولا ہیں،
”وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ“
اور اس کے علاوہ باقی ملائکہ بھی نبی کی مدد کے لیے موجود ہیں۔
تو اس آیت میں تو ”مولا“ جبرائیل علیہ السلام کو بھی کہا گیا ہے، ایمان والوں کو بھی فرمایا گیا ہے اور ”مولا“ بھی نبی کا فرمایا گیا ہے۔ ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ مولا کا معنی صرف آقا نہیں ہوتا بلکہ مولا اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
• جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
”مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ “
سنن الترمذی، رقم: 3713
اب دیکھو! یہاں ”مولا“ کا لفظ دوستی کے معنی میں ہے لیکن بعض لوگوں نے یہاں ”مولا“ کا معنی خلیفہ لے لیا ہے حالانکہ یہاں ”مولا “ کا معنی دوستی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھانا چاہتے ہیں کہ جو مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہیں وہ میرے علی سے محبت کریں، جو مجھ سے دوستی رکھتا ہے تو وہ علی سے بھی دوستی رکھے، علی میرا محبوب ہے۔ تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یہ بات سمجھائی۔
خلاصہ یہ ہے کہ ”مولا“ کا ایک معنی نہیں ہے، مولا کے کئی معانی ہیں۔
اور عجیب بات یہ ہے کہ ”مولا“ اضداد میں سے ہے یعنی ”مولا“ ایسا لفظ ہے کہ جس کے متضاد معانی ہیں۔ مولا کا معنی آقا بھی ہے اور مولا کا معنی غلام بھی ہے۔ یہ جو ایک لفظ ”موالی“ ہے یہ مولا کی جمع ہے اور مولا مالک کو بھی کہتے ہےاور غلام کو بھی کہتے ہیں۔
تو ہمارے ہاں جو اہلِ علم کے لیے ”مولانا“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اصل لفظ ہے ”مولویّ“ یہ نسبت مولا حقیقی کی طرف ہے کہ یہ اللہ والا ہے اور جب ہم کسی کو کہیں ”مولانا“ تو یہاں مولانا کا معنی یہ نہیں ہے کہ یہ اللہ ہے،بلکہ ہمارے ہاں مولانا کا لفظ عزت کا لفظ سمجھا جاتا ہے اور علماء کرام کے لیے یہ لفظ ہمارے معاشرے کی ایک اصطلاح بن چکا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک بندہ ہمارا مخالف ہوتا ہے اور ہم اسے بھی مولانا کہہ رہے ہوتے ہیں، اس کو عزت ہم اس معنی میں تھوڑا دیتے ہیں کہ ہمارا سردار ہے، ایسا نہیں ہوتا لیکن چونکہ عرف میں یہ ایک محاورہ بن گیا کہ مولوی کے لیے مولانا کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اہلِ حق ہو تو اسے بھی مولانا کہہ دیتے ہیں اور اہلِ باطل ہو تو اسے بھی مولانا کہہ دیتے ہیں جس سے مقصود کوئی خاص معنی نہیں ہوتا، صرف اتنا مقصد ہوتا ہے کہ یہ لفظ ”مولانا“ عالم کے لیے استعمال ہوتا ہے اور عرف میں یہ بات آ گئی ہے۔
جنت کی نہریں:
﴿مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ ۬ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی ؕ﴾
یہاں اللہ رب العزت نے جنت کی چار نہروں کا ذکر فرمایا ہے:
[1]: پانی کی نہر جو بالکل صاف ہوگی۔
[2]: دودھ کی نہر جس کا ذائقہ تبدیل نہیں ہو گا۔
[3]: شراب کی نہر جو لذت والی ہوگی،کڑوی نہیں ہو گی، بدبو دار نہیں ہو گی۔
[4]: شہد کی نہر جو بالکل صاف ستھری ہو گی۔
یہ نہریں جنت میں جاری فرمائیں گے۔ وہ جنت کا ماحول ہو گا، دنیا میں تھوڑی دیر دودھ پڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے، فرمایا وہاں ایسا نہیں ہو گا، اور یہاں دنیا میں شہد نکالتے ہیں تو کبھی شہد میں کوئی چھتا ملا ہوتا ہے، کبھی کوئی اور چیز ملی ہوتی ہے لیکن جنت کے شہد کے بارے میں فرمایا کہ وہاں کا شہد بالکل خالص ہو گا، ایسا شہد نہیں ہو گا جیسا ہم دنیا میں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں دنیا میں شراب ہوتی ہے تو شراب میں بو بھی ہوتی ہے اور کڑواہٹ بھی ہوتی ہے، لوگ پھر بھی پیتے ہیں لیکن وہاں کی شراب کڑوی نہیں ہو گی، اس میں بدبو نہیں ہو گی، وہاں صرف لذت ہی لذت ہو گی۔ دنیا میں جو پانی ہے کبھی اس کا رنگ بدل جاتا ہے، کبھی ذائقہ بدلتا ہے لیکن وہاں کا پانی ایسا ہو گا کہ جس میں یہ تبدیلیاں نہیں ہوں گی، بالکل صاف اور شفاف پانی ہو گا۔ اللہ ہم سب کو عطا فرمائے۔ آمین
علاماتِ قیامت کا بیان:
﴿فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً ۚ فَقَدۡ جَآءَ اَشۡرَاطُہَا ۚ فَاَنّٰی لَہُمۡ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ ذِکۡرٰىہُمۡ ﴿۱۸﴾﴾
اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ کیا یہ لوگ قیامت کے منتظر ہیں کہ قیامت آئے گی تو پھر بات مانیں گے؟! اگر یہی بات ہے تو سن لیں کہ قیامت ضرور آئے گی لیکن علاماتِ قیامت تو آ چکی ہیں اور جب خود قیامت آئے گی تو ان کو نصیحت حاصل کرنے کا موقع کہاں ملے گا؟ اس وقت تو انہیں نصیحت سے کوئی نفع نہیں ملے گا۔
علاماتِ قیامت میں سب سے بڑی علامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں تشریف لانا ہے۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں، ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، بس قیامت تک کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آ جانا علامت ہے کہ اب قیامت آئے گی۔ اس لیے قیامت کا انتظار نہ کرو بلکہ قیامت کی علامات دیکھ کر راہِ راست پر آ جاؤ اور آخرت کی تیاری کر لو۔
سورۃ القمر میں ہے:
﴿اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾﴾
القمر 54: 1
کہ قیامت قریب آ گئی ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ چاند کے ٹکڑے ہو گئے۔ یہ ایک نشانی تو قرآن میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ قیامت کی اور بھی علامات ایسی ہیں جو قرآن کریم میں ہیں اور بہت ساری علامات ایسی ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔
صحیح البخاری کتاب النکاح میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ
کہ علاماتِ قیامت میں سے ہے کہ علم اٹھ جائے گا،
”وَيَكْثُرَ الْجَهْلُ“
اور جہل بہت زیادہ ہو جائے گا، حقیقی علم ختم ہو جائے گا اور جہالت عام ہو جائے گی،
”وَيَكْثُرَ الزِّنَا“
زنا بہت ہو گا،
”وَيَكْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ“
اور لوگ شراب بہت زیادہ پئیں گے،
”وَيَقِلَّ الرِّجَالُ“
مرد بہت قلیل ہوں گے،
”وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ“
عورتیں بہت زیادہ ہوں گی،
”حَتّٰى يَكُوْنَ لِخَمْسِيْنَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ
“ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا۔
صحیح البخاری، رقم: 5231
یعنی ایک آدمی کی کفالت میں پچاس عورتیں ہوں گی؛ بیٹیاں ہیں، نواسیاں ہیں، بھانجیاں ہیں اس طرح کر کے پچاس پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا۔ یہ علاماتِ قیامت میں سے ہیں۔
سنن الترمذی ابواب الفتن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
” إِذَا اتُّخِذَ الْفَيْءُ دُوَلًا “
جب غنیمت کے مال کو اپنا ذاتی مال سمجھ لیا جائے،
”وَالْأَمَانَةُ مَغْنَمًا“
اور امانت کو غنیمت سمجھ کر اس کو اپنے لیے حلال سمجھنا شروع کر دیا جائے،
” وَالزّكٰوةُ مَغْرَمًا “
اور زکوٰۃ کو ٹیکس کی طرح بوجھ سمجھنا شروع کر دیا جائے،
”وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّينِ “
دین پڑھا جائے دنیا کے لیے، مال کمانے کے لیے، عزت حاصل کرنے کے لیے،
” وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهٗ وَعَقَّ أُمَّه “
آدمی بیوی کی باتیں مانے اور ماں کی نافرمانی کرے،
”وَأَدْنٰى صَدِيْقَهٗ وَأَقْصٰى أَبَاهُ “
بندہ اپنے والد کو دور کرے اور دوستوں کو قریب کرے،
” وَظَهَرَتِ الْأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ “
اور مساجد میں اونچی آواز سے باتیں شروع ہو جائیں،
” وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُهُمْ “
اور قوم کا سردار ان میں بدترین فاسق آدمی ہو،
” وَكَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ“
قوم پر کمینہ آدمی مسلط ہو جائے،
” وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهٖ “
کسی آدمی کی عزت اس وجہ سے کی جائے کہ عزت نہ کریں تو یہ ہمیں نقصان دے گا، اس کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کی جائے،
” وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ “
گانے والی عورتیں بہت ہو جائیں اور گانے کے آلات؛ ڈھول، سرنگی وغیرہ عام ہو جائیں،
” وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ “
اور شراب بہت زیادہ پی جانے لگے،
” وَلَعَنَ آخِرُ هٰذِهِ الْأُمّةِ أَوّلَهَا “
بعد کے لوگ پہلے والے لوگوں پر لعنتیں بھیجیں،
” فَلْيَرْتَقِبُوْا عِنْدَ ذٰلِكَ رِيْحًا حَمْرَآءَ “
اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو فرمایا کہ پھر تم انتظار کرو سرخ آندھیوں کا،
” وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا ومَسْخًا وَقَذْفًا “
زلزلے کا، زمین میں دھنس جانے کا، شکل بدلنے کا، آسمان سے پتھر برسنے کا،
” وَآيَاتٍ تَتَابَعُ كَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْكُهُ فَتَتَابَعَ “
اور اس طرح کی نشانیوں کا جو اس ہار کی لڑی کی طرح مسلسل ظاہر ہوں گی جس کا دھاگہ ٹوٹ جائےاور اس کے دانے مسلسل گرنے لگیں، یعنی ان حالات کے بعد علامت پہ علامت یوں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔
جامع الترمذی، رقم: 2211
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
بد بختی کی انتہا:
بعض لوگ دنیامیں اتنے بدبخت ہیں کہ ان کی بدبختی کی بھی انتہا ہے یعنی بندے کو ان کی باتیں سن کر افسوس ہوتا ہے۔لوگ غلط کام کرتے ہیں جب پوچھا جائے کہ یہ کام کیوں کرتے ہیں؟ تو جواب پتا ہے کیا دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم یہ کام اس لیے کرتے ہیں تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سچی ہو جائے کیونکہ اللہ کے نبی نے فرمایا کہ قیامت کے قریب ایسے ایسے کام ہوں گے۔ العیاذ باللہ، ان لوگوں کی جرأت کی بھی انتہا ہے۔
میں نے کہا: پیغمبر کے ارشادات ہیں کہ جو ایسے کام کریں گے وہ جہنم میں جائیں گے تو کیا آپ جہنم والے کام بھی کریں گےکہ جن سے بندہ جہنم میں جائے گا تاکہ پیغمبر کی حدیث سچی ہو جائے؟ ! عجیب باتیں کرتے ہیں بھائی! اگر علاماتِ قیامت میں سے یہ علامت ہے کہ لوگ زنا کریں گے تو یہ بھی تو ہے نا
”لَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلٰى مَنْ نَاوَأَهُمْ“
مسنداحمد: ج 15ص69 رقم الحدیث:19781
کہ قیامت تک مسلمانوں کا ایک طبقہ حق پر قائم ہو کر باطل سے لڑتا رہے گا۔ تو آپ برے کام کرنے کے بجائے نیک کام کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ! شامل ہونا ہے تو ہم اس میں شامل ہو جائیں تاکہ ہم اچھی علامت والوں میں شامل ہوں، بری علامات میں ضرور شامل ہونا ہے؟!
آپ بدبختی کی انتہا دیکھیں اور اس پر شیطان نے کیسے ان کو مطمئن کر رکھا ہے کہ ہم اس لیے یہ کام کرتے ہیں کہ ہمارے نبی نے فرمایا۔
سلسلہ چشتیہ کے ذکر پر اشکالات کے جوابات:
﴿فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللہُ یَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَکُمۡ وَ مَثۡوٰىکُمۡ ﴿٪۱۹﴾﴾
اے پیغمبر! آپ کو اس بات کا علم ہونا چاہیے! -نبی کو خطاب کر کے ہمیں بتایا کہ یہ بات تمہارے بھی علم میں ہونی چاہیے- کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔
یہاں یہ بات سمجھیں! ہمارے ہاں جو سلسلہ چشتیہ میں ذکر ہوتا ہے وہ بارہ تسبیحات پر مشتمل ہے :
• دو تسبیحات ذکر نفی واثبات یعنی
” لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ“
• چار تسبیحات ذکر اثبات یعنی
” إِلَّا اللّهُ“
• چھ تسبیحات ذکرِ اسم ذات دو ضربی یعنی
” اللّهُ اللّه“
• اور پھر ایک تسبیح اسم ذات یک ضربی
”اللّهُ“
یہاں یہ بات بھی سمجھ لیں کہ بظاہر یہ تیرہ تسبیحات بنتی ہیں لیکن کہتے بارہ ہیں، یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی حافظ تراویح میں قرآن مجید ختم کرتا ہے، قرآن مجید ”وَ النَّاسِ“ پہ ختم ہوتا ہے تو وہ پھر شروع کرتا ہے اور
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾﴾
سے
﴿وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴾
تک پڑھتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ماشاء اللہ حافظ صاحب نے قرآن کریم ختم کیا ہے، کبھی کوئی کہتا ہے کہ حافظ صاحب نے قرآن مجید بھی ختم کیا ہے اور سورۃ البقرۃ کا پہلا رکوع بھی ختم کیا ہے؟ (نہیں۔ سامعین) کوئی بھی نہیں کہتا۔ تو وہاں کہتے یہی ہیں کہ قرآن ختم کیا ہے حالانکہ ایک رکوع مزید بھی پڑھا ہوتا ہے۔ یہ جو ایک رکوع مزید پڑھتے ہیں یہ تفاؤلاً ہوتا ہے کہ میں نے دوبارہ پھر پڑھنا ہے۔ تو سلسلہ چشتیہ میں بارہ تسبیحات کے بعد جو ایک سو مرتبہ پھر اللہ اللہ کہتے ہیں تو یہ بھی تفاؤلاً ہوتا ہے کہ میں نے اللہ اللہ کو بڑھانا ہے۔ اللہ توفیق عطا فرمائے تو اس تسبیح کو جتنا بڑھانا چاہیں ایک ہزار دو ہزار جتنا بڑھا سکیں اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اس پر ایک اعتراض یہ ہے کہ تم نے کلمہ
”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ“
کو کاٹ دیا ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ یہ آج ایک معروف اعتراض چل رہا ہے۔ میں اس بار جب ملائیشیا کے دورہ پر تھا تو باضابطہ انہوں نے مجھ سے ریکارڈنگ کروائی کہ اس اعتراض کا جواب دیں دلائل کی روشنی میں۔ میں نے کہا کہ اس کی تقطیع ہم نے نہیں کی یہ تو خود قرآن کریم سے ثابت ہے۔ اب دیکھو کلمہ ہے:
”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ“
یہاں سورۃ محمد کی اس آیت میں ہے : ﴿
فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ﴾
اور سورۃ الفتح میں ہے:
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ﴾
تو کلمہ کے دو شق تو قرآن میں موجود ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے:
﴿قُلِ اللہُ ۙ ثُمَّ ذَرۡہُمۡ فِیۡ خَوۡضِہِمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ﴿۹۱﴾﴾
الانعام 6: 91
یہاں صرف لفظ ”اللہ“ ہے، اس کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہے۔
اور حدیث پاک میں ہے:
لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰى لَا يُقَالَ فِى الْأَرْضِ ؛ اَلله اَلله.
سنن الترمذی، رقم: 2207
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہا جائے گا!
یہاں دیکھو! اللہ اللہ ہے۔ تو مختلف انداز سے تقطیع تو قرآن کریم اور احادیث میں موجود ہے، یہ ہم نے نہیں کی اور دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح قاری صاحب بچے کو قرآن کریم پڑھانے کے لیے ایک لفظ بار بار یاد کراتے ہیں مثلاً ”ذٰلِکَ
الۡکِتٰبُ .... ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ ... ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ“
تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ اس نے تقطیع کی ہے وہ سمجھتا ہے کہ بچے کو ہم نے ایک ایک حرف یاد کرانا ہے تو پوری آیت آسا ن ہو جائےگی۔ اسی طرح مکمل کلمہ کا نقشہ ذہن میں بٹھانے کے لیے بسا اوقات سالک کو تقطیعِ کلمہ کر کے کچھ اجزاء بتا دیتے ہیں، پھر دوسرا جزء، پھر تیسرا جزء ... تاکہ اچھی طرح ایک ایک جزء اس کے دل میں پیوست ہو جائے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پوری صحیح البخاری میں تقطیعِ حدیث کرتے ہیں، کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا۔ اعتراض صرف اس پر ہے کہ تم نے کلمہ کے کئی حصے کیوں کیے؟ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔
عصمت انبیاء پر اشکال کا جواب:
﴿وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ﴾
اے پیغمبر! آپ اللہ سےمعافی مانگیں اپنے ان معاملا ت کی جو آپ کی شان کے لائق نہیں تھے اور ایمان والے مردوں کے لیے اور ایمان والی عورتوں کے لیے۔
اس پر میں نے تفصیل سے بات کی ہے کہ جب ذنب کا لفظ نبی کے لیے استعمال ہو تو معنی اور ہوتا ہے اور ذنب کا لفظ جب امتی کے لیے استعمال ہو تو معنی اور ہوتا ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی معصوم ہے۔ اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم گناہ کرتے ہیں تب ہی تو اللہ فرما رہے ہیں:
﴿وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ﴾
کہ اپنے گناہ کی معافی مانگیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح لفظ محبت کی نسبت اور اضافت سے معنی بدل جاتا ہے کہ محبت ماں سے ہو تو معنی اور ہے، محبت بہن سے ہو تومعنی اور ہے، محبت بیٹی سے ہو تو معنی اور ہے، محبت بیوی سے ہو تو معنی اورہے، اور اگر محبت نامحرم عورت سے ہو تو معنی اور ہے اسی طرح ذنب کی نسبت جب امت کی طرف ہو تو معنی اور ہوتا ہے اور جب پیغمبر کی طرف ہو تو معنی اور ہوتا ہے۔
پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ذنب کی نسب ہو تو اس کا ایک معنی یہ ہوتا ہے کہ پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اجتہادات کہ جن پر بعد میں وحی آ جاتی ہے کہ یہ اجتہاد ٹھیک نہیں تھا تو اس اجتہاد ی خطا کو بسا اوقات ذنب کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھ لیں کہ کبھی صواب کے مقابلہ میں خطا آتا ہے اور کبھی صواب کے مقابلہ میں باطل آتا ہے۔ جب صواب بمقابلہ باطل ہو تو صواب پر اجر ہے اور باطل پر اجر نہیں اور اگر صواب بمقابلہ خطا ہو تو اب صواب کا معنی ہے ڈبل جنت اور خطا کا معنی ہے سنگل جنت۔ صواب کا معنی بڑی جنت اور خطا کا معنی چھوٹی جنت۔ تو نبی سے جب اجتہادی خطا ہو جائے تو اس اجتہادی خطا کو بسا اوقات ذنب سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
نبی اور امتی کے اجتہاد میں فرق:
اب ایک خطا وہ ہے جو مجتہد امتی کی ہے اور ایک خطا وہ ہے جو مجتہد نبی کی ہے۔ پیغمبر کی اجتہادی خطا اور مجتہد امتی کی اجتہادی خطا میں فرق ہے کہ مجتہد امتی سے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو وہ خطا پر باقی رہتا ہے اور پیغمبر سے اجتہاد میں خطا ہو بھی جائے تو پیغمبر کو اللہ خطا پر باقی نہیں رہنے دیتے، وحی کے ذریعہ اس خطا کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کی حیثیت ایسی ہو جاتی ہے کہ جیسے ایک آیت پہلے اور ایک بعد میں ہو، پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ۔ ایک حدیث پہلے کی منسوخ اور ایک بعد کی ناسخ۔ تو پیغمبر کی اجتہادی خطا یہ حدیثِ منسوخ کی طرح ہے اور بعد کی جو احادیث آتی ہیں وہ اس کے لیے ناسخ بن جاتی ہیں۔
خیر میں عرض یہ کر رہا تھا کہ ذنب کا معنی گناہ نہیں ہے بلکہ ذنب کی نسبت نبی کی طرف ہو تو اس کا ایک معنی ایسا اجتہاد ہے کہ جس میں خطا واقع ہوئی ہو تو آپ اس پر بھی اللہ سے معافی مانگیں۔
علمِ باری تعالیٰ:
﴿وَ اللہُ یَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَکُمۡ وَ مَثۡوٰىکُمۡ ﴿٪۱۹﴾﴾
اس میں بندے کے سارے احوال اور سارے افعال اور سارے مقام آ گئے۔ اللہ جانتے ہیں تمہاری ان جگہوں کو جو عارضی ہیں اور ان جگہوں کو جو مستقل ہیں، اللہ جانتے ہیں ان حالات کو جو عارضی ہیں اور جانتے ہیں ان حالات کو جو مستقل ہیں۔ تو ساری چیزیں؛ احوال واعمال اور مقامات سب اس میں آ گئے ہیں۔
﴿وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَتۡ سُوۡرَۃٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ مُّحۡکَمَۃٌ وَّ ذُکِرَ فِیۡہَا الۡقِتَالُ ۙ رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یَّنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ نَظَرَ الۡمَغۡشِیِّ عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ؕ فَاَوۡلٰی لَہُمۡ ﴿ۚ۲۰﴾﴾
اور جو لوگ اہلِ ایمان ہیں وہ کہتے رہتے ہیں کہ کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی تاکہ ہمارا ایمان تازہ ہو اور نئے احکام آئیں تو ان کا ثواب بھی حاصل کریں لیکن جب کوئی ایسی سورت نازل ہوتی ہے جس کے معنی واضح ہوں اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہو تو اے پیغمبر! اس سورت کے نازل ہونے پر منافقین آپ کی طرف اس طرح تکتے ہیں جیسے وہ شخص تکتا ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو رہی ہو۔ بڑی خرابی ہے ان منافقین کے لیے۔
کفار کے لیے وعید:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدٰی ۙ لَنۡ یَّضُرُّوا اللہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیُحۡبِطُ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۳۲﴾﴾
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور اللہ کے راستے سے روکا اور ہدایت کا راستہ واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کی تو ایسے لوگ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ایسے لوگوں کے اعمال تباہ ہو جائیں گے۔
اس وعید کا مصداق ہر وہ کافر ہے جو شریعت کے راستے سے روکتا ہے لیکن بطور خاص اس سے مراد بنوقریظہ اور یہود ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے جنگِ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ کی بہت مدد کی، ان میں بارہ لوگ ایسے کھڑے ہو گئے کہ جنہوں نے کہا کہ ہر روز تمام کفار کا کھانا ہم پکائیں گے، ایک آدمی نے پورے دن کا کھانا اپنے ذمے لیا۔
جائز اور ناجائز صلح جائزکی تفصیل:
﴿فَلَا تَہِنُوۡا وَ تَدۡعُوۡۤا اِلَی السَّلۡمِ ٭ۖ وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ ٭ۖ وَ اللہُ مَعَکُمۡ وَ لَنۡ یَّتِرَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ ﴿۳۵﴾﴾
یہاں مسلمانوں سے خطاب کیا کہ تم کمزوری نہ دکھاؤ، صلح کی طرف مت بلاؤ، تم ہی غالب ہو گے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے، وہ تمہارے اعمال ضائع نہیں فرمائے گا۔
سوال یہ ہے کہ یہاں منع کیا جا رہا ہے کہ تم صلح نہ کرو اور دوسری آیت میں ہے:
﴿وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا﴾
الانفال8: 61
کہ اگر وہ صلح کریں تو تم بھی صلح کرو۔ اس آیت میں اجازت دی جا رہی ہے۔ تو بظاہر دونوں آیات میں تعارض معلوم ہوتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ ایک صلح وہ ہے جو دین کے فائدے کے لیے ہو وہ تو جائز ہے اور ایک صلح وہ ہے جو بزدلی کی وجہ سے ہو، یہ جائز نہیں ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ:
﴿وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا یُؤۡتِکُمۡ اُجُوۡرَکُمۡ وَ لَا یَسۡـَٔلۡکُمۡ اَمۡوَالَکُمۡ ﴿۳۶﴾﴾
اگر تم ایمان لاؤ اور تقوی اختیار کرو تو اللہ تمہیں اجر دے گا اور اللہ تم سے تمہارے مال نہیں مانگے گا۔اس پر بھی سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں کتنی آیات ہیں جن میں حکم دیا جا رہا ہے کہ مال خرچ کرو اور یہاں کہا جا رہا ہے کہ اللہ تم سے مال کا مطالبہ نہیں کر رہا!اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جہاں حکم ہے کہ مال خر چ کرو تو اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے نفع کے لیے خرچ کرو کیونکہ جب انسان اپنا مال اللہ کے دین کے لیے خرچ کرے گا تو اس کا نفع قیامت کے دن خود اسی کو ہو گا، اللہ اپنی ذات کے لیے تم سے مال نہیں مانگتے۔ تو پہلا مطلب تو یہ ہے۔
اور بعض نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس آیت
﴿وَ لَا یَسۡـَٔلۡکُمۡ اَمۡوَالَکُمۡ﴾
کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے سارا مال نہیں مانگتا،اس پردلیل
﴿اِنۡ یَّسۡـَٔلۡکُمُوۡہَا فَیُحۡفِکُمۡ تَبۡخَلُوۡا﴾
ہے کہ اللہ سارا مال تم سے نہیں مانگتا کیونکہ اگر تم سے سارا مال مانگ لیا تو تم بخل کرو گے۔ فرمایا:
﴿وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ﴾
کہ کچھ مال اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔
تذکرہ امام اعظم ابو حنیفہ :
﴿وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ ﴿۳۸﴾﴾
اللہ رب العزت اپنی شانِ بے نیازی کو بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیں تمہارے اموال کی ضرورت نہیں بلکہ تم خود بھی اگر تبدیل ہو گئے تو تمہاری جگہ ہم اور لوگوں کو لائیں گےجو تمہاری طرح نہیں ہوں گے بلکہ وہ ہماری مکمل اطاعت کریں گے اور ہمارے حکموں کو مکمل مانیں گے۔
اس مقام پر تفسیر مظہری میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ ان کی اولاد؛ابنائے فارس میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے۔
التفسیر المظہری: ج8 ص447
ایک حدیث ہے جس کے ایک طریق میں علم ) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی: ج6 ص64، 65(ایک میں دین )صحیح مسلم، رقم: 2546( اور ایک میں ایمان)صحیح البخاری، رقم: 4897( کے الفاظ ہیں کہ اگر یہ ثریا ستارے تک بھی پہنچ گیا تو فارس والے لوگ وہاں سے بھی اس کو لے کر آ جائیں گے۔
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ”تبییض الصحیفۃ“ میں لکھاہے کہ
”لَوْ کَانَ الْعِلْمُ بِالثُّرَیَّا لَتَنَاوَلَہُ رِجَالٌ مِنْ اَبْنَاءِ فَارِسٍ “
والی حدیث کا مصداق امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
تبییض الصحیفۃ ص 59، 60
اللہ ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․